ایک پیسے کا تازہ ترین نیا سکہ

پر ہوں میں شکوے سے یوں راگ سے جیسے باجا


Saad Ulllah Jaan Baraq September 13, 2013
[email protected]

اخبارات پڑھنے کے بعد کالم کے لیے موضوع سوچ رہے تھے کہ کمرے سے باہر ایک بچہ بولا، اماں مجھے دو پیسے دو ، جوس لینا ہے۔ حیرت ہوئی، ہمیں خبر بھی نہیں ہوئی اور علاؤ الدین خلجی کا زمانہ لوٹ آیا؟ دو پیسے میں جوس، ماں بچے کو سمجھا رہی تھی کہ ابھی تو دو پیسے لے کر گئے تھے ان کا کیا کیا۔ بچہ بولا، بُھٹہ لے لیا۔ ماں حسب معمول ماں بن کر بولی، یہ لے مر، پیٹ ہے یا کنواں، جب دیکھو دو پیسے دینا، دو پیسے دینا، اس سے پہلے کہ ماں تشبیب کے بعد قصیدے کے گریز پر آتی کہ پیسے کیا پیڑ پر اگتے ہیں، ابا تو تیرا ایک مرتبہ دے کر نچنت ہو جاتا ہے اور تو میری جان کھا رہا ہے، ہم نے اسے آواز دی... بہو ذرا آنا تو... وہ آئی تفصیل پوچھی تو پتہ چلا کہ جسے سمجھے تھے انناس وہ عورت نکلی،

پر ہوں میں شکوے سے یوں راگ سے جیسے باجا

اک ذرا چھیڑیئے پھر دیکھیے کیا ہوتا ہے

وہ قصہ غم سنانے لگی لیکن ہمیں کالم کا موضوع مل چکا تھا، دراصل بچہ پانچ روپے کے سکے کو پیسہ کہہ رہا تھا، دو پیسے کا مطلب تھا، وہ جسے ہماری حکومت پاکستان دس روپے کہتی ہے اور شرماتی بھی نہیں ہے، دراصل پانچ روپیہ کا سکہ ہی آج کل چل رہا ہے، اس سے جو نیچے والے تھے بے چارے شرم کے مارے نہ جانے کہاں جا کر چھپ گئے ہیں کیونکہ بچے اور بھکاری تک انھیں منہ تک نہیں لگاتے،

بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے

زمیں کھا گئی آسماں کیسے کیسے

ہمیں اور تو کچھ زیادہ فکر نہیں مگر قائد کی تصویر کی کچھ تو ویلیو ہونی چاہیے، آج ہزار کے نوٹ کو دیکھ کر زباں پر غالب کا شعر آ جاتا ہے اور اس کا مفہوم بھی سمجھ میں آ جاتا ہے،

''نقد'' فریادی ہے کس کی شوخئ تحریر کا

کاغذی ہے پیرہن ہر پیکر تصویر کا

شوخئ تحریر اس پر لکھی ہوئی عبارت میں ہوتی ہے جس پر گورنر اسٹیٹ بینک کے دستخط ثبت ہوتے ہیں، کچھ زیادہ عرصہ نہیں گزرا لوگ مہنگائی اور گھر کے خرچوں کے بے پناہ ہونے کا ذکر یوںکرتے تھے، کیا بتاؤں یہ تو قیامت کی نشانی ہے، ابھی پرسوں سو روپے کا نوٹ تڑوایا تھا، ابھی ہفتہ بھی نہیں ہوا تھا اور آدھا اڑ گیا ہے، آج ہزار کا نوٹ گھر میں دیتے ہیں تو دوپہر کے بعد مژدہ جاں فزا سننے کو ملتا ہے کہ وہ تو اڑ گئے، دکاندار سے ادھار لیا ہے اور شام کے کھانے کا بندوبست بھی ہونا ہے، اس کے باوجود کہ موٹا موٹا سودا آٹا، گھی، شکر، چاول، سبزی اور دالیں پہلے ہی سے اکٹھا لا چکے ہیں، سب کو جیب خرچ بھی الگ سے دے چکے ہیں اور بجلی گیس دھوبی دودھ والے گوشت والے وغیرہ کا بل الگ سے دیں گے، یہ صرف ہنگامی اور چھوٹے موٹے اخراجات کے لیے ہوتے ہیں

جہل خرد نے دن یہ دکھائے

گھٹ گئے انسان بڑھ گئے سائے

پشتو میں اسے داڑھی سے زیادہ مونچھوں کا بڑا ہونا کہتے ہیں، ویسے یہ بھی اہم تقریباً پانچ روپے صرف ''پیسہ'' کے چل چلاؤ کے دنوں کی بات کر رہے ہیں کیونکہ ذرا سمجھ دار بچے اور وضع دار بھکاری اس ''پیسے'' کو بھی حقارت سے ٹھوکر مارنے والے ہیں، ایک رکاوٹ یہ بھی ہے کہ دس روپے کا سکہ ہمارے ہاں موجود نہیں ورنہ کب کا اسے ''پیسہ'' بنایا جا چکا ہوتا، گویا صورت حال یہ ہے کہ بچے اور بھکاری کہہ سکتے ہیں کہ

بندہ پیر خرابا تم کہ درویشان او

''چینچ'' گنج را از بے نیازی خاک برسرمی کنند

آج کل ہم نئے لوگوں کو جس طرح اٹھنی چونی دونی اور آنے کے بارے میں بتاتے ہیں کہ خدا مغفرت کرے پرانے زمانوں میں اس نام کے سکے بھی ہوتے تھے اور ان سب کا سردار ''کلدار روپیہ'' ہوتا تھا جو اپنے زمانے کا رستم زمان ہوا کرتا تھا مجال ہے کہ وہ بازار میں جلوہ گر ہو یا اور کوئی مائی کا لعل اس کا سامنا کر پاتا، ٹھیک اسی طرح آج کے لوگ اپنے بچوں کو بتایا کریں گے کہ ایک زمانے میں روپے، دو روپے، پانچ روپے کے سکے بھی ہوتے تھے اور کمال کی بات یہ بھی ہے کہ وہ چلتے بھی تھے پھر بے چارے آہستہ آہستہ گھٹیا کے مریض ہوئے پھر اپاہج ہوئے اور پھر فالج گر گیا بے چاروں پر... بچے بولیں گے اچھا ہوا خاک کم جہاں پاک

جن میں طاقت خریدنے کی نہ ہو

ایسے سکوں کو کیا کرے کوئی

یہ تو صرف سکوں کی بات ہے ورنہ ان کی طاقت کا اندازہ اس سے لگائیں کہ ہمارے دادا کو جرمانہ ہو گیا، ایک ہزار روپے کا، کسی کی ضمانت دے چکے تھے اور وہ ضبط ہوئی تھی، ہمیں یاد ہے کہ پورے گاؤں میں دو دو چار چار کر کے ادھار لیے گئے تھے پھر بھی پورے نہیں ہوئے تو دس جریب یعنی چالیس کنال زمین بیج دی تھی، بیس روپے جریب اور پانچ روپے کنال کے حساب سے... یہ روپے ایک بوری میں بھرے ہوئے چولہے کے پاس رکھے تھے اور گھر والے پوری رات اس کے گرد بیٹھ کر روتے رہے تھے، وہ زمین جو پانچ روپے کنال بیچی گئی تھی، آج کل پچاس ہزار روپے مرلہ یعنی دس لاکھ فی کنال اور چالیس لاکھ فی جریب کے حساب سے چل رہی ہے، چاندی کا وہ کلدار روپیہ اندر شہر میں ہزار بارہ سو کا بکتا ہے بلکہ لوگ ڈھونڈ ڈھونڈ کر خریدتے ہیں کیوں کہ اس کی چاندی خالص ہوتی ہے

آئے عشاق گئے وعدہ فردا لے کر

اب انھیں ڈھونڈ چراغ رخ زیبا لے کر

اور یہ رائج الوقت سکے کوئی ان کو ہاتھ میں لینے جیب میں ڈالنے اور گھر میں رکھنے کے لیے تیاری نہیں ہوتا، کہ خواہ مخواہ فضول کا بوجھ ڈھونے سے کیا فائدہ؟ بلکہ ہمیں تو ایسا نظر آتا ہے کہ وہ دن بھی بہت جلد آنے والا ہے، جب سارا لین دین غیر ملکی سکوں یا مال کے بدلے مال کی شکل میں ہو گا، یہ رسک کون لے گا کہ آج جو چیز ہم لاکھ روپے میں بیچ رہے ہیں یہ ایک لاکھ روپے گھر تک پہنچنے پہنچتے ایک لاکھ رہیں گے بھی یا برف کی طرح پگھل کر آدھے ہو چکے ہوں گے

دوست غم خواری میں میری سعی فرمائیں گے کیا

زخم کے بھرنے تلک ناخن نہ بڑھ آئیں گے کیا

تھوڑے ہی دن ہوئے رمضان سے چند روز پہلے کی بات ہے ہم ایک بھٹے پر اینٹیں خریدنے گئے، پانچ ہزار روپے فی ایک ہزار اینٹوں کا نرخ تھا، سوچا ویسے بھی گرمی اور روزے ہیں راج مزدور نہیں ملیں گے عید کے بعد آ کر خرید لیں گے ممکن ہے کام رکنے کی وجہ سے نرخ میں کچھ کمی بھی ہو جائے لیکن عید کے بعد گئے تو نرخ پونے چھ ہزار... فی ہزار ہو چکا تھا اور لوڈنگ کا کرایہ ڈھائی ہزار سے تین ہزار ہو چکا تھا ایک دوست نے کہا چلو کسی اور بھٹے پر پوچھتے ہیں ہم نے کہا کیا پتہ دوسرے بھٹے تک پہنچتے پہنچتے نرخوں کو ایک اور زور کا جھٹکا دھیرے سے لگ چکا ہو، جو کل کرے سو آج کر جو آج کرے سو اب...

چند سانسیں خریدنے کے لیے

ہم نے ہر بار زندگی بیچی

کبھی آنسو کبھی خوشی بیچی

آہ کے واسطے ہنسی بیچی

لگتا ہے ہمارا روپیہ بغیر بریک والی گاڑی کی طرح چڑھائی کی چوٹی سے اترائی کی طرف دوڑ رہا ہو پہلے اسپیڈ کچھ کم تھا لیکن آہستہ آہستہ تیزی آتی گئی اور اب اتنی تیز ہو چکی ہے کہ روکنا تو کجا ہاتھ لگانا بھی خطرے سے خالی نہیں... نے ہاتھ باگ پر ہے نہ پا ہے رکاب میں... آگے اندھیری اور مہیب کھائی کے سوا اور کچھ بھی نہیں ہے

بوجھ وہ سر سے گرا ہے کہ اٹھائے نہ اٹھے

کام وہ آن پڑا ہے کہ بنائے نہ بنے

وجہ اس حادثے بلکہ مسلسل حادثے کی یہ ہے کہ نہ جانے کس بدبخت نے اس گاڑی کا بریک چرا لیا ہے اور جس گاڑی کا بریک ہی نہ ہو اسے کون روک سکتا ہے، جانے والوں کو کہاں روک سکا ہے کوئی گرنے والوں کو کہاں تھام سکا ہے کوئی... باوثوق ذرایع سے یہ بھی پتہ چلا ہے کہ وہ بریک آئی ایم ایف نامی چور بازاری دکاندار نے خرید لیا ہے اور بدلے میں پوری گاڑی مانگ رہا ہے

بک جائیں گے ہم اپنے متاع سخن کے ساتھ

لیکن عیار طبع خریدار دیکھ کر

ہنسی اس بات پر آتی ہے کہ اخباروں اور کاغذوں پر اب بھی کہا جاتا ہے کہ روپے کی شرح کم ہو رہی ہے کم تو وہ شرح ہوتی ہے جو موجود ہوتی ہے جب سرے سے کوئی شرح ہی نہ ہو تو وہ کم کیا ہو گی، ویسے بھی حالات کچھ ایسے ہیں کہ بہت جلد ہم اس پرانے زمانے میں پہنچنے والے ہیں جن کو یاد کر کے بزرگ لوگ آہیں بھرتے ہیں، بجلی سے لالٹین پر آئے ہیں اور لالٹین سے بہت جلد دیے تک پہنچنے والے ہیں... لوگوں کے جسم پر بال بڑھ رہے ہیں اور لباس کم سے کم ہوتا جا رہا ہے ایسے میں اگر وہ پرانے جنس کے بدلے جنس کا سلسلہ شروع ہو جائے تو اس میں برائی کیا ہے

ہو چکیں غالب بلائیں سب تمام

ایک مرگ ناگہانی اور ہے

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں