ہوشو شیدی

 سندھ میں آزادی کی جدوجہد کا لافانی کردار

 سندھ میں آزادی کی جدوجہد کا لافانی کردار

جیسے دلی شاہجہاں آباد اور آگرہ اکبر آباد کہلاتا ہے اسی طرح حیدرآباد کے بھی نیرون کوٹ سمیت کئی نام ہیں مگر حیدرآباد کی شان بان اور آن نام نہیں شخصیات ہیں سیاہ و سفید، ارد گرد پھیلے میدان، نہریں، پہاڑی ٹکریاں اور دریائے سندھ کا کچا۔ ان سے منسوب داستانیں اور اساطیری کردار۔ بتاؤ تو کم کم کو یقین آئے۔

بکسر، پلاسی، سرنگا پٹم کی طرح ایک معرکہ حیدرآباد کے قریب میانی میں بھی ہوا تھا۔ جب شاہ عالم ثانی ، سراج الدولہ اور ٹیپو سلطان کی طرح حیدرآباد کے تالپوروں کو بھی ''گوروں'' نے شکست دی تھی لیکن یہ ہار بھی فاتحانہ تھی کہ شکست خوردہ تالپور میدان سے گھوڑوں پر فرار نہیں ہوئے تھے۔ صوبدار تالپور کی غداری کے باعث ہاتھوں میں تلواریں اٹھائے پیدل اپنے گھروں کو لوٹے تھے۔ غدار کہاں نہیں ہوتے میرجعفر، میرصادق نام بدل دو کردار وہی، افعال وہی، اعمال وہی۔ میروں کی ''صاحبی'' ختم ہوئی تو اپنوں کے لگائے زخم سے ایک ضرب المثل نے جنم لیا، ''میرن کھے گھراں لگی'' یعنی میروں کی شکست کا سبب اپنے نکلے۔

دیکھا جو تیر کھا کے کمیں گاہ کی طرف

اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہوگئی

1843ء میں میانی کے میدان میں17فروری کو چارلس نیپئر کے لشکر نے تالپوروں کی عسکریوں کو ناکامی سے ہم کنار کیا تھا مگر آخری معرکہ اگلے ماہ مارچ کی 24 تاریخ کو دو آبہ کے میدان میں ہوا، جسے سندھی دبہ کی جنگ کہتے ہیں۔ عبدالجبار عابد لغاری نے ''جدوجہد آزادی میں سندھ کا کردار'' کے صفحہ 28 پر لکھا ''یہ دن انگریزوں کے لیے مشکل ترین دن تھا اور یہ جنگ میانی سے کہیں زیادہ سخت تھی۔ بلوچ اور مقامی سپاہی فرنگیوں سے بے جگری، جرأت ، ہوشیاری اور بہادری کے ساتھ لڑے اور جنگ کا نتیجہ یقیناً سندھیوں کے حق میں ہی نکلنا تھا لیکن یہاں بھی قسمت نے ساتھ نہ دیا۔ ایک طرف انگریزوں کے جاسوسوں نے خفیہ طور پر تالپوروں کے بارودخانے کو آگ لگوا دی تو دوسری سمت ایسے ہواؤں کے جھکڑ چلے کہ پورا آسمان سیاہ نظر آنے لگا۔

ایسے میں ایک گھڑسوار اپنی شجاعت اور دلیری کے جوہر دکھاتا نظر آیا۔ جس دستے کی یہ کمان کررہا تھا اس کے جوان بھی لپک اور جھپٹ رہے تھے۔ میر شیر محمد تالپور اور چویاری سلطنت کے وزیراعظم نواب احمد خان لغاری ہی نہیں انگریزی کمانڈر چارلس نیپئر نے بھی کئی مواقع پر اس گھڑ سوار کی تعریف کی۔ جیتی گئی بازی پلٹتی نظر آئی تو اس گھڑسوار نے جو ہوش محمد شدی تھا میر شیر محمد تالپور کو میدان جنگ سے محفوظ مقام کی سمت نکلنے کا مشورہ دیا۔ شیر محمد تالپور اس کے حق میں نہ تھا لیکن ہوش محمد کا اصرار غالب آیا بالخصوص یہ جملہ ''سرکار! آپ ہی اب سندھ کی امید ہیں آپ زندہ رہے تو انگریز کے ساتھ پھر بھی لڑسکتے ہیں اگر آج شہید ہوگئے تو پھر سب کے لیے غلامی کی زنجیریں ہی بچیں گی۔'' نواب احمد خان لغاری نے میر شیر محمد کو زبردستی ساتھ لیا اور میدان کارزار سے چلے گئے اب قیادت ہوش محمد شدی کے پاس تھی۔

ہوش محمد شدی کون تھا؟ افریقی النسل سیاہ فام۔ زنجبار، افریقہ تنزانیہ سے فروخت کے لیے کراچی کے ساحل پر لایا گیا غلام یا پھر مہران میں میں صدیوں سے آباد ایسے قبیلے کا فرد جو کسی فاتح کے ساتھ آیا تھا۔ کچھ بھی ہو وہ آج سندھ کا فخر ہے جب کہ خیرپور کے تالپور حکم راں اور صوبدار تالپور جو حیدرآباد کی دوسری چویاری سلطنت کا حکم راں رکن تھا، اچھی نگاہ سے نہیں دیکھے جاتے ہوشو شیدی اسی صوبدار تالپور کا ذاتی ملازم تھا۔ مزاجاً اپنے آقا سے یکسر مختلف۔ وہ سازشی، جاہ پسند، اقتدار کا خواہاں یہ دھرتی کا محب، انگریزوں کا دشمن، آزادی کا خوگر، غلامی کا دشمن، اسی لیے مالک سے رشتہ توڑا اور حریت پسندوں سے جا ملا۔

پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا

میانی کی جنگ میں میر شہداد تالپور نے ''مرویسوں پر سندھ نہ ڈیسوں'' (مرجائیں گے سندھ نہیں دیں گے) کا نعرہ لگایا تھا۔ بلوچ النسل تالپوروں کے گھروں میں آج بھی سرائیکی بولی جاتی ہے۔ یہی نعرہ دوآبہ کی جنگ میں ہوشو شیدی نے لگایا اور دھرتی پر قربان ہوگیا۔ معرکہ ختم ہوا تو ہوشو کی نعش اس حالت میں ملی کہ تلوار کا دستہ مضبوطی سے پکڑا ہوا تھا اور اس کا لاشہ کئی انگریزوں کے مردہ جسموں کے اوپر تھا۔

مارچ کے مہینے میں جمعیت الحبش، قمبرانی اور شیدی برادریاں ہوشو کی برسی کا اہتمام کرلیتی ہیں، لیکن تاریخِ سندھ میں جو کردار ہوشو کا طے ہونا چاہیے تھا بدقسمتی سے نہ ہوسکا اور اسے بھلادیا گیا۔ برسوں بعد ایاز نے لکھا:

اے سندھ تیری مٹی کو پیشانی لگاؤں

آزاد سندھ کا آخری محافظ سندھ پر قربان ہوگیا اور مہران پر انگریزوں نے تسلط جمالیا۔ غلامی کی یہ زنجیر 14اگست کو ٹوٹی اور سندھ ہی کے فرزند محمد علی جناح نے جو بابائے قوم اور قائداعظم کہلائے پاکستان کی صورت ایک آزاد وطن کا تحفہ برصغیر کے مسلمانوں کو دیا۔ اس مملکت کے حق میں پہلی قرار داد بھی سندھ کی اسمبلی نے منظور کی۔ 3 مارچ 1943ء وہ یادگار دن تھا جو ایسی روشن صبح لے کر طلوع ہوا تھا جب سندھ مسلم لیگ کے صدر سائیں جی ایم سید نے سندھ اسمبلی میں ایک قرارداد پیش کی قرار داد میں کہا گیا تھا کہ:

''ہندوستان کے مسلمان ایک علیحدہ قوم ہیں اور علیحدہ قومیت ہونے کے ناتے ایک علیحدہ وطن کا مطالبہ کرتے ہیں''

سائیں جی ایم سید کی پیش کردہ قرار داد کے الفاظ تھے''ہندوستان کے مسلمان ایک علیحدہ قوم ہیں اور علیحدہ قومیت ہونے کے ناتے علیحدہ وطن کا مطالبہ کرتے ہیں۔'' سائیں جی ایم سید کے الفاظ تھے ''یہ اجلاس حکومت سے سفارش کرتا ہے کہ وہ عزت مآب وائسرائے کے ذریعے شہنشاہ انگلستان کو اس صوبے کے مسلمانوں کے جذبات و خواہشات سے آگاہ کریں کہ ہندوستان کے مسلمان ایک علیحدہ قوم ہیں، جن کا علیحدہ مذہب، فلسفہ، سماجی رسومات، ادب و روایات، سیاسی اور اقتصادی نظریات ہیں۔ وہ ہندوؤں سے بالکل مختلف ہیں۔




مسلمان کی وہاں اپنی علیحدہ آزاد قومی ریاست ہو جہاں وہ ہندوستان کے علاقوں میں اکثریت رکھتے ہیں۔ اسی لیے وہ اعلان کرنا چاہتے ہیں کہ انہیں ایسا کوئی آئین قابل قبول نہیں ہوگا جس میں مسلمانوں کو ایک مرکزی حکومت کے تحت دوسری قوم کے زیراثر رکھا جائے۔ اس لیے ضروری ہے کہ ان کی اپنی علیحدہ ریاست ہو۔ اگر مسلمانوں کو ایک مرکزی حکومت کے تحت رہنے کے لیے مجبور کیا گیا تو حکومت اس کے لیے ذمہ دار ہوگی۔ جس کا نتیجہ خانہ جنگی ہوگا۔'' اس قرار داد کے حق میں شیخ عبدالمجید سندھی نے تقریر کی اور دو ترامیم پیش کیں۔ باوجود اس کے کہ نہچلداس وزیرانی نے ان ترامیم پر اعتراض کیا مگر وہ منظور کی گئیں۔ ترامیم کی آخری تیسری سطر میں لفظ ''اپنی'' کی جگہ ''اقلیتوں کی سلامی کے لیے'' شامل کیا گیا اور دوسری ترمیم کی آخری سطر کے الفاظ ''خانہ جنگی بے گوروکفن '' کے بجائے ''خوف ناک'' لفظ استعمال کیا گیا۔

صوبدار تالپور اور ناؤ مل ہوت چند کی سازشوں سے میانی اور دو آبہ کے مقابلوں میں فرنگی لشکر کو کام یابی تو ملی تھی لیکن سندھ کے مسلمانوں کے دلوں میں آزادی کے جذبے کی جو جوت ہوش محمد نے جلائی تھی وہ اب شعلہ جوالا بن چکی تھی۔ آزادی کی تڑپ کا لاوا بہہ نکلنے کو تھا اور ان کے عزائم بلند اور حوصلے جوان تھے آئینی، قانونی اور پارلیمانی سطح پر جی ایم سید، شیخ عبدالمجید سندھی، پیرالٰہی بخش شیخ غلام حسین، ہدایت اﷲ، ہاشم گزدر، میر محمد بلوچ، بندہ علی تالپور ، ایوب کھوڑو سرگرم عمل تھے تو تھر، نارا اور اچھڑو تھر کے ریگزاروں اور مکھی کے جنگل میں پیر صبغت اﷲ شاہ ثانی المعروف سورہتیہ بادشاہ کے حُر مرید مسلح جدوجہد کے ذریعے بغاوت کا پرچم اٹھائے ہوئے تھے۔ 20 مارچ 1943کو حیدرآباد جیل میں پھانسی کا پھندا چوم کر کسی نامعلوم مقام پر دفن ہونے والے ''پیر'' کی آخری آرام گاہ کی ہنوز نشان دہی نہیں ہوسکی ہے۔ آزادی کی جدوجہد میں تھر کے روپلوکولہی کا کردار بھی مثالی ہے جس نے بہادرانہ موت قبول کی یہ سب ایک تفصیلی تحریر کا موضوع ہیں فی الوقت تو بات ہوش محمد شیدی کی ہے جس کے ہم نام سندھ میں سیکڑوں ملتے ہیں لیکن صوبدار کہیں کہیں کوئی ایک۔ جیسے چنیسر اور دُودُو ۔ سومرو قبیلے کا فخر دُودُو ٹھہرا جس نے علاؤالدین خلجی سے مقابلہ کیا اور جان دے دی۔

رات ڈھلی اور صبح ہوئی

ابھرا صبح کا تارا

غوث بہاء الحق کا گونج اٹھا ہے نعرہ

ڈنکے پر ہے چوٹ پڑی بجنے لگا نقارہ

دودا ہے گھوڑے پہ سوار

ہرے گلابی پیلے پرچم

چہار سمت للکار یہی ہے

بڑھو لڑو اور وار کرو

ان ماؤں کے صدقے جاؤ

جن کی گودوں میں ایسے بیٹے پروان چڑھے

تالپور لشکر کی شکست کے بعد میران حیدرآباد گرفتار ہوئے میر نصیر محمد خان تالپور نے بقیہ زندگی کلکتہ میں گزاری۔ میر مراد علی تالپور کے فرزند کو چارلس نیپئر، میرآؤٹ رام کی بدعہدی کا سامنا کرنا پڑا ۔ ہوش محمد شہید ہوچکا تھا اور تالپور لشکر تتر بتر۔ قلعہ حیدرآباد میں انگریز سپاہیوں نے لوٹ مار کی ہتھیار، خزانہ، کتب خانہ اور قیمتی اشیاء سب فرنگیوں کی دسترس میں تھا۔

ہوش محمد شہید کی بہادرانہ موت کا اعتراف چارلس نیپئر نے بھی کیا۔ تدفین پورے فوجی اعزاز کے ساتھ عمل میں آئی ایک روایت کے مطابق 1801ء میں سندھ دھرتی پر پیدا ہونے والے ہوشو نے 24مارچ 1843ء کو دو آبہ کے میدان میں آخری سانس لی اور شہادت کا رتبہ پالیا۔ آج بھی ''مرسوں مرسوں، سندھ نہ ڈیسوں'' کا گونج دار نعرہ سندھ دشمنوں پر بصورت برق گرتا ہے کہ ہوشو کے اس نعرے نے اسے سندھ کی تاریخ میں امر کردیا۔ پونے دو سو برس گزر گئے لیکن ہوشو کو وہ مقام نہ مل سکا جو آزادی کے متوالے اور دھرتی پر جان قربان کرنے والے کا استحقاق تھا۔
Load Next Story