ایک عظیم امریکی روز پیرٹ سینئر کی یاد میں پہلا حصہ
روز پیرٹ سینیئر ہمیشہ اپنے ملک کے احسان مند اور اس کی بھلائی کے لیے فکر مند رہے۔
ڈیلاس میں روز پیرٹ سینیئر 89 برس کی عمر میں کینسر کے خلاف جنگ ہار گئے، زندگی سے بھرپور اس شخص کی موت کی خبر سے شدید صدمہ ہوا۔ ان کے صاحبزادے روز پیروٹ جونیئر میرے بہترین دوستوں میں شامل ہیں۔
روز پیرٹ نے 1930میں ٹیکساس میں آنکھ کھولی۔ یہ وہ دور تھا جب امریکا شدید مالیاتی بحران سے دوچار تھا اور ان حالات میں روز پیرٹ اپنے بل پر ارب پتی بنے۔ اپنے ایک انٹرویو میں انھوں نے کہا تھا کہ وہ اسی ''امریکن ڈریم'' میں زندہ رہے، جو خواب اپنی قسمت بنانے کے لیے اپنا وطن چھوڑ کر امریکا کا رخ کرنے والوں کی آنکھوں میں ہوتا ہے۔ سات برس کی عمر میں وہ صبح سویرے اسکول جانے سے پہلے اخبارات تقسیم کرنے کا کام کرتے رہے۔
1953میں گریجویشن کے بعد امریکی نیوی سے منسلک ہوئے اور پانچ برس تک خدمات انجام دیں اور یہیں پہلی بار کمپیوٹر سیکھا۔ یہاں سے ان کی دلچسپی اس شعبے میں پیدا ہوئی اور بعدازاں انھوں نے ڈیٹا پراسیسنگ کی دو بڑی کمپنیاں قائم کیں جنھیں 1990کی دہائی میں اچھے منافعے پر فروخت کردیا۔ 1957 میں امریکی بحریہ سے سبک دوش ہوکر روز پیرٹ نے بطور سیلزمین آئی بی ایم میں ملازمت اختیار کرلی۔ سی ای او آئی بی ایم کو جب معلوم ہوا کہ فروخت پر ملنے والے کمیشن کی وجہ سے اس سیلز مین کی آمدن اس سے بھی زیادہ ہوجاتی ہے تو اگلے برس پیرٹ کی آمدن کو ایک خاص حد تک رکھنے کے لیے ضوابط تبدیل کردیے گئے۔ پیرٹ پہلے ہی مہینے میں اس مقررہ حد تک منافع کمانے میں کام یاب ہوگئے۔
پیرٹ دراصل آئی بی ایم کے بنائے گئے بڑے کمپیوٹرز کے لیے فراہم کردہ خدمات و سہولیات میں پائی جانے والی کمیوں سے اچھی طرح واقف تھے۔ انھیں دور کرنے کے لیے پیرٹ نے آئی بی ایم کی انتظامیہ کے سامنے چند تجاویز رکھیں جنھیں نظر انداز کردیا گیا۔ انتظامیہ کے رویے سے مایوس ہو کر پیرٹ نے 1962میں ملازمت چھوڑدی اور صرف 1000ڈالر کی سرمایہ کاری سے الیکٹرانک ڈیٹا سسٹم(ای ڈی ایس) تشکیل دیا اور تمام توانائیاں اس پر لگا دیں۔ میں اور ڈاکٹر احسان جب ان سے ملنے گئے تو انھوں نے بڑے فخر سے اس سرمایہ کاری کے لیے اپنی اہلیہ کے دیے گئے ایک ہزار ڈالر کے چیک کی کاپی ہمیں دکھائی۔
وقت کے ساتھ تبدیلیاں قبول کرنی پڑتی ہیں اور حالات کی ستم ظریفی ہی کہیے کہ آج آئی بی ایم گلوبل سروسز دنیا بھر میں آئی بی ایم کا سب سے منافع بخش حصہ ہے۔ روز پیرٹ نے 1984میں جنرل موٹرز کو 2.4ارب ڈالر کے عوض ای ڈی ایس فروخت کرنے کا حیران کن فیصلہ کیا۔ اس کے بعد 1988میں انھوں نے پیرٹ سسٹم کی بنیاد رکھی اور 2009ء میں اسے 3.9ارب ڈالر کے عوض 'ڈیل سسٹم' نے حاصل کرلیا۔ روز پیرٹ کی کاروباری بصیرت حیران کُن تھی اسی لیے جب اسٹیوجابز نے ''ایپل'' کمپنی چھوڑی اور ''نیکسٹ'' کی صورت میں کام یابی کی نئی داستان رقم کرنے کی ٹھانی تو روز پیرٹ نے اس میں دو کروڑ ڈالر کی سرمایہ کاری کی۔
روز پیرٹ سینیئر ہمیشہ اپنے ملک کے احسان مند اور اس کی بھلائی کے لیے فکر مند رہے۔ بے پناہ دولت کمانے کے باوجود ان میں رعونت اور خود غرضی کا شائبہ تک نہیں تھا اور نہ ہی وہ کبھی اپنے ہم وطنوں کے مسائل سے لا تعلق رہے۔ ویت نام جنگ میں قیدی بننے والے امریکی فوجیوں کی حالت زار انھیں بے چین کیے رکھتی تھی اور 1969 میں انھوں نے شمالی ویت نام میں فضائی راستے سے امریکی جنگی قیدیوں کے لیے خوراک اور ادویات وغیرہ لے جانے کی کوشش بھی کی۔ انھیں کام یابی حاصل نہیں ہوسکی اور توقع کے مطابق انھیں نہ صرف ہنوئی اور ماسکو کی برہمی کا سامنا کرنا پڑا بلکہ حیران کُن طور پر واشنگٹن میں بھی ان کے اس اقدام کو ناپسندیدگی کی نگاہ سے دیکھا گیا۔ پیرٹ جنگی قیدیوں سے متعلق ہمیشہ حساس رہے اور ان کی محفوظ واپسی میں ناکامی پر بعد میں آنے والی حکومتوں کے شدید ناقد بھی رہے۔
1978میں ان کی کمپنی کے دو ملازمین کو شاہ ایران کی ڈگمگاتی حکومت کے ساتھ کسی کاروباری معاہدے کے تنازعے پر گرفتار کرلیا گیا اور ان پر کرپشن کے الزامات لگا کر قید میں ڈال دیا گیا۔ کمپنی کو بتا دیا گیا کہ ان کی رہائی کے لیے 1کروڑ 20لاکھ ڈالر کی رقم ادا کرنا ہو گی۔ روز پیرٹ کو جب یقین ہوگیا کہ صدر کارٹر کی انتظامیہ اس معاملے میں دل چسپی نہیں لے رہی تو اپنے ملازمین سے متعلق ان کی فکر مندی بڑھ گئی اور انھوں نے اسپیشل فورس کے ایک ریٹائرڈ کمانڈر کرنل آرتھر سائمنز کی مدد سے خود ہی اپنی کمپنی کے کچھ ملازمین کے ساتھ اپنے ساتھیوں کو ایران سے لانے کا منصوبہ بنایا۔
1979میں ایران کے حالات اس نہج پر پہنچے کہ شاہ ایران ملک چھوڑنے پر مجبور ہوگئے اور اسی ہنگامہ خیزی میں پیرٹ کے منصوبے کی کام یابی کے امکانات پیدا ہوئے۔ چار ہفتے کی مسلسل کوشش کے بعد انھیں بالآخر موقعہ مل گیا۔ ہجوم نے تہران کے قصر جیل پر حملہ کرکے وہاں موجود دس ہزار قیدیوں کو آزاد کردیا۔ پیرٹ اور سائمنز کو وہاں اپنے ساتھی بھی مل گئے اور وہ انھیں ایک گاڑی میں لے کر راستے میں بھاری رقم رشوت کے طور پر ادا کرتے ہوئے ترکی کی سرحد تک پہنچنے میں کام یاب ہوگئے۔ اس واقعے سے متاثر ہو کر کین فولیٹ نے "On Wings of Eagles" ناول لکھا اور اس پر ٹیلی وژن پروگرام بھی بنایا گیا۔ روز پیرٹ کی اپنے ملازمین کو بچانے کے لیے کی گئی اس جراتمندانہ مہم نے انھیں قومی سطح پر شہرت اور مقبولیت کی بلندیوں پر پہنچا دیا۔
روز پیرٹ کبھی کسی سرکاری عہدے پر فائز نہیں رہے تھے تاہم 1992میں انھوں نے ایک ٹاک شو میں آزاد امیدوار کی حیثیت سے صدارتی انتخاب لڑنے کا اعلان کیا۔ اپنی انتخابی مہم میں انھوں نے متوازن بجٹ اور بیرون ملک ملازمین کی آؤٹ سورسنگ ختم کرنے کا اپنا مقبول بیانیہ پیش کیا۔ انھوں نے ''نارتھ امریکن فری ٹریڈ ایگریمنٹ'' کی مخالفت کی اور اس کی منظوری کی صورت میں امریکیوں کے ملازمت کے مواقع چھن کر ایشیائی ممالک منتقل ہوجانے کے خدشات کو نمایاں کیا۔ انھوں نے امریکا کے سیاسی نظام پر بھی کڑی تنقید کی۔ اس اعتبار سے وہ ڈونلڈ ٹرمپ کے پیشرو تھے۔ (جاری ہے)
روز پیرٹ نے 1930میں ٹیکساس میں آنکھ کھولی۔ یہ وہ دور تھا جب امریکا شدید مالیاتی بحران سے دوچار تھا اور ان حالات میں روز پیرٹ اپنے بل پر ارب پتی بنے۔ اپنے ایک انٹرویو میں انھوں نے کہا تھا کہ وہ اسی ''امریکن ڈریم'' میں زندہ رہے، جو خواب اپنی قسمت بنانے کے لیے اپنا وطن چھوڑ کر امریکا کا رخ کرنے والوں کی آنکھوں میں ہوتا ہے۔ سات برس کی عمر میں وہ صبح سویرے اسکول جانے سے پہلے اخبارات تقسیم کرنے کا کام کرتے رہے۔
1953میں گریجویشن کے بعد امریکی نیوی سے منسلک ہوئے اور پانچ برس تک خدمات انجام دیں اور یہیں پہلی بار کمپیوٹر سیکھا۔ یہاں سے ان کی دلچسپی اس شعبے میں پیدا ہوئی اور بعدازاں انھوں نے ڈیٹا پراسیسنگ کی دو بڑی کمپنیاں قائم کیں جنھیں 1990کی دہائی میں اچھے منافعے پر فروخت کردیا۔ 1957 میں امریکی بحریہ سے سبک دوش ہوکر روز پیرٹ نے بطور سیلزمین آئی بی ایم میں ملازمت اختیار کرلی۔ سی ای او آئی بی ایم کو جب معلوم ہوا کہ فروخت پر ملنے والے کمیشن کی وجہ سے اس سیلز مین کی آمدن اس سے بھی زیادہ ہوجاتی ہے تو اگلے برس پیرٹ کی آمدن کو ایک خاص حد تک رکھنے کے لیے ضوابط تبدیل کردیے گئے۔ پیرٹ پہلے ہی مہینے میں اس مقررہ حد تک منافع کمانے میں کام یاب ہوگئے۔
پیرٹ دراصل آئی بی ایم کے بنائے گئے بڑے کمپیوٹرز کے لیے فراہم کردہ خدمات و سہولیات میں پائی جانے والی کمیوں سے اچھی طرح واقف تھے۔ انھیں دور کرنے کے لیے پیرٹ نے آئی بی ایم کی انتظامیہ کے سامنے چند تجاویز رکھیں جنھیں نظر انداز کردیا گیا۔ انتظامیہ کے رویے سے مایوس ہو کر پیرٹ نے 1962میں ملازمت چھوڑدی اور صرف 1000ڈالر کی سرمایہ کاری سے الیکٹرانک ڈیٹا سسٹم(ای ڈی ایس) تشکیل دیا اور تمام توانائیاں اس پر لگا دیں۔ میں اور ڈاکٹر احسان جب ان سے ملنے گئے تو انھوں نے بڑے فخر سے اس سرمایہ کاری کے لیے اپنی اہلیہ کے دیے گئے ایک ہزار ڈالر کے چیک کی کاپی ہمیں دکھائی۔
وقت کے ساتھ تبدیلیاں قبول کرنی پڑتی ہیں اور حالات کی ستم ظریفی ہی کہیے کہ آج آئی بی ایم گلوبل سروسز دنیا بھر میں آئی بی ایم کا سب سے منافع بخش حصہ ہے۔ روز پیرٹ نے 1984میں جنرل موٹرز کو 2.4ارب ڈالر کے عوض ای ڈی ایس فروخت کرنے کا حیران کن فیصلہ کیا۔ اس کے بعد 1988میں انھوں نے پیرٹ سسٹم کی بنیاد رکھی اور 2009ء میں اسے 3.9ارب ڈالر کے عوض 'ڈیل سسٹم' نے حاصل کرلیا۔ روز پیرٹ کی کاروباری بصیرت حیران کُن تھی اسی لیے جب اسٹیوجابز نے ''ایپل'' کمپنی چھوڑی اور ''نیکسٹ'' کی صورت میں کام یابی کی نئی داستان رقم کرنے کی ٹھانی تو روز پیرٹ نے اس میں دو کروڑ ڈالر کی سرمایہ کاری کی۔
روز پیرٹ سینیئر ہمیشہ اپنے ملک کے احسان مند اور اس کی بھلائی کے لیے فکر مند رہے۔ بے پناہ دولت کمانے کے باوجود ان میں رعونت اور خود غرضی کا شائبہ تک نہیں تھا اور نہ ہی وہ کبھی اپنے ہم وطنوں کے مسائل سے لا تعلق رہے۔ ویت نام جنگ میں قیدی بننے والے امریکی فوجیوں کی حالت زار انھیں بے چین کیے رکھتی تھی اور 1969 میں انھوں نے شمالی ویت نام میں فضائی راستے سے امریکی جنگی قیدیوں کے لیے خوراک اور ادویات وغیرہ لے جانے کی کوشش بھی کی۔ انھیں کام یابی حاصل نہیں ہوسکی اور توقع کے مطابق انھیں نہ صرف ہنوئی اور ماسکو کی برہمی کا سامنا کرنا پڑا بلکہ حیران کُن طور پر واشنگٹن میں بھی ان کے اس اقدام کو ناپسندیدگی کی نگاہ سے دیکھا گیا۔ پیرٹ جنگی قیدیوں سے متعلق ہمیشہ حساس رہے اور ان کی محفوظ واپسی میں ناکامی پر بعد میں آنے والی حکومتوں کے شدید ناقد بھی رہے۔
1978میں ان کی کمپنی کے دو ملازمین کو شاہ ایران کی ڈگمگاتی حکومت کے ساتھ کسی کاروباری معاہدے کے تنازعے پر گرفتار کرلیا گیا اور ان پر کرپشن کے الزامات لگا کر قید میں ڈال دیا گیا۔ کمپنی کو بتا دیا گیا کہ ان کی رہائی کے لیے 1کروڑ 20لاکھ ڈالر کی رقم ادا کرنا ہو گی۔ روز پیرٹ کو جب یقین ہوگیا کہ صدر کارٹر کی انتظامیہ اس معاملے میں دل چسپی نہیں لے رہی تو اپنے ملازمین سے متعلق ان کی فکر مندی بڑھ گئی اور انھوں نے اسپیشل فورس کے ایک ریٹائرڈ کمانڈر کرنل آرتھر سائمنز کی مدد سے خود ہی اپنی کمپنی کے کچھ ملازمین کے ساتھ اپنے ساتھیوں کو ایران سے لانے کا منصوبہ بنایا۔
1979میں ایران کے حالات اس نہج پر پہنچے کہ شاہ ایران ملک چھوڑنے پر مجبور ہوگئے اور اسی ہنگامہ خیزی میں پیرٹ کے منصوبے کی کام یابی کے امکانات پیدا ہوئے۔ چار ہفتے کی مسلسل کوشش کے بعد انھیں بالآخر موقعہ مل گیا۔ ہجوم نے تہران کے قصر جیل پر حملہ کرکے وہاں موجود دس ہزار قیدیوں کو آزاد کردیا۔ پیرٹ اور سائمنز کو وہاں اپنے ساتھی بھی مل گئے اور وہ انھیں ایک گاڑی میں لے کر راستے میں بھاری رقم رشوت کے طور پر ادا کرتے ہوئے ترکی کی سرحد تک پہنچنے میں کام یاب ہوگئے۔ اس واقعے سے متاثر ہو کر کین فولیٹ نے "On Wings of Eagles" ناول لکھا اور اس پر ٹیلی وژن پروگرام بھی بنایا گیا۔ روز پیرٹ کی اپنے ملازمین کو بچانے کے لیے کی گئی اس جراتمندانہ مہم نے انھیں قومی سطح پر شہرت اور مقبولیت کی بلندیوں پر پہنچا دیا۔
روز پیرٹ کبھی کسی سرکاری عہدے پر فائز نہیں رہے تھے تاہم 1992میں انھوں نے ایک ٹاک شو میں آزاد امیدوار کی حیثیت سے صدارتی انتخاب لڑنے کا اعلان کیا۔ اپنی انتخابی مہم میں انھوں نے متوازن بجٹ اور بیرون ملک ملازمین کی آؤٹ سورسنگ ختم کرنے کا اپنا مقبول بیانیہ پیش کیا۔ انھوں نے ''نارتھ امریکن فری ٹریڈ ایگریمنٹ'' کی مخالفت کی اور اس کی منظوری کی صورت میں امریکیوں کے ملازمت کے مواقع چھن کر ایشیائی ممالک منتقل ہوجانے کے خدشات کو نمایاں کیا۔ انھوں نے امریکا کے سیاسی نظام پر بھی کڑی تنقید کی۔ اس اعتبار سے وہ ڈونلڈ ٹرمپ کے پیشرو تھے۔ (جاری ہے)