مریخ پر رہنے کے لیے تیار۔۔۔
2 لاکھ سے زاید افراد سرخ سیارے پر جا بسنے کے خواہش مند ہیں
سیاحت کے شوقین بہت سے لوگ دنیا کی پرخطر جگہوں اور علاقوں تک کی سیر سے نہیں چوکتے اور انھیں ایسی خطرناک اور نئی جگہوں پر وقت بتانا بھی پسند ہوتا ہے۔
اپنے اس شوق کے لیے وہ جان تک داؤ پر لگادیتے ہیں اور اگر مالی طور پر بھی اس کی سکت رکھتے ہوں تو کوئی بھی ان کو اس اچھوتے شوق کی تکمیل سے نہیں روک سکتا۔ ایسے ہی دیوانے 2 لاکھ افراد نے اپنی اسی خواہش کی نئی انتہا کو چھونے کے لیے مریخ پر جا بسنے کے لیے درخواستیں جمع کرادی ہیں۔
یہ درخواستیں ''مارس ون'' نامی فاؤنڈیشن کے پاس جمع کرائی گئی ہیں، جو کہ 2023ء تک مریخ پر انسانوں کی ایک مستقل بستی آباد کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ یوں اب سات سمندر پار کے بعد سات آسمانوں پر کی اصطلاح بھی سننے میں آسکے گی۔ ''مارس ون'' کا کہنا ہے کہ مریخ پر رہایش کی خواہش رکھنے والوں میں ایک چوتھائی افراد کا تعلق امریکا، 10 فی صد کا بھارت اور 6 فی صد کا تعلق چین سے ہے۔
اس منفرد سفر کے لیے منتخب ہونے والے افراد کو دوسرے مرحلے میں سخت جسمانی اور ذہنی مشقوں کے بعد 24 سے 40 سال تک کی عمر کے دو گروہوں میں تقسیم کر کے ان کے مابین مقابلے کرائے جائیں گے، جس کے بعد 2015ء تک ان میں سے مریخ جانے والوں کی حتمی فہرست تیار کی جائے گی۔ اس کے بعد انھیں پورے سات سال کی تربیت فراہم کی جائے گی، اور پھر یہ لوگ اپنی باقی ماندہ زندگی اسی سیارے پر گزاریں گے۔
مارس ون فاؤنڈیشن کے مطابق ابتدائی مشن پر 6 ارب ڈالر لاگت آئے گی۔ اس تنظیم کی ویب سائٹ کے مطابق ''دستیاب ٹیکنالوجی کے ساتھ مریخ پر انسانی بستی بسانا آج بھی ممکن ہے۔'' اب دیکھنا یہ ہے کہ اس زمین سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے کوچ کرجانے والے افراد کس طرح وہاں جاکر اپنی نئی زندگی کا آغاز کرتے ہیں اور دنیا کی معلوم تاریخ میں کیا جانے والا یہ اچھوتا تجربہ کتنا کام یاب رہتا ہے۔
اپنے اس شوق کے لیے وہ جان تک داؤ پر لگادیتے ہیں اور اگر مالی طور پر بھی اس کی سکت رکھتے ہوں تو کوئی بھی ان کو اس اچھوتے شوق کی تکمیل سے نہیں روک سکتا۔ ایسے ہی دیوانے 2 لاکھ افراد نے اپنی اسی خواہش کی نئی انتہا کو چھونے کے لیے مریخ پر جا بسنے کے لیے درخواستیں جمع کرادی ہیں۔
یہ درخواستیں ''مارس ون'' نامی فاؤنڈیشن کے پاس جمع کرائی گئی ہیں، جو کہ 2023ء تک مریخ پر انسانوں کی ایک مستقل بستی آباد کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ یوں اب سات سمندر پار کے بعد سات آسمانوں پر کی اصطلاح بھی سننے میں آسکے گی۔ ''مارس ون'' کا کہنا ہے کہ مریخ پر رہایش کی خواہش رکھنے والوں میں ایک چوتھائی افراد کا تعلق امریکا، 10 فی صد کا بھارت اور 6 فی صد کا تعلق چین سے ہے۔
اس منفرد سفر کے لیے منتخب ہونے والے افراد کو دوسرے مرحلے میں سخت جسمانی اور ذہنی مشقوں کے بعد 24 سے 40 سال تک کی عمر کے دو گروہوں میں تقسیم کر کے ان کے مابین مقابلے کرائے جائیں گے، جس کے بعد 2015ء تک ان میں سے مریخ جانے والوں کی حتمی فہرست تیار کی جائے گی۔ اس کے بعد انھیں پورے سات سال کی تربیت فراہم کی جائے گی، اور پھر یہ لوگ اپنی باقی ماندہ زندگی اسی سیارے پر گزاریں گے۔
مارس ون فاؤنڈیشن کے مطابق ابتدائی مشن پر 6 ارب ڈالر لاگت آئے گی۔ اس تنظیم کی ویب سائٹ کے مطابق ''دستیاب ٹیکنالوجی کے ساتھ مریخ پر انسانی بستی بسانا آج بھی ممکن ہے۔'' اب دیکھنا یہ ہے کہ اس زمین سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے کوچ کرجانے والے افراد کس طرح وہاں جاکر اپنی نئی زندگی کا آغاز کرتے ہیں اور دنیا کی معلوم تاریخ میں کیا جانے والا یہ اچھوتا تجربہ کتنا کام یاب رہتا ہے۔