بھارت میں گاؤ کُشی کے شبہ میں تین افراد قتل
بھارتی ریاست بہار میں انتہاپسند ہندوؤں کے گروہ نے ’’گاؤ رکھشا‘‘ کے نام پر تین افراد کو مار مار کر قتل کر دیا۔
بھارت میں متعصب ہندو انتہا پسند نریندر مودی کا وزیراعظم بن جانے کے بعد مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کے خلاف مختلف بہانوں سے ظلم و تشدد کے واقعات میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اور اب تازہ ترین خبر کے مطابق بھارتی ریاست بہار میں انتہاپسند ہندوؤں کے گروہ نے ''گاؤ رکھشا'' کے نام پر تین افراد کو مار مار کر قتل کر دیا۔
بی بی سی نے اس واقعہ کی تصویری خبریں بھی شائع کی ہیں جن میں ہلاک کیے جانے والوں کی رشتہ دار خواتین بہار کے ایک اسپتال کے باہر بین کرتی دکھائی گئی ہیں۔ پولیس کے مطابق بھارت کی مشرقی ریاست بہار کے ضلع ساران میں ایک مشتعل ہجوم نے تین افراد کو گائیں چرانے کے الزام میں پکڑ کر مار مار کر موت کے گھاٹ اتار دیا۔
پولیس کا کہنا ہے کہ جمعہ کی صبح کو ہلاک کیے جانے والوں کو چور کہہ کر ایک گاؤں کے مقامی لوگوں نے پکڑ لیا جب وہ دو گائیوں اور ایک بچھڑے کو ایک ٹرک میں لاد رہے تھے۔ گاؤ رکھشا کے نام پر اقلیتوں اور دیگر پسماندہ طبقوں پر ہونے والے ہجوم کے حملوں کی کڑی کے سلسلے میں یہ تازہ ترین واقعہ ہے جس کی وجہ سے بھارت کی تمام اقلیتیں سخت خوف وہراس میں مبتلا ہیں۔
بھارتی اخبار دی ہندو کے مطابق ہلاک ہونے والوں کی شناخت بدیس ناتھ، راجو ناتھ اور نوشاد قریشی کے نام سے ہوئی۔ یوں دیکھا جائے تو دو افراد کا تعلق نچلی ذات جب کہ ایک مسلمان ہے۔ پولیس رپورٹ کے مطابق دو افراد تو ہجوم کے تشدد سے موقع پر ہی ہلاک ہو گئے جب کہ تیسرا شخص اسپتال پہنچ کر دم توڑ گیا۔ بھارت میں ہندوؤں کا ایک بڑا طبقہ گائے کو ایک مقدس جانور قرار دیتا ہے اور اس کا ذبیحہ اپنے مذہبی عقائد کے خلاف سمجھتا ہے۔
اطلاعات کے مطابق ان تین افراد کی ہلاکت کے سلسلے میں پولیس نے تین مقامی لوگوں کو گرفتار کر لیا ہے۔ ہجوم کے حملے کی وجہ سے ایک چوتھا شخص اسپتال میں موت و حیات کی کشمکش میں مبتلا ہے۔
مزید تفصیلات کے مطابق تین افراد ایک ٹرک میں جانور لاد کر جارہے تھے جنھیں ایک گاؤں کے قریب ایک مشتعل ہجوم نے زبردستی روک لیا اور ٹرک چلانے والوں پر گائیوں کی چوری کا الزام عائد کیا۔ بھارت کے کئی صوبوں میں گائے کا ذبیحہ ممنوع ہے۔ ہلاک ہونے والوں کے لواحقین احتجاج میں گاؤں سے باہر نکل آئے اور اسپتال کے سامنے جمع ہو گئے۔ مسلمانوں اور اپوزیشن کانگریس پارٹی نے بہار کی حکومت پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ اقلیتوں کے تحفظ میں ناکام رہی ہے۔
انسانی حقوق کی تنظیم کا کہنا ہے کہ 2015 سے 2018 کے درمیان کم ازکم 44 افراد کو گاؤ رکھشا کا الزام لگا کر ہلاک کر دیا گیا ہے اور اس بات کی کوئی پروا نہیں کی گئی کہ الزام درست ہے یا غلط ہے۔ اس سال قبل ازیں بھی تین مسلمانوں کو گائے کا گوشت کھانے کے شبہ میں قتل کر دیا گیا تھا۔
