پاکستانی جمہوریت دیکھیں

قوم مہنگائی اور مشکلات کے باوجود خانصاحب آپ کا ساتھ دے رہی ہے

meemsheenkhay@gmail.com

بجٹ پر لوگ اپنی اپنی رائے دے رہے ہیں، حکومت بجٹ کو بہترین قرار دے رہی ہیں جب کہ اپوزیشن جماعتیں ''عوام کش'' بجٹ قرار دے رہی ہیں۔ ٹیکسزکی بھرمار کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے ۔ بنیادی نقطہ یہ ہے کہ دودھ، چینی، مرغی کے گوشت اور چائے پر بھی ٹیکس لگا دیا گیا ہے اگر حکومت ٹیکس لگا کر ملک کی معیشت کو بحال کرنا چاہتی ہے تو اس سلسلے میں راقم الحروف کی ایک تجویز ہے کہ ریسٹورنٹس جو مہنگے ترین ہیں ان پر ٹیکس کا بوجھ ڈالے گو کہ وہ ٹیکس بھی گاہک ہی دیں گے لیکن یقینا ان کا تعلق طبقہ امرا سے ہی ہوگا کیونکہ مستری، پلمبر، ٹھیلے والے، معمولی کلرک بے چارے تو ایسے ہوٹلز کے سامنے سے گزرتے ہوئے بھی کتراتے ہیں۔

اگر آپ کو ٹیکس لگانا ہے بے شک وہ دو سو فیصد ہو تو ان اشیا پر لگائیں سگریٹ، پان، چھالیہ، کتھا، میک اپ کا سامان، موبائل، امپورٹڈ پرفیوم، گاڑیاں، منرل واٹر یہ ترجیحات ہیں امیروں کی غریبوں کا اس سے کیا تعلق ؟ ایک سال قبل میں نے کالم میں لکھا تھا کہ اگر مرغی کے ریٹس پر توجہ نہ دی گئی تو یہ گائے کے گوشت کا مقابلہ کرے گی۔ پچھلے دنوں مرغی 320 روپے فی کلو میں فروخت ہو رہی تھی جب کہ گائے کا گوشت 475 روپے فی کلو فروخت ہو رہا تھا۔ ڈاکٹرز کہتے ہیں '' مرغی کا گوشت کھاؤ'' زبان کا ذائقہ کہتا ہے کہ ''گائے کا گوشت کھایا جائے'' بھلا بتائیے ارباب اختیار تو دونوں کے مزے لوٹ رہے ہیں جب کہ غریب مہنگائی کا شکار ہے اس قوم کے وہم وگمان میں بھی نہیں تھا کہ یہ اتنی سختیاں جھیلے گی۔

ادھر وزیراعظم عمران خان کہتے ہیں کہ ''کسی کی بلیک میلنگ میں نہیں آؤں گا، حکومت کیا میری جان چلی جائے چوروں اور ڈاکوؤں کو نہیں چھوڑوں گا '' مانا کہ عمران خان بحیثیت وزیر اعظم اس پاکستان کی معیشت کو بہترکرنا چاہتے ہیں اور یہ بات حقیقت ہے کہ وہ جس منصب پر فائز ہیں وہ اپنا کام بہت ایمانداری سے کرنے کی کوشش کررہے ہیں اور اس پر عمل پیرا بھی ہیں، لیکن تاحال ان کے اقدامات کے خاطر خواہ نتائج سامنے نہیں آئے ہیں۔آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا؟

ملک میں ہاؤس بلڈنگ فنانس کارپوریشن کام کر رہی ہے، اگرکوئی غریب صرف 2 بیڈ روم والے فلیٹ کی چند اقساط ادا کرنے میں مالی مجبوری کی وجہ سے ناکام ہوجائے تو اس کی توہین و تذلیل کی جاتی ہے، شرح سود کئی گنا بڑھ جاتی ہے، جائیداد قرقی کے اشتہارات بھی اخبارات میں بمعہ نام وپتہ شایع کروا دیے جاتے ہیں۔ دوسری جانب سیاستدانوں نے بینکوں سے قرضے لے کر معاف کرائے ہیں۔ان سے پائی پائی وصول کی جائے آخر اس مملکت خداداد میں غربت کے ماروں کوکیوں کچلا جا رہا ہے؟ جنھوں نے اختیاراتی داستانے پہن رکھے ہیں وہ قرضے معاف کرا کر بھی شاہانہ طرز زندگی گزار رہے ہیں۔

قوم مہنگائی اور مشکلات کے باوجود خانصاحب آپ کا ساتھ دے رہی ہے، لہٰذا بینکوں سے لیے گئے تمام قرضوں کو جو معاف کرائے گئے ہیں ، ان سے پائی پائی وصول کریں۔خان صاحب آپ نے لاقانونیت پر عمل پیرا ہونے والوں کے لیے دروازہ کھٹکھٹایا ہے۔ چاروں صوبوں کا کوئی پرسان حال نہیں لوٹا ماری اور کرپشن نے برا حال کردیا ہے۔ جنھوں نے قرضے لیے وہ محلوں میں رہتے ہیں غربت کا مارا دو کمرے کے فلیٹ کے لیے کئی دہائیوں تک پائی پائی جوڑتا ہے، پھر اس کی قسطیں ادا کرتا ہے، گردش حالات کے باعث اپنے ضروریات کے تحفظ کی بھیک مانگتا رہتا ہے۔ یہ کیسا انصاف ہے،اب ان قرض خوروں کا بھی احتساب ہونا چاہیے، احتساب سب کا ہونا چاہیے اوراس میں حکومت اور اپوزیشن کی تخصیص نہیںہونی چاہیے۔


جمہوریت کا راگ الاپنے والوں نے قوم کو اس حال تک پہنچا دیا ہے۔ بحران در بحران کی وجہ سے ملک کے عوام ہیجانی کیفیت کا شکار ہے۔ان حالات کی وجہ سے غربت کی ماری اس قوم کی آنکھیں تو ہیں مگر بینائی کام نہیں کرتی۔کیونکہ قوم کو ہمیشہ اندھیرے میں رکھا گیا ہے،عام آدمی کو اتنے زیادہ مسائل کا سامنا ہے کہ اس کی مت ہی ماری گئی ہے ۔

قومی اسمبلی روز مچھلی بازارکا منظر پیش کر رہی ہوتی ہے، ایک دوسرے پر الزامات لگائے جاتے ہیں، تو تو میں میں روز ہوتی ہے، اسپیکر کا گھیراؤ ہوتا ہے، وزیراعظم کوخطاب نہیں کرنے دیا جاتا توکبھی اپوزیشن لیڈر تین دن میں اپنی تقریر مکمل نہیں کر پاتے ہیں۔ایم این ایز اپنی اپنی پارٹیوں کے لیڈروں کی حمایت میں سرگرداں نظر آتے ہیں۔ قومی اسمبلی میں آئین سازی کا عمل مکمل طور پر رکا ہوا ہے، مسائل کا حل نکالنے کے بجائے لیڈروں کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے تقریریں کی جاتی ہیں ۔ لاہور میں 30 ہزار چنگ چی رکشوں پر پابندی عائد کر دی گئی ، یہ پابندی کیوں لگائی گئی ، اس کا جواب تو کسی کے پاس بھی نہیں حالانکہ ہونا تو یہ چاہیے کہ چاروں صوبوں کے وزیر اعلیٰ پرائیویٹ ٹرانسپورٹرز کو دعوت دیں کہ وہ کثیر تعداد میں بسیں سڑکوں پر لائیں انھیں ہر قسم کا تحفظ دیا جائے مگر چونکہ یہ عوام کے مسائل کے حل کرنے کا معاملہ ہے لہٰذا اس پر عمل کرنا مشکل ہے۔

ہم جیسے کم عقل صحافی کا ذہن تو کام کرتا ہے مگر یہ اسمبلی کے بادشاہ جو وزیر اعلیٰ کہلاتے ہیں تو کیا ان کے ذہن میں نئی تجاویز نہیں آتیں؟ میں دعوے سے کہتا ہوں کہ کسی بھی صوبے کے وزیر اعلیٰ بھیس تبدیل کرکے چنگ چی رکشے میں سفر کریں اگر رحم دل ہوں گے تو میرا یہ دعویٰ ہے کہ وہ شاید وزارت سے استعفیٰ دے دیں کہ ان کی رعایا کس خطرناک انداز میں روزانہ چنگ چنگی رکشوں میں سفرکرتی ہے، مگر ایسا کچھ ہونے والا نہیں ہے، عوام کے لیے پبلک ٹرانسپورٹ کی سہولت کراچی جیسے بڑے شہر میں نہ ہونے کے برابر ہے، لاکھوں لوگ روزانہ چنگ چی رکشوں میں سفر کرنے پر مجبور ہیں۔ پیپلزپارٹی کی حکومت نے پچھلے برس صرف دس بسیں سرکاری سیکٹر میں چلائی تھیں۔ حقیقت کی نظر سے دیکھا جائے تو سیاستدانوں کے باہمی اختلافات نے قوم کو دیوار سے لگا دیا ہے ۔ یہ ہزار سی سی گاڑی میں سفر نہیں کرسکتے پھر چنگ چی تو ان کی پہنچ سے بہت دور ہے۔

کیا اسے آپ جمہوریت کہتے ہیں پاکستان میں تو جمہوریت کو سیاستدانوں نے مذاق بنا کر رکھ دیا ہے۔ بس ان کی سوچ ہے کہ جمہوریت کا دیا جلتا رہے اور اس جمہوریت کے سائے تلے رشوت ستانی، قتل وغارتگری، انسانیت ناپید غرض اب قانون افادیت کھوتا جا رہا ہے۔ سوشل میڈیا پر آنکھوں دیکھا حال دکھایا جا رہا ہے لیکن سب اپنی مستی میں مست ہیں اور ہمارے کچھ سیاستدان سوشل میڈیا کو بہت برا سمجھتے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ یہ کسی کی ذاتی زندگی میں مداخلت ہے، اور ان کو بدنام کرنے کا ذریعہ ہے، ایسا نہیں ہونا چاہیے۔ دراصل اس سوشل میڈیا نے قوم کی آنکھیں کھول دی ہیں جس کی وجہ سے کچھ سیاسی حضرات بہت پریشان ہیں مگر مسائل کو حل نہ کرنے کی انھوں نے قسم کھا رکھی ہے۔

سوشل میڈیا پر سیاستدانوں ، ججز کی جو وڈیوز وائرل ہوتی ہیں اس سے قوم کا وقار مجروح ہوتا ہے، اس بات کوکھلے دل سے تسلیم کرلینا چاہیے کہ عوام کے مسائل حل ہونگے تو سیاست بھی آگے چلے گی ورنہ کچھ بھی ایسا ہوسکتا ہے جس کی ہم بادی النظر میں توقع نہ رکھتے ہوں۔ صوبوں میں صحت، ٹریفک، بدعنوانی، پانی، بجلی ، قتل وغارت گری، ٹرانسپورٹ غرض ہر شعبے کے وزرا موجود ہونے کے باوجود ضابطہ اخلاق کی دھجیاں اڑا دی گئی ہیں۔ عوام نے اپنے مسائل کے حل کے لیے موجودہ حکومت کو ووٹ دیے تھے، تبدیلی کا نعرہ ان کے دل کو بھایا تھا ، لیکن جب تک اس تبدیلی کے ثمرات عام آدمی تک نہیں پہنچیں گے، اس وقت تک حقیقی تبدیلی کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکے گا۔حکومت کو اپوزیشن سے الجھنے سے بجائے اپنے وعدے پورے کرنے پر توجہ دینی چاہیے ، حکومت کام کرے گی تو تبدیلی آئے گی۔
Load Next Story