اپنا گھر کسے نصیب
بہر کیف یہ کاروبار کراچی شہر میں عام تھا، اس کے ساتھ ساتھ دو اور کام بھی راقم کے مشاہدے میں آئے۔
آج اگر آپ کو کوئی شخص یہ کہے کہ کراچی شہر کے مہنگے ترین علاقے گلشن اقبال میں 120گز کا پلاٹ 15 روپے کی پرچی میں حاصل کریں تو یقینا آپ اس شخص کو پاگل سمجھیںگے مگر حقیقت حال یہی ہے کہ کراچی شہر میں یہ پلاٹ15روپے ہی میں فروخت ہوئے ہیں تاہم یہ آج کا نہیں بلکہ ضیاء الحق کی حکومت کا دور تھا۔ اس وقت کراچی شہر میں کچی آبادیاں بسانے اور پھر ووٹ حاصل کرنے کے لیے انھیں لیز (پکا) کرانے کا دھندہ عروج پر تھا۔ مجھے یاد ہے کہ میں پرائمری اسکول کا طالب علم تھا اور اپنے ایک عزیز کے ہمراہ گلشن اقبال کراچی کے علاقے حسن اسکوائر کے قریب ایک خان صاحب کے حجرے میں پہنچا تھا۔ یہاں یہ صاحب بڑی پتیلی میں چائے بنارہے تھے اور پلاٹ خریدنے کے لیے آنے والوں کو چائے کے ساتھ 15روپے کی پرچی دے رہے تھے۔ ان کا کہناتھا کہ ابھی تو 15روپے میں پرچی مل رہی ہے لیکن جب زمین پر قبضہ ہوجائے گا اور پلاٹ بننا شروع ہوجائیںگے تو پھر 150روپے میں بھی پرچی نہیں ملے گی۔
اس زمانے میں ایک ہمارے محلے دار بھی تھے انھوںنے بھی کچی آبادیاں قائم کرنے اور پلاٹ فروخت کرنے کا کاروبار کیا ہوا تھا ان کا دعویٰ تھا کہ وہ پکا کام کرتے ہیں یعنی غیر قانونی زمین پر قبضہ کے ساتھ فوراً ہی مسجد بھی تعمیر کردیتے ہیں تاکہ حکومت کی طرف سے اگر کارروائی ہو بھی تو مسجد کی وجہ سے رکاوٹ سامنے آجائے۔
بہر کیف یہ کاروبار کراچی شہر میں عام تھا، اس کے ساتھ ساتھ دو اور کام بھی راقم کے مشاہدے میں آئے۔ ایک یہ کہ اسٹیٹ ایجنسی والوں نے اپنی لابی وسیع کرلی تھی جس سے شہر میں پراپرٹی کی قیمتوں پر ان کا کنٹرول ہوگیاتھا۔ دوسرے کچھ ٹھیکیداروں نے پلاٹ خرید خرید کر انھیں تعمیر کرکے مہنگے داموں فروخت کرنا شروع کردیا۔ ہمارے ایک جاننے والے جو کسی دوسرے شہر سے آئے تھے پیسہ ان کے پاس بہت تھا وہ چونکہ خود ٹھیکیدار تھے اور دیہی علاقوں کے سستے داموں کام کرنے والے مزدور ان کے پاس تھے لہٰذا انھوںنے بیک وقت سستے پلاٹ لے کر مکانات بنانا شروع کیے اور مکانات مکمل ہونے کے بعد اس کی ویلیو سے زیادہ قیمت مقرر کرکے فروخت کے لیے چھوڑدیے۔ ان کے اس عمل میں اسٹیٹ ایجنٹ بھی شامل ہوتے گئے۔
یہ عمل شہر کراچی کے بہت سے علاقوں میں جاری تھا۔ لیکن راقم کے مشاہدے میں نارتھ اور نیو کراچی کے علاقے خاص کر رہے کیوںکہ یہاں راقم کی رہائش بھی تھی۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق اس کھیل سے ایک مخصوص طبقہ پیسے انویسٹ کرکے دن رات تو کمارہاتھا مگر زمین اور مکانات کی قیمتوں میں کئی گنا اضافہ مصنوعی طورپر ہوچکا تھا۔ کیوںکہ ایک اسٹیٹ ایجنٹ بھی علاقے میں چھوٹی چھوٹی کئی اسٹیٹ ایجنسیاں کھولے بیٹھا تھا جن کا مقصد خریدار کو گھیرنا تھا۔ ظاہر ہے کہ جب ایک خریدار دن بھر میں چار پانچ اسٹیٹ ایجنسیوں پر جاکر پراپرٹی کی قیمت معلوم کرے گا تو اسے کیا معلوم کہ یہ ایجنسیاں ایک ہی ڈیلر یا گروپ کی ہیں جو قیمتیں اپنی پسند سے مقرر کررہے ہیں۔ عام آدمی سمجھتاہے کہ شاید مارکیٹ ریٹ یہی چل رہا ہے حالانکہ یہ ڈیلر کے الفاظوں اور جال کا گورکھ دھندہ ہوتاہے۔
مغرب کی نقالی میں عوام کو لوٹنے کا ایک اور سلسلہ فلیٹس کے رہائشی منصوبوں کی شکل میں نکالا گیا۔ ترقی یافتہ ممالک میں فلیٹس کے تمام رہائش منصوبوں میں ہوا اور روشنی کے گزر کے ساتھ ساتھ دیگر تمام سہولیات بھی فراہم کی جاتی ہیں مثلاً دو بلاکس کی تعمیر کے درمیان مناسب فاصلہ یا ایمرجنسی کے لیے راستہ اور ہر رہائشی یونٹ کے اندر تازہ ہوا کے لیے راستہ۔ ابتدا میں تو یہاں رہائشی منصوبوں میں اس بات کا خیال رکھا گیا مگر اس کے بعد مڈل اور لوئر مڈل کلاس علاقوں میں تو فلیٹس کے نام پر کبوتر کے دڑبے نما رہائشی یونٹ بنادیے گئے اور رہائشی منصوبوں کے وقت کیے گئے وعدوں کو پامال کرنا معمول کی بات بن گئی۔
مندرجہ بالا حقائق کا ایک گمبھیر نقشہ اس شہر میں موجود ہے جس کی ایک ہلکی سی جھلک یہاں بیان کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ وہ شہر جہاں کبھی ٹرامیں چلتی تھیں، بندر روڈ سے کیماڑی گھوڑا گاڑی چلتی تھیں اور یہ شہر اس قدر مہذب تھا کہ شہری بسوں میں سوار ہونے کے لیے بس اسٹاپ پر قطار بناکر کھڑے ہوتے تھے اور یہ کوئی پچھلی صدی کی بات نہیں بلکہ ضیاء الحق کے دور کی بات ہے۔
ٹھیکیداروں، اسٹیٹ ایجنٹس کی اجارہ داری اور کچی آبادیوں کو قائم کرکے ووٹ بینک اور دولت کمانے کے کلچر نے اس شہر کو سب سے زیادہ نقصان پہنچایا۔ کیوںکہ ان اعمال سے رہائشی علاقے بغیر کسی منصوبہ بندی اور سوکس سہولیات کے بغیر بڑھتے گئے۔ نتیجتاً گیس، پانی، بجلی اور دیگر شہری مسائل بھی ایسے بڑھے کہ اب ان پر قابو پانا بھی مشکل ہوگیاہے۔ اس منظر نامے میں ایک نقصان یہ ہوا کہ آج مڈل کلاس طبقہ بھی اس شہر میں پلاٹ یا مکان کے حصول کا خواب تو دیکھ سکتاہے لیکن اس کی تعبیر پا نہیں سکتا۔
ملازمت پیشہ اور ایماندار ملازم تو اپنی رہائش کا آج خواب بھی نہیں دیکھ سکتا کیوںکہ آج دو کمروں کا فلیٹ بھی کسی نئے تعمیراتی منصوبے میں (جس میں ماہوار قسط کی رقم جمع کرانا ہوتی ہے) 20لاکھ سے کم نظر نہیں آتا۔ مکانات تو اس سے بھی کئی گنا قیمت میں آگے ہیں۔
