عمران خان کا دورہ امریکا اور کڑوی زہریلی گولیاں
لوگ ڈاکٹر شکیل کی رہائی کی بھی باتیں کر رہے ہیں۔ لیکن ابھی تک ایسا نہیں ہوا ہے
HYDERABAD:
وززیر اعظم عمران خان کا دورہ امریکا کوئی آسان نہیں ہے۔ یہ ایک مشکل دورہ ہے۔ اسی لیے اس دورہ سے قبل ایسی تمام مشکلات حل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہیں جن کی وجہ سے یہ دورہ ناکام ہو سکے۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ پاکستان شعوری طور پر کوشش کر رہا ہے کہ عمران خان کے دورہ امریکا سے قبل ایک ایسا ماحول بنایا جائے جو اس دورہ کی کامیابی کی نوید بن سکے۔یہ آسان کام نہیں ہے۔ سفارتکاری میں جب ایک فریق کو یہ معلوم ہو جائے کہ دوسرا فریق دباؤ میں ہے تو شرائط اور خواہشات میں روز بروز اضافہ ایک فطری بات ہے۔ اور ایسا ہی ہو رہا ہے۔
عمران خان کے اس دورہ امریکا کو کامیاب بنانے کے لیے پاکستان اور عمران خان نے بہت سے کڑوی گولیاں کھائی ہیں۔ وہ بھارت جو پاکستان سے بات کرنے کے لیے تیار نہیں۔ وہ بھارت جو پاکستان کے ساتھ کرکٹ کھیلنے کے لیے تیار نہیں ۔وہ بھارت جو پاکستان پر اقتصادی پابندیاں لگانے کے لیے کوشاں ہے اس کو اقوام متحدہ میں سیکیورٹی کونسل کے لیے غیر مشروط طور پر ووٹ دیا گیا۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ اگر پاکستان ووٹ نہ دیتا تو بھی کوئی فرق نہیں پڑتا۔ لیکن ووٹ دینے کی اپنی ایک اہمیت ہے جس کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
بھارت نے اس ووٹ کے لیے کوئی باضابطہ درخواست نہیں کی تھی۔ ہم نے خود ہی دے دیا۔ بھارت کے لیے فضائی حدود کھول دی گئی ہیں۔ ہم نے پہلے شرط رکھی کہ بھارت سرحد کے پاس اپنے فضائی اڈوں سے جنگی جہاز ہٹائے پھر فضائی حدود کھولی جائیں گی۔ لیکن بعد میں ہم نے خود ہی اپنی شرط واپس لے لی۔ اور بھارت کے لیے یک طرفہ طور پر فضائی حدود کھول دی گئی۔ حالانکہ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ کم از کم بھارت سے یقین دہانی تو حاصل کی جاتی کہ اب وہ دوبارہ سرجیکل اسٹرائیک کا کوئی ڈرامہ نہیں کرے گا۔ لیکن ایسی یقین دہانی تو دور کی بات ہم تو بھارت کو مذاکرات کی میز پر لائے بغیر ہی اس کی باتیں مان رہے ہیں۔ ایک تاثر بن رہا ہے کہ یہ سب دورہ امریکا کے تناظر میں کیا جا رہا ہے۔
حافظ سعید کی گرفتاری اور دہشت گردی کی عدالت میں پیشی بھی عمران خان کے دورہ امریکا کے تناظر میں ہی دیکھی جا رہی ہے۔ امریکی صدر ٹرمپ کا اس ضمن میں ٹوئٹ بھی ساری کہانی بیان کر رہا ہے۔ یہ درست ہے کہ 2012میں امریکا نے حافظ سعید پر دس ملین ڈالر کی انعامی رقم رکھی تھی۔ تب سے یہ تاثر تھا کہ امریکا حافظ سعید کو پکڑنے یا مارنے میں سنجیدہ نہیں ہے بلکہ اس نے بھارت کو خوش کرنے کے لیے اتنی بڑی رقم رکھی ہے۔ انعامی رقم رکھے جانے کے بعد بھی حافظ سعید نے اپنی معمول کی زندگی جاری رکھی۔ اس دوران انھیں حکومت پاکستان کی جانب سے متعدد بار نظر بند بھی کیا گیا۔ اور پاکستان کی عدالتیں ان کی نظر بندی کو ختم کرتی رہی ہیں۔ نظر بندی ختم ہونے کی وجہ بھی یہی بنتی رہی کہ ان پر پاکستان میں کوئی بھی مقدمہ نہیں تھا۔ حافظ سعید کو یہ فخر تھا کہ انھوں نے کبھی پاکستان کے قانون کی کوئی خلاف ورزی نہیں کی ہے۔ وہ پاکستان کے ایک پر امن اور قانون پسند شہری ہیں۔ وہ تمام ادوار میں ریاست پاکستان کے ساتھ مکمل تعاون کرتے رہے ہیں۔ اور ان کا یہی تعاون ان کے لیے ہر مشکل میں راستے بھی بناتا رہا ہے۔
امریکا نے جب حافظ سعید پر انعامی رقم مقرر کی تھی تب عمران خان اپوزیشن میں تھے۔ انھوں نے کھل کر اس کی مخالفت کی تھی۔ اس وقت آصف زرداری بطور صدر امریکا کے دورہ پر جا رہے تھے۔ عمران خان کا موقف تھا کہ اس کے بعد انھیں دورہ پر نہیں جانا چاہیے۔ تا ہم آج عمران خان پاکستان کے وزیر اعظم ہیں ۔ اور دورہ امریکا سے پہلے حافظ سعید کی گرفتاری عمل میں آئی ہے۔ اس بار ماضی کی حکومتوں کی طرح انھیں نظر بند نہیں کیا گیا بلکہ دہشت گردی کی فنانسنگ کے جرائم کے تحت مختلف شہروں میں ان کے خلاف مقدمات درج کیے گئے ہیں۔ اور اب ان مقدمات میں ان کو گرفتار کیا گیا ہے۔
امریکا کے دورہ سے پہلے سب کو ایسی کڑوی زہریلی گولیاں کھانی پڑتی ہیں۔ عمران خان بھی کھا رہے ہیں۔ ہر وقت امریکا کے پاس پاکستان کے لیے ایسی کڑوی زہر آلود گولیاں تیار موجود ہوتی ہیں۔ اور ہم بھی ہر وقت کھانے کے لیے تیار رہتے ہیں۔
لوگ ڈاکٹر شکیل کی رہائی کی بھی باتیں کر رہے ہیں۔ لیکن ابھی تک ایسا نہیں ہوا ہے۔ باتیں تو عافیہ صدیقی کی بھی ہو رہی ہیں لیکن ایسا کوئی ماحول بھی نظر نہیں آرہا۔ امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ نے پوری دنیاسے ان لوگوں کو امریکا کے دورہ پر بلایا ہے جن کو مذہبی انتہا پسندی کی وجہ سے نشانہ بنایا گیا ہے۔
عمران خان کو اب اندازہ ہو گیا ہوگا کہ ان سے پہلے حکمران کس دباؤ میں امریکا کا دورہ کرتے رہے ہیں۔ ایک طرف ریاست پاکستان کے مفادات ہیں دوسری طرف زہر آلود کڑوی گولیاں کھانی پڑتی ہیں۔ ایک طرف پاکستان کے لیے قربانی دینا پڑتی ہے دوسری طرف مقامی طور پر سیاسی ساکھ تباہ ہوتی ہے۔ شاید اب عمران خان کو اندازہ ہو گیا ہوگا کہ یہ کہنا کتنا آسان ہے کہ ہمیں امریکا کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنی چاہیے۔ اور ایسا کرنا کتنا ناممکن ہے۔
آج امریکا کو پاکستان کی ضرورت ہے۔ افغانستان میں امن کے لیے پاکستان نے امریکا کی مدد کی ہے۔ اس مدد کی سب تعریف کر رہے ہیں۔ امریکا میں اس کی بہت گونج ہے۔ لیکن ماضی کی طرح امریکا نے جب بھی پاکستان سے کوئی فائدہ لیا ہے تواس کی پوری قیمت ادا نہیں کی ہے۔اس بار بھی ایسا ہی ہو رہا ہے۔ صدر ٹرمپ کے اگلے الیکشن میں ان کی کارکردگی میں ایک یہ بھی ہوگا کہ وہ افغانستان سے فوج واپس لائے ہیں۔ اس میں پاکستان کا ایک کلیدی کردار ہے۔ لیکن ابھی تک کے منظر نامہ میں ہم اس کلیدی کردار کاکوئی فائدہ اٹھانے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔
لیکن ایسا پہلی بار نہیں ہو رہا۔ امریکا ہر بار پاکستان کو دباؤ میں رکھ کر سستے میں اپنا کام کروا لیتا ہے۔ سعودی عرب سے ادھار تیل۔ قطر سے سرمایہ کاری سب امریکی اشارہ پر ہے۔ آئی ایم ایف سے قرضہ بھی امریکی اشارہ پر ہے۔ اس لیے امریکا سمجھتا ہے یہ سب میں نے ہی دیا ہے۔ میرے اشارے کے بغیر یہ سب نہیں مل سکتا تھا۔ اب مجھ سے اور کچھ نہ مانگا جائے۔
مجھے امید ہے کہ عمران خان کو بخوبی اندازہ ہو گیا ہوگا کہ ماضی کے حکمران بھی کیسی کیسی مشکل صورتحال سے دوچار رہے ہیں۔ ان سب نے بھی وہی کیا جو آج عمران خان کر رہے ہیں۔ لیکن عمران خان کو ایک فائدہ ہے کہ عمران خان کے سامنے کوئی ایسا اپوزیشن لیڈر نہیں ہے۔ جو ان کی طرح اس سب کا فائدہ اٹھانے کی کوشش کرے۔ سب کو علم ہے کہ ملک کے لیے یہ کڑوی گولیاں کھانی پڑتی ہیں۔ نہ وہ سب غدار تھے اور نہ عمران خان غدار ہیں۔ نہ وہ سب کمزور تھے نہ عمران خان کمزور ہیں۔ نہ وہ سب نا اہل تھے نہ عمران خان نا اہل ہیں۔ وہ سب بھی ملک کے لیے قربانی دیتے رہے عمران خان بھی ملک کے لیے قربانی دے رہے ہیں۔