قوم پر احسان کرو
پاکستان نے اپنے خطے میں ہر امریکی مہم جوئی میں اس کا ساتھ دیا ہے وہ سرد جنگ میں بھی اس کے ساتھ تھا۔
کفر ٹوٹا خدا خدا کرکے۔ خیر سے عالمی سپر پاورکے شہنشاہ معظم قبلہ ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے برسوں سینظر انداز کیے ہوئے ملک پاکستان کو پھر سے خاطر میں لاتے ہوئے، اس کے وزیر اعظم عمران خان کو ان سے باریابی کا دعوت نامہ موصول ہوچکا ہے اور ہمارے وزیر اعظم مقررہ 20 جولائی کو امریکا روانہ ہوچکے ہیں جہاں وہ عالی مرتبت سے ملاقات کا شرف حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ لب کشائی کا فیض بھی حاصل کرسکیں گے۔
وزیر ریلوے شیخ رشید کا کہنا ہے کہ عمران اور ٹرمپ میں ملاقات تو ہو رہی ہے مگر خدا خیرکرے کیونکہ دونوں ہی ایک مزاج کے آدمی ہیں۔ شیخ جی ویسے تو عمران خان کے سچے عاشق اور پکے ترجمان ہیں مگر ان کے مزاج کو ٹرمپ سے ملاکر ضرور انجانے میں عمران خان کے ساتھ زیادتی کے مرتکب ہوئے ہیں۔ ٹرمپ کے مزاج سے کون واقف نہیں ہے۔ ان کے منہ میں جو آتا ہے کہہ دیتے ہیں اور یہ بھی نہیں سوچتے کہ ان کے کہنے کا اگلے پر کیا اثر ہوگا اور خود مملکت عالی شان امریکا کو اس کا کیا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔
ان کے بارے میں اکثر امریکی کہتے ہیں کہ ہماری بھی کیا قسمت ہے کہ پہلے ہمیں جونیئر بش کی صورت میں آدھا پاگل ملا تھا اور اب تو پورے کا پورا ہی مل گیا ہے۔ ان کے غصیلے اور منہ پھٹ رویے سے امریکا کے پرانے دوست تک اس کا ساتھ چھوڑ چکے ہیں۔ یورپ کے اکثر ممالک دوسری جنگ عظیم کے بعد سے امریکا سے سچے وفادار دوستوں کی طرح جڑے ہوئے تھے وہ امریکا کے ہر حکم کو خوشی خوشی بجا لاتے تھے مگر اب حال یہ ہے کہ حال ہی میں ٹرمپ نے جرمنی کو حکم دیا تھا کہ وہ افغانستان میں مزید فوجیں بھیجے مگر اس نے صاف انکار کردیا۔ یہی رویہ اب دوسرے یورپی ممالک کا بھی ہے۔
دراصل ٹرمپ سیاست سے نابلد ایک قدامت پسند تاجر ہیں بس بالکل مرچنٹ آف وینس کی طرح۔ ان کے نزدیک ہر شخص حتیٰ کہ ہر ملک کو امریکی امداد کے عوض خریدا جاسکتا ہے اور اس سے محروم کرکے اسے سزا بھی دی جاسکتی ہے۔ آج کل وہ اپنی حکم عدولی کی سزا دھڑا دھڑ معاشی پابندیوں اور جنگ کی دھمکیوں سے دے رہے ہیں۔ امریکا ایک زمانے سے غریب ممالک کی مالی امداد کرتا چلا آرہا تھا اور اسی وجہ سے وہ اس کے گرویدہ تھے اور اس کے اچھے برے حکم کی بجا آوری کرتے رہتے تھے۔ اب ٹرمپ کے دور میں جس ملک نے بھی ان کی حکم عدولی کی اسے نہیں بخشا جاتا۔
پاکستان کو ایک زمانے سے امریکا کا حاشیہ بردار ملک کہا جاتا رہا ہے۔ پاکستان نے اپنے خطے میں ہر امریکی مہم جوئی میں اس کا ساتھ دیا ہے وہ سرد جنگ میں بھی اس کے ساتھ تھا اور اس کے بعد بھی اس کے ہر حکم پر آنکھ بند کرکے عمل کرتا رہا ہے۔ پاکستان نے افغانستان کو روس کے تسلط سے بچانے کے لیے امریکا کی طرف سے جنگ لڑی۔ خود نقصان اٹھانے کے باوجود امریکا کو سرخرو کرایا۔
روس کو افغانستان سے ایسا کھدیڑا کہ اس کی سالمیت تک متاثر ہوئی اور وہ ٹکڑے ٹکڑے ہوگیا۔ اس کے بعد پھر طالبان کا دور آیا پاکستان نے نہ چاہتے ہوئے بھی طالبان کے خلاف امریکا بہادرکا ساتھ دیا مگر افغانستان میں دہشت گردی کو ختم کرانے کے چکر میں خود دہشت گردی کے بھیانک جال میں پھنس گیا۔ گزشتہ اٹھارہ سال سے وہ اس عفریت میں گرفتار ہے مگر امریکا بہادر نے پاکستان کے دکھ درد کو سمجھنے کے بجائے الٹا اسے ہی دہشت گردی کا منبع قرار دے ڈالا اور پاکستان کو اپنا دشمن نمبر ایک گرداننے والے بھارت کو افغانستان میں من مانی کرنے کا پروانہ عطا کردیا۔
امریکا کے عطا کردہ دہشت گردی کے عذاب نے پاکستان کی چولیں ہلا کر رکھ دیں۔ جانی و مالی نقصان تو ہوا ہی ساتھ ہی پاکستان کو تنہا کرنے میں بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی گئی۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے اقتدار سنبھالتے ہی نہ صرف پاکستان کی مالی امداد بند کردی بلکہ پاکستان کو کرائے کی جنگ لڑنے والا دہشت گرد ملک قرار دے دیا۔ تاہم ٹرمپ نے جو کچھ کیا بھارت کے اکسانے پر اور بھارت میں اپنی وسیع سرمایہ کاری کا لحاظ رکھتے ہوئے کیا۔ بعد میں بھارت کی مفاد پرستی اور چیرہ دستیوں نے ٹرمپ کے ہوش اڑا دیے کہ وہ نہ صرف پاکستان کے خلاف امریکا کو استعمال کر رہا ہے بلکہ محض پاکستان میں دہشت گردی جاری رکھنے کے لیے افغان جنگ کو جاری رکھنے پر بضد ہے۔ اس وقت امریکا میں نئے انتخابات کے لیے تیاریاں شروع ہوچکی ہیں۔
ٹرمپ اپنے پہلے الیکشن میں افغانستان میں امن قائم کرنے اور اپنی فوجوں کو وہاں سے نکالنے کا وعدہ کرچکے تھے مگر وہ ابھی تک پورا نہیں ہوا ہے چنانچہ وہ اب طالبان سے مذاکرات کرکے اس مسئلے کو جلدازجلد نمٹانا چاہتے ہیں چونکہ اس مسئلے کو پاکستان کی مدد کے بغیر حل نہیں کیا جاسکتا چنانچہ اب ٹرمپ کو ہوش آیا کہ انھوں نے پاکستان کے خلاف تضحیک آمیز رویہ اختیار کرکے فاش غلطی کی ہے جب کہ پاکستان امریکا کی اولین ضرورت ہے اور صرف افغانستان کے حوالے سے ہی نہیں بلکہ جنوب مشرقی ایشیا اور وسطی ایشیائی ممالک کے بابت بھی اہم ہے۔ اس وقت روس اور پاکستان کے درمیان جو قربتیں بڑھتی جا رہی ہیں امریکا اس سے بھی سخت پریشان ہے۔ اس سے اس خطے میں امریکی مفادات پامال ہوسکتے ہیں۔
بھارت کو خطے میں فوقیت دینے کی غلطی کے احساس کے بعد لگتا ہے، اب امریکا نے پاکستان سے اپنے رشتے بحال کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ گوکہ افغان جنگ میں پاکستان کے اہم کردار کو امریکا پہلے بھی سراہتا رہا ہے مگر اسامہ بن لادن کے ایبٹ آباد میں موجودگی کا پتا لگانے والے شکیل آفریدی کی غداری نے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں تلخی گھول دی ہے۔ امریکی حکومت پاکستان سے اسے اپنے حوالے کرنے کا پر زور مطالبہ کر رہی ہے مگر حکومت پاکستان اسے وطن عزیز سے غداری کرنے کی قرار واقعی سزا دلانے پر مصر ہے۔ پاکستان کے اس انکار سے دونوں ممالک کے مابین تعلقات میں تلخی روز بروز بڑھتی رہی ہے جس سے پاکستان کو نقصان پہنچ رہا ہے۔
سیاسی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ جہاں مشرف حکومت نے درجنوں امریکا مخالف لوگوں کو اس کے حوالے کیا تھا وہاں اس غدار وطن شکیل آفریدی کو تو فوراً ہی امریکا کے حوالے کردینا چاہیے۔ اگر امریکا کو اس کی سخت ضرورت ہے تو ہمیں کسی غدار کا ملک میں ایک پل بھی رہنا گوارا نہیں ہے البتہ اس کے بدلے قوم کی مظلوم بیٹی عافیہ صدیقی جو سترہ سال سے اسلام اور پاکستان سے محبت کی سزا امریکی جیل میں کاٹ رہی ہے اسے کیوں نہ وطن واپس لایا جائے۔
عمران خان نے جب سے وزارت عظمیٰ کا عہدہ سنبھالا ہے دنیا میں پاکستان کے امیج میں بہتری کے آثار نمایاں ہوئے ہیں۔ ٹرمپ کی پاکستان کو امریکی امداد سے محروم رکھنے کی دھمکی کا عمران خان نے جب سے انھیں منہ توڑ جواب دیا ہے وہ سمجھ گئے ہیں کہ عمران خان پاکستان کے سابق حکمرانوں سے بہت مختلف ہیں اور وہ ان کے رعب میں آنے والے نہیں چنانچہ لگتا ہے ،انھوں نے عمران خان کو امریکا بلاکر پاکستان سے تمام گلے شکوے دور کرنے کا پکا ارادہ کرلیا ہے۔
عمران خان ایک کٹر محب وطن شخص ہیں چنانچہ ٹرمپ سے ملاقات کے دوران انھیں ٹرومین سے پہلی ملاقات میں لیاقت علی خان جیسا بولڈ رویہ اختیار کرنے کی ضرورت ہے لگتا ہے عمران خان اپنی فہم و فراست سے پاکستان کے امریکا سے پہلے جیسے خوشگوار تعلقات بحال کرانے میں کامیاب ہوجائیں گے مگر وہ اس نادر موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے مظلوم عافیہ صدیقی کو امریکی جیل سے رہائی دلا کر اپنے ساتھ واپس لانا ہرگز نہیں بھولیں۔ وہ پہلے ہی عافیہ کی بہن اور بیمار والدہ سے عافیہ کو ہر صورت میں رہائی دلانے کا وعدہ کرچکے ہیں۔ پی ٹی آئی کے انتخابی منشور میں بھی عافیہ صدیقی کو رہائی دلانے کا وعدہ کیا گیا تھا، اگر عمران خان عافیہ کو اپنے ساتھ پاکستان واپس لانے میں کامیاب ہوگئے تو قوم ان کے اس احسان کو کبھی فراموش نہیں کرسکے گی۔
وزیر ریلوے شیخ رشید کا کہنا ہے کہ عمران اور ٹرمپ میں ملاقات تو ہو رہی ہے مگر خدا خیرکرے کیونکہ دونوں ہی ایک مزاج کے آدمی ہیں۔ شیخ جی ویسے تو عمران خان کے سچے عاشق اور پکے ترجمان ہیں مگر ان کے مزاج کو ٹرمپ سے ملاکر ضرور انجانے میں عمران خان کے ساتھ زیادتی کے مرتکب ہوئے ہیں۔ ٹرمپ کے مزاج سے کون واقف نہیں ہے۔ ان کے منہ میں جو آتا ہے کہہ دیتے ہیں اور یہ بھی نہیں سوچتے کہ ان کے کہنے کا اگلے پر کیا اثر ہوگا اور خود مملکت عالی شان امریکا کو اس کا کیا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔
ان کے بارے میں اکثر امریکی کہتے ہیں کہ ہماری بھی کیا قسمت ہے کہ پہلے ہمیں جونیئر بش کی صورت میں آدھا پاگل ملا تھا اور اب تو پورے کا پورا ہی مل گیا ہے۔ ان کے غصیلے اور منہ پھٹ رویے سے امریکا کے پرانے دوست تک اس کا ساتھ چھوڑ چکے ہیں۔ یورپ کے اکثر ممالک دوسری جنگ عظیم کے بعد سے امریکا سے سچے وفادار دوستوں کی طرح جڑے ہوئے تھے وہ امریکا کے ہر حکم کو خوشی خوشی بجا لاتے تھے مگر اب حال یہ ہے کہ حال ہی میں ٹرمپ نے جرمنی کو حکم دیا تھا کہ وہ افغانستان میں مزید فوجیں بھیجے مگر اس نے صاف انکار کردیا۔ یہی رویہ اب دوسرے یورپی ممالک کا بھی ہے۔
دراصل ٹرمپ سیاست سے نابلد ایک قدامت پسند تاجر ہیں بس بالکل مرچنٹ آف وینس کی طرح۔ ان کے نزدیک ہر شخص حتیٰ کہ ہر ملک کو امریکی امداد کے عوض خریدا جاسکتا ہے اور اس سے محروم کرکے اسے سزا بھی دی جاسکتی ہے۔ آج کل وہ اپنی حکم عدولی کی سزا دھڑا دھڑ معاشی پابندیوں اور جنگ کی دھمکیوں سے دے رہے ہیں۔ امریکا ایک زمانے سے غریب ممالک کی مالی امداد کرتا چلا آرہا تھا اور اسی وجہ سے وہ اس کے گرویدہ تھے اور اس کے اچھے برے حکم کی بجا آوری کرتے رہتے تھے۔ اب ٹرمپ کے دور میں جس ملک نے بھی ان کی حکم عدولی کی اسے نہیں بخشا جاتا۔
پاکستان کو ایک زمانے سے امریکا کا حاشیہ بردار ملک کہا جاتا رہا ہے۔ پاکستان نے اپنے خطے میں ہر امریکی مہم جوئی میں اس کا ساتھ دیا ہے وہ سرد جنگ میں بھی اس کے ساتھ تھا اور اس کے بعد بھی اس کے ہر حکم پر آنکھ بند کرکے عمل کرتا رہا ہے۔ پاکستان نے افغانستان کو روس کے تسلط سے بچانے کے لیے امریکا کی طرف سے جنگ لڑی۔ خود نقصان اٹھانے کے باوجود امریکا کو سرخرو کرایا۔
روس کو افغانستان سے ایسا کھدیڑا کہ اس کی سالمیت تک متاثر ہوئی اور وہ ٹکڑے ٹکڑے ہوگیا۔ اس کے بعد پھر طالبان کا دور آیا پاکستان نے نہ چاہتے ہوئے بھی طالبان کے خلاف امریکا بہادرکا ساتھ دیا مگر افغانستان میں دہشت گردی کو ختم کرانے کے چکر میں خود دہشت گردی کے بھیانک جال میں پھنس گیا۔ گزشتہ اٹھارہ سال سے وہ اس عفریت میں گرفتار ہے مگر امریکا بہادر نے پاکستان کے دکھ درد کو سمجھنے کے بجائے الٹا اسے ہی دہشت گردی کا منبع قرار دے ڈالا اور پاکستان کو اپنا دشمن نمبر ایک گرداننے والے بھارت کو افغانستان میں من مانی کرنے کا پروانہ عطا کردیا۔
امریکا کے عطا کردہ دہشت گردی کے عذاب نے پاکستان کی چولیں ہلا کر رکھ دیں۔ جانی و مالی نقصان تو ہوا ہی ساتھ ہی پاکستان کو تنہا کرنے میں بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی گئی۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے اقتدار سنبھالتے ہی نہ صرف پاکستان کی مالی امداد بند کردی بلکہ پاکستان کو کرائے کی جنگ لڑنے والا دہشت گرد ملک قرار دے دیا۔ تاہم ٹرمپ نے جو کچھ کیا بھارت کے اکسانے پر اور بھارت میں اپنی وسیع سرمایہ کاری کا لحاظ رکھتے ہوئے کیا۔ بعد میں بھارت کی مفاد پرستی اور چیرہ دستیوں نے ٹرمپ کے ہوش اڑا دیے کہ وہ نہ صرف پاکستان کے خلاف امریکا کو استعمال کر رہا ہے بلکہ محض پاکستان میں دہشت گردی جاری رکھنے کے لیے افغان جنگ کو جاری رکھنے پر بضد ہے۔ اس وقت امریکا میں نئے انتخابات کے لیے تیاریاں شروع ہوچکی ہیں۔
ٹرمپ اپنے پہلے الیکشن میں افغانستان میں امن قائم کرنے اور اپنی فوجوں کو وہاں سے نکالنے کا وعدہ کرچکے تھے مگر وہ ابھی تک پورا نہیں ہوا ہے چنانچہ وہ اب طالبان سے مذاکرات کرکے اس مسئلے کو جلدازجلد نمٹانا چاہتے ہیں چونکہ اس مسئلے کو پاکستان کی مدد کے بغیر حل نہیں کیا جاسکتا چنانچہ اب ٹرمپ کو ہوش آیا کہ انھوں نے پاکستان کے خلاف تضحیک آمیز رویہ اختیار کرکے فاش غلطی کی ہے جب کہ پاکستان امریکا کی اولین ضرورت ہے اور صرف افغانستان کے حوالے سے ہی نہیں بلکہ جنوب مشرقی ایشیا اور وسطی ایشیائی ممالک کے بابت بھی اہم ہے۔ اس وقت روس اور پاکستان کے درمیان جو قربتیں بڑھتی جا رہی ہیں امریکا اس سے بھی سخت پریشان ہے۔ اس سے اس خطے میں امریکی مفادات پامال ہوسکتے ہیں۔
بھارت کو خطے میں فوقیت دینے کی غلطی کے احساس کے بعد لگتا ہے، اب امریکا نے پاکستان سے اپنے رشتے بحال کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ گوکہ افغان جنگ میں پاکستان کے اہم کردار کو امریکا پہلے بھی سراہتا رہا ہے مگر اسامہ بن لادن کے ایبٹ آباد میں موجودگی کا پتا لگانے والے شکیل آفریدی کی غداری نے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں تلخی گھول دی ہے۔ امریکی حکومت پاکستان سے اسے اپنے حوالے کرنے کا پر زور مطالبہ کر رہی ہے مگر حکومت پاکستان اسے وطن عزیز سے غداری کرنے کی قرار واقعی سزا دلانے پر مصر ہے۔ پاکستان کے اس انکار سے دونوں ممالک کے مابین