نئی ٹرینیں نہیں بہتر ریلوے نظام کی ضرورت

پاکستان ریلوے کا نظام برسوں پرانا ہے، جس کو سالہا سال سے نہ تو دیکھا گیا، اور نہ ہی اس کو اپ گریڈ کرنے کی کوشش کی گئی


ہمارا ریلوے نظام بہت ناقص ہے، جو نئی ٹرینوں کا بوجھ برداشت کرنے سے قاصر ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

QUETTA: دنیا بھر میں ٹرین کے نظام پر خاص توجہ دی جاتی ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں ٹرین کے نظام کو جس طرح بہترین بنادیا گیا، اس سے یہ اندازہ لگانا بالکل بھی مشکل نہیں کہ ٹرین کا نظام کسی بھی ملک کے ریونیو اور سفری سہولیات کےلیے کتنی اہمیت کا حامل ہے۔ لیکن یہاں ہمارے ملک میں تو صورتحال کچھ اور ہی دکھائی دیتی ہے۔

پاکستان ریلوے کا نظام برسوں پرانا ہے، جس کو سالہا سال سے نہ تو دیکھا گیا، اور نہ ہی اس کو اپ گریڈ کرنے کی کوشش کی گئی۔ ہر گزرتے دن ہونے والے ٹرین حادثات کی اصل وجہ بھی یہی ہے کہ یہاں نظام بھی پرانا اور نظام کو چلانے والے بھی پرانے ہیں۔ کہیں کوئی مسافر ٹرین آدھے سفر میں ہی ہمت ہار جاتی ہے، تو کہیں مسافر ٹرین، مال گاڑیوں سے ٹکراتی دکھائی دیتی ہے۔ کہیں کوئی ریلوے لائن خراب ہے، تو کہیں ریلولے سگنل کو چلانے والے ہی غائب ہیں۔ یوں معلوم ہوتا ہے کہ جیسے صرف ریلوے کو دفتر میں ہی بیٹھ کر چلایا جارہا ہے۔ فیلڈ میں کام کرنے کےلیے کوئی موجود ہی نہیں ہے۔

ہم وزیر ریلوے شیخ رشید صاحب کی جانب سے اکثر یہ تو سنتے ہیں کہ آج فلاں نئی ٹرین کا افتتاح کیا جارہا ہے، اور آج فلاں ٹرین کو اپ گریڈ کیا جارہا ہے، آج یہ سہولت فراہم کردی گئی، اور آج سے ریلوے اتنا ریونیو اکٹھا کرلے گی۔ لیکن یہ سب کچھ ہوتا دکھائی کیوں نہیں دیتا؟

شیخ رشید صاحب آپ ٹرینوں کا افتتاح ضرور کیجئے، ٹرینوں میں نئی سہولیات بھی فراہم کیجئے، لیکن ان سب نئی ٹرینوں کو چلانے سے قبل ایک بار اس ریلوے ٹریک اور سگنل نظام کا تو جائزہ لے لیجئے، جو اس قابل ہی نہیں جن پر اتنا بوجھ ڈالا جائے۔ بنیادی طور پر ان حادثات کی وجہ بھی یہی ہے کہ موجودہ سسٹم ہی اتنا بوجھ برادشت کرنے کی قابلیت سے قاصر ہے۔ اگر یونہی ٹرینوں کے حادثات رونما ہونے ہیں، تو نئی ٹرینوں کو چلانے کا کیا مقصد باقی رہ جاتا ہے۔

بات صرف ریلوے ٹریک اور سگنل کی حد تک ہی ختم نہیں ہوجاتی، اگر ہم ماضی سے اب تک تھوڑا سا جائزہ لیں، تو پانچ سال کے دوران 384 ٹرین حادثات رونما ہوئے، جن میں ڈیڑھ سو سے زائد انسانی جانوں کا زیاں ہوا۔ صرف گزشتہ سال ہونے والے حادثات کی تعداد 74 ہے۔ جو پاکستان ریلوے کی خراب کارکردگی اور غیر سنجیدگی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

شیخ رشید کے وزارت ریلوے کا قلمدان سنبھالنے کے بعد بھی ٹرین حادثات رک نہیں سکے، بلکہ ان حادثات کی شرح تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ چند روز قبل ہونے والے ٹرین حادثے نے ایک بار پھر پاکستان ریلوے کی کارکردگی کو سب کے سامنے عیاں کردیا ہے۔ یہ حادثہ بھی مسافر ٹرین کا کھڑی مال گاڑی کے ساتھ ٹکر سے پیش آیا، جس کے بعد 22 انسان جانوں کا زیاں ہوا۔

حیران کن بات یہ ہے کہ ہر ٹرین حادثے کی وجہ انسانی غفلت قرار دے دی جاتی ہے۔ کیا اس کے بعد یہ سوال نہیں پیدا نہیں ہوتا کہ کیا ریلوے میں کام کرنے والے ملازمین جن کو کئی سال ہوگئے ملازمت میں، ان کو ریلوے کا نظام ہی سمجھ نہیں آسکا؟ نہ تو ڈرائیور کو کوئی سگنل نظر آتا ہے، نہ ٹریفک کنٹرول کرنے والوں کو سگنل دینا یاد رہتا ہے، اور نہ ہی کوئی ٹیکنیکل ٹیم ٹریک کی دیکھ بھال کو ممکن بناسکتی ہے۔ کیا یہ سب ریلوے میں کام کرنے والوں کی بنیادی ذمے داریوں میں شامل نہیں۔ اور اگر ہے تو یوں ہر روز یہ حادثات کیوں رونما ہورہے ہیں؟

شیخ رشید کے وزارت ریلوے کا چارج سنبھالنے کے بعد ریلوے میں بڑے پیمانے پر بھرتیاں بھی کی گئیں، ریلوے کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے کا ارادہ بھی بارہا سننے میں آیا۔ یہ بھی سننے کو ملا کہ ہم بڑے لیول پر ریونیو اکٹھا کرکے دیں گے۔ یہ سب تب ممکن ہے جب عملی طور پر اس کا مظاہرہ بھی ہو۔ یہ سب ہم تب تسلیم کریں گے، جب ریلوے نظام کی بہتری دکھائی دے، جب ریلوے ٹریک بہتر نظر آنا شروع ہوں، تب ہم نئی ٹرینوں کی بات کرتے بھی خوشی محسوس کریں گے۔ لیکن موجودہ صورتحال میں افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہمارا ریلوے نظام بہت ناقص ہے، جو خواہش کے باوجود ٹرینوں کے بوجھ کو برداشت کرنے سے قاصر ہے۔

یہاں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ نئی ٹرینوں کو چلانے سے پہلے ان سب باتوں کی جانب توجہ کیوں نہیں دی جاتی؟ ٹریک لیول، کراسنگ، سگنل سسٹم کو کیوں بہتر نہیں بنایا جاتا؟ کیا یہ سمجھ لیا جائے کہ اس سب حقیقت کو ریلوے وزیر سے چھپایا جاتا ہے، اور 'سب اچھا ہے' کی رپورٹ دے کر ایک پریس کانفرنس کروا دی جاتی ہے۔ اگر ایسا ہے تو بہت ہی افسوس ناک ہے، کیونکہ پھر یہ ہی سب کچھ دیکھنے کو ملے گا، جو آئے روز حادثات کی صورت میں ہمارے سامنے آرہا ہے۔

ان حادثات کے بعد ایک جانب پاکستان ریلوے کو تو نقصان ہو ہی رہا ہے، دوسری جانب عوام کے ردعمل میں بھی ٹرین کے سفر کو غیر محفوظ سمجھا جانے لگا ہے۔ اب لوگ ٹرین میں سفر کرنے سے پہلے ہزار بار اس بات پر سوچنے پر مجبور ہیں کہ کیا ہم وقت پر اپنی منزل پر پہنچ جائیں گے؟ کیا یہ ایک محفوظ سفر ثابت ہوگا؟ اور کیا ہمیں وہ سہولیات میسر آئیں گی، جن کی آئے روز ٹی وی، اخبارات میں حکومت کی جانب سے بات کی جاتی ہے؟

ان حادثات کے بعد بنیادی طور پر خود ریلوے اپنا مقام کھو رہی ہے، جس سے نہ صرف پاکستان ریلوے کے ریونیو پر منفی اثر ہوگا، بلکہ ریلوے میں موجود خسارہ بڑھتا چلا جائے گا۔ اگر ہمیں پاکستان ریلوے کو بہتر کرنا ہے، تو سب سے پہلے ان بنیادی چیزوں پر توجہ دینا ہوگی، جن پر کام کرنے کی اشد ضرورت ہے۔

میری وزیر ریلوے سے یہ گزارش ہے کہ ایک بڑے لیول پر پاکستان ریلوے کے اندر آپریشن کا اعلان کریں، جس میں ہنگامی بنیادوں پر ان حادثات کی جانچ پڑتال کی جائے، اور اصل محرکات تک پہنچا جائے۔ ساتھ ہی ریلوے نظام کو ہنگامی بنیادوں پر بہتر بنایا جائے، اور ریلوے میں کام کرنے والے ملازمین کی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے۔ غیر معیاری کارکردگی اور نااہل ملازمین کی ریلوے کوئی جگہ نہیں ہونی چاہئے۔

اگر وزیر ریلوے حقیقی معنوں میں ریلوے کے اندر تبدیلی لانا چاہتے ہیں، تو کچھ ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کرنا ہوں گے۔ دوسرے ممالک کے ریلوے نظام کی طرف ہی دیکھ لیا جائے۔ وہاں چلنے والی ٹرینیں نہ تو خراب ہوتی ہیں، نہ ہی تاخیر سے پہنچتی ہیں، نہ ہی ان کے ٹریک سے ٹرین اترتی ہے۔ وہ اس لیے کہ وہ موجودہ دور کے مطابق اپ گریڈ نظام کے تحت ریلوے نظام کو چلارہے ہیں۔ جس کے باعث وہاں کے ریلوے نظام پر عوام اعتماد بھی کرتے ہیں اور ریلوے کے سفر کو محفوظ بھی سمجھتے ہیں۔ نیز وہاں کا ریلوے ڈپارٹمنٹ ملک کے لیے بہترین ریونیو بھی اکٹھا کررہا ہے۔

اس وقت پاکستان کے وزیراعظم بھی پاکستان ریلوے کی بہتری کےلیے پرامید دکھائی دیتے ہیں، اور پاکستان ریلوے کے وسائل کا دائرہ کار بھی وسیع کرچکے ہیں۔ اب ریلوے کے محکمے کو ازخود کام کرنے اور اصلاحات کی ضرورت ہے۔ وگرنہ یہ حادثات یونہی پیش آتے رہیں گے اور انسانی جانیں ضائع ہوتی رہیں گی۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں