محسن لاہور سرگنگا رام ہم آپ کو نہیں بھولے
ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ لاہور مال روڈپر عالی شان عمارتیں آج بھی سرگنگارام کی عظمت کی گواہی دے رہی ہیں۔
گزشتہ ہفتے 10جولائی کو ''رائے بہادر'' سر گنگارام کی 92 ویں برسی خاموشی سے گزری۔ اُن کی لاہور کے لیے خدمات کے بدلے میں ہم نے نہ صرف اُن کا مجسمہ گرادیا بلکہ راوی کنارے اُن کی مڑھی پر میلے کا انتظام ہوا کرتا تھا وہ بھی ختم کرا دیا۔ اُن کی خدمات کے عوض میں یہ کہنے پر مجبور ہوں کہ جدید لاہور کا محسن ''سرگنگارام'' ہے۔
ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ لاہور مال روڈپر عالی شان عمارتیں آج بھی سرگنگارام کی عظمت کی گواہی دے رہی ہیں۔ لاہور میں عجائب گھر، جنرل پوسٹ آفس، ایچی سن کالج، میو اسکول آف آرٹس (NCA)، میو اسپتال کا سر البرٹ وکٹر ہال اور گورنمنٹ کالج یونیورسٹی کا کیمسٹری ڈیپارٹمنٹ ان کے ڈیزائن کردہ ہیں۔ جب کہ سرگنگارام اسپتال، ڈی اے وی کالج (موجودہ اسلامیہ کالج سول لائنز)، سرگنگارام گرلز اسکول (موجودہ لاہور کالج فارویمن)،موتی باغ ادارہ بحالی معذوراں اور دیگر بے شمار فلاحی ادارے انھوں نے اپنے ذاتی خرچ سے قائم کیے تھے۔ لاہور کے پہلے جدید رہائشی علاقے ''ماڈل ٹاؤن''کی خوبصورت نقشہ نگاری بھی گنگارام ہی کی بدولت ہے۔
ویسے تو مجھے گنگارام کی شخصیت کے ساتھ لگاؤ اس لیے بھی ہے کہ وہ میرے کالج فیلو بھی ہیں یعنی گورنمنٹ کالج لاہور سے انھوں نے 1871ء میں تعلیم حاصل کی جب کہ میں نے ''صرف'' 110سال بعد اُسی کالج میں تعلیم حاصل کی۔انھیں محض 22 سال کی عمر میں لاہور میں اسسٹنٹ انجینئر کے عہدے پر انٹرن شپ کے لیے تعینات کردیا گیا۔ جب کہ چند ماہ بعد اسسٹنٹ انجینئر کی حیثیت سے انھیں عہدے سے بھی نواز دیا گیا۔ بعدازاں امرتسر اور ڈیرہ غازی خان میں بھی تعینات رہے۔ انگریز حکومت نے انھیں خصوصی طور پر دو سال کے لیے واٹر ورکس اور ڈرینج کی تربیت حاصل کرنے کے لیے بریڈفورڈ بھیجا۔ انگلینڈ سے واپسی پر انھیں پشاور میں پانی کی فراہمی ونکاسی کے منصوبوں کی ذمے داری سونپی گئی۔ بعدازاں اُنھوں نے ایسے ہی منصوبے انبالہ، کرنال اور گوجرانوالہ میں بھی متعارف کرائے۔ بعدمیں انھیں لاہور کے ایگزیکٹو انجینئر کے عہدے پر ترقی دے دی گئی۔
اس عرصے میں اُنھوں نے لاہور کیتھڈرل چرچ اور ہائی کورٹ کی عمارتوں کے ڈیزائن تیار کیے ۔سرگنگارام کو بعد میں ایچی سن کالج کی تعمیر کے لیے اسپیشل انجینئر مقرر کیا گیا۔ جب اس کالج کی سرخ اینٹوں سے بنی عمارت اپنے اردگرد پھیلے خوبصورت سایہ دار باغ کے ساتھ مکمل ہوئی تو گنگارام چیف انجینئر کے عہدے پر فائز ہو چکے تھے۔ ان کی خدمات کے اعتراف میں حکومت ہند نے انھیں ''رائے بہادر'' کا خطاب دیا۔انھوں نے حرارت سے محفوظ سیدھی چھتوں اور اینٹ میں اینٹ پھنسا کر دیوار تعمیر کرنے کا طریقہ رائج کیا۔ یہ ایجادات انجینئرنگ کی دنیا میں انتہائی مہارت کی حامل ہیں اور آج بھی پوری دنیا میں تعمیر کے یہی طریقے رائج ہیں۔ دوسرے لفظوں میں مغلوں کے طرز تعمیر کے بعد سرگنگا رام نے برصغیر میں عمارتوں کی تعمیر کے دوسرے دور کا آغاز کیا۔
مال روڈ کے کنارے درختوں کے اہتمام سے شہر کی نالیاں پکی کرانے تک گنگا رام نے اس شہر کا ہر کام عبادت سمجھ کر کیا۔ یوں تو قانون گو کے لٹھے پہ گنگا پور کا اصل نام چک 591 گوگیرہ برانچ درج ہے مگر جب سے سر گنگا رام نے انگریز سرکار سے یہ زمین خریدی اور آباد کی، تب سے اسے گنگا پور ہی کہا جاتا ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ ہزاروں ایکڑ پہ پھیلی یہ جاگیر، پانی کی سطح سے اوپر ہونے کے سبب بنجر اور بے آباد تھی۔ گوگیرہ برانچ کی نہر بہتی تو تھی مگر پانی کو بلندی کی طرف کون لاتا۔ آخر کار سر گنگا رام نے ایک موٹر منگوائی اور اس کے ذریعے پانی کو گاؤں تک لانے کا فیصلہ کیا۔لاہور سے لائی گئی یہ موٹر، منڈی بچیانہ تک تو آسکتی تھی مگر اس سے آگے آنا اس کے لیے ممکن نہ تھا۔
تین کلومیٹر کے اس حصے کو پاٹنے کے لیے ایک پٹڑی بچھائی گئی۔ 1898 میں پٹڑی مکمل ہوئی تو اس پہ چلنے والی گاڑی ریل سے مختلف تھی۔ عام ٹرین کی طرح اس گاڑی کو کوئلہ پھانکتا انجن نہیں بلکہ سانس لیتے گھوڑے کھینچتے تھے۔گھوڑا ٹرین پر موٹر گاؤں کیا آئی، کایا کلپ ہو گئی۔ پہلی بار زمین کو پانی نصیب ہوا تو مہینوں کے اندر کھیت لہلہانے لگے۔ گنگا رام کی کوششوں سے 90 ہزار ایکڑ زمین سیراب ہوئی جو اس وقت کی سب سے بڑی ذاتی زرعی اراضی تھی۔اگنگا رام نے رینالہ خورد میں بجلی گھر بھی لگایا، جہاں سے ایک میگاواٹ بجلی بنانے کی صلاحیت پیدا کی گئی۔
گنگارام نے ایک ٹرسٹ بھی قائم کیا، اس ٹرسٹ کے لیے کثیر رقوم عطیہ کے طور پر دیں اور کئی عالیشان عمارات وقف کر دیں۔پھر گنگارام اسپتال کا آئیڈیا بھی ان کے ذہن میں اس لیے آیا کہ یہ رہتی دنیا تک لوگوں کی خدمت کرے گا۔ 10جولائی 1927ء کو وہ لندن میں وفات پاگئے، ان کی راکھ راوی میں بہادی گئی۔ انگریزوں نے اُن کا مجسمہ لاہور مال روڈ پر بنایا جسے ہم نے انتہاپسندی کی بھینٹ چڑھانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ سعادت حسن منٹو نے اس سچے واقعے کو اپنے ایک افسانے 'جوتا'' کا موضوع بھی بنایا ہے۔ منٹو کی افسانوی مہارت کا ذائقہ تو آپ اس کے افسانے کو پڑھ کر ہی چکھ سکیں گے البتہ واقعے کا خلاصہ ہم بیان کیے دیتے ہیں۔ ''ہجوم نے رخ بدلا، اور سرگنگا رام کے بت پر پل پڑا۔ لاٹھیاں برسائی گئیں، اینٹیں اور پتھر پھینکے گئے۔ ایک نے منہ پر تارکول مل دیا۔ دوسرے نے بہت سے پرانے جوتے جمع کیے اور ان کا ہار بنا کر بت کے گلے میں ڈالنے کے لیے آگئے بڑھا مگر پولیس آگئی، اور گولیاں چلنا شروع ہوئیں، جوتوں کا ہار پہنانے والا زخمی ہو گیا۔ تو وہ پکار اٹھے، اسے گنگا رام اسپتال لے چلو۔''
بہرکیف قیام پاکستان سے لے کراب تک کے 72برسوں کے دوران پنجاب کے حکمرانوں نے لاہور میں جو ترقیاتی کام کرائے وہ سر گنگا رام کیے گئے رفاحی کاموں کا عشر عشیر بھی نہیں ہیں۔ لیکن ہم، پنجاب کے اس عظیم فرزند اور لاہور کے محسن کو یاد کیوں نہیں کرتے ؟ہم نے گنگا رام کے بیٹے سر بالک رام کے پیسوں سے بنوائے ہوئے میڈیکل کالج کا نام بدل کر فاطمہ جناح میڈیکل کالج رکھ دیا۔گویا ہم اپنی 'مادرِ ملت' کو خراجِ عقیدت بھی اپنے پلے سے ادا نہیں کر سکتے ۔
ہمیں چاہیے کہ ہم اس دھرتی و خطے کے محسنوں کو یاد رکھیں، ہمیں چھوٹو رام کوبھی نہیں بھولنا چاہیے جس نے پنجاب کے کسانوں کے لیے بہت کام کیا ، آج پرویز الٰہی کی بدولت اُس کی تختی پنجاب اسمبلی میں آویزاں ہے۔ ڈر ہے کہ کوئی ہجوم اُسے بھی اکھاڑ نہ دے۔ ہمیں ایسے محسنوں کو نہیں بھولنا چاہیے جنھوں نے انسانیت کو فروغ دیا اور نفرت کو ختم کیا۔ ہمیں عبدالستار ایدھی ،گنگارام، دیال سنگھ، بیگم فیروز خان نون، ڈاکٹر رتھ فاؤ،فاطمہ جناح، عاصمہ جہانگیر جیسی شخصیات کو نہیں بھولنا چاہیے۔ اُن کے نام سے دن منائے جانے چاہییں، ان کے نام کے یادگاری ٹکٹس جاری کیے جانے چاہییں، ان کے لیے سیمینارز ہونے چاہیئں تاکہ یہ شخصیات امر رہیں۔