اب اصل سوال یہ ہے کہ عوام کو ذاتی رہائش کی سہولت کی فراہمی کس طرح فراہم کی جائے؟ اس سلسلے میں مختلف سرکاری اداروں اور گورنر سندھ کی جانب سے بھی مختلف اسکیمیں منظر عام پر آتی رہی ہیں ضرورت اس امر کی ہے کہ اس کے لیے نادرا کے ریکارڈ سے مدد لی جائے تو سب سے پہلے جو واقعی کرائے کے مکانات میں رہتے ہیں انھیں تمام اسکیموں میں ترجیحی بنیاد پر شامل کیاجائے۔ وزیراعظم نواز شریف کی حکومت بھی سستے رہائشی منصوبوں کی بات کررہی ہے تاہم اصل عوامی خدمت اس وقت ہوگی جب نادرا کے ریکارڈ سے چھان بین کرکے ان لوگوں کو ذاتی رہائش کے لیے منتخب کیاجائے جو واقعی کرائے کے مکانات میں رہتے ہیں۔ یہ انتہائی اہم اور بنیادی مسئلہ ہے۔ ارباب بست و کشاد اس پر توجہ دیں۔
اس زمانے میں ایک ہمارے محلے دار بھی تھے انھوںنے بھی کچی آبادیاں قائم کرنے اور پلاٹ فروخت کرنے کا کاروبار کیا ہوا تھا ان کا دعویٰ تھا کہ وہ پکا کام کرتے ہیں یعنی غیر قانونی زمین پر قبضہ کے ساتھ فوراً ہی مسجد بھی تعمیر کردیتے ہیں تاکہ حکومت کی طرف سے اگر کارروائی ہو بھی تو مسجد کی وجہ سے رکاوٹ سامنے آجائے۔
بہر کیف یہ کاروبار کراچی شہر میں عام تھا، اس کے ساتھ ساتھ دو اور کام بھی راقم کے مشاہدے میں آئے۔ ایک یہ کہ اسٹیٹ ایجنسی والوں نے اپنی لابی وسیع کرلی تھی جس سے شہر میں پراپرٹی کی قیمتوں پر ان کا کنٹرول ہوگیاتھا۔ دوسرے کچھ ٹھیکیداروں نے پلاٹ خرید خرید کر انھیں تعمیر کرکے مہنگے داموں فروخت کرنا شروع کردیا۔ ہمارے ایک جاننے والے جو کسی دوسرے شہر سے آئے تھے پیسہ ان کے پاس بہت تھا وہ چونکہ خود ٹھیکیدار تھے اور دیہی علاقوں کے سستے داموں کام کرنے والے مزدور ان کے پاس تھے لہٰذا انھوںنے بیک وقت سستے پلاٹ لے کر مکانات بنانا شروع کیے اور مکانات مکمل ہونے کے بعد اس کی ویلیو سے زیادہ قیمت مقرر کرکے فروخت کے لیے چھوڑدیے۔ ان کے اس عمل میں اسٹیٹ ایجنٹ بھی شامل ہوتے گئے۔
یہ عمل شہر کراچی کے بہت سے علاقوں میں جاری تھا۔ لیکن راقم کے مشاہدے میں نارتھ اور نیو کراچی کے علاقے خاص کر رہے کیوںکہ یہاں راقم کی رہائش بھی تھی۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق اس کھیل سے ایک مخصوص طبقہ پیسے انویسٹ کرکے دن رات تو کمارہاتھا مگر زمین اور مکانات کی قیمتوں میں کئی گنا اضافہ مصنوعی طورپر ہوچکا تھا۔ کیوںکہ ایک اسٹیٹ ایجنٹ بھی علاقے میں چھوٹی چھوٹی کئی اسٹیٹ ایجنسیاں کھولے بیٹھا تھا جن کا مقصد خریدار کو گھیرنا تھا۔ ظاہر ہے کہ جب ایک خریدار دن بھر میں چار پانچ اسٹیٹ ایجنسیوں پر جاکر پراپرٹی کی قیمت معلوم کرے گا تو اسے کیا معلوم کہ یہ ایجنسیاں ایک ہی ڈیلر یا گروپ کی ہیں جو قیمتیں اپنی پسند سے مقرر کررہے ہیں۔ عام آدمی سمجھتاہے کہ شاید مارکیٹ ریٹ یہی چل رہا ہے حالانکہ یہ ڈیلر کے الفاظوں اور جال کا گورکھ دھندہ ہوتاہے۔
مغرب کی نقالی میں عوام کو لوٹنے کا ایک اور سلسلہ فلیٹس کے رہائشی منصوبوں کی شکل میں نکالا گیا۔ ترقی یافتہ ممالک میں فلیٹس کے تمام رہائش منصوبوں میں ہوا اور روشنی کے گزر کے ساتھ ساتھ دیگر تمام سہولیات بھی فراہم کی جاتی ہیں مثلاً دو بلاکس کی تعمیر کے درمیان مناسب فاصلہ یا ایمرجنسی کے لیے راستہ اور ہر رہائشی یونٹ کے اندر تازہ ہوا کے لیے راستہ۔ ابتدا میں تو یہاں رہائشی منصوبوں میں اس بات کا خیال رکھا گیا مگر اس کے بعد مڈل اور لوئر مڈل کلاس علاقوں میں تو فلیٹس کے نام پر کبوتر کے دڑبے نما رہائشی یونٹ بنادیے گئے اور رہائشی منصوبوں کے وقت کیے گئے وعدوں کو پامال کرنا معمول کی بات بن گئی۔
مندرجہ بالا حقائق کا ایک گمبھیر نقشہ اس شہر میں موجود ہے جس کی ایک ہلکی سی جھلک یہاں بیان کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ وہ شہر جہاں کبھی ٹرامیں چلتی تھیں، بندر روڈ سے کیماڑی گھوڑا گاڑی چلتی تھیں اور یہ شہر اس قدر مہذب تھا کہ شہری بسوں میں سوار ہونے کے لیے بس اسٹاپ پر قطار بناکر کھڑے ہوتے تھے اور یہ کوئی پچھلی صدی کی بات نہیں بلکہ ضیاء الحق کے دور کی بات ہے۔
ٹھیکیداروں، اسٹیٹ ایجنٹس کی اجارہ داری اور کچی آبادیوں کو قائم کرکے ووٹ بینک اور دولت کمانے کے کلچر نے اس شہر کو سب سے زیادہ نقصان پہنچایا۔ کیوںکہ ان اعمال سے رہائشی علاقے بغیر کسی منصوبہ بندی اور سوکس سہولیات کے بغیر بڑھتے گئے۔ نتیجتاً گیس، پانی، بجلی اور دیگر شہری مسائل بھی ایسے بڑھے کہ اب ان پر قابو پانا بھی مشکل ہوگیاہے۔ اس منظر نامے میں ایک نقصان یہ ہوا کہ آج مڈل کلاس طبقہ بھی اس شہر میں پلاٹ یا مکان کے حصول کا خواب تو دیکھ سکتاہے لیکن اس کی تعبیر پا نہیں سکتا۔
ملازمت پیشہ اور ایماندار ملازم تو اپنی رہائش کا آج خواب بھی نہیں دیکھ سکتا کیوںکہ آج دو کمروں کا فلیٹ بھی کسی نئے تعمیراتی منصوبے میں (جس میں ماہوار قسط کی رقم جمع کرانا ہوتی ہے) 20لاکھ سے کم نظر نہیں آتا۔ مکانات تو اس سے بھی کئی گنا قیمت میں آگے ہیں۔
اب اصل سوال یہ ہے کہ عوام کو ذاتی رہائش کی سہولت کی فراہمی کس طرح فراہم کی جائے؟ اس سلسلے میں مختلف سرکاری اداروں اور گورنر سندھ کی جانب سے بھی مختلف اسکیمیں منظر عام پر آتی رہی ہیں ضرورت اس امر کی ہے کہ اس کے لیے نادرا کے ریکارڈ سے مدد لی جائے تو سب سے پہلے جو واقعی کرائے کے مکانات میں رہتے ہیں انھیں تمام اسکیموں میں ترجیحی بنیاد پر شامل کیاجائے۔ وزیراعظم نواز شریف کی حکومت بھی سستے رہائشی منصوبوں کی بات کررہی ہے تاہم اصل عوامی خدمت اس وقت ہوگی جب نادرا کے ریکارڈ سے چھان بین کرکے ان لوگوں کو ذاتی رہائش کے لیے منتخب کیاجائے جو واقعی کرائے کے مکانات میں رہتے ہیں۔ یہ انتہائی اہم اور بنیادی مسئلہ ہے۔ ارباب بست و کشاد اس پر توجہ دیں۔