11 ستمبر بلدیہ کے شہداء کو سلام
وہ ایک منحوس دن تھا جس روز تقریباً 300 مزدور بند عمارت میں جھلس کر شہید ہوئے.
وہ ایک منحوس دن تھا جس روز تقریباً 300 مزدور بند عمارت میں جھلس کر شہید ہوئے۔ ان کی آہ و بکا اور چیخوں میں کہیں بھی یہ پتہ نہیں چل رہا تھا کہ کون مسلمان ہے، کون ہندو ہے، کون پٹھان، پنجابی ہے یا مہاجر۔ صرف ایک ہی آواز ''ہمیں بچاؤ''۔ مگر کسی نے بھی ان بند دروازوں یا دیواروں پر ضرب نہیں لگائی کہ اسے توڑ کر ان جھلستے ہوئے مزدوروں کو نکالا جاسکے۔ ایسے واقعات برصغیر میں پہلی بار نہیں ہوئے۔ ہر موقع پر محنت کش ہی مرتے ہیں۔ زلزلے آتے ہیں تو مزدور مرتے ہیں، سیلاب آتے ہیں تو مزدور مرتے ہیں، طوفان آتے ہیں تو مزدور مرتے ہیں، آگ لگتی ہے تو مزدور مرتے ہیں۔ اس لیے کہ حکمران طبقات رہتے ہی ایسے علاقوں، حفاظتوں اور محافظوں کے درمیان ہیں کہ انھیں ان آفات سے واسطہ نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے۔ جب محنت کشوں کے خون سے مضبوط اور فائرپروف عمارتیں تعمیر کریں گے تو کیسے مریں گے۔
اس دنیا میں ہر ماہ 18 لاکھ انسان صرف بھوک، افلاس، غربت، قحط اور غذائی قلت سے لقمہ اجل ہورہے ہیں لیکن اسی دنیا میں 2000ملٹی نیشنل کمپنیوں کے مالکان میں اب تک کیا ایک آدمی بھی مرا ہے؟ جواب نفی میں ملے گا۔ امریکا میں کتنے طوفان آئے، چین میں سیلاب آئے، بھارت میں پلیگ کی وبا آئی اور پاکستان میں زلزلے اور سیلاب آئے لیکن کوئی سرمایہ دار یا جاگیردار نہیں مرا۔ مرا تو مزدور اور کسان۔ کراچی کو ہی لے لیں، روز 10/15 لوگ مرتے ہیں، ان میں کوئی سرمایہ دار یا جاگیردار نہیں مرتا، مرتا ہے تو محنت کش۔ کراچی محنت کشوں کا شہر ہے۔ 1950 اور اس کے بعد کی دو دہائیوں میں ہونے والی تیز ترین معاشی، صنعتی ترقی کا محور کراچی تھا۔ گویا ترقی بڑے پیمانے پر عوام کی حالت زار میں بہتری نہ لاسکی لیکن اس کے باوجود کراچی کو روشنیوں کا شہر کہا جاتا تھا۔ اس عہد میں کسی حد تک فن، ادب اور تہذیب و تمدن میں نکھار آرہا تھا تاہم معاشی و سماجی ترقی کے انتہائی غیر ہموار کردار نے سماجی تضادات کو تیز کردیا جس نے 1968-69 کے انقلاب نے جنم لیا۔
کراچی کے محنت کش طبقات جراتمندانہ بنیاد پر متحد ہوکر اس انقلابی تحریک کا ہراول دستہ بن گئے، اور رنگ و نسل، قومیت، مذہب، فرقے، ذات پات کے تمام تر فرسودہ تعصبات کو جھٹک کر ثابت کیا کہ محنت کش ایک نیا اور بہتر سماج تعمیر کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، تاہم یہ شاندار تحریک ایک غیر طبقاتی فتح سے ہمکنار نہ ہوسکی۔ اس پسپائی سے نہ صرف کراچی بلکہ پورے پاکستان میں ماضی کے تعصبات، بیگانگی اور مایوسی کی نفسیات نے عوامی شعور کو منتشر کردیا۔ کراچی کے محنت کشوں اور انقلابی نوجوانوں نے حکمران طبقات اور ان کے سرمایہ دارانہ نظام کو جس طرح چیلنج کیا تھا اس سے اشرافیہ کو شدید دھچکا لگا تھا، حکمران لرز کے رہ گئے تھے۔ چنانچہ ''تقسیم کرکے حکومت کرنے'' کی پالیسی کو ازسرنو مرتب کیا گیا۔ ضیا الحق کی آمریت کے سائے تلے ریاستی اداروں اور سیاست، صحافت اور ثقافت پر حاوی حکمرانوں کے آلہ کاروں کے ذریعہ سماج میں تعصبات پر مبنی رجعتی تقسیم کو ابھارا گیا۔ یہ سلسلہ آج تک جاری ہے۔ اس وقت کراچی میں درجنوں قومیتوں اور فرقوں سے تعلق رکھنے والے لوگ آباد ہیں۔
کوئی حاوی سیاسی طاقت اس لسانی اور مذہبی تقسیم کو ختم کرکے طبقاتی بنیادوں پر عوام کو یکجا کرنا ہی نہیں چاہتی۔ ایم کیو ایم کی قیادت گزشتہ 23 سال سے 1992 کے آپریشن کا ماتم کرتی رہی ہے لیکن کھیل میں نئے اور زیادہ ماہر کھلاڑیوں کی شمولیت کے بعد اب خود فوجی آپریشن کا مطالبہ کرنے لگی ہے، المیہ یہ ہے کہ اس سارے عرصے میں ایم کیو ایم برسراقتدار رہ کر طاقت، دولت اور مفادات کے مزے لوٹنے کے ساتھ ساتھ خراب اختلافات کا ڈرامہ کرتے ہوئے رونا دھونا بھی کرتی رہی ہے۔ ماضی میں مہاجر کمیونٹی کی اکثریت ایم کیو ایم کو سیاسی و سماجی بنیادیں فراہم کرتی رہی ہے لیکن ایم کیو ایم کے دور حکومت میں مہاجر عوام کی غربت، بیروزگاری اور محرومی میں اضافہ ہوا ہے اور کراچی کے ہر شہری کی طرح وہ بھی جرائم اور دہشت گردی کا شکار رہے ہیں۔ ایم کیو ایم سے وابستہ امیدیں ٹوٹنے کے بعد مہاجر محنت کشوں اور نوجوانوں میں بدظنی اور اکتاہٹ کے جذبات نے جنم لیا ہے۔
اس کے علاوہ روزگار کے مواقع کی تلاش میں پشتونوں اور دوسری قومیتوں کی بڑے پیمانے پر کراچی ہجرت کی وجہ سے بھی آبادی کا تناسب تبدیل ہوا ہے، جس سے ایم کیو ایم کی سماجی بنیادیں کمزور ہوئی ہیں۔ یوں مقامی اداروں کے ساتھ ساتھ سامراجیوں کے لیے بھی ایم کیو ایم کی افادیت اور ضرورت کم ہونے لگی ہے اور انھوں نے ایم کیو ایم کی پشت پناہی کو محدود کردیا ہے۔ مالیاتی سرمائے کے زور پر ہونے والی سیاست اسی سرمائے کی گماشتہ ہوتی ہے۔ پاکستان کے حکمران طبقات معاشی، فنی اور ثقافتی طور پر اتنے پسماندہ اور بحران زدہ ہیں کہ پیداواری صنعت اور قانونی طریقوں کے ذریعے ایک ترقی یافتہ سرمایہ دارانہ معیشت اور معاشرے کی تعمیر نہیں کرسکتے۔ یہ اپنے منافعوں میں اضافے کے لیے ٹیکس، بجلی اور گیس کی چوری سے بھی گریز نہیں کرتے اور محنت کشوں کے خون کا آخری قطرہ بھی نچوڑ لینا چاہتے ہیں۔ مختلف غنڈہ گرد عناصر مافیا گروہ اور ریاستی اہلکار اپنا حصہ وصول کرکے اس استحصال اور ڈاکہ زنی کا تحفظ کرتے ہیں۔
سرمایہ داروں کے درمیان لین دین کے تنازعات بھی غنڈہ گردی اور تشدد کے ذریعے ''حل'' کروائے جاتے ہیں۔ ایک بحران زدہ سرمایہ دارانہ نظام کے مزید گل سڑ جانے سے یہ عمل اور بھی تیز ہوگیا ہے۔ بڑھتے ہوئے معاشی بحران، ریاستی اداروں کی داخلی، ٹوٹ پھوٹ، نوجوانوں میں بیروزگاری کی خوفناک شرح، بدترین غربت اور بڑھتی ہوئی طبقاتی خلیج نے کراچی میں قتل عام، بھتہ خوری، جرائم اور دہشت گردی کو معمول بنادیا ہے۔ کوئی بھی انسان پیدائشی طور پر جھوٹا، فریبی، قاتل، بدعنوان اور دہشت گرد نہیں ہوتا بلکہ معاشرہ مادی حالات اور سماجی نظام اس کے شعور اور سماجی کردار کی تشکیل کرتے ہیں۔ یہ کوئی حادثہ نہیں کہ ایم کیو ایم کی قیادت جاگیرداری نظام کے خلاف تو بہت چیختی چلاتی ہے لیکن سرمایہ داری کے بارے میں خاموش ہے۔ کیا کراچی کا مسئلہ جاگیرداری ہے؟ مختلف غنڈہ گرد سرمایہ داروں پر مشتمل دوسری سیاسی جماعتوں کی قیادتیں بھی فساد کی اصل جڑ یعنی سرمایہ دارانہ نظام اور اس کے استحصال کے خلاف آواز بلند کرنے سے گریزاں ہیں۔
سب علامت کا رونا روتے ہیں، بیماری کی بات کوئی نہیں کرتا۔ آج تک کسی جماعت نے آٹا، دال، چاول، چینی، دودھ، گوشت وغیرہ کے روزانہ کی بنیاد پر قیمتوں میں مسلسل اضافے کے خلاف ایک بھی ٹوکن ہڑتال کرنے کی بھی توفیق نہیں کی۔ ان تمام مسائل کی بنیادی جڑ سرمایہ دارانہ نظام ہے جو اس دنیا میں ہر روز 75 ہزار انسانوں کو نگلتا جارہا ہے۔ ارسطو نے درست کہا تھا کہ ''طبقاتی نظام تمام برائیوں کی جڑ ہے''۔ پھر اس نظام کو کیوں نہ بدلا جائے۔ بقول ساحر لدھیانوی ''سیکڑوں کی محنتوں پہ ایک کیوں پلے' اونچ اور نیچ بھرا یہ نظام کیوں چلے' آج ہے تو اس آج کو آج ہی بدل ڈالو!'' سرمایہ داری کا متبادل ایک غیرطبقاتی امداد باہمی کا معاشرہ میں مضمر ہے۔ ایک ایسا سماج جہاں سب مل کر پیداوار کریں اور مل کر بانٹ لیں۔ کوئی ارب پتی ہو اور نہ کوئی گداگر۔ سیکڑوں کی محنتوں پہ ایک نہ پلے۔ ایک ایسے سماج کی تشکیل دینی ہوگی جہاں کوئی کسی کا استحصال نہ کرپائے۔ ہر ایک سب کا اور سب ہر ایک کا ہو۔ ایک آسمان تالے ایک خاندان دنیا کی تمام تر نعمتوں سے لطف اندوز ہوں۔
اس دنیا میں ہر ماہ 18 لاکھ انسان صرف بھوک، افلاس، غربت، قحط اور غذائی قلت سے لقمہ اجل ہورہے ہیں لیکن اسی دنیا میں 2000ملٹی نیشنل کمپنیوں کے مالکان میں اب تک کیا ایک آدمی بھی مرا ہے؟ جواب نفی میں ملے گا۔ امریکا میں کتنے طوفان آئے، چین میں سیلاب آئے، بھارت میں پلیگ کی وبا آئی اور پاکستان میں زلزلے اور سیلاب آئے لیکن کوئی سرمایہ دار یا جاگیردار نہیں مرا۔ مرا تو مزدور اور کسان۔ کراچی کو ہی لے لیں، روز 10/15 لوگ مرتے ہیں، ان میں کوئی سرمایہ دار یا جاگیردار نہیں مرتا، مرتا ہے تو محنت کش۔ کراچی محنت کشوں کا شہر ہے۔ 1950 اور اس کے بعد کی دو دہائیوں میں ہونے والی تیز ترین معاشی، صنعتی ترقی کا محور کراچی تھا۔ گویا ترقی بڑے پیمانے پر عوام کی حالت زار میں بہتری نہ لاسکی لیکن اس کے باوجود کراچی کو روشنیوں کا شہر کہا جاتا تھا۔ اس عہد میں کسی حد تک فن، ادب اور تہذیب و تمدن میں نکھار آرہا تھا تاہم معاشی و سماجی ترقی کے انتہائی غیر ہموار کردار نے سماجی تضادات کو تیز کردیا جس نے 1968-69 کے انقلاب نے جنم لیا۔
کراچی کے محنت کش طبقات جراتمندانہ بنیاد پر متحد ہوکر اس انقلابی تحریک کا ہراول دستہ بن گئے، اور رنگ و نسل، قومیت، مذہب، فرقے، ذات پات کے تمام تر فرسودہ تعصبات کو جھٹک کر ثابت کیا کہ محنت کش ایک نیا اور بہتر سماج تعمیر کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، تاہم یہ شاندار تحریک ایک غیر طبقاتی فتح سے ہمکنار نہ ہوسکی۔ اس پسپائی سے نہ صرف کراچی بلکہ پورے پاکستان میں ماضی کے تعصبات، بیگانگی اور مایوسی کی نفسیات نے عوامی شعور کو منتشر کردیا۔ کراچی کے محنت کشوں اور انقلابی نوجوانوں نے حکمران طبقات اور ان کے سرمایہ دارانہ نظام کو جس طرح چیلنج کیا تھا اس سے اشرافیہ کو شدید دھچکا لگا تھا، حکمران لرز کے رہ گئے تھے۔ چنانچہ ''تقسیم کرکے حکومت کرنے'' کی پالیسی کو ازسرنو مرتب کیا گیا۔ ضیا الحق کی آمریت کے سائے تلے ریاستی اداروں اور سیاست، صحافت اور ثقافت پر حاوی حکمرانوں کے آلہ کاروں کے ذریعہ سماج میں تعصبات پر مبنی رجعتی تقسیم کو ابھارا گیا۔ یہ سلسلہ آج تک جاری ہے۔ اس وقت کراچی میں درجنوں قومیتوں اور فرقوں سے تعلق رکھنے والے لوگ آباد ہیں۔
کوئی حاوی سیاسی طاقت اس لسانی اور مذہبی تقسیم کو ختم کرکے طبقاتی بنیادوں پر عوام کو یکجا کرنا ہی نہیں چاہتی۔ ایم کیو ایم کی قیادت گزشتہ 23 سال سے 1992 کے آپریشن کا ماتم کرتی رہی ہے لیکن کھیل میں نئے اور زیادہ ماہر کھلاڑیوں کی شمولیت کے بعد اب خود فوجی آپریشن کا مطالبہ کرنے لگی ہے، المیہ یہ ہے کہ اس سارے عرصے میں ایم کیو ایم برسراقتدار رہ کر طاقت، دولت اور مفادات کے مزے لوٹنے کے ساتھ ساتھ خراب اختلافات کا ڈرامہ کرتے ہوئے رونا دھونا بھی کرتی رہی ہے۔ ماضی میں مہاجر کمیونٹی کی اکثریت ایم کیو ایم کو سیاسی و سماجی بنیادیں فراہم کرتی رہی ہے لیکن ایم کیو ایم کے دور حکومت میں مہاجر عوام کی غربت، بیروزگاری اور محرومی میں اضافہ ہوا ہے اور کراچی کے ہر شہری کی طرح وہ بھی جرائم اور دہشت گردی کا شکار رہے ہیں۔ ایم کیو ایم سے وابستہ امیدیں ٹوٹنے کے بعد مہاجر محنت کشوں اور نوجوانوں میں بدظنی اور اکتاہٹ کے جذبات نے جنم لیا ہے۔
اس کے علاوہ روزگار کے مواقع کی تلاش میں پشتونوں اور دوسری قومیتوں کی بڑے پیمانے پر کراچی ہجرت کی وجہ سے بھی آبادی کا تناسب تبدیل ہوا ہے، جس سے ایم کیو ایم کی سماجی بنیادیں کمزور ہوئی ہیں۔ یوں مقامی اداروں کے ساتھ ساتھ سامراجیوں کے لیے بھی ایم کیو ایم کی افادیت اور ضرورت کم ہونے لگی ہے اور انھوں نے ایم کیو ایم کی پشت پناہی کو محدود کردیا ہے۔ مالیاتی سرمائے کے زور پر ہونے والی سیاست اسی سرمائے کی گماشتہ ہوتی ہے۔ پاکستان کے حکمران طبقات معاشی، فنی اور ثقافتی طور پر اتنے پسماندہ اور بحران زدہ ہیں کہ پیداواری صنعت اور قانونی طریقوں کے ذریعے ایک ترقی یافتہ سرمایہ دارانہ معیشت اور معاشرے کی تعمیر نہیں کرسکتے۔ یہ اپنے منافعوں میں اضافے کے لیے ٹیکس، بجلی اور گیس کی چوری سے بھی گریز نہیں کرتے اور محنت کشوں کے خون کا آخری قطرہ بھی نچوڑ لینا چاہتے ہیں۔ مختلف غنڈہ گرد عناصر مافیا گروہ اور ریاستی اہلکار اپنا حصہ وصول کرکے اس استحصال اور ڈاکہ زنی کا تحفظ کرتے ہیں۔
سرمایہ داروں کے درمیان لین دین کے تنازعات بھی غنڈہ گردی اور تشدد کے ذریعے ''حل'' کروائے جاتے ہیں۔ ایک بحران زدہ سرمایہ دارانہ نظام کے مزید گل سڑ جانے سے یہ عمل اور بھی تیز ہوگیا ہے۔ بڑھتے ہوئے معاشی بحران، ریاستی اداروں کی داخلی، ٹوٹ پھوٹ، نوجوانوں میں بیروزگاری کی خوفناک شرح، بدترین غربت اور بڑھتی ہوئی طبقاتی خلیج نے کراچی میں قتل عام، بھتہ خوری، جرائم اور دہشت گردی کو معمول بنادیا ہے۔ کوئی بھی انسان پیدائشی طور پر جھوٹا، فریبی، قاتل، بدعنوان اور دہشت گرد نہیں ہوتا بلکہ معاشرہ مادی حالات اور سماجی نظام اس کے شعور اور سماجی کردار کی تشکیل کرتے ہیں۔ یہ کوئی حادثہ نہیں کہ ایم کیو ایم کی قیادت جاگیرداری نظام کے خلاف تو بہت چیختی چلاتی ہے لیکن سرمایہ داری کے بارے میں خاموش ہے۔ کیا کراچی کا مسئلہ جاگیرداری ہے؟ مختلف غنڈہ گرد سرمایہ داروں پر مشتمل دوسری سیاسی جماعتوں کی قیادتیں بھی فساد کی اصل جڑ یعنی سرمایہ دارانہ نظام اور اس کے استحصال کے خلاف آواز بلند کرنے سے گریزاں ہیں۔
سب علامت کا رونا روتے ہیں، بیماری کی بات کوئی نہیں کرتا۔ آج تک کسی جماعت نے آٹا، دال، چاول، چینی، دودھ، گوشت وغیرہ کے روزانہ کی بنیاد پر قیمتوں میں مسلسل اضافے کے خلاف ایک بھی ٹوکن ہڑتال کرنے کی بھی توفیق نہیں کی۔ ان تمام مسائل کی بنیادی جڑ سرمایہ دارانہ نظام ہے جو اس دنیا میں ہر روز 75 ہزار انسانوں کو نگلتا جارہا ہے۔ ارسطو نے درست کہا تھا کہ ''طبقاتی نظام تمام برائیوں کی جڑ ہے''۔ پھر اس نظام کو کیوں نہ بدلا جائے۔ بقول ساحر لدھیانوی ''سیکڑوں کی محنتوں پہ ایک کیوں پلے' اونچ اور نیچ بھرا یہ نظام کیوں چلے' آج ہے تو اس آج کو آج ہی بدل ڈالو!'' سرمایہ داری کا متبادل ایک غیرطبقاتی امداد باہمی کا معاشرہ میں مضمر ہے۔ ایک ایسا سماج جہاں سب مل کر پیداوار کریں اور مل کر بانٹ لیں۔ کوئی ارب پتی ہو اور نہ کوئی گداگر۔ سیکڑوں کی محنتوں پہ ایک نہ پلے۔ ایک ایسے سماج کی تشکیل دینی ہوگی جہاں کوئی کسی کا استحصال نہ کرپائے۔ ہر ایک سب کا اور سب ہر ایک کا ہو۔ ایک آسمان تالے ایک خاندان دنیا کی تمام تر نعمتوں سے لطف اندوز ہوں۔