پچھلے مہینے امریکی وزارت خارجہ نے بھی اعلان کیا تھا کہ بھارت میں مودی کی حکومت آنے کے بعد کمزور طبقات کے خلاف تشدد اور قتل و غارت کے واقعات میں نمایاں اضافہ ہو رہا ہے۔بھارت اب کہنے کو تو ایک سیکولر جمہوری ملک ہے لیکن وزیراعظم نریندر مودی اور بھارتیہ جنتا پارٹی نے اسے ہندو راشٹر میں تبدیل کر دیا ہے۔
بی بی سی نے اس واقعہ کی تصویری خبریں بھی شائع کی ہیں جن میں ہلاک کیے جانے والوں کی رشتہ دار خواتین بہار کے ایک اسپتال کے باہر بین کرتی دکھائی گئی ہیں۔ پولیس کے مطابق بھارت کی مشرقی ریاست بہار کے ضلع ساران میں ایک مشتعل ہجوم نے تین افراد کو گائیں چرانے کے الزام میں پکڑ کر مار مار کر موت کے گھاٹ اتار دیا۔
پولیس کا کہنا ہے کہ جمعہ کی صبح کو ہلاک کیے جانے والوں کو چور کہہ کر ایک گاؤں کے مقامی لوگوں نے پکڑ لیا جب وہ دو گائیوں اور ایک بچھڑے کو ایک ٹرک میں لاد رہے تھے۔ گاؤ رکھشا کے نام پر اقلیتوں اور دیگر پسماندہ طبقوں پر ہونے والے ہجوم کے حملوں کی کڑی کے سلسلے میں یہ تازہ ترین واقعہ ہے جس کی وجہ سے بھارت کی تمام اقلیتیں سخت خوف وہراس میں مبتلا ہیں۔
بھارتی اخبار دی ہندو کے مطابق ہلاک ہونے والوں کی شناخت بدیس ناتھ، راجو ناتھ اور نوشاد قریشی کے نام سے ہوئی۔ یوں دیکھا جائے تو دو افراد کا تعلق نچلی ذات جب کہ ایک مسلمان ہے۔ پولیس رپورٹ کے مطابق دو افراد تو ہجوم کے تشدد سے موقع پر ہی ہلاک ہو گئے جب کہ تیسرا شخص اسپتال پہنچ کر دم توڑ گیا۔ بھارت میں ہندوؤں کا ایک بڑا طبقہ گائے کو ایک مقدس جانور قرار دیتا ہے اور اس کا ذبیحہ اپنے مذہبی عقائد کے خلاف سمجھتا ہے۔
اطلاعات کے مطابق ان تین افراد کی ہلاکت کے سلسلے میں پولیس نے تین مقامی لوگوں کو گرفتار کر لیا ہے۔ ہجوم کے حملے کی وجہ سے ایک چوتھا شخص اسپتال میں موت و حیات کی کشمکش میں مبتلا ہے۔
مزید تفصیلات کے مطابق تین افراد ایک ٹرک میں جانور لاد کر جارہے تھے جنھیں ایک گاؤں کے قریب ایک مشتعل ہجوم نے زبردستی روک لیا اور ٹرک چلانے والوں پر گائیوں کی چوری کا الزام عائد کیا۔ بھارت کے کئی صوبوں میں گائے کا ذبیحہ ممنوع ہے۔ ہلاک ہونے والوں کے لواحقین احتجاج میں گاؤں سے باہر نکل آئے اور اسپتال کے سامنے جمع ہو گئے۔ مسلمانوں اور اپوزیشن کانگریس پارٹی نے بہار کی حکومت پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ اقلیتوں کے تحفظ میں ناکام رہی ہے۔
انسانی حقوق کی تنظیم کا کہنا ہے کہ 2015 سے 2018 کے درمیان کم ازکم 44 افراد کو گاؤ رکھشا کا الزام لگا کر ہلاک کر دیا گیا ہے اور اس بات کی کوئی پروا نہیں کی گئی کہ الزام درست ہے یا غلط ہے۔ اس سال قبل ازیں بھی تین مسلمانوں کو گائے کا گوشت کھانے کے شبہ میں قتل کر دیا گیا تھا۔
پچھلے مہینے امریکی وزارت خارجہ نے بھی اعلان کیا تھا کہ بھارت میں مودی کی حکومت آنے کے بعد کمزور طبقات کے خلاف تشدد اور قتل و غارت کے واقعات میں نمایاں اضافہ ہو رہا ہے۔بھارت اب کہنے کو تو ایک سیکولر جمہوری ملک ہے لیکن وزیراعظم نریندر مودی اور بھارتیہ جنتا پارٹی نے اسے ہندو راشٹر میں تبدیل کر دیا ہے۔