مرکے بھی چین نہ پایا تو
عوام کو اس سے غرض نہیں کہ کیا کیا قومی اور بین الاقوامی مصلحتیں ، بیڑیاں اور رکاوٹیں ہیں۔
مشہور شعر ہے کہ:
اب توگھبرا کے یہ کہتے ہیں کہ مرجائیں گے
مر کے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے
یہ شعر اپنے عوام کی موجودہ حالت زارکو دیکھ کر یاد آنا شروع ہوگیا ہے، دیکھیں نا کتنے شوق سے ایک عظیم تبدیلی کی چاہ میں ایک چست وچالاک حکومت کو ان کی ٹیم کے ہمراہ نیا پاکستان بنانے کے لیے لایا گیا تھا اور خوب نعرے وجے گئے تے خوب نغمے بجے گئے۔عوام بھی نیا پاکستان بننے کی امید میں سہانے خواب دیکھنے لگے، لیکن ابھی زیادہ وقت نہیں گزرا ہے لیکن پوت کے پاؤں پالنے میں نظر آنے شروع ہوگئے ہیں۔
عوام الناس کا نیا پاکستان بننے سے پہلے ہی ان کے ساتھ وہ سلوک ہونا شروع ہوگیا ہے ، جو منٹوکے مشہور افسانے ''نیا قانون'' میں کوچوان کے ساتھ ہوا تھا۔ وہ بے چارہ کوچوان کہیں سن بیٹھا کہ نیا قانون آگیا ہے، اب سب کو برابری کے حقوق مل گئے ہیں تو وہ اس نئے قانون سے ملنے والی مفروضہ مساوات اور برابری کے زعم میں ایک فرنگی سے الجھ گیا اور پھر اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی اورکوچوان کو لگ پتہ گیا کہ قانون کوئی بھی آجائے غریب کی اوقات نہیں بدلتی۔
بالکل ایسے ہی ہم سب بھی یعنی بھولے بھالے، سیدھے سادھے عوام بھی میڈیائی انتخابی مہمات کے زوروشور سے اور دل ہلا دینے والی باتوں، رونگٹے کھڑے کردینے والی تقریروں کے اثر سے نئی سرکارکو منتخب کرکے یہ سمجھے بیٹھے ہیں کہ واقعی نیا پاکستان بن جائے گا اور شیر بکری ایک گھاٹ پانی پیئیں گے، امن و چین کا دور دورہ ہوگا۔سرکاری محکمے اپنے اپنے شعبوں میں اس نئے پاکستان میں اپنی اپنی بہترین ان پٹ دینے میں جٹے ہوئے ہوں گے۔
ایک نئی دنیا اور آنے والی نسلوں کے لیے ایک روشن مستقبل کی بنیاد رکھی جارہی ہوگی اور یہ بھی ہوگا اور وہ بھی ہوجائے گا وغیرہ وغیرہ۔ خدا کرے کہ ایسا ہی ہو لیکن اب تک کی اپ ڈیٹ یہ ہے اور نظر کچھ ایسا آرہا ہے کہ وہی رفتار بے ڈھنگی جو پہلے تھی سو اب بھی ہے۔ ککھ بھی نہیں بدلا۔ایک سے ایک شاندار اور باوقار مارکہ لیڈران سینہ پھلا کر جو جو باتیں اور جو جو وعدے کیا کرتے تھے حیرت انگیز طور پراس کے بالکل الٹ ہو رہا ہے جنھیں گِنوانے کی کوئی ضرورت نہیں کہ ہر ٹاک شو میں، سوشل میڈیا کی ویڈیوز میں اور کالموں میں ایک ایک ماضی کا وعدہ اور بیان کوٹ کیا جا رہا اور دکھایا جا رہا ہے کہ میرے سرکار آپ نے تو جو جوکہا اس سے اتنی آسانی سے یو ٹرن لے لیا کہ جتنی آسانی سے کوئی ہائی وے سے یوٹرن لے لیتا ہے۔ آپ نے جو جو وعدے کیے وہ تو ہرجائی محبوب کے وعدے نکلے جوکبھی پورے ہی نہیں ہوتے۔
ترے وعدے پہ جئے ہم تو یہ جان جھوٹ جانا
کہ خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا
فی الحال نئی نویلی سرکار اور نیو برانڈ منتخب سرکاری نمایندوں کے پاس ایک ہی ترپ کا پتہ ایک میٹھا راگ باقی بچا ہے کہ ہر تنقید اور توجہ دلاؤ نوٹس پر یہی کہتے نظر آتے ہیں اجی بھائی میاں ! سابقہ بگاڑ ایسا تھا، سابقہ بگاڑ ویسا تھا انھوں نے یوں کردیا اور ان کے بعد والوں نے اوں کردیا۔ ہم کوشش کر رہے ہیں لیکن سابقہ اور مگرگزشتہ فلانا ڈھمکانا اگر، مگر چونکہ چنانچہ گویا کہ! بس یہ راگ خود بھی گائے اور قوم کو بھی دیے جا رہے ہیں۔
جناب تسلیم کہ آپ سچ کہتے ہیں سابقہ اورگزشتہ بڑے خراب ادوار اور لیڈران تھے انھوں نے وہ کیا جو اس ملک کے ساتھ دشمن بھی نہ کرتا شاید لیکن پھر آپ کیا کر رہے ہیں،آپ کو اسی لیے تو سلیکٹ کیا گیا تھا کہ آپ ان خرابیوں کا ازالہ کریں گے۔ مگر آپ تو زبانی جمع خرچ سے آگے بڑھتے نظر نہیں آ رہے۔ آپ تو دلیری اور بہادری اور انصاف کا ایک سمبل بن کر قوم کے سامنے پیش ہوئے تھے کہ نہ ڈریں گے نہ مصالحت کریں گے سب کی گردن دبا کر ملک کی لوٹی دولٹ واپس لادیں گے لیکن دس گیا رہ ماہ میں سوائے چند نمائشی اقدامات کے آپ نے اور کیا ہی کیا ہے؟
عوام کو اس سے غرض نہیں کہ کیا کیا قومی اور بین الاقوامی مصلحتیں ، بیڑیاں اور رکاوٹیں ہیں۔ انھیں غرض اپنے چھوٹے چھوٹے مسائل کے حل سے ہے۔ انھیں مہنگائی میں کمی چاہیے، روزگار، چین سکون ، عوامی فلاحی اقدامات ، میرٹ کی سر بلندی چاہیے اور آپ کو کیا چاہیے؟ اپ کو بس ٹیکس ہی ٹیکس چاہیے۔ اس حکومت کے ہمنوا مدبرانہ سا منہ بنا بنا کرفرماتے ہیں کہ لوگ ٹیکس نہیں دیتے، شاید ڈائریکٹ ٹیکس کی حد تک تو یہ بات کسی حد تک ٹھیک ہو لیکن ایک ٹیکس ان ڈائریکٹ بھی تو ہوتا ہے اوران ڈائریکٹ ٹیکس کوآپ یوں پی جاتے ہیں جیسے پیاسا افطارکے وقت شربت پی جاتا ہے۔ عوام تو بے چارے سالوں سے ہر ہر ضرورت کی چیز پر چالیس سے پچاس فیصد ٹیکس دے رہے ہیں۔
مجھے لگتا ہے کہ ہماری ذہین حکومت کا پلان شاید یہ ہے کہ جو تیس ہزار ارب کے لگ بھگ گزشتہ اور سابقہ نے لوٹے اور کھائے گئے ہیں وہ ان مہان لٹیروں سے وصول ہونا تو ذرا مشکل ہے چنانچہ انھیں تو چھوڑو اور یہ پیسے عوام سے بطور سزا وصول کرو کہ انھیں یہی تو منتخب کر کے لائے تھے نا۔ تو پھر انھیں ہی سزا دو۔گویا بندرکی بلا طویلے کے سر یا کرے ڈاڑھی والا اور پکڑا جائے مونچھوں والا واہ جی واہ۔ پتہ ہے کہ ہماری اسمبلی کا ہر ممبر پانچ سال کی مدت کے لیے ہمیں کم وبیش چالیس سے پچاس کروڑ روپوں کا پڑتا ہے تنخواہ الاؤنسز، سہولیات اور ترقیاتی فنڈز میڈیکل اور دیگر الا بلا ملاکر اور اس چالیس یا پچاس کروڑ کو ممبران کی تعداد سے ضرب دو تو مجموعی رقم جو ہمارے ڈائریکٹ اور ان ڈائریکٹ ٹیکسز سے ہمارے معزز ممبران پانچ سال میں خوب انجوائے کریں گے وہ کھربوں میں چلی جائے گی۔
توکھربوں میں پانچ سال کے لیے پڑنے والی اسمبلیوں میں ان ایوانوں میں گزشتہ پندرہ بیس سال سے عوام کی فلاح و بہبود کے لیے کتنا سوچا گیا کتنی قانون سازی کی گئی کیا اقدامات تجویزکیے گئے اور عمل میں لائے گئے یہ ملین ڈالر سوال ہے اور اس کا حاصل ضرب تقریبا صفر ہے۔ تو یہ نئی نویلی حکومت اب ہوش کے ناخن لینا شروع کر ہی دے کہ اب سابقہ اور گزشتہ کا منجن زیادہ نہیں چلے گا اور حالیہ والے کیا کر رہے ہیں پر عوام توجہ دینا شروع ہوگئی ہے اور خطرے کی گھنٹی بجنے لگی ہے۔
انصاف اورکڑے سے کڑا احتساب کیجیے اور ضرورکیجیے لیکن احتساب کو مذاق نہ بنائیں۔ ملزموں اور مجرموں کا تعلق اگر طبقہ بالا سے ہے تو انھیں وی آئی پی سہولیات لینے کا حق پیدائشی ہے کیا ؟ اور اگر یہی سب ڈرامے بازیاں کرنا ہیں تو پھر انصاف کا نام لینا بند کیجیے کہ وہ بہت بڑی صفت ہے اور انصاف بے لاگ ہوتا ہے، طبقاتی امتیاز سے پاک ہوتا ہے، میرٹ پر ہوتا ہے اور جس طرح کا وی آئی پی انصاف اور احتساب وطن عزیز میں ہوتا نظر آرہا ہے وہ انصاف اور احتساب کا مذاق اڑانے کے مترادف ہے۔
تو جان رکھیں کہ آپ کو آخری امید کے طور پر لایا گیا اور عوام کی جانب سے یہی سمجھا گیا ہے اور لوگوں میں کچھ نہ کچھ امید اور آس ابھی باقی ہے کہ کوئی تبدیلی کچھ بہتری آئے گی اور روزوشب کے اندھیروں میں کچھ روشنی ملے گی، زندگی کی کڑواہٹوں میں کچھ مٹھاس ملے گی، اس گھٹن اور حبس میں کچھ تازہ ہوا آئے گی۔ اس امید کو اور توانا کیجیے کیونکہ یہ امید اگر ٹوٹ گئی تو پھر بہت برا ہوگا اور بہت سے یقین ٹوٹ جائیں گے۔ مثال کے طور پر سچائی کے ہمیشہ جیتنے کا یقین، مکافات عمل کے اٹل ہونے کا یقین اور ایسے ہی بہت سے بی پازیٹوٹائپ یقین۔ اگر یہ یقین اور یہ امیدیں ٹوٹیں تو پھر بہت کچھ ٹوٹ جائے گا۔ پھر تو خونی انقلاب اور انارکی ہی خاکم بدہن بچے گی۔