متروک ہوتے نظریات

کوئی بھی قوم کچھ نظریات اور اقدار پر کھڑی ہوتی ہے۔


احمد خان September 13, 2013

ISLAMABAD: غیر مسلم ملک کے ایک حساس ترین ادارے کے سربراہ نے اپنی حکومت کو کہا ہے کہ اس ادارے سے خواتین اہل کاروں کی ''چھٹی'' کر دی جائے۔ متعلقہ ادارے کے سربراہ سے جب وجہ پوچھی گئی تو انھوں نے یہ وجہ بیان کی کہ مرد اہل کاروں کی توجہ اپنے اصل فرض سے بھٹک کر ''دوسری جانب'' مبذول ہوتی ہے، جس کی وجہ سے ادارے کے پیشہ ورانہ فرائض پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ اسی سے ملتا جلتا واقعہ اپنے دیس کا بھی سنتے جائیے۔ نوے کی دہائی میں سرکاری ریڈیو کا ایک پروگرام مقبولیت کے بام عروج پر تھا۔ پروگرام کی مقبولیت کا اندازہ اس سے لگائیے کہ ڈاکٹر قدیر خان جیسی ممتاز شخصیت اس پروگرام کی مستقل سامع تھی۔ اسی پروگرام کے پروڈیوسر کو کسی نے خط لکھا کہ ''اب ریڈیو پروگرام کی جان چھوڑ دیں۔'' معروف براڈ کاسٹر کا جواب تھا ''ٹھیک ہے، ہم چلیں جائیں گے اور جلد مائیک پر ایسے لوگ آجائیں گے جو سراپا تھرکتے جسم ہوں گے۔''

کوئی بھی قوم کچھ نظریات اور اقدار پر کھڑی ہوتی ہے۔ یہ نظریات اس قوم کو مہذب دنیا میں نہ صرف کامیابی سے کھڑا رکھتے ہیں بلکہ اس قوم کو جوڑے رکھنے میں بھی آکسیجن کا کام دیتے ہیں۔ قوم میں نظریات کی فصل ''ماں'' بویا کرتی ہے اور ان نظریات کی ریکی، ان نظریات کی ترویج اور آبیاری کا کام استاد کرتا ہے۔ گویا نظریات اور اقدار کی آبیاری میں ان دو ہستیوں کو کمال کا درجہ حاصل ہوتا ہے۔ لیکن ہم ان دونوں محترم ہستیوں کے ساتھ بہت برا سلوک کر رہے ہیں۔ وہ ماں جو ''بسم اﷲ'' پڑھ کر اپنے بچے کو دودھ پلاتی تھی، وہ ماں جو اپنے بچے کو بسم اللہ پڑھے بغیر شکم میں نوالہ ڈالنے پر ٹوکا کرتی تھی، اس ماں کو ہم نے مینا بازار، بدیسی فلموں، ڈراموں اور ''ملکہ حسن'' بننے کے چکروں میں ڈال دیا ہے۔ سو نظریات کی پہلی گود کو ہم خود اجاڑنے پر تل گئے۔ ماں کے بعد نظریات کا ''منجن'' بیچنے کا کام معاشرے کے استاد کے ذمے تھا۔ یہی استاد طلبا کی یوں کردار سازی کرتا کہ اس ''علمی پوت'' سے قوم کو غازی، شہید، افسر، جوان رعنا، فلسفی، شاعر، استاد اور اچھے شہری میسر ہوتے۔

یوں یہ گرم اور تازہ خون جب قوم کے خون میں شامل ہوتا تو معاشرے کی بہتری اور ملک و قوم کی ترقی کے آثار قوی ہوجاتے۔ مگر غیروں کی سنی سنائی پر اور ان کے مفادات کی خاطر اب حکومتیں اور مغربی زر کی پروردہ این جی اوز ''استاد'' کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑے ہیں۔ مغربی ماحول کے اسیر سابق آمر مشرف کے دور میں بوائز سرکاری اسکولوں میں خواتین اساتذہ کی بھرتی اور پھر مغرب کی امداد پر وجود میں آنے والی ڈی ایس ڈی کی بدولت سرکاری اسکولوں اور پاکستانی نظام تعلیم میں جس طرح سے مادر پدر آزادی کو راسخ کرنے کی جو کوششیں ہنوز ہورہی ہیں، ان کے مضر اثرات ہر گزرتے دن کے ساتھ معاشرے میں آشکار ہو رہے ہیں۔ مشرف آمر تھا اور اس کی گود میں ایسی جمہوریت تھی جسے آمر کی ''کٹھ پتلی'' کا درجہ حاصل تھا۔ مگر ن لیگ جو مشرقی نظریات کی پرچار کرنے کی دعوے دار سیاسی جماعت ہے، اس کے عہد حکومت میں مشرف کی روشن خیال پالیسیوں کی برابر ترقی اور ترویج عجیب ''معنیٰ'' رکھتی ہے۔

کیا یہ ملک اس لیے حاصل کیا گیا تھا کہ اس میں مغرب کے اقدار کو راسخ کیا جائے گا؟ کیا مادر پدر آزادی اسلامی اقدار سے ''لگا'' کھاتی ہے؟ کیا ہمارے مذہبی اور معاشرتی اقدار اس امر کی اجازت دیتے ہیں ۔ نصاب میں روشن خیالی، چلن میں روشن خیالی، درس و تدریس میں مغربی اقدار کی پرچار؟ کیا مسلمان کہلوانے والے معاشرے میں ان ''بدعات'' کی اجازت دی جاسکتی ہے؟ اب جمہوری اور خالص سیاسی حکومت کے دور میں بھی تعلیم کے شعبے میں سابق دور کی سیاہ پالیسیاں اسی طر ح چل رہی ہیں بلکہ موجودہ حکومت کے ارباب اختیار مغرب کی آشیرباد حاصل کرنے کے لیے کچھ زیادہ تیزی سے ان پالیسیوں کو نافذ کرنے کے درپے ہیں۔ حکومت سے گلہ گزاری صرف وقت کی ضیاع کاری ہے۔

اصل نکتہ قوم پر آکر اٹکتا ہے۔ قوم اپنے نظریاتی اور سستے تعلیم کے حامل نظام اور تعلیمی اداروں کی بقا، احیا اور فلاح کے لیے سیسہ پلائی دیوار بنے۔ قوم اس حقیقت سے باخبر ہے کہ حکومت انھی سرکاری اسکولوں اورکالجوں میں اندرون خانہ بھاری فیسوں کے اطلاق کی راہ پر گامزن ہے؟ کیا قوم اس راز سے آگاہ ہے کہ حیلے بہانوں سے یہ سرکاری اسکول ان ''مغرب زدہ'' افراد اور این جی اوز کے حوالے کرنے کا پروگرام طے ہے جو والدین سے نہ صرف بھاری بھرکم فیس وصول کریں گے بلکہ والدین ہی کے خون پسینے پر ان کیبچوں کو مغربی گمراہیوں میں دھکیلیں گے؟ کل تک جن اداروں میں نظریات کی تبلیغ اور نظریات کا ''منجن'' بیچا جاتا رہا ہے اب ان سرکاری تعلیمی اداروں میں ڈسکو ڈانس، مرد و خواتین کا باہمی اختلاط، ماڈل اور فلمی اداکارائوں والا ماحول پیدا کر نے کی کو شش کی جارہی ہے۔

اس قوم کی جڑوں کو نظریات اور مشرقی اقدار سے دانستہ طور پر کاٹنے کی حکومتی اور مغربی کوشش کو ناکام بنانے کے لیے قوم کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ مشرف نے سرکاری تعلیمی اداروں میں مغربی آزادی کی جو بنیاد رکھی اسے ختم کرنے کے لیے اگر حکومت وقت کچھ نہیں کر رہی ہے تو قوم کو خود اپنے نظریات کی آبیاری، اسلامی اور مشرقی اقدار کی احیا کے لیے اٹھ کھڑا ہونا ہوگا۔ ورنہ کچھ سال کے بعد اس قوم کے سپوتوں کو نہ 23 مارچ کے بارے میں کچھ علم ہوگا، نہ 14 اگست کی ''تاریخ'' سے انھیں آگاہی حاصل ہوگی، نہ ماں باپ کے ادب و احترام کے بارے میں انھیں کوئی آشنائی ہوگی۔ اگر نئی نسل کو کچھ پتا ہوگا تو صرف اس بات کا جو یہاں کہتے اور لکھتے ہوئے بھی قلم کو شرم آتی ہے۔ نونہالوں کے والدین کو اپنے تعلیمی نظام کو بچانے کے لیے آگے آنا ہوگا، ورنہ یہاں تو اولڈ ہومز بھی نہیں کہ جس میں کل کلاں آج کے والدین پناہ حاصل کرسکیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں