سن تو سہی جہاں میں ہے تیرا فسانہ کیا

ہم سب کے سب تبدیلی یا انقلاب کے خواہاں ضرور ہیں مگر کوئی خود کو بدلنے کے لیے تیار نہیں۔

وطن عزیز میں جہاں بھی نگاہ کی جائے افراتفری، بد انتظامی، بدعہدی، حد درجہ اضطراب اور ہر شعبہ حیات تقریباً زوال کا شکار نظر آتا ہے، ہر چیز ہر وسیلہ اور ہر ذی شعور کا آج گزرے کل سے بدتر۔ معیشت، تجارت یا کاروبار یا پھر کام دھندے مندی ہی مندی، آسمان تک پہنچی لاقانونیت، مہنگائی، ظلم، زیادتی، چار سو بیسی یا دو نمبری ایسی جو کبھی گزرے دور میں نہ دیکھی نہ سنی۔ ملکی ساکھ، وقار یا امیج کا فالودہ بن چکا ہے۔

قائد اعظم کا پرانا پاکستان یا عمران خان کا نیا پاکستان سبھی اقدام عالم کی نظروں میں کہیں کا نہ رہا، دو ڈھائی ملکوں کے علاوہ ہماری عزت کہیں باقی نہیں بچی، ویسے بھی دنیا کے کون سے چپے پر پاکستانیوں نے چاند نہیں چڑھائے، کون سا ایسا خطہ بچا ہے جہاں ہم نے اپنے کرتوتوں، دھوکوں اور حماقتوں کے پرچم نہ لہرائے ہوں۔ پاکستان کا ایک سابق صدر اور پاکستان کا ایک سابق وزیر اعظم بدعنوانیوں یا کرپشن کے حوالے سے سلاخوں کے پیچھے۔ تاریخ اٹھا کر دیکھی جائے تو کہیں ایسا نہیں ہوا کہ کسی ملک کے بادشاہ یا سربراہ نے اپنے ملک کو لوٹ کر دوسرے ملکوں میں جائیدادیں بنائی ہوں۔

ہم سب کے سب تبدیلی یا انقلاب کے خواہاں ضرور ہیں مگر کوئی خود کو بدلنے کے لیے تیار نہیں۔ ہماری لڑائیاں امریکا، بھارت، ایران اور افغانستان سے طرفہ تماشا یہ کہ سی پیک چین کے حوالے اور معیشت آئی ایم ایف کے پاس گروی پڑی ہے۔ ہم نے اپنے گھر کا کچرا گلی میں پھینک کر ڈکیتوں، لٹیروں اور چوروں کو ووٹ دے دے کر ملک کو اس نہج پر پہنچا دی، قانون کے محافظ قانون شکنی کی مثالیں قائم کرنے میں لگے رہے اور ابھی تک وہ یہی کچھ کر رہے ہیں۔

اصل میں ہم اپنی تباہی اپنی بربادی اور اپنے زوال کے خود ہی کاریگر اور تخلیق کار ہیں۔ اور ظلم، ستم اور زوال روز بروز بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ بلوچستان، پنجاب اور سندھ جیسے حساس اور بڑے صوبوں کو کمزور اور خاکستر کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی جا رہی۔ یہی نہیں تمام صوبوں، تمام سیاسی جماعتوں اور تمام سیاست دانوں حتیٰ کہ پوری قوم میں برداشت، تحمل ختم ہوچکا ہے، اخلاقیات کا جنازہ نکل چکا ہے اور اصول اور منطق کی یہاں کب کی موت واقع ہوچکی ہے۔

قصور کی بے قصور زینب کے ساتھ جو ہوا وہ کسی بھی قوم کے ضمیر کو جھنجھوڑنے کے لیے کافی تھا لیکن ہم نے اس سے بھی کوئی سبق نہیں سیکھا اور نہ کسی خرابی یا بگاڑ کو درست کیا۔ حال ہی میں اسلام آباد میں پھر ایک بچی کے ساتھ وہی کچھ ہوا جو قصور کی زینب کے ساتھ ہوا تھا لیکن پاکستان کے دارالخلافے کی پولیس کی طرف سے بچی کے اغوا ہونے کے چار دن بعد تک ایف آئی آر درج نہ کرنا اور مقتولہ کے والدین اور رشتے داروں کی فریاد سننے کے بجائے ان کی تضحیک کی گئی۔

ایک خبر کے مطابق پاکستان میں روزانہ دس سے بارہ معصوم بچوں اور بچیوں کے ساتھ جنسی زیادتی اور قتل کے واقعات رپورٹ ہوتے ہیں اور اس سے زیادہ رپورٹ ہو ہی نہیں پاتے۔ اس سے بھی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ریاست مدینہ کے دعوے داروں کا ملک اخلاقی طور پرکہاں پہنچ گیا ہے۔ تبدیلی لانے کے دعوے دار کا پاکستان اور اس کا معاشرہ انسانوں کے بجائے حیوانوں، درندوں کا معاشرہ بنتا جا رہا ہے۔کوئی خرابی ایسی نہیں جو ہم میں موجود نہ ہو۔ ہر طرف گراوٹ اور گندگی ہی گندگی پھیلی ہوئی ہے۔ ہمارے معیارات اور معاملات ایسے ہیں کہ سوچ کے خوف آتا ہے کہ ہم کیسے لوگ ہیں؟ کیسا ملک کیسا معاشرہ ہم نے تشکیل دے دیا اور آخر ہمارا انجام کیا ہوگا؟


یہ بجا یہ درست یا یہ صحیح کہ نئے کپڑوں، نئے لباس میں نئے پن کی خوشبو تو ہوتی ہے مگر اپنائیت بھرے ماضی کی مہک ہرگز نہیں ہوتی۔ ہماری پوشاکیں ہماری عصمت و عفت کی محافظ ہیں، ہماری غلطیوں، خامیوں اور گناہوں کی پردہ پوش بھی یہ ہیں۔ اسے ہم سب نے رفو کرالیا تو بہت کچھ بچ جائے گا ورنہ اس کے تار تار ہوجانے سے بہت کچھ ضایع ہوجائے گا۔ اس لیے کہ ہم سمیت قوم کے ہر فرد کو رفوگری کی ضرورت ہوتی ہے۔ لیکن ہمیں رفوگر نہیں مل پایا۔ ہمیں جو بھی ملتا ہے یا مل رہا ہے وہ چاک سینے، زخم بھرنے اور بخیہ گری کے بجائے ہمیں اور ادھیڑ رہا ہے، یوں قوم کے جذباتی ہیجان میں ہر روز اضافہ ہو رہا ہے۔

صدیوں کی تاریخ بتاتی ہے کہ اس خطے کے لوگوں میں برداشت بہت زیادہ ہے۔ ظالموں آمروں اور بادشاہوں کو برداشت کرلیتے ہیں، البتہ جب معاملہ بھوک اور افلاس کا ہو یا لباس کے تار تار ہونے کا ہو تو پھر یہ ان کے لیے بھی ناقابل برداشت ہوجاتا ہے۔ جب سے نئی حکومت تبدیلی، نیا پاکستان یا ریاست مدینہ کا نعرہ مار کر برسر اقتدار آئی ہے معیشت کی بربادی اور غربت، بے روزگاری اور مہنگائی کو جیسے پر لگ گئے ہیں۔ اشیائے ضروریہ پر حد درجہ قیمت بڑھانے سے تنخواہ دار طبقے کی کمر ٹوٹ چکی ہے اور یہ صورتحال انتہائی تشویشناک اور حکومت کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔

کڑوی سچائی یہ ہے کہ عمران خان نے پاکستانیوں کو ریاست مدینہ کا خواب دکھا کر دراصل کربلا میں دھکیل دیا ہے۔ لیکن وہ یہ بھول گئے کہ پاکستانیوں کے قافلے میں صرف 72 لوگ نہیں بلکہ 22 کروڑ لوگ ہیں اور ان میں سے اگر 20 ہزار سر پھرے لوگ اس پارلیمنٹ ہاؤس کے ساتھ آکر بیٹھ گئے تو عمران خان اپنا 2014 والا دھرنا بھول جائیں گے۔

کون نہیں جانتا کہ بہترین طرز حکمرانی موجودہ حکمران کے بس سے باہر کی چیز ہے۔ آج اپوزیشن کے مطابق سلیکٹڈ (منتخب) وزیر اعظم کی حکومت سیاسی مخالفین کے ساتھ وہی کچھ کر رہی ہے جو نواز شریف اور مشرف کی حکومت نے کیا تھا۔ ان دونوں کا انجام سبھی کے سامنے ہے، حال ہی میں پنجاب کے سابق وزیر قانون کے خلاف بنایا گیا مقدمہ بھی ہمیں موجودہ حکمرانوں کے انجام کا پتا دے رہا ہے۔

وزیر اعظم بننے سے پہلے موجودہ وزیر اعظم کو سیاسی وفاداریاں بدلنے والے (لوٹوں) سے سخت چڑ اور نفرت تھی یا وہ انھیں ناپسند تھے لیکن خامیوں سے بھرا بندہ اقتدار میں آخر کب تک اخلاق اور اصولوں کی پوٹلیاں اٹھائے گھوم سکتا ہے۔ پلاٹوں، پرمٹوں، عہدوں، پیسوں اور تھانے داروں کے زور پر لوٹا کریسی کو جو ''بلندیاں'' سابق حکمرانوں نے عطا فرمائیں وہ سب پر عیاں ہوچکیں، پیپلز پارٹی کی ہارس ٹریڈنگ اور مشرف دور کی پیٹریاٹ کہانیاں بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ سنا ہے کہ نئے پاکستان کے منتخب وزیر اعظم نے اپنے وزیر قانون کے ذریعے بار ایسوسی ایشنوں میں 17 کروڑ تقسیم کردیے ہیں؟ اور پنجاب اسمبلی میں ''نون لیگ '' کے ایک درجن سے زائد ارکان بھی توڑ لیے گئے ہیں۔ یوں سب کو نظر آرہا ہے کہ ریاست مدینہ میں کیا ہو رہا ہے۔

اس بات میں دو رائے نہیں ہوسکتی کہ زندگی میں جو چکھ ہوتے ہیں وہ ہمیں سزا دینے کے لیے نہیں بلکہ ہماری آنکھیں کھولنے آتے ہیں اور یہ کہ دنیا کے مصائب کی بڑی وجہ برے لوگوں کا تشدد نہیں بلکہ اچھے لوگوں کی خاموشی ہے۔ ہمارے ارباب اختیار کو خاص طور پر یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ تاریکی، درد، گھٹن اور بھوک و افلاس ایک حد تک قابل برداشت ہوتی ہے، یہ حد سے بڑھ جائیں تو شدت تکلیف میں انسان کچھ بھی کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔
Load Next Story