کوچۂ سخن

کہتے ہیں جذبات کو تصور، تصور کو الفاظ مل جائیں تو شعر تخلیق ہوتا ہے

کہتے ہیں جذبات کو تصور، تصور کو الفاظ مل جائیں تو شعر تخلیق ہوتا ہے۔ فوٹو: فائل

غزل



روتے نہ ہوں فرقت میں در و بام تو کافر
یاد آئی نہ ہو تیری کسی شام تو کافر
ملتے تھے جہاں ہم کبھی اُس باغ میں اب تک
پیڑوں پہ نہ لکھا ہو ترا نام تو کافر
مجھ کو بھی کہیں کا نہیں رکھے گی جدائی
کر دے نہ اگر تیرا بھی یہ کام تو کافر
سَر اپنے میں لے لوں گا ہر اک جرمِِ محبت
آنے دوں کوئی اُس پہ جو الزام تو کافر
جو خاص بہت خود کو سمجھتا ہے وہی شخص
اک روز نہ ہو جائے بہت عام تو کافر
تم جتنے معزز ہو بھلے شرط لگا لو
اس عشق میں ہو جاؤ نہ بدنام تو کافر
میں صاف بتا آیا اُسے دل کی تمنا
رکھا ہو رضا کوئی جو ابہام تو کافر
(احمد رضا راجا۔ راولپنڈی)


۔۔۔
غزل



اگر ظالم نہیں ہے کیفرِ کردار تک پہنچا
تو پھر منصف نہیں انصاف کے معیار تک پہنچا
ابھی تعمیر کی توقیر پر ٹھہرا ہوا ہے تو
ابھی شاید نہیں تُو معنیِ مسمار تک پہنچا
خداوندِ وفا اب اس سے پہلے کہ بھٹک جاؤں
کوئی اوتار مجھ تک یا مجھے اوتار تک پہنچا
میری پہلی محبت، مَیں تجھے استاد کہتا ہوں
تری قربانیاں دیکھیں تو میں ایثار تک پہنچا
قدم چومے ہیں یا پھر دست بوسی کا شرف پایا
تخیل نہ کبھی ان کے لب و رخسار تک پہنچا
نہیں آسان لاشوں کو اٹھانا بھی سحر لیکن
کٹھن تھا اور بھی جب امتحاں بیمار تک پہنچا
(سحر شیرازی۔ فیصل آباد)


۔۔۔
غزل



تیری یادوں میں بہہ رہا ہوں میں
فی البدیہہ شعر کہہ رہا ہوں میں
دسترس میں نہیں ہے جو میرے
اس کے دل میں ہی رہ رہا ہوں میں
میرے ہوتے بھی جو نہیں بستی
ایسی بستی میں رہ رہا ہوں میں
خانۂ دل میں خود مچا کر شور
اس کو چپ چاپ سہہ رہا ہوں میں
کیا ضرورت کسی تلاطم کی
اپنی موجوں میں بہہ رہا ہوں میں
مجھ کو عارف نظیر کہتے ہیں
ساری دنیا سے کہہ رہا ہوں میں
(عارف نظیر۔ کراچی)


۔۔۔
غزل



پا شکستہ ہوں مگر عزمِ سفر رکھتا ہوں
لاکھ ظُلمت میں بھی امّیدِ سحر رکھتا ہوں
شاید اک روز ہو غرقاب یہ عصیاں کا پہاڑ
چشمِ نادم کو میں اِس آس پہ تَر رکھتا ہوں
تُو نے کاٹا ہے عبث دستِ مہارت میرا
کوزہ گر ہوں، میں تخیّل کا ہنر رکھتا ہوں
اک کرن لے کے نہ کر خامہ فروشی ناداں
آ، ترے ہاتھ پہ میں شمس و قمر رکھتا ہوں
(سردار محمد شمیم۔ پلندری، آزاد کشمیر)


۔۔۔
غزل



ہاتھ صیاد کے جس دن سے شجر تک پہنچے
پھر پرندے نہ کبھی لوٹ کے گھر تک پہنچے
اپنے ہم عمر کئی چاند کو چُھو آئے مگر
ایک ہم تھے کہ فقط آپ کے در تک پہنچے
مدتوں سے میں اسے مانگ رہا ہوں یارو
کاش یہ میری دعا باب اثر تک پہنچے
آج بے ساختہ یوں سامنے آیا ہے نوید
جیسے برسات کا قطرہ کوئی تھر تک پہنچے
(نوید انجم۔ احمد پور سیال، ضلع جھنگ)


۔۔۔
غزل



عین فطرت سے پیش آتے ہیں
یعنی چاہت سے پیش آتے ہیں
ظرف اپنا ہے، ہم عدو سے بھی
کچھ سہولت سے پیش آتے ہیں
جو بھی ملتا ہے اُن کے کوچے کا
ہم عقیدت سے پیش آتے ہیں
ساتھ مشکل میں چھوڑنے والے
اب ندامت سے پیش آتے ہیں
ایسے لوگوں سے دور رہتا ہوں
جو ضرورت سے پیش آتے ہیں
یہ ترے شہر کے مکیں شافی
کیوں حقارت سے پیش آتے ہیں
(محسن رضا شافی۔ کبیر والا)


۔۔۔
غزل



ہماری آنکھ میں دو پل کی جو خماری تھی
ادھاری تھی! تمہیں دیکھ کر اتاری تھی
ہمارے شانوں پہ دن بوجھ تھا گھرانے کا
سفر میں شام کٹی رات بے قراری تھی
خلوص نام کا پنچھی تمہارے پاس نہ تھا
دغا تھا، جھوٹ تھا، تم میں فریب کاری تھی
تمہارے بعد نئے خواب کی تلاش میں تھے
ہماری پلکوں پہ وہ ایک رات بھاری تھی
اتارنے میں مری عمر صرف ہوگئی ہے
وہ دل لگی کی جو چھوٹی سی اک ادھاری تھی
ہماری جان گھلی جارہی تھی کیا یوں ہی؟
بدن میں جاری وہی رسمِ جاں نثاری تھی
(ابو لویزا علی۔ کراچی)


۔۔۔
غزل



اپنا کھویا وقار مانگتا ہوں

میں شجر ہوں، بہار مانگتا ہوں
جھوٹ کے ساتھ جی نہیں سکتا
زندگی چھوڑ، دار مانگتا ہوں
کون میرا ترے سوا یا رب
اپنے ہر غم کی ہار مانگتا ہوں
دل ترے ذکر سے رہے روشن
آنکھ بھی اشک بار مانگتا ہوں
مات دے وقت کے خداؤں کو
میں وہ حیدر کا وار مانگتا ہوں
(اسلم صابر۔ کلور عیسیٰ خیل)


۔۔۔
غزل



جو تری ادا میں ہے دلبری، میرے عشق ہی کا کمال ہے
نہ ہوا جو میں تو رہے گی کب ترے حسن کی جو مثال ہے
سفرِ حیات کے راستے بڑے پُرخطر بھی طویل بھی
جسے دیکھیے وہی مضمحل، جسے ملیے وہ بھی نڈھال ہے
مجھے ایک ہی ملی زندگی، وہی تجھ پہ میں نے نثار کی
مری حسرتوں کا شمار کر، کبھی سوچ میرا جو حال ہے
کبھی قربتیں کبھی فاصلے، کہیں منزلیں کہیں راستے
نہیں ہم تو کوئی بھی سمت کیا، وہ جنوب ہے کہ شمال ہے
یہ مرے نصیب کی گردشیں، مری زندگی کی یہ حسرتیں
مرا راستہ جو یہ روک لیں، کہاں ان کی اتنی مجال ہے
کوئی حسد سے جلا ہوا کوئی جھوٹ کے ہے فریب میں
ہے یہ دور نفرت و بغض کا یہاں سچ کا جینا محال ہے
(جاوید عثمان زندانی۔ کراچی)


۔۔۔
غزل



کوئی اس طرح کی سبیل کر، کوئی راستہ تو کھلا رہے
کوئی جستجو تو چلی رہے، کوئی شورِ پا تو اٹھا رہے
مرے پاس اپنے ہجوم ہیں، مرے سامنے ہیں اداسیاں
کہ جہاں سے گزری ہوں رونقیں، کوئی اس جگہ تو کھڑا رہے
مرے کرب زار میں آئے ہو، مرے خار خار کو لوٹ لو
میں یہی کہوں گا لٹا نہیں، اگر ایک درد بچا رہے
مجھے ایک سجدے میں ڈال کر جاتے جاتے یہ کہہ گیا
کبھی سر اٹھایا تو دیکھنا! تیرا سَر یہی جھکا رہے
جو ملا نہیں تو کیا ہوا، نہ تلاش چھوڑ کے بیٹھنا
یہی آدمی کا وجود ہے کہ وہ جستجو لگا رہے
(محمد عثمان عابد۔ جھنگ)


۔۔۔
غزل



میں فلم تکتے ہوئے ٹوٹ ٹوٹ جاتا تھا
وہ جب ولن کے لیے تالیاں بجاتا تھا
وہ پاؤں پر کھڑے ہونے کے وعظ بھی کرتا
جو شخص شہر میں بیساکھیاں بناتا تھا
میں اس کی گود میں سَر رکھ کے رو تو سکتا تھا
وہ جیسا بھی تھا مرا حوصلہ بڑھاتا تھا
مری تو زندگی بھی محض ایک مصرع تھی
وہ اپنی مرضی کی جس پر گرہ لگاتا تھا
وہ آ کے شہر گیا تو ملے بغیر گیا
جو پہلے ماں کے گلے سے لپٹ کے جاتا تھا
(مسعود ساگر۔ کوٹلی، آزاد کشمیر)


۔۔۔
غزل



اپنے قد سے بڑا نہ ہو جائے
آدمی ہے خدا نہ ہو جائے
یوں عقیدت سے پیش مت آؤ
دیکھ پتھر خدا نہ ہو جائے
یار اتنا نہ پیار کر اس کو
دیکھنا بے وفا نہ ہو جائے
جال زلفوں کا کس کے رکھنا تم
قید سے وہ رِہا نہ ہو جائے
بس کے اتنا ہی سوچ کر دینا
درد حد سے سوا نہ ہو جائے
میں کرم اس لیے پریشاں ہوں
یار مجھ سے جدا نہ ہو جائے
(کرم حسین بزدار۔ گھوٹکی)


۔۔۔
غزل



حشر میں اب حساب کیا ہو گا
سہہ لیا! اور عذاب کیا ہو گا
جن میں حیرت ہو اور بس حیرت
ایسی آنکھوں میں خواب کیا ہو گا
جو کبھی خود کو اب نہیں ملتا
وہ تجھے دست یاب کیا ہو گا
جو کیا ہے بہت ہے میرے لیے
اس سے بہتر جناب کیا ہو گیا
رات رب سے سوال کر ڈالا
دیکھتے ہیں جواب کیا ہو گا
شب کی تنہائی چاند اور تارے
اس کے آگے شباب کیا ہوگا
لالچِ حور، خوف دوزخ کا
اور خانہ خراب کیا ہو گا
وہ کہاں اور میں کہاں ساجد
میرا ان سے خطاب کیا ہو گا
(ساجد محمود رانا۔ لاہور)


۔۔۔
غزل



مَرے ہیں تیری صورت پر جو سالوں سے، مہینوں سے
پڑا ہے واسطہ تیرا کبھی ان ہم نشینوں سے
خیالِ یار سے تعمیر کرتا ہوں فلک پر گھر
مرا اوجِ تخیل کب نظر آئے زمینوں سے
جو ہو شدت محبت میں تو غم کاہے ہے پانی کا
گھڑا مٹی کا بہتے کہہ رہا تھا سب سفینوں سے
نہیں سیکھے ابھی تک قیس سے تم عاشقی کرنا
وہ لیلیٰ کا دوانہ تھا اسے تھی کیا حسینوں سے
بتا سوہنی ہے اس کی کیا حقیقت زرگروں کے ہاں
وہ اک ہیرا جو آیا تھا بخارا کے نگینوں سے
حسانی کچھ نیا لکھنے کا ہم کو عہد ہے کرنا
نکالیں گے سبھی سانپوں کو اب ہم آستینوں سے
(محمد حسن رضا حسانی، کلاسوالہ۔ سیالکوٹ)


کہتے ہیں جذبات کو تصور، تصور کو الفاظ مل جائیں تو شعر تخلیق ہوتا ہے اور یہ صفحہ آپ کے جذبات سے آراستہ تخلیقات سے سجایا جارہا ہے۔ آپ اپنی نظم، غزل مع تصویر ہمیں درج ذیل پتے پر ارسال کر سکتے ہیں۔ معیاری تخلیقات اس صفحے کی زینت بنیں گی۔
صفحہ ''کوچۂ سخن''
روزنامہ ایکسپریس (سنڈے میگزین)،5 ایکسپریس وے، کورنگی روڈ، کراچی
arif.hussain@express.com.pk

Load Next Story