ایک لائق ستائش اور قابل تقلید مثال
حصول تعلیم ہر شہری کا آئینی حق ہے اور پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 25-A میں یہ بات وضاحت سے بیان کی گئی ہے
فارسی کی ایک مشہور کہاوت ہے کہ ''تن ہمہ داغ داغ شد پنبہہ کجا کجا نہم'' جس کا آسان اردو ترجمہ یہ ہے کہ جسم پر جگہ جگہ داغ ہیں روئی کا پھویا کہاں کہاں رکھیں۔ وطن عزیز کے ہر شعبے پر یہ کہاوت حرف بہ حرف لاگو ہوتی ہے۔ افسوس کہ تمام ہی شعبے مسلسل زوال کا شکار ہیں جن میں تعلیم کے شعبے کا حال شاید سب ہی سے برا ہے۔ اگرچہ یہ حقیقت اظہر من الشمس ہے کہ دنیا کی تمام ترقی یافتہ قوموں نے تعلیم ہی کے بل بوتے پر اپنا مقام بنایا ہے مگر ہمارے یہاں اس حقیقت کو وہ اہمیت ہی نہیں دی گئی جس کی یہ مستحق تھی۔ نتیجہ یہ ہے کہ دنیا کی بیشتر قومیں دیکھتے ہی دیکھتے ہم سے اتنی آگے نکل گئیں کہ ہم ان کی گرد کو بھی نہیں چھو سکتے۔ سب سے بڑی مثال کوریا کی ہے جس نے ہمارے ممتاز ماہر منصوبہ سازی ڈاکٹر محبوب الحق (مرحوم) کے تیار کیے ہوئے خاکے کو عملی جامہ پہناکر اقوام عالم میں ایک بلند مقام حاصل کرلیا۔
حصول تعلیم ہر شہری کا آئینی حق ہے اور پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 25-A میں یہ بات وضاحت سے بیان کی گئی ہے کہ پانچ سے سولہ سال کی عمر کے ہر بچے کو مفت تعلیم کا بنیادی حق حاصل ہے مگر اس پر عمل درآمد کی جو صورت حال ہے وہ سب کے سامنے ہے۔ گزشتہ 9 ستمبر کو جب خواندگی کا عالمی دن منایا جارہا تھا تو ہمارا دل اس بات پر بری طرح کڑھ رہا تھا کہ ہمارا ملک جہالت کے اندھیرے میں کس بری طرح ڈوبا ہوا ہے اور محض زبانی جمع خرچ کے سوائے عملی طور پر جو کچھ ہورہا ہے وہ نہ ہونے کے برابر ہے یونیسکو کے اقدامات بھی ہمارے یہاں خاطر خواہ نتائج حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکے۔ اس کا سب سے بڑا سبب شاید یہ ہے کہ یونیسکو کے پیمانے ان ممالک کے لیے زیادہ سود مند ثابت ہوئے ہیں جہاں کی آبادیاں بہت چھوٹی چھوٹی ہیں جب کہ وطن عزیز کا سب سے بڑا مسئلہ آبادی میں مسلسل اور بے تحاشہ اضافے کا ہے۔
ایک زمانہ وہ بھی تھا جب گدڑی میں لعل چھپے ہوا کرتے تھے، جنھیں تلاش کرکے جوہر شناس انھیں چار چاند لگا دیا کرتے تھے۔ ذرا ماضی کا رخ کرکے دیکھیے تو کیسے کیسے بڑے نام آپ کی آنکھوں کے سامنے آجائیں گے جنہوں نے پیلے اسکولوں میں تعلیم حاصل کرکے نہ صرف اپنا اور اپنے خاندان کا بلکہ اپنے پیارے پاکستان کا نام دنیا بھر میں روشن کیا۔ مگر کمر توڑ مہنگائی کے اس دور میں ممکن ہی نہیں ہے کوئی گدڑی کا لعل منہ میں سونے کا چمچہ لے کر پیدا ہونے والے مقدر کے سکندر کا مقابلہ کرسکے۔ غریب والدین کا سب سے بڑا مسئلہ چونکہ پیٹ کی آگ بجھانے کا ہوتا ہے اس لیے وہ بے چارے اپنے لعل کو اسکول میں پڑھانے کے بجائے محنت مزدوری پر لگا دیتے ہیں تاکہ روزی تو کسی طور کما کھائے مچھندر۔
ہمارے نظام تعلیم کی پستی کا عالم یہ ہے کہ بے شمار سرکاری اسکول بند ہوچکے ہیں اور جو باقی بچے ہوئے ہیں وہاں ویرانی کا عالم ہے۔ جو اچھے تعلیمی ادارے ہیں وہاں Source اور سفارش کا مسئلہ درپیش ہوتا ہے جب کہ اچھے تعلیمی اداروں کی فیس ہی اتنی ہے کہ ایک متوسط گھرانہ اس کا متحمل ہی نہیں ہوسکتا جب کہ دیگر اخراجات اس کے علاوہ ہیں۔ یہی حال اعلیٰ تعلیمی اداروں کا ہے جس میں کالج اور یونیورسٹیاں بھی شامل ہیں۔ ان میں جو سرکاری ادارے ہیں وہاں اس لیے داخلہ حاصل کرنا آسان نہیں کہ ان میں سے بعض کا معیار اچھا نہیں ہے اور جن کا معیار اطمینان بخش ہے وہاں سیٹیں محدود ہیں۔رہی بات نجی شعبے میں چلنے والے اداروں کی تو ان میں صرف امراء ہی کے بچے تعلیم حاصل کرتے ہیں۔اچھے سرکاری اداروں کا ایک اور بڑا مسئلہ فنڈز کی کمی کا ہے جو ان کی راہ میں بہت بڑی رکاوٹ ہے۔ پھر جب ان اداروں سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد یہ ہونہار اور باصلاحیت طلبہ عملی زندگی میں قدم رکھتے ہیں تو انھیں روزگار کا سنگین مسئلہ درپیش ہوتا ہے۔ اس پر ہمیں اپنے کالج کے زمانے کا ایک مشہور فلمی گانا یاد آرہا ہے جس کے بول یہ تھے:
عیش کرلو دوستو کالج کی دیواروں میں
کل سے لکھے جاؤ گے سب کے سب بے کاروں میں
ہم ایسے کئی باصلاحیت نوجوانوں کو جانتے ہیں جو اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے بعد محض سفارش نہ ہونے کے باعث ملازمت کی تلاش میں دھکے کھاتے رہے جب کہ بہت سے نالائق اور نااہل امیدوار پروانہ سفارش کے بل بوتے پر اعلیٰ ملازمتیں حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ ملک سے جوہر قابل کی منتقلی کا بنیادی سبب بھی یہی ہے جسے عام طور پر Brain drain کہا جاتا ہے۔ اس پر ہمیں کسی شاعر کا یہ شعر بے ساختہ یاد آرہا ہے:
سر پھول وہ چڑھا جو چمن سے نکل گیا
عزت اسے ملی جو وطن سے نکل گیا
ظاہر ہے کہ جس باصلاحیت نوجوان کو اندرون وطن ملازمت سے صرف 15 ہزار روپے ماہانہ مل رہے ہیں وہ 15 ہزار درہم ماہانہ کے مشاہرے پر بیرون ملک جانا کیوں نہ پسند کرے گا۔ اگر ہمیں Brain drainکے اس سلسلے کو روکنا ہے تو پھر اس کے لیے اندرون ملک ہی روزگار کے اچھے مواقع مہیا کرنے ہوں گے۔ اس کے علاوہ اپنے ملک کے تعلیمی اداروں میں فنی مہارت یعنی Skill Development کا بندوبست کرنا بھی وقت کا اہم تقاضہ ہے۔ چونکہ مطلوبہ فنڈز کی کمی کی وجہ سے ہمارے سرکاری تعلیمی ادارے یہ فریضہ بہ آسانی انجام نہیں دے سکتے، اس لیے ہمارے کارپوریٹ سیکٹر کو آگے بڑھ کر قومی خدمت کے اس کار خیر میں اپنا حصہ ڈالنا ہوگا باالفاظ دیگر اس عظیم چیلنج کا مقابلہ کرنے کے لیے پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ سے بہتر اور کوئی طریقہ کار نہیں ہے۔
اس تناظر میں یہ پیش رفت انتہائی حوصلہ افزا، خوش آیند اور لائق تحسین ہے کہ گزشتہ دنوں کراچی میں وطن عزیز کی ایک مشہور و معروف واٹر مینجمنٹ اینڈ سولر سلوشنز کی پرائیویٹ کمپنی نے ملک کی نامور جامعہ این ای ڈی یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے ساتھ مفاہمت کی ایک یادداشت (MOU) پر دستخط کیے جسے اگر صحرا میں نخلستان کی بنیاد رکھنے سے تشبیہہ دی جائے تو ذرا بھی مبالغہ نہ ہوگا۔ اس موقع پر این ای ڈی یونیورسٹی میں ایک خصوصی تقریب منعقد کی گئی جس سے خطاب کرتے ہوئے یونیورسٹی کے رجسٹرار انجینئر جاوید عزیز خان کا کہنا تھا کہ مفاہمت کی اس یادداشت سے نہ صرف ہمارے طلبہ کو روزگارکے بہتر مواقع میسر آئیں گے بلکہ اہل طالب علموں کو میرٹ کی بنیاد پر وظائف بھی دیے جائیں گے۔ اس موقع پر اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے کمپنی کے گروپ چیف آپریٹنگ آفیسر نے کہا کہ این ای ڈی یونیورسٹی جیسے عظیم تعلیمی ادارے کے ساتھ اس کارخیر میں شریک ہونا ہمارے لیے باعث مسرت اور باعث اعزاز ہے۔ انھوں نے کہا کہ ایک پاکستانی کمپنی ہونے کے ناطے اپنے انسانی سرمائے کو فروغ دینا ہمارا قومی فریضہ ہے۔
پاکستان میں کھارے پانی کو میٹھا بنانے اور استعمال شدہ پانی کو صاف و شفاف کرکے پینے کے قابل بنانے والی یہ کمپنی ملک میں انجینئرنگ کی تعلیم کے فروغ، تحقیق و معاونت، لائق اور مستحق طلبہ کو خالصتاً میرٹ کی بنیاد پر اسکالر شپس اور شعبہ انجینئرنگ میں روزگار کے عمدہ سے عمدہ مواقع فراہم کرنے کے لیے نہایت پرعزم اور کوشاں ہے۔ کمپنی کی پالیسی کے مطابق این ای ڈی یونیورسٹی کے پانچ منتخب شعبوں بشمول سول، ماحولیات، اربن اینڈ انفرا اسٹرکچر، کیمیکل اور مکینکل سے تعلق رکھنے والے لائق اور مستحق طلبہ کی مالی اعانت کے ذریعے حوصلہ افزائی کی جائے گی۔ حوصلہ افزائی کا یہ عمل وظائف کی فراہمی کے علاوہ، انٹرن شپ اور ملازمتوں کی فراہمی پر محیط ہوگا۔
توقع ہے کہ مفاہمت کی اس یادداشت کے بڑے دوررس نتائج برآمد ہوں گے۔ پہلی بات تو یہ کہ اس کے ذریعے ملک میں باصلاحیت اور اعلیٰ تعلیم و تربیت یافتہ ماہرین کی کھیپ در کھیپ پروان چڑھے گی جو نہ صرف اندرون ملک بلکہ بیرونی دنیا میں بھی ملک و قوم کا نام روشن کرے گی۔ اس کے علاوہ ہمارے یہ تربیت یافتہ ماہرین دوسرے ممالک میں جاکر وطن عزیز کے لیے قیمتی زر مبادلہ کمانے کا ایک مستقل اور موثر ذریعہ بھی بنیں گے جس کی ہمیں اشد ضرورت ہے۔
اس سلسلے میں ہمارے پڑوسی ملک بھارت کی مثال ہمارے سامنے ہے جس کے تربیت یافتہ نوجوان دنیا کے مختلف ممالک میں جاکر جاب مارکیٹ پر نہ صرف غلبہ حاصل کر رہے ہیں بلکہ اپنے ملک کے لیے بھاری مقدار میں غیر ملکی زرمبادلہ کماکما کر اپنے ملک کے خزانے کو بھی بھر رہے ہیں۔ الحمدللہ ہمارے نوجوان بھی کسی سے پیچھے نہیں ہیں۔ بات صرف اتنی سی ہے کہ انھیں تھوڑی سی حوصلہ افزائی کی ضرورت ہے۔
متذکرہ نجی کمپنی نے این ای ڈی یونیورسٹی کے ساتھ یادداشت مفاہمت پر دستخط کرکے وطن عزیز کے دیگر نجی اداروں کے لیے کمیونٹی سروس اور خدمت وطن کی ایک قابل تقلید مثال قائم کی ہے جو یقینا لائق ستائش ہے۔