بھارتی وزارت خارجہ توجہ فرمائے
اگست کے مہینے میں جب ہم انڈیا جا رہے تھے تو موسم اور ماحول دونوں طرف گرم تھا۔
اگست کے مہینے میں جب ہم انڈیا جا رہے تھے تو موسم اور ماحول دونوں طرف گرم تھا۔ سرحدوں پر کشیدگی کی باتیں چل رہی تھیں۔ دونوں طرف کا میڈیا تیغ و تفنگ لیے آمنے سامنے تھا۔ موسم گرم ہونے کے باوجود ہم اس لیے نکل گئے تھے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ میڈیا کی گرمی حالات کو آتش فشاں کے دہانے تک لے جائے اور فوری طور پر بھارتی وزارت خارجہ عام شہریوں کے لیے ویزا دینا بند کر دے۔ کیونکہ دونوں ملکوں کی تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی دونوں طرف سے ویزا پالیسیوں میں نرمی برتی گئی، تاجروں اور عام شہریوں کو ایک دوسرے سے ملنے، مذاکرات اور تجارتی امور پر تبادلہ خیال کرنے کی دعوت دی گئی، تب ہی کوئی نہ کوئی واقعہ ایسا رونما کروا دیا جاتا ہے جس کا فوری اثر عام آدمی پر پڑتا ہے۔
حالانکہ کچھ عرصہ قبل بھارتی وزیر خارجہ سلمان خورشید نے بھی اعتراف کیا تھا کہ کچھ قوتیں دونوں طرف کی امن کی مخالف ہیں۔ اسی لیے جوں ہی ایک قدم امن کے لیے آگے اٹھتا ہے تو فوراً ہی کوئی نہ کوئی واقعہ ایسا ضرور ہو جاتا ہے کہ دونوں ممالک چار قدم پیچھے چلے جاتے ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اب ایسا نہیں ہو گا کیونکہ یہ وارداتیں اور دہشت گردی کے واقعات اسی لیے کیے جاتے ہیں کہ معاہدہ امن سبوتاژ کیا جا سکے۔ ان کی بات بالکل صحیح تھی، ہماری حکومت نے اور صحافیوں نے اس کا خیر مقدم کیا اور باوجود چند ناپسندیدہ واقعات کے ہونے کے دونوں طرف لوگوں کا آنا جانا جاری ہے۔ لیکن اس کے باوجود میں یہ ضرور کہوں گی کہ بھارت نے اس معاملے میں بڑے پن کا ثبوت نہیں دیا اور پاکستان سے بھارت جانے والوں کے لیے بعض ایسی نامعقول شرائط رکھ دی گئی ہیں جو کسی طرح سے بھی جائز نہیں ہیں۔
ٹھیک ہے ہم مانتے ہیں کہ دلی اور ممبئی بم دھماکوں سے وہاں بہت زیادہ جانی و مالی نقصان ہوا، کوئی بھی صحیح الدماغ آدمی اس کی نفی نہیں کرے گا۔ لیکن ہم تو خود اپنے ہی ہم مذہبوں اور ہم وطنوں کی دہشت گردی کا شکار ہیں۔ دہشت گردی سے آج دنیا کا کون سا ملک محفوظ ہے؟ کیا صرف پاکستان ہی اکیلا قصور وار ہے؟ جب کہ یہ کوئی ڈھکی چھپی بات بھی نہیں کہ ان وارداتوں میں کون لوگ ملوث ہیں۔ خفیہ ایجنسیوں کو بھی الزام دینا میری نظر میں اس لیے درست نہیں ہے کہ یہ دہشت گرد اب ان کے کنٹرول سے بھی باہر ہیں۔ جتنی ایجنسیاں، اتنے گروپ، مذہبی انتہا پسند اور جہادی گروپ الگ۔ سب کا اپنا اپنا نیٹ ورک اور گاڈ فادر۔ اغوا برائے تاوان کی آسان ترکیب انھیں مالی پریشانیوں سے بھی دور رکھتی ہے۔ ہماری افواج کے پاس غالباً وہ جدید اسلحہ اور کارکردگی نہیں ہے جو ان دہشت گردوں کے پاس ہے۔ لیکن انھیں اتنا طاقتور کس نے کیا؟ پہلے تو تمام خطرناک بیماریوں کو ایک صندوق میں بند کیا گیا۔ لیکن بعد میں اپنے اپنے اقتدار کی خاطر اس صندوق کا ڈھکنا کھول دیا گیا اور ان مہلک بیماریوں نے ہمارے پیارے وطن کو اس طرح اپنی لپیٹ میں لیا کہ اب ان سے چھٹکارا پانا ممکن ہی نظر نہیں آتا۔
دیمک کو جڑ سے ختم کرنے کے لیے صرف اسپرے کافی نہیں ہوتا، بلکہ زمین کے اندر بہت گہرائی میں جا کر وہ دوا ڈالنی پڑتی ہے جو سرے سے دیمک سے نجات دلا دیتی ہے اور تھوڑے تھوڑے وقفے کے بعد یہ عمل دہرانا پڑتا ہے، تب جا کر ہمیشہ کے لیے دیمک کا خاتمہ ہوتا ہے۔ لیکن یہ ہمت کرے گا کون؟ ہماری سرزمین سے دہشت گردی کی دیمک کا ختم ہونا اب ممکن نظر نہیں آتا۔ ہم عالمی طور پر اتنے بدنام ہو چکے ہیں اس حوالے سے کہ گرین پاسپورٹ اب ہمارے لیے وجہ افتخار نہیں رہا۔ دنیا میں کہیں بھی چلے جائیں۔ آپ کو مشکوک نظروں سے دیکھا جائے گا۔ حد تو یہ کہ اسلامی ممالک کا رویہ بھی پاکستانیوں کے ساتھ نہایت تحقیر آمیز ہے اور کیوں نہ ہو ہماری حرکتیں بھی تو ایسی ہی ہیں۔ سعودی عرب میں ہر جمعہ کو منشیات کے جرم میں جن کے سر قلم ہوتے ہیں، ان میں اکثریت پاکستانیوں ہی کی ہوتی ہے۔ بدقسمتی سے یہ وہ نام نہاد پاکستانی ہوتے ہیں جو ضیاء الحق کے دور میں افغانستان سے درآمد کیے گئے تھے۔ جو منشیات کی بڑی کھیپ لے کر پاکستان آئے تھے۔ انھوں نے خصوصاً کراچی کے علاقے سہراب گوٹھ میں ٹھکانے بنائے، پیسے کے بل بوتے پر جائیدادیں خریدیں اور نہایت آسانی سے کئی کئی شناختی کارڈ بنوا لیے اور پاکستانی ہو گئے۔ آج بھی کراچی میں یہی لوگ جرائم میں ملوث ہیں۔
میں بات کر رہی تھی بھارت کی طرف سے ان شرائط کی جو نہایت نا معقول ہیں۔ پہلی شرط تو یہی کہ کوئی پاکستانی سیاح کی حیثیت سے بھارت نہیں جا سکتا۔ صرف اسی شہر کا ویزا ملے گا جہاں اس کا کوئی عزیز رشتے دار قیام پذیر ہو۔ وہ اسپانسر شپ سرٹیفکیٹ بھیجے۔ اپنی ملازمت کا کارڈ بھیجے۔ یوٹیلٹی بلز کی اصل کاپی بھیجے وغیرہ وغیرہ۔ دوسری پابندیاں الگ، جو نہایت احمقانہ ہیں۔ بھلا بتائیے! ہر شہر میں کسی رشتے دار کا ہونا اور وہ بھی اس شرط کے ساتھ کہ اسپانسرشپ سرٹیفکیٹ پر کسی گزیٹڈ آفیسر کا تصدیق نامہ بھی، بالکل ناجائز ہے۔ پاکستان بنانے والوں کی اولاد بھی اب سینئر سٹیزن ہیں۔ وہاں کون بیٹھا ہے جو انھیں بلائے۔ بہت کم خاندان دونوں طرف ایسے ہیں جن کے قرابت دار دونوں ملکوں میں ہیں۔ سوال یہ ہے کہ پاکستانی کیوں بحیثیت سیاح دلی، آگرہ، جے پور، نینی تال، گوا، حیدرآباد دکن، شملہ یا مسوری نہیں جا سکتے۔ کیا صرف پاکستانی ہی دہشت گرد ہیں، کوئی اور نہیں؟
اب آئیے! ایک اور شرط کا احوال سنیے۔ اٹاری پر Visa on Arrival کا سلسلہ جاری ہے۔ یہاں اسپانسر شپ کی وہ تمام عجوبہ روزگار شرائط شامل ہونے کے ساتھ ساتھ ایک اور نیابت ظالمانہ اور احمقانہ شرط بھی عائد ہے، وہ یہ کہ اٹاری سے ویزا لینے والے پاکستانی شہری پنجاب، جموں و کشمیر اور کیرالہ نہیں جا سکتے۔ ٹھیک ہے۔ لیکن اٹاری سے کہیں بھی جانے والوں کو امرتسر ضرور جانا پڑتا ہے، اور وہیں سے بس یا ٹرین پکڑی جا سکتی ہے۔ لیکن پاکستانی امرتسر میں رات نہیں گزار سکتے، کسی ہوٹل میں نہیں ٹھہر سکتے۔ انھیں اسٹیشن ہی سے فوراً اپنے مطلوبہ شہر روانہ ہونا ہے۔ اس ظالمانہ شرط کا بدترین پہلو یہ ہے کہ اٹاری پہ ٹیکسی والے سردار جی آپ کی کھال کھینچنے کے لیے تیار کھڑے ہیں۔ وہ 700 انڈین روپے لے کر آدھے گھنٹے میں آپ کو امرتسر کے اسٹیشن پہ پٹخ کے واپس چلے جائیں گے۔ یہی حال وہاں سے واپسی پر ہے۔ اگر آپ کو مطلوبہ ٹرین یا بس نہ ملی اور آپ کو امرتسر میں رکنا پڑا تو وہاں کوئی ٹھکانہ نہیں۔ ہو سکتا ہے پولیس آپ کو گرفتار کر لے۔
آپ کو ہر قیمت پر ریلوے اسٹیشن پہ G.P.R (ریلوے پولیس) سے اجازت نامہ حاصل کرنا پڑے گا۔ ورنہ یہاں کوئی پرسان حال نہیں۔ اب بھارتی حکومت سے ایک سوال ہے کہ اگر پنجاب ہمارے لیے ممنوع ہے تو آپ نے ہر ٹیکسی ڈرائیور کی جیب گرم کرنے کے لیے اٹاری سے امرتسر جانے کی پابندی کیوں لگائی ہے۔ 700 انڈین روپے کا مطلب آج کے ایک ہزار پاکستانی ہیں۔ کیا یہ ظلم نہیں؟ پھر جب آپ کا امرتسر پنجاب میں ہے سکھوں کا گڑھ ہے اور پاکستانی حکومت پہ آپ ہمیشہ سکھوں کی سپورٹ کا الزام بھی لگاتے ہیں۔ حتیٰ کہ آپ ہماری فوج کو بھی خالصتان تحریک کی حوصلہ افزائی میں شریک کر لیتے ہیں۔ تو پھر آپ نے سیدھے سیدھے اٹاری سے دہلی تک کے لیے براہ راست بسیں یا ٹرین کیوں نہ چلوا دیں۔ شاید ویزا پالیسی میں یہ احمقانہ اور ظالمانہ شرط عائد کرتے وقت دوپہر کے بارہ بجے ہوں گے اور وہاں کوئی نہ کوئی سردار جی بھی شریک ہوں گے۔ یا پھر اس معاہدے کی تکمیل امرتسر یا جالندھر میں ہوئی ہو گی۔
ذرا ٹھنڈے دل سے سوچیں اگر کسی پاکستانی شہری کو جن کے ساتھ خواتین اور بچے بھی ہوں، انھیں جاتے وقت یا آتے وقت مغرب ہو جاتی ہے تو جانے والے مسافر کہاں رات گزاریں تا کہ اپنی مطلوبہ ٹرین لے سکیں۔ اور واپس آنے والے مسافروں کو اگر کئی عذابوں سے گزر کر امرتسر پہنچنے پر رات ہو جائے اور وہ فوراً ٹیکسی لے کر اٹاری کے لیے روانہ بھی ہو جائے تو اٹاری چیک پوسٹ شام چار بجے بند ہو جاتا ہے۔ ایسی صورت میں وہ مسافر کہاں رات گزاریں؟ بھارتی حکومت کو چاہیے کہ اٹاری پر ایک مہمان خانہ تعمیر کرائے۔ جہاں ایسے مسافر رات گزار سکیں جو شام چار بجے کے بعد اٹاری چیک پوسٹ پہنچتے ہیں۔ یا پھر عقل مندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ناگزیر وجوہات کی بنا پر انھیں آتے اور جاتے امرتسر کے کسی ہوٹل میں رات گزارنے کی اجازت دی جائے۔ پتہ نہیں کیوں ہمیشہ بھارتی حکومت بھارت آنے والے پاکستانیوں کو اذیت دے کر خوش ہوتی ہے۔
حالانکہ کچھ عرصہ قبل بھارتی وزیر خارجہ سلمان خورشید نے بھی اعتراف کیا تھا کہ کچھ قوتیں دونوں طرف کی امن کی مخالف ہیں۔ اسی لیے جوں ہی ایک قدم امن کے لیے آگے اٹھتا ہے تو فوراً ہی کوئی نہ کوئی واقعہ ایسا ضرور ہو جاتا ہے کہ دونوں ممالک چار قدم پیچھے چلے جاتے ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اب ایسا نہیں ہو گا کیونکہ یہ وارداتیں اور دہشت گردی کے واقعات اسی لیے کیے جاتے ہیں کہ معاہدہ امن سبوتاژ کیا جا سکے۔ ان کی بات بالکل صحیح تھی، ہماری حکومت نے اور صحافیوں نے اس کا خیر مقدم کیا اور باوجود چند ناپسندیدہ واقعات کے ہونے کے دونوں طرف لوگوں کا آنا جانا جاری ہے۔ لیکن اس کے باوجود میں یہ ضرور کہوں گی کہ بھارت نے اس معاملے میں بڑے پن کا ثبوت نہیں دیا اور پاکستان سے بھارت جانے والوں کے لیے بعض ایسی نامعقول شرائط رکھ دی گئی ہیں جو کسی طرح سے بھی جائز نہیں ہیں۔
ٹھیک ہے ہم مانتے ہیں کہ دلی اور ممبئی بم دھماکوں سے وہاں بہت زیادہ جانی و مالی نقصان ہوا، کوئی بھی صحیح الدماغ آدمی اس کی نفی نہیں کرے گا۔ لیکن ہم تو خود اپنے ہی ہم مذہبوں اور ہم وطنوں کی دہشت گردی کا شکار ہیں۔ دہشت گردی سے آج دنیا کا کون سا ملک محفوظ ہے؟ کیا صرف پاکستان ہی اکیلا قصور وار ہے؟ جب کہ یہ کوئی ڈھکی چھپی بات بھی نہیں کہ ان وارداتوں میں کون لوگ ملوث ہیں۔ خفیہ ایجنسیوں کو بھی الزام دینا میری نظر میں اس لیے درست نہیں ہے کہ یہ دہشت گرد اب ان کے کنٹرول سے بھی باہر ہیں۔ جتنی ایجنسیاں، اتنے گروپ، مذہبی انتہا پسند اور جہادی گروپ الگ۔ سب کا اپنا اپنا نیٹ ورک اور گاڈ فادر۔ اغوا برائے تاوان کی آسان ترکیب انھیں مالی پریشانیوں سے بھی دور رکھتی ہے۔ ہماری افواج کے پاس غالباً وہ جدید اسلحہ اور کارکردگی نہیں ہے جو ان دہشت گردوں کے پاس ہے۔ لیکن انھیں اتنا طاقتور کس نے کیا؟ پہلے تو تمام خطرناک بیماریوں کو ایک صندوق میں بند کیا گیا۔ لیکن بعد میں اپنے اپنے اقتدار کی خاطر اس صندوق کا ڈھکنا کھول دیا گیا اور ان مہلک بیماریوں نے ہمارے پیارے وطن کو اس طرح اپنی لپیٹ میں لیا کہ اب ان سے چھٹکارا پانا ممکن ہی نظر نہیں آتا۔
دیمک کو جڑ سے ختم کرنے کے لیے صرف اسپرے کافی نہیں ہوتا، بلکہ زمین کے اندر بہت گہرائی میں جا کر وہ دوا ڈالنی پڑتی ہے جو سرے سے دیمک سے نجات دلا دیتی ہے اور تھوڑے تھوڑے وقفے کے بعد یہ عمل دہرانا پڑتا ہے، تب جا کر ہمیشہ کے لیے دیمک کا خاتمہ ہوتا ہے۔ لیکن یہ ہمت کرے گا کون؟ ہماری سرزمین سے دہشت گردی کی دیمک کا ختم ہونا اب ممکن نظر نہیں آتا۔ ہم عالمی طور پر اتنے بدنام ہو چکے ہیں اس حوالے سے کہ گرین پاسپورٹ اب ہمارے لیے وجہ افتخار نہیں رہا۔ دنیا میں کہیں بھی چلے جائیں۔ آپ کو مشکوک نظروں سے دیکھا جائے گا۔ حد تو یہ کہ اسلامی ممالک کا رویہ بھی پاکستانیوں کے ساتھ نہایت تحقیر آمیز ہے اور کیوں نہ ہو ہماری حرکتیں بھی تو ایسی ہی ہیں۔ سعودی عرب میں ہر جمعہ کو منشیات کے جرم میں جن کے سر قلم ہوتے ہیں، ان میں اکثریت پاکستانیوں ہی کی ہوتی ہے۔ بدقسمتی سے یہ وہ نام نہاد پاکستانی ہوتے ہیں جو ضیاء الحق کے دور میں افغانستان سے درآمد کیے گئے تھے۔ جو منشیات کی بڑی کھیپ لے کر پاکستان آئے تھے۔ انھوں نے خصوصاً کراچی کے علاقے سہراب گوٹھ میں ٹھکانے بنائے، پیسے کے بل بوتے پر جائیدادیں خریدیں اور نہایت آسانی سے کئی کئی شناختی کارڈ بنوا لیے اور پاکستانی ہو گئے۔ آج بھی کراچی میں یہی لوگ جرائم میں ملوث ہیں۔
میں بات کر رہی تھی بھارت کی طرف سے ان شرائط کی جو نہایت نا معقول ہیں۔ پہلی شرط تو یہی کہ کوئی پاکستانی سیاح کی حیثیت سے بھارت نہیں جا سکتا۔ صرف اسی شہر کا ویزا ملے گا جہاں اس کا کوئی عزیز رشتے دار قیام پذیر ہو۔ وہ اسپانسر شپ سرٹیفکیٹ بھیجے۔ اپنی ملازمت کا کارڈ بھیجے۔ یوٹیلٹی بلز کی اصل کاپی بھیجے وغیرہ وغیرہ۔ دوسری پابندیاں الگ، جو نہایت احمقانہ ہیں۔ بھلا بتائیے! ہر شہر میں کسی رشتے دار کا ہونا اور وہ بھی اس شرط کے ساتھ کہ اسپانسرشپ سرٹیفکیٹ پر کسی گزیٹڈ آفیسر کا تصدیق نامہ بھی، بالکل ناجائز ہے۔ پاکستان بنانے والوں کی اولاد بھی اب سینئر سٹیزن ہیں۔ وہاں کون بیٹھا ہے جو انھیں بلائے۔ بہت کم خاندان دونوں طرف ایسے ہیں جن کے قرابت دار دونوں ملکوں میں ہیں۔ سوال یہ ہے کہ پاکستانی کیوں بحیثیت سیاح دلی، آگرہ، جے پور، نینی تال، گوا، حیدرآباد دکن، شملہ یا مسوری نہیں جا سکتے۔ کیا صرف پاکستانی ہی دہشت گرد ہیں، کوئی اور نہیں؟
اب آئیے! ایک اور شرط کا احوال سنیے۔ اٹاری پر Visa on Arrival کا سلسلہ جاری ہے۔ یہاں اسپانسر شپ کی وہ تمام عجوبہ روزگار شرائط شامل ہونے کے ساتھ ساتھ ایک اور نیابت ظالمانہ اور احمقانہ شرط بھی عائد ہے، وہ یہ کہ اٹاری سے ویزا لینے والے پاکستانی شہری پنجاب، جموں و کشمیر اور کیرالہ نہیں جا سکتے۔ ٹھیک ہے۔ لیکن اٹاری سے کہیں بھی جانے والوں کو امرتسر ضرور جانا پڑتا ہے، اور وہیں سے بس یا ٹرین پکڑی جا سکتی ہے۔ لیکن پاکستانی امرتسر میں رات نہیں گزار سکتے، کسی ہوٹل میں نہیں ٹھہر سکتے۔ انھیں اسٹیشن ہی سے فوراً اپنے مطلوبہ شہر روانہ ہونا ہے۔ اس ظالمانہ شرط کا بدترین پہلو یہ ہے کہ اٹاری پہ ٹیکسی والے سردار جی آپ کی کھال کھینچنے کے لیے تیار کھڑے ہیں۔ وہ 700 انڈین روپے لے کر آدھے گھنٹے میں آپ کو امرتسر کے اسٹیشن پہ پٹخ کے واپس چلے جائیں گے۔ یہی حال وہاں سے واپسی پر ہے۔ اگر آپ کو مطلوبہ ٹرین یا بس نہ ملی اور آپ کو امرتسر میں رکنا پڑا تو وہاں کوئی ٹھکانہ نہیں۔ ہو سکتا ہے پولیس آپ کو گرفتار کر لے۔
آپ کو ہر قیمت پر ریلوے اسٹیشن پہ G.P.R (ریلوے پولیس) سے اجازت نامہ حاصل کرنا پڑے گا۔ ورنہ یہاں کوئی پرسان حال نہیں۔ اب بھارتی حکومت سے ایک سوال ہے کہ اگر پنجاب ہمارے لیے ممنوع ہے تو آپ نے ہر ٹیکسی ڈرائیور کی جیب گرم کرنے کے لیے اٹاری سے امرتسر جانے کی پابندی کیوں لگائی ہے۔ 700 انڈین روپے کا مطلب آج کے ایک ہزار پاکستانی ہیں۔ کیا یہ ظلم نہیں؟ پھر جب آپ کا امرتسر پنجاب میں ہے سکھوں کا گڑھ ہے اور پاکستانی حکومت پہ آپ ہمیشہ سکھوں کی سپورٹ کا الزام بھی لگاتے ہیں۔ حتیٰ کہ آپ ہماری فوج کو بھی خالصتان تحریک کی حوصلہ افزائی میں شریک کر لیتے ہیں۔ تو پھر آپ نے سیدھے سیدھے اٹاری سے دہلی تک کے لیے براہ راست بسیں یا ٹرین کیوں نہ چلوا دیں۔ شاید ویزا پالیسی میں یہ احمقانہ اور ظالمانہ شرط عائد کرتے وقت دوپہر کے بارہ بجے ہوں گے اور وہاں کوئی نہ کوئی سردار جی بھی شریک ہوں گے۔ یا پھر اس معاہدے کی تکمیل امرتسر یا جالندھر میں ہوئی ہو گی۔
ذرا ٹھنڈے دل سے سوچیں اگر کسی پاکستانی شہری کو جن کے ساتھ خواتین اور بچے بھی ہوں، انھیں جاتے وقت یا آتے وقت مغرب ہو جاتی ہے تو جانے والے مسافر کہاں رات گزاریں تا کہ اپنی مطلوبہ ٹرین لے سکیں۔ اور واپس آنے والے مسافروں کو اگر کئی عذابوں سے گزر کر امرتسر پہنچنے پر رات ہو جائے اور وہ فوراً ٹیکسی لے کر اٹاری کے لیے روانہ بھی ہو جائے تو اٹاری چیک پوسٹ شام چار بجے بند ہو جاتا ہے۔ ایسی صورت میں وہ مسافر کہاں رات گزاریں؟ بھارتی حکومت کو چاہیے کہ اٹاری پر ایک مہمان خانہ تعمیر کرائے۔ جہاں ایسے مسافر رات گزار سکیں جو شام چار بجے کے بعد اٹاری چیک پوسٹ پہنچتے ہیں۔ یا پھر عقل مندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ناگزیر وجوہات کی بنا پر انھیں آتے اور جاتے امرتسر کے کسی ہوٹل میں رات گزارنے کی اجازت دی جائے۔ پتہ نہیں کیوں ہمیشہ بھارتی حکومت بھارت آنے والے پاکستانیوں کو اذیت دے کر خوش ہوتی ہے۔