بحرین اور اسرائیل قربت کا مستقبل کیا ہوگا
بحرین کے ساتھ اسرائیل کے بڑھتے ہوئے تعلقات غرب ایشیاء کی ریاستوں اور مسلمانوں کےلیے تشویش کا باعث ہیں
گزشتہ ماہ بحرین کے دارالحکومت منامہ میں امریکی و اسرائیلی تیار کردہ پلان یعنی صدی کی ڈیل کے عنوان سے ہونے والی کانفرنس اور ورکشاپ کے بعد عرب دنیا سمیت مسلم دنیا اور بالخصوص فلسطین میں یہ سوال شدت سے اٹھایا جارہا ہے کہ صہیونیوں کی غاصب اور جعلی ریاست اسرائیل کے ساتھ بڑھتے ہوئے عرب حکمرانوں کے تعلقات کس کروٹ بیٹھیں گے؟ ان تعلقات کے پس پردہ اور عیاں مقاصد پر بھی عرب دنیا کے سیاست مدار پر سوالات اٹھا رہے ہیں اور شدید مضطرب ہیں۔
امریکا و اسرائیل کی جانب سے مغربی ایشیائی ممالک کو کنٹرول کرنے اور خاص طور پر فلسطین کا سودا کرنے کے عنوان سے جس کانفرنس کو ترتیب دیا گیا تھا، اس کے انعقاد کےلیے امریکا نے نہ تو مغربی ممالک اور نہ ہی یورپی ممالک میں سے کسی کا انتخاب کیا، بلکہ اس کانفرنس یعنی صدی کی ڈیل کو عملی جامہ پہنانے کےلیے کانفرنس کو عرب دنیا کی ایک ایسی ریاست میں منعقد کیا گیا، جس کا خود اسرائیل کے ساتھ رسمی طور پر کوئی تعلق نہیں ہے۔ تاہم اس پلان کے تحت ایک طرف جہاں فلسطین کا سودا بحرین میں بیٹھ کر کرنے کی کوشش کی گئی، وہاں بحرین اور اس جیسی اور چھوٹی چھوٹی عرب خلیجی ریاستوں کو صہیونیوں کی جعلی ریاست اسرائیل کے قریب لانا بھی اہم ترین مقاصد میں سے ایک تھا۔
بہرحال منامہ کانفرنس اور اس میں پیش کی جانے والی صدی کی ڈیل دونوں ہی بری طرح اس لیے بھی ناکام ہوگئیں کیونکہ مغربی ایشیاء کے متعدد عرب ممالک نے اس میں شرکت کرنے سے انکار کرکے اسے مسترد کیا۔ تاہم بحرین کے ساتھ اسرائیل کے بڑھتے ہوئے تعلقات نہ صرف غرب ایشیاء کی ریاستوں کےلیے تشویش کا باعث ہیں بلکہ مسلم دنیا میں بسنے والے کروڑوں مسلمانوں کو بھی ایسے معاملات پر شدید تشویش لاحق ہے۔
فلسطین بھر میں منامہ کانفرنس کے آغاز سے پہلے ہی بحرین اور اسرائیل سمیت امریکا کے شیطانی منصوبوں کے خلاف احتجاجی مظاہرے جاری تھے۔ البتہ ان مظاہروں میں اس وقت شدت دیکھنے میں آئی، جب بحرین کے وزیر خارجہ خالد بن حمد بن عیسی آل خلیفہ نے اسرائیل سے دوستانہ تعلقات کے فروغ پر مبنی انتہائی حیرت انگیز بیانات دیے۔ وہ اسرائیل کے ٹی وی چینل نمبر 10 سے بات چیت کر رہے تھے۔ انہوں نے کہا: ''ہمارا عقیدہ ہے کہ اسرائیل باقی رہے گا اور ہم اس سے بہتر تعلقات استوار کرنا چاہتے ہیں۔ ہم اسرائیل سے صلح کرنا چاہتے ہیں۔''
بحرین کے وزیر خارجہ نے اس سوال کے جواب میں کہ ایک عرب حکمران کا اسرائیلی ٹی وی چینل سے انٹرویو کوئی معمولی بات نہیں، کہا: ''یہ کام بہت عرصہ پہلے ہوجانا چاہیے تھا۔ خود سے اختلاف رکھنے والوں سے بات چیت ہمیشہ تناؤ میں کمی کا باعث بنتی ہے۔'' خالد بن حمد بن عیسی آل خلیفہ کے اس انٹرویو کے خلاف شدید ردعمل سامنے آیا اور فلسطین کی تما م اکائیوں نے بحرینی وزیر خارجہ اور حکومت کے اسرائیل کے ساتھ روابط اور اسرائیل کی حمایت میں بیانات کو فلسطین کش اقدامات قرار دیتے ہوئے فلسطینیوں اور پوری مسلم امہ کی پیٹھ میں خنجر گھونپنے کے مترادف قرار دیا۔ فلسطین کی اسلامی مزاحمتی تحریک حماس نے بحرینی وزیر خارجہ کے اس بیان کو فلسطین کاز کے خلاف منحوس ارادے سے تعبیر کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ حماس اپنی طاقت اور مضبوط ارادے کے ذریعے فلسطین کے خلاف ہونے والی ہر سازش کو ناکام بنادے گی۔
آئیں ہم بحرین اور اسرائیل کے بڑھتے ہوئے تعلقات اور قربت کے پس پردہ اور عیاں مقاصد کو تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایک طویل عرصہ سے اسرائیل نے عرب دنیا کے ساتھ عادی سازی یعنی نارملائزیشن کا نعرہ بلند کر رکھا ہے اور اسی عادی سازی کے عنوان سے اسرائیل کے وفود جہاں عرب دنیا کے مختلف ممالک میں آتے جاتے رہے ہیں، وہاں عرب خلیجی ممالک کے وفود بھی فلسطین و قبلہ اول پر قابض اسرائیل کے دورے کرتے رہے ہیں۔ گزشتہ چند ماہ میں اسرائیل کے وزیراعظم نیتن یاہو کا مسقط کا دورہ اور صہیونی ریاست کی خاتون وزیر کا عرب امارات کا مفصل دورہ اور پھر اسرائیلی اولمپیئن ٹیم کا دبئی میں شاندار استقبال سمیت عرب امارات کے گراؤنڈ میں اسرائیلی دھن پر قومی ترانہ چلایا جانا، چیدہ چیدہ واقعات ہیں۔ اور پھر حال ہی میں بحرین میں فلسطین کے خلاف منعقد ہونے والی کانفرنس، جس کا مقصد فلسطین کا سودا کرنا تھا، منعقد کی گئی۔ یہ سب وہ اشارے ہیں، جو بتاتے ہیں کہ عرب خلیجی دنیا کے حکمران رفتہ رفتہ صہیونیوں کی دوستی قبول کرچکے ہیں۔
ماہرین سیاسیات اور بین الاقوامی تعلقات عامہ کا کہنا ہے کہ عرب دنیا خاص طور سے سعودی عرب، عرب امارات اور بحرین سمیت چند دیگر خلیجی ریاستیں اسرائیل کے ساتھ دوستی کے ظاہری مقاصد کے حصول میں ایران دشمنی کا عنصر زیادہ نظر آتا ہے، جبکہ پس پردہ مقاصد میں ان عرب دنیا کے حکمرانوں کو ایسا لگتا ہے کہ امریکا اور اسرائیل کے ساتھ مل کر ان کی بادشاہتیں قائم و دائم رہیں گی اور جمہوریت کے نعروں سے ان کو دور رکھا جائے گا۔ جیسا کہ منامہ کانفرنس میں پیش ہونے والی صدی کی ڈیل میں امریکا نے عرب بادشاہوں کو پیشکش کی ہے کہ وہ فلسطین کے سودے پر راضی ہونے والے خلیجی ممالک کے بادشاہوں کو آئندہ پچاس سال تک بادشاہت پر براجمان رہنے کی ضمانت دے گا۔
سیاسیات اور بین الاقوامی تعلقات عامہ پر نظر رکھنے والے ماہرین کی جانب سے پیش کردہ آرا کا باریک بینی سے مطالعہ کیا جائے تو اس میں کسی قسم کا مغالطہ نظر نہیں آتا۔ اور بحرین اور اسرائیل کے تعلقات کے مابین پس پردہ اور عیاں مقاصد میں درج بالا بیان کردہ دو ہی باتیں نظر آتی ہیں۔ ایران سے دشمنی، جو کہ عرب خلیجی ممالک کے بارے میں پوری دنیا واقف ہے اور دوسری اہم بات عرب حکمرانوں کے تخت وتاج اور بادشاہتوں کا قائم رکھنا یا یوں کہا جائے کہ ذاتی مفادات۔
خلاصہ یہ ہے کہ عرب خلیجی دنیا امریکا اوراسرائیل جیسے شکست خوردہ کھلاڑیوں پر تکیہ کرکے کہیں صدی کی ڈیل کی آڑ میں صدی کا سب سے بڑا دھوکا تو نہیں کھا رہی؟ کیونکہ امریکا پوری دنیا میں ہر محاذ پر ناکامی کا شکار ہے۔ خود امریکی معیشت تیزی سے ڈوب رہی ہے۔ دوسری طرف اسرائیل ہے، جو کبھی عظیم تر اسرائیل کے خواب دیکھا کرتا تھا، آج ان خوابوں کے چکنا چور ہونے کی صدائیں فلسطین سے نکل کر پوری دنیا تک سنی جارہی ہیں۔ آخر ایسے شکست خوردہ مہروں کا سہارا لے کر عرب دنیا کے حکمران کس طرح اپنی بقا کو یقینی رکھ پائیں گے؟
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ عرب دنیا امریکا اور اسرائیل کا سہارا لینے کے بجائے آپس میں اتحاد اور یکجہتی کے عنوان سے کوئی کارنامہ سر انجام دے۔ کاش بحرین میں ہونے والی کانفرنس اور صدی کی ڈیل اگر مسلم امہ کے اتحاد کے بارے میں ہوتی تو یقیناً اس ڈیل اور معاہدے کو صدی کی سب سے بڑی ڈیل اور صدی کی سب سے بڑی حقیقت قرار دیا جاتا، لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ امریکی و صہیونی شیطانی چالوں میں پھنسی عرب خلیجی دنیا صدی کا سب سے بڑا دھوکا اپنے مقدر میں لکھنے پر فخر محسوس کررہی ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
امریکا و اسرائیل کی جانب سے مغربی ایشیائی ممالک کو کنٹرول کرنے اور خاص طور پر فلسطین کا سودا کرنے کے عنوان سے جس کانفرنس کو ترتیب دیا گیا تھا، اس کے انعقاد کےلیے امریکا نے نہ تو مغربی ممالک اور نہ ہی یورپی ممالک میں سے کسی کا انتخاب کیا، بلکہ اس کانفرنس یعنی صدی کی ڈیل کو عملی جامہ پہنانے کےلیے کانفرنس کو عرب دنیا کی ایک ایسی ریاست میں منعقد کیا گیا، جس کا خود اسرائیل کے ساتھ رسمی طور پر کوئی تعلق نہیں ہے۔ تاہم اس پلان کے تحت ایک طرف جہاں فلسطین کا سودا بحرین میں بیٹھ کر کرنے کی کوشش کی گئی، وہاں بحرین اور اس جیسی اور چھوٹی چھوٹی عرب خلیجی ریاستوں کو صہیونیوں کی جعلی ریاست اسرائیل کے قریب لانا بھی اہم ترین مقاصد میں سے ایک تھا۔
بہرحال منامہ کانفرنس اور اس میں پیش کی جانے والی صدی کی ڈیل دونوں ہی بری طرح اس لیے بھی ناکام ہوگئیں کیونکہ مغربی ایشیاء کے متعدد عرب ممالک نے اس میں شرکت کرنے سے انکار کرکے اسے مسترد کیا۔ تاہم بحرین کے ساتھ اسرائیل کے بڑھتے ہوئے تعلقات نہ صرف غرب ایشیاء کی ریاستوں کےلیے تشویش کا باعث ہیں بلکہ مسلم دنیا میں بسنے والے کروڑوں مسلمانوں کو بھی ایسے معاملات پر شدید تشویش لاحق ہے۔
فلسطین بھر میں منامہ کانفرنس کے آغاز سے پہلے ہی بحرین اور اسرائیل سمیت امریکا کے شیطانی منصوبوں کے خلاف احتجاجی مظاہرے جاری تھے۔ البتہ ان مظاہروں میں اس وقت شدت دیکھنے میں آئی، جب بحرین کے وزیر خارجہ خالد بن حمد بن عیسی آل خلیفہ نے اسرائیل سے دوستانہ تعلقات کے فروغ پر مبنی انتہائی حیرت انگیز بیانات دیے۔ وہ اسرائیل کے ٹی وی چینل نمبر 10 سے بات چیت کر رہے تھے۔ انہوں نے کہا: ''ہمارا عقیدہ ہے کہ اسرائیل باقی رہے گا اور ہم اس سے بہتر تعلقات استوار کرنا چاہتے ہیں۔ ہم اسرائیل سے صلح کرنا چاہتے ہیں۔''
بحرین کے وزیر خارجہ نے اس سوال کے جواب میں کہ ایک عرب حکمران کا اسرائیلی ٹی وی چینل سے انٹرویو کوئی معمولی بات نہیں، کہا: ''یہ کام بہت عرصہ پہلے ہوجانا چاہیے تھا۔ خود سے اختلاف رکھنے والوں سے بات چیت ہمیشہ تناؤ میں کمی کا باعث بنتی ہے۔'' خالد بن حمد بن عیسی آل خلیفہ کے اس انٹرویو کے خلاف شدید ردعمل سامنے آیا اور فلسطین کی تما م اکائیوں نے بحرینی وزیر خارجہ اور حکومت کے اسرائیل کے ساتھ روابط اور اسرائیل کی حمایت میں بیانات کو فلسطین کش اقدامات قرار دیتے ہوئے فلسطینیوں اور پوری مسلم امہ کی پیٹھ میں خنجر گھونپنے کے مترادف قرار دیا۔ فلسطین کی اسلامی مزاحمتی تحریک حماس نے بحرینی وزیر خارجہ کے اس بیان کو فلسطین کاز کے خلاف منحوس ارادے سے تعبیر کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ حماس اپنی طاقت اور مضبوط ارادے کے ذریعے فلسطین کے خلاف ہونے والی ہر سازش کو ناکام بنادے گی۔
آئیں ہم بحرین اور اسرائیل کے بڑھتے ہوئے تعلقات اور قربت کے پس پردہ اور عیاں مقاصد کو تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایک طویل عرصہ سے اسرائیل نے عرب دنیا کے ساتھ عادی سازی یعنی نارملائزیشن کا نعرہ بلند کر رکھا ہے اور اسی عادی سازی کے عنوان سے اسرائیل کے وفود جہاں عرب دنیا کے مختلف ممالک میں آتے جاتے رہے ہیں، وہاں عرب خلیجی ممالک کے وفود بھی فلسطین و قبلہ اول پر قابض اسرائیل کے دورے کرتے رہے ہیں۔ گزشتہ چند ماہ میں اسرائیل کے وزیراعظم نیتن یاہو کا مسقط کا دورہ اور صہیونی ریاست کی خاتون وزیر کا عرب امارات کا مفصل دورہ اور پھر اسرائیلی اولمپیئن ٹیم کا دبئی میں شاندار استقبال سمیت عرب امارات کے گراؤنڈ میں اسرائیلی دھن پر قومی ترانہ چلایا جانا، چیدہ چیدہ واقعات ہیں۔ اور پھر حال ہی میں بحرین میں فلسطین کے خلاف منعقد ہونے والی کانفرنس، جس کا مقصد فلسطین کا سودا کرنا تھا، منعقد کی گئی۔ یہ سب وہ اشارے ہیں، جو بتاتے ہیں کہ عرب خلیجی دنیا کے حکمران رفتہ رفتہ صہیونیوں کی دوستی قبول کرچکے ہیں۔
ماہرین سیاسیات اور بین الاقوامی تعلقات عامہ کا کہنا ہے کہ عرب دنیا خاص طور سے سعودی عرب، عرب امارات اور بحرین سمیت چند دیگر خلیجی ریاستیں اسرائیل کے ساتھ دوستی کے ظاہری مقاصد کے حصول میں ایران دشمنی کا عنصر زیادہ نظر آتا ہے، جبکہ پس پردہ مقاصد میں ان عرب دنیا کے حکمرانوں کو ایسا لگتا ہے کہ امریکا اور اسرائیل کے ساتھ مل کر ان کی بادشاہتیں قائم و دائم رہیں گی اور جمہوریت کے نعروں سے ان کو دور رکھا جائے گا۔ جیسا کہ منامہ کانفرنس میں پیش ہونے والی صدی کی ڈیل میں امریکا نے عرب بادشاہوں کو پیشکش کی ہے کہ وہ فلسطین کے سودے پر راضی ہونے والے خلیجی ممالک کے بادشاہوں کو آئندہ پچاس سال تک بادشاہت پر براجمان رہنے کی ضمانت دے گا۔
سیاسیات اور بین الاقوامی تعلقات عامہ پر نظر رکھنے والے ماہرین کی جانب سے پیش کردہ آرا کا باریک بینی سے مطالعہ کیا جائے تو اس میں کسی قسم کا مغالطہ نظر نہیں آتا۔ اور بحرین اور اسرائیل کے تعلقات کے مابین پس پردہ اور عیاں مقاصد میں درج بالا بیان کردہ دو ہی باتیں نظر آتی ہیں۔ ایران سے دشمنی، جو کہ عرب خلیجی ممالک کے بارے میں پوری دنیا واقف ہے اور دوسری اہم بات عرب حکمرانوں کے تخت وتاج اور بادشاہتوں کا قائم رکھنا یا یوں کہا جائے کہ ذاتی مفادات۔
خلاصہ یہ ہے کہ عرب خلیجی دنیا امریکا اوراسرائیل جیسے شکست خوردہ کھلاڑیوں پر تکیہ کرکے کہیں صدی کی ڈیل کی آڑ میں صدی کا سب سے بڑا دھوکا تو نہیں کھا رہی؟ کیونکہ امریکا پوری دنیا میں ہر محاذ پر ناکامی کا شکار ہے۔ خود امریکی معیشت تیزی سے ڈوب رہی ہے۔ دوسری طرف اسرائیل ہے، جو کبھی عظیم تر اسرائیل کے خواب دیکھا کرتا تھا، آج ان خوابوں کے چکنا چور ہونے کی صدائیں فلسطین سے نکل کر پوری دنیا تک سنی جارہی ہیں۔ آخر ایسے شکست خوردہ مہروں کا سہارا لے کر عرب دنیا کے حکمران کس طرح اپنی بقا کو یقینی رکھ پائیں گے؟
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ عرب دنیا امریکا اور اسرائیل کا سہارا لینے کے بجائے آپس میں اتحاد اور یکجہتی کے عنوان سے کوئی کارنامہ سر انجام دے۔ کاش بحرین میں ہونے والی کانفرنس اور صدی کی ڈیل اگر مسلم امہ کے اتحاد کے بارے میں ہوتی تو یقیناً اس ڈیل اور معاہدے کو صدی کی سب سے بڑی ڈیل اور صدی کی سب سے بڑی حقیقت قرار دیا جاتا، لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ امریکی و صہیونی شیطانی چالوں میں پھنسی عرب خلیجی دنیا صدی کا سب سے بڑا دھوکا اپنے مقدر میں لکھنے پر فخر محسوس کررہی ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