نئے صوبوں کا مطالبہ
اب چند روز قبل آزاد رکن قومی اسمبلی جمشید دستی نے سرائیکی صوبے کا مسئلہ پھر اٹھایا
متحدہ قومی موومنٹ کے قائد الطاف حسین کے حالیہ نئے صوبے بنانے کے مطالبے سے نئے صوبوں کا متنازعہ معاملہ ایک بار پھر اٹھ کھڑا ہوا ہے اور سندھ کے قوم پرستوں سمیت پیپلزپارٹی کے رہنماؤں نے اس پر اپنے سخت ردعمل کا اظہار کیا ہے۔ متحدہ کے رہنما اپنے قائد کے مطالبے کی حمایت کر رہے ہیں اور بعض ٹی وی اینکرز نے اس مطالبے کو بے وقت کی راگنی قرار دیا ہے کیونکہ ملک کو اس وقت دہشت گردی کے عفریت سمیت متعدد اہم مسائل کا سامنا ہے، جن کے دوران نئے صوبوں کے قیام کا مطالبہ عجب اور بے وقت لگتا ہے۔
سرائیکی صوبے کا معاملہ 11 مئی کے عام انتخابات میں دب کر رہ گیا، مگر ختم نہیں ہوا۔ پی پی کی صوبہ سندھ کی قیادت سندھ کی تقسیم کو پہلے ہی گناہ اور ناقابل عمل قرار دے چکی ہے جب کہ پنجاب میں سرائیکی صوبے کو خود پی پی کے سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے جان بوجھ کر ہوا دی تھی جسے سابق صدر آصف علی زرداری کی بھی مکمل حمایت حاصل تھی۔ سرائیکی صوبے کے مطالبے میں پیپلزپارٹی کے سیاسی مفادات پنہاں تھے کیونکہ سرائیکی بیلٹ سے پی پی کو باقی پنجاب کے مقابلے میں زیادہ کامیابی 2008ء کے انتخابات میں ملی تھی اور صدر زرداری پنجاب میں گورنر راج کے نفاذ کے باوجود اپنی حکومت بنوانے میں ناکام رہے تھے اور (ق) لیگ بھی پی پی کے ساتھ تھی، مگر یہ دونوں پنجاب اسمبلی سے سرائیکی صوبے کے قیام کے لیے قرارداد منظور نہیں کرواسکے تھے اور مسلم لیگ (ن) نے اس نازک وقت میں پی پی اور (ق) لیگ کی کوشش کو ناکام بنادیا اور بھاولپور جنوبی پنجاب صوبوں کی قرارداد منظور کروا کر سرائیکی بیلٹ کو بھی تقسیم کروا دیا تھا اور تخت لاہور کے خلاف جو فضا بن گئی تھی وہ بھی 2013 کے عام انتخابات کے نتائج میں دم توڑ گئی۔
اب چند روز قبل آزاد رکن قومی اسمبلی جمشید دستی نے سرائیکی صوبے کا مسئلہ پھر اٹھایا اور جواب میں کے پی کے میں ہزارہ ڈویژن کے تمام ارکان قومی اسمبلی نے وفاقی وزیر مذہبی امور اور (ن) لیگ کے رہنما کی سربراہی میں ایک اجلاس منعقد کیا تھا، جس میں ہزارہ ڈویژن سے تعلق رکھنے والے تمام سیاسی پارٹیوں کے ارکان اسمبلی نے کے پی کے اسمبلی سے ہزارہ ڈویژن کو ہزارہ صوبہ بنانے کے لیے قرارداد منظور کرانے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔ اے این پی ہزارہ ڈویژن کو صوبہ بنانے کی سخت مخالف ہے، جواب میں اس نے اس مطالبے کو کے پی کے کے خلاف سازش قرار دیتے ہوئے اسلام آباد سمیت پنجاب کے بعض علاقوں کو کے پی کے میں شامل کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ سندھ کے قوم پرست اگرچہ سرائیکی صوبے کے حامی ہیں مگر وہ دور اندیشی سے اس کی کھل کر حمایت اس لیے نہیں کرتے کہ اگر سرائیکی صوبہ بن گیا تو سندھ میں بھی ایک نئے صوبے کی تحریک جنم لے سکتی ہے۔
بلوچستان میں بھی اگرچہ پشتون و پختون تنازعہ موجود ہے اور علاقے بھی تقسیم ہیں مگر وہاں الگ صوبے کی کوئی موثر تحریک نہیں ہے۔ سرائیکی اور ہزارہ صوبے کے مطالبات دیگر صوبوں میں پہلے ہی متنازعہ ہیں اور متحدہ ان دونوں صوبوں کے قیام کی حمایت کرتی ہے اور (ن) لیگ پہلے ہی سندھ کی تقسیم کی مخالفت کا اعلان کرچکی ہے اور وہ الطاف حسین کے نئے صوبوں کے قیام کے مطالبے کی حمایت سندھ کے لیے بالکل نہیں کرے گی کیونکہ اس سے پنجاب میں نئے صوبوں کی بات دور تک جاسکتی ہے۔
غالباً 1988 میں اس وقت کے فوجی صدر جنرل محمد ضیا الحق شہید نے بھی ملک میں صوبوں کی کم تعداد پر غور کیا تھا کیونکہ اس وقت بھی بھارت، افغانستان، ایران اور دیگر ملکوں میں صوبوں کی تعداد پاکستان سے کہیں زیادہ تھی، جو اب 25 سال میں مزید بڑھ چکی ہے اور 66 سال میں ایک بڑا صوبہ علیحدہ ہوجانے کے باوجود پاکستان میں صرف چار صوبے ہیں، اس لیے جنرل ضیا نے ملک میں موجود اس وقت کے 18 ڈویژنوں کو انتظامی لحاظ سے صوبوں کا درجہ دینے کا سوچا تھا اور اندرون خانہ حکومتی سطح پر اس سلسلے میں اہم سیاسی شخصیات سے رائے طلب کی گئی تھی۔ سابق صدر کو قدرت نے اپنے منصوبے پر عمل کی مہلت نہ دی اور ان کے فضائی حادثے کے بعد محترمہ بے نظیربھٹو کی حکومت آگئی اور صوبوں کا معاملہ دب گیا۔
1993 کے عام انتخابات میں محترمہ نے ضلعی گورنروں کے تقرر کی بات کی تھی مگر وہ اپنے دونوں ادوار میں ملک میں بلدیاتی انتخابات تک نہ کراسکیں اور عوام کو نچلی سطح پر اپنے نمایندے منتخب کرنیکا موقع نہ ملا۔ جس کے بعد 2001 میں فوجی صدر جنرل پرویز مشرف نے ملک کو بااختیار ضلعی نظام دیا جس میں بااختیار ضلعی حکومتیں قائم ہوئیں اور دور آمریت میں صوبوں کا مسئلہ دبا رہا، جس کو پی پی کے وزیراعظم گیلانی نے سیاسی مفاد کے لیے دوبارہ زندہ کیا۔ سرائیکی صوبے کے بعد بھاولپور صوبے کی بحالی اور ہزارہ صوبے کے مطالبات سامنے آئے۔
صوبوں کا مطالبہ اس وقت زور پکڑتا ہے جب موجودہ صوبوں میں سے کسی کے ساتھ زیادتیاں اور ناانصافیاں ہوتی ہیں۔ وہاں کی اکثریتی آبادی کو تعمیر و ترقی اور سرکاری ملازمتوں میں جان بوجھ کر نظرانداز کیا جاتا ہے تو وہاں پسماندگی اور دیگر علاقوں میں ترقی دیکھ کر اپنے ساتھ امتیازی سلوک کا احساس بڑھتا ہے۔ صوبوں کی موجودہ صورت حال کو دیکھا جائے تو واضح ہوجاتا ہے کہ صوبائی دارالحکومت بہت دور ہیں، جہاں دور دراز کے لوگوں کا پہنچنا ممکن نہیں تو مشکل ضرور ہوتا ہے۔ لوگ اپنے کاموں کے لیے وہاں آتے ہیں تو انھیں سیکیورٹی کے نام پر صوبائی دفاتر میں نہیں جانے دیا جاتا۔ اگر داخلہ سلپ مل جائے تو وزیر اور سیکریٹری نہیں ملتے۔ صوبائی دفاتر میں سفارش و رشوت کے بغیر صاحب لوگوں سے نہیں ملا جاسکتا اور نامراد ہوکر واپس آنا پڑتا ہے۔
کے پی کے اور پنجاب میں کیوں ہزارہ اور سرائیکی صوبوں کا مطالبہ ہورہا ہے؟ سندھ میں متحدہ کیوں صوبے بڑھانے کی بات کرنے لگی ہے؟ ان مطالبات کا پس منظر کسی سے چھپا ہوا نہیں ہے۔کسی رہنما کو ادراک نہیں کہ ملک ایک طوفان میں گھرا ہوا ہے، دہشت گردی ملک کی معیشت کو چاٹ رہی ہے۔ بیروزگاری اور مہنگائی نے عوام کا جینا حرام کردیا ہے۔ ایسے میں متنازعہ مسائل کو ہوا دینے سے قوم مزید تقسیم ہوگی ،اور اضطراب اور بھی شدید ہوگا۔ نئے صوبے ضرور بننے چاہئیں مگر ان کی بنیاد انتظامی ہو ۔ اور تمام سیاسی اکائیاں اس مسئلے کے حل میں ایک ساتھ کھڑی ہوں۔ اے این پی اور پیپلزپارٹی سرائیکی صوبے کی تو حامی ہیں مگر اے این پی کو ہزارہ ڈویژن اور مسلم لیگ (ن) کو سرائیکی بیلٹ کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں پر غور کرنا چاہیے۔ سیاست دانوں کو ادراک کرنا چاہیے کہ پاکستان میں نئے صوبوں کا مطالبہ متنازعہ ہوچکا ہے اور ان میں شدت آنے سے حالات مزید خراب ہوسکتے ہیں، اس لیے سب کو مطالبات کی وجوہات پر ٹھنڈے دل ودماغ سے غور کرنا ہوگا۔ جوش نہیں ہوش مندی کی ضرورت ہے۔