سیاسی معاشی اور قانونی محاذ پر حکومت کی نئی صف بندی

معاشی محاذ پر عمران خان کو ابتدائی چند ماہ میں ایک اچھی معاشی ٹیم کی عدم موجودگی کی وجہ سے مشکلات پیش آئیں۔


رضوان آصف July 17, 2019
معاشی محاذ پر عمران خان کو ابتدائی چند ماہ میں ایک اچھی معاشی ٹیم کی عدم موجودگی کی وجہ سے مشکلات پیش آئیں۔ فوٹو: فائل

پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان ہمیشہ سے لہروں کے مخالف تیرنے کے شوقین رہے ہیں،کرکٹ کے میدان میں بھی معمول سے ہٹ کر حکمت عملی اپناتے تھے، سیاست شروع کی تب بھی سیاسی روایات کو اپنانے کی بجائے نئے منشور اور نظریے کو ساتھ لیکر آگے بڑھے اور اب جبکہ وہ پاکستان کے وزیر اعظم ہیں، پنجاب اور خیبر پختونخوا میں ان کی پارٹی کے وزرائے اعلی ہیں جبکہ بلوچستان میں وہ حکومت میں شامل ہیں تو اس وقت بھی عمران خان اس بات سے ماورا ہو کر چند ایسے سخت معاشی اور سیاسی فیصلے کر رہے ہیں جو شاید کسی اور وزیر اعظم کے بس میں نہیں ہو سکتے۔

معاشی محاذ پر عمران خان کو ابتدائی چند ماہ میں ایک اچھی معاشی ٹیم کی عدم موجودگی کی وجہ سے مشکلات پیش آئیں اور سابق معاشی ٹیم کی پالیسی اور فیصلوں کی وجہ سے اس وقت حکومت بھی معاشی بحران کا شکار ہے اور عوام بھی حکومت سے ناخوش ہیں لیکن اب عمران خان نے ''دوستوں'' کے مشورے پر معاشی ٹیم کی نئی صف بندی کر لی ہے اور اہم معاشی اقدامات کاا ٓغاز کردیا گیا ہے لیکن عمران خان اور ان کی معاشی ٹیم کو مرحلہ وار تبدیلی کی جانب بڑھنا چاہئے ، ایک ہی وقت میں ہر شعبہ تجارت پر گرفت نہایت سخت کرنے سے معا ملات سلجھاو کی بجائے الجھاو کی جانب بڑھ رہے ہیں۔ جمہوری حکومتیں اپنی عوام کے ساتھ ضد بازی نہیں کرتیں، ضرورت محسوس ہو تو عوام کو مطمئن کرنے کیلئے اپنے موقف سے چند قدم پیچھے ہٹ کر لوگوں کو دلائل کے ساتھ اور مزید کچھ وقت دیکر قائل کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔

پاکستان کے عوام، عمران خان کے اس موقف کو مکمل طور پر تسلیم کرتے ہیں کہ گزشتہ 34 برسوں کے دوران پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ(ن) کے ادوار حکومت میں غیر معمولی کرپشن ہوئی، ان پارٹیوں کی قیادت براہ راست اس میں ملوث رہی ہے اور کھربوں روپے لوٹ کر ملک سے باہر بھیجے گئے اور پھر اسی رقم کو ٹی ٹی اور دیگر ذرائع سے پاکستان واپس منگوا کر منی لانڈرنگ کی گئی۔ بے نامی اکاونٹس سے اربوں روپے نکلنے کے معاملہ پر بھی لوگوں کو یقین ہے اور ''داماد'' کے اکاونٹ میں غیر قانونی طریقے سے بھاری رقوم کی آمد بھی عوام کے دائرہ یقین میں شامل ہے لیکن اس سب کے باوجود عمران خان کو بھرپور عوامی حمایت اور حکومتی اقدامات کی پذیرائی اس لئے نہیں مل رہی ہے کیونکہ معاشی مشکلات کی وجہ سے ہر بندہ پریشان ہے، حکومت کرپشن اور احتساب کے معاملے میں جتنا بھی اچھا نتیجہ دے ،اسے تب تک عوامی حمایت نہیں ملے گی جب تک لوگ معاشی طور پر خوشحال اور پرسکون نہیں ہو جاتے۔

دوسری جانب کرپشن کی روک تھام اور کرپٹ مافیا کے خلاف سخت احتساب اور اسے منطقی انجام تک پہنچانے کیلئے عمران خان کو ایک مضبوط لیگل ٹیم کی ضرورت ہے ۔ فروغ نسیم پر تحریک انصاف مکمل اعتماد نہیں کرتی اور بہت سے قانونی معاملات میں انہیں ''سائیڈ لائن'' بھی رکھا جاتا ہے اور ایسے معاملات میں فی الوقت بابر اعوان کی رائے زیادہ اہمیت رکھتی ہے ۔حامد خان تحریک انصاف کے اہم ترین رہنماوں میں سے ایک ہیں لیکن بعض تنظیمی اختلافات کی وجہ سے وہ اس وقت فرنٹ لائن پر نہیں ہیں۔ چند روز قبل تحریک انصاف کے مرکزی رہنما عبدالعلیم خان نے ملک کے معروف قانون دان بیرسٹر علی ظفر کی وزیر اعظم سے ملاقات کروائی ہے جس میں علی ظفر نے تحریک انصاف میں شامل ہونے کا اعلان کیا ہے۔ بیرسٹر علی ظفر گزشتہ برس سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر رہے ہیں، اس کے بعد نگران دور حکومت میں وفاقی وزیر قانون کے عہدے پر تعینات رہے۔

بیرسٹر علی ظفر کی تحریک انصاف میں باضابطہ شمولیت سے اب عمران خان کو ایک نہایت منجھے ہوئے قانو ن دان کا ساتھ مل گیا ہے اور آنیو الے دنوں میں حکومت نے قانونی محاذ پر جو بڑی جنگیں لڑنا ہیں ان میں بیرسٹر علی ظفر کی رائے حکومت کیلئے بہت مددگار ثابت ہو گی۔ تحریک انصاف کے بعض حلقوں کی جانب سے یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی تھی کہ عبدالعلیم خان سیاست سے ''کنارہ کش'' ہو رہے ہیں لیکن اصل حقیقت تو یہ ہے کہ عبدالعلیم خان اس وقت بھی سیاست کے سمندر میں بھرپور انداز میں تیر رہے ہیں، وہ وزیر اعظم سیکرٹریٹ کی فری لسٹ پر جہانگیر ترین کے ساتھ موجود ہیں۔

نیب کیس میں رہائی کے بعد وہ گزشتہ کئی ہفتوں سے اپنے ذاتی اور کاروباری معاملات میں شدید مصروف رہنے کی وجہ سے ابھی یہ فیصلہ نہیں کر رہے ہیں کہ انہوں نے پنجاب کابینہ میں دوبارہ سینئر وزیر کے طور پر شریک ہونا ہے یا پھر وفاقی حکومت میں ذمہ داریاں سنبھالنی ہیں، عمران خان کی جانب سے علیم خان کو دونوں آپشن دیئے گئے ہیں۔ اینٹی علیم اینڈ ترین گروپ نے یہ افواہ بھی اڑائی تھی کہ وزیر اعلی پنجاب سردار عثمان بزدار کی مخالفت کی وجہ سے علیم خان کو پنجاب کابینہ میں شامل کرنے بارے تاخیر ہو رہی ہے۔ یہ محض افواہ ہی ہے کیونکہ سب کو معلوم ہے کہ یہاں تو غیر اہم بندہ کو کابینہ یا پارٹی کی تنظیم میں شامل کرنے کا فیصلہ بھی عمران خان نے کرنا ہوتا ہے تو پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ عمران خان اپنے نہایت قابل اعتماد اور اہم ترین ساتھی کے بارے میں فیصلہ کرنے میں کسی بھی شخص کا دباو قبول کریں گے، ویسے بھی اس وقت عثمان بزدار اور علیم خان کے تعلقات کافی خوشگوار جا رہے ہیں۔

پاکستان کے ایوان بالا(سینٹ) میں چیئرمین صادق سنجرانی کے خلاف متحدہ اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کچھ مشکل معلوم ہو رہی ہے۔ حکومت بھی جوابی اقدامات کر رہی ہے اور ''دوست'' بھی ورکنگ کر رہے ہیں۔ اپوزیشن اتحاد میں شامل بہت سے ارکان سینٹ کے حکومت سے بیک ڈور چینل روابط موجود ہیں، نشستوں کی تعداد کے تناسب سے اپوزیشن اتحاد کی پوزیشن مضبوط دکھائی دیتی ہے لیکن اندرون خانہ کئی سینیٹرز اس تحریک عدم اعتماد کے حق میں نہیں ہیں۔اس وقت سینیٹ میں 64 رکنی اپوزیشن میں مسلم لیگ(ن) کی 30 اور پیپلز پارٹی کی 20 نشستیں ہیں جبکہ ایم ایم اے 6، نیشنل پارٹی 5، پختونخوا ملی عوامی پارٹی کی 2 اور اے این پی کی 1 نشست ہے جبکہ 40 رکنی حکومتی اتحاد میں تحریک انصاف کے پاس 17، بلوچستان عوامی پارٹی 11، ایم کیو ایم 5، بلوچستان نیشل پارٹی (مینگل) اور جی ڈی اے کے پاس1 نشست موجود ہے۔

اپوزیشن کو تحریک عدم اعتماد کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ جہانگیر ترین دکھائی دے رہے ہیں کیونکہ جہانگیر ترین نے لندن سے واپس آتے ہی سینٹ قرارداد کا مورچہ سنبھال لیا ہے اور ان کی سیاسی جادوگری کا طلسم پھیل رہا ہے ۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