مذاکرات میں تاخیر نہ کی جائے

دوسرا سوال یہ ہے کہ ڈرون حملوں کی مخالفت ہم دہشت گردوں کے جانی نقصانات کے پس منظر میں کررہے ہیں


Zaheer Akhter Bedari September 13, 2013
[email protected]

بڑے انتظار، وسوسوں، امیدوں، نا امیدیوں، خدشوں کے ماحول میں آخر 9 ستمبر کو اے پی سی ہوگئی۔ خیال یہ تھا کہ ماضی کی اے پی سییز کی طرح یہ بھی نشستند، گفتند و برخواستند کی مشق ہی ثابت ہوگی اور خود اہل سیاست بھی اس اے پی سی کے نتائج سے زیادہ پرامید نظر نہیں آرہے۔ لیکن اگر اس کے حاصلات پر نظر ڈالی جائے تو ایک حیرت انگیز کامیابی یہ نظر آتی ہے کہ پچھلے ایک عشرے سے دہشت گردی کے خاتمے کے مسئلے پر سول انتظامیہ اور فوجی قیادت کے درمیان جو واضح اور معنوی اختلاف نظر آرہا تھا، وہ اس اے پی سی میں مدغم ہوتا نظر آرہا ہے۔ یہ معجزہ کیسے ہوا، کیوں ہوا اور کس نے یہ کارنامہ انجام دیا؟ اس کی افادیت یا بے معنویت کا پتہ تو مذاکرات کے انجام اور نتائج ہی سے ہوگا لیکن فی الوقت اس اے پی سی کو ہم کامیاب اے پی سی کا نام اس لیے دے سکتے ہیں کہ اس میں شریک 12جماعتوں کے28 رہنمائوں سمیت فوج کے چیف اور آئی ایس آئی کے ڈی جی نے شرکت کی، نہ صرف شرکت کی بلکہ اس بات پر اتفاق کیا کہ دہشت گردوں سے مذاکرات کیے جانے چاہئیں۔

اے پی سی کے اختتام پر جو 6 نکاتی اعلامیہ جاری کیا گیا ہے اس میں کہا گیا ہے کہ ''ہمیں اس بات پر تشویش ہے کہ قومی سلامتی سے متعلق ماضی میں کی گئی اہم سفارشات پر عمل نہیں کیا گیا۔ تفصیلی غور و خوض کے بعد ہم اس بات پر متفقہ عزم کا اظہار کرتے ہیں کہ ''پاکستانی سالمیت اور خود مختاری کا ہر قیمت پر تحفظ کیا جانا چاہیے'' غیر قانونی اور غیر اخلاقی ڈرون حملوں میں بے گناہ عورتوں، مردوں اور بچوں کے علاوہ سیکیورٹی اہلکاروں کی ہزاروں جانیں ضایع ہوچکی ہیں۔ جمہوری طور پر منتخب پاکستانی حکومت کی جانب سے واضح احتجاج کے باوجود امریکا کی طرف سے ڈرون حملوں کا سلسلہ جاری رکھنے پر ہمیں تشویش ہے، ہم اس بات پر متفق ہیں کہ ڈرون کا استعمال نہ صرف ہماری علاقائی سالمیت کی مسلسل خلاف ورزی ہے بلکہ دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خاتمے کے لیے ہماری کوششوں کے لیے نقصان دہ بھی ہے۔ اس چھ نکاتی مشترکہ اعلامیے کے مزاج کا اندازہ ڈرون حملوں کے حوالے سے ظاہر کی جانے والی تشویش اور حکومت کی جانب سے ''دہشت گردی کے خلاف کی جانے والی کوششوں کو پہنچنے والے نقصان '' سے کیا جاسکتا ہے۔ اگر ہم اے پی سی کے ٹرینڈ کو سمجھنا چاہیں تو ڈرون حملوں پر تشویش کے اظہار سے سمجھ سکتے ہیں۔

امریکا ایک سامراجی ملک ہے جس کے پیش نظر ہر وقت اپنے قومی مفادات ہوتے ہیں اور وہ اپنے قومی مفادات کے لیے ڈرون حملوں کو تو چھوڑیے آزاد اور خود مختار ملکوں پر قبضہ کو ایک معمولی بات سمجھتا ہے جس کی مثالیں عراق، افغانستان کی شکل میں اور شام پر ممکنہ امریکی حملے کی شکل میں بھی سامنے موجود ہیں، لہٰذا ڈرون حملوں کو غیر اخلاقی، غیر قانونی کہنا ہماری سادگی کی انتہا ہے۔ اس حوالے سے چند اخلاقی سوال یہ پیدا ہوتے ہیں کہ کیا ڈرون حملوں میں ہماری حکومتوں کی رضا یا مرضی شامل رہی ہے۔ جس کا ذکر بار بار میڈیا میں آتا رہا ہے اور امریکی حکام بھی جس کا حوالہ دیتے رہے ہیں؟

دوسرا سوال یہ ہے کہ ڈرون حملوں کی مخالفت ہم دہشت گردوں کے جانی نقصانات کے پس منظر میں کررہے ہیں یا ان حملوں میں مارے جانے والے بے گناہوں کے حوالے سے کررہے ہیں؟ اگر ہماری مخالفت کی وجہ یہ ہے کہ ان حملوں میں بے گناہ لوگ بھی مارے جارہے ہیں تو فطری طور پر یہ سوال ذہن میں آتا ہے کہ خودکش حملوں، ٹائم بموں، بارودی گاڑیوں میں مارے جانے والے ہزاروں انسان کیا گناہ گار ہیں، اگر گناہ گار نہیں ہیں تو ڈرون حملوں اور دہشت گردی میں مارے جانے والے بے گناہوں کا تناسب کیا ہے؟ اور اس چھ نکاتی اعلامیے میں دہشت گردی میں مارے جانے والے ہزاروں پاکستانیوں کا ذکر کیوں نہیں کیا گیا۔ اعلامیہ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ پاکستان کی سالمیت اور خود مختاری کا ہر قیمت پر تحفظ کیا جانا چاہیے۔ یہاں پھر یہ سوال پیدا ہوتاہے کہ ڈرون حملوں اور خیبر سے کراچی تک پھیلی ہوئی با مقصد منظم اور منصوبہ بند دہشت گردی میں کون سا خطرہ ہماری سالمیت اور خود مختاری کے لیے چیلنج بنا ہوا ہے۔

سامراجی حکومتوں کی تو اخلاقیات ہی بد اخلاقی ہوتی ہے لیکن دہشت گردوں کے ہاتھوں بچوں، بوڑھوں، عورتوں، مردوں کے جرم بے گناہی میں مارے جانے کو کون سی اخلاقیات سے منسوب کریں۔ مہران، کامرہ ایئر بیس، پشاور ایئرپورٹ اور جی ایچ کیو پر حملے کیا ہماری ملکی سالمیت اور خود مختاری کے عین مطابق ہیں؟ بے گناہ زائرین کو بسوں سے اتار کر ان کے شناختی کارڈ دیکھ کر انھیں لائن میں کھڑا کرکے گولیوں سے بھون دینا کس قسم کی اخلاقیات کا مظاہرہ ہے؟ عباس ٹائون کے سیکڑوں فلیٹوں کو بارود سے اڑا کر عورتوں، بچوں، بوڑھوں کے پرخچے اڑانا کونسی اخلاقی قدروں کی نمایندگی ہے؟

یہ کس قدر حیرت اور افسوس کی بات ہے کہ ہماری سیاسی اور مذہبی قیادت کا ایک اہم حصہ آج بھی دہشت گردی کی جنگ کو امریکا کی جنگ کہتے ہوئے اس جنگ سے فوری باہر نکلنے کا مشورہ دے رہا ہے لیکن یہ حکماء یہ بتانے کی تکلیف نہیں کررہے ہیں کہ امریکا کی جنگ خیبر پختونخوا، بلوچستان اور کراچی میں کیوں لڑی جارہی ہے، اس کے فریق کون ہیں؟ کیا دونوں فریق ایک دوسرے کو قتل کررہے ہیں یا ایک فریق قتل کررہا ہے، دوسرا فریق سر جھکا کر قتل ہورہا ہے۔ ان دونوں فریقوں میں کتنے امریکی ہیں، کتنے برطانوی، کتنے فرانسیسی، کتنے جرمن، کتنے نیٹو کے جوان ہیں۔ جنگیں عموماً دو دشمنوں کے درمیان لڑی جاتی ہیں، اس ''امریکی جنگ'' لڑنے والے دو دشمن کون ہیں، ان کا تعلق کیا امریکا سے ہے؟ کیا امریکی جنگ امریکا اور پاکستانی فوج کے درمیان لڑی جارہی ہے۔ اگر یہ جنگ فوجوں کے درمیان نہیں لڑی جارہی ہے بلکہ مسلح دہشت گردوں اور نہتے لوگوں کے درمیان لڑی جارہی ہے تو ان کی قومیت، ان کا مذہب کیا ہے؟ کیا یہ عیسائی ہیں، ہندو ہیں، سکھ ہیں، یہودی ہیں یا مسلمان؟

اے پی سی نے دہشت گردوں سے مذاکرات کا انتہائی عاقلانہ اور مستحسن فیصلہ کیا، کیوںکہ ہر جنگ کا حل مذاکرات ہی میں ڈھونڈا جاتا ہے۔ یہ بات کوئی راز نہیں کہ دہشت گرد یہ جنگ حصول اقتدار کے لیے لڑرہے ہیں، وہ اس ملک میں شریعت کا نظام نافذ کرنا چاہتے ہیں۔ ہمارے ملک میں بے شمار مذہبی جماعتیں موجود ہیں جو 66 سال سے ملک میں شریعت کا نظام نافذ کرنے کی جدوجہد کررہی ہیں لیکن وہ جمہوریت اور عوامی حمایت کے ذریعے ملک میں شریعت کا نظام قائم کرنا چاہتی ہیں۔ ان کے ہاتھوں میں نہ کلاشنکوف ہے نہ ٹائم بم ہیں، نہ بارودی گاڑیاں ہیں نہ خودکش بمبار ہیں، نہ وہ بے گناہ مسلمانوں کو ماررہے ہیں، نہ مسجدوں، امام بارگاہوں اور بچوں کے اسکولوں اور بزرگوں کے مقبروں کو بموں سے اڑارہے ہیں، نہ مہران، کامرہ ایئر بیس اور جی ایچ کیو پر حملے کررہے ہیں۔

اسلام میں مسلمان کا خون مسلمان پر حرام ہے، اسلام میں خودکشی حرام ہے، اسلام میں عبادت گاہوں کو خدا کا گھر کہا جاتا ہے، اسلام میں فرقوں اور فقہوں کی بنیاد پر ایک دوسرے کا خون بہانا منع ہے، گناہ ہے۔ اسلام کو امن اور آشتی کا مذہب کہا جاتا ہے، ہمارے آئین میں پاکستان کو اسلامی مملکت کہا گیا ہے۔ لیکن 66 سال گزرجانے کے باوجود پاکستان ایک اسلامی ریاست نہ بن سکا، مذہبی انتہا پسند 66 سال انتظار کرنے کے بعد اب خود ملک میں اسلام نافذ کرنے کے لیے اٹھ کھڑے ہیں لیکن پوری اسلامی تاریخ میں اسلام کے نفاذ کا وہ طریقہ نظر نہیں آتا جو پچھلے دس سال سے ہم دیکھ رہے ہیں۔ اسلامی تاریخ میں دوسرے مذاہب سے جنگیں ہوتی نظر آتی ہیں، اسلامی تاریخ بادشاہوں کے درمیان حصول اقتدار کی جنگیں ہوئی ہیں لیکن پوری اسلامی تاریخ میں اسلام کے نفاذ کے لیے ہزاروں مسلمانوں، مردوں، عورتوں، بوڑھوں، بچوں کو انتہائی بے دردی سے قتل کرنے، مسجدوں، امام بارگاہوں اور بچوں کے اسکولوں، بزرگوں کے مقبروں کو بارود سے اڑانے، نمازیوں کو بے دردی سے قتل کرنے کی کوئی مثال نہیں ملتی۔

اے پی سی نے مذاکرات کا فیصلہ کیا ہے۔ فریق مخالف نے اس فیصلے کا خیر مقدم کیا ہے۔ میڈیا کے زعما فرمارہے ہیں کہ اس سنہری موقع کو ضایع نہیں کرنا چاہیے۔ ہم بھی مذاکرات کا خیر مقدم کرتے ہیں، بلکہ ہماری خواہش ہے کہ جتنی جلد ہو مذاکرات ہونے چاہئیں تاکہ ملک کی سر زمین بے گناہ مسلمانوں کے خون سے مزید سرخ نہ ہو۔ اخباری خبروں کے مطابق ڈی جی آئی ایس آئی کہہ رہے ہیں کہ طالبان سمیت 69 گروہ دہشت گردی میں ملوث ہیں۔ ہمیں امید ہے کہ حکومت کی مذاکراتی ٹیم ان 69 گروہوں کو مذاکرات پر راضی کرے گی اور مذاکرات انشاء اﷲ کامیاب ہوجائیںگے اور ''پاکستان انسانی تاریخ کا ایک منفرد ملک بن کر ابھرے گا''۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں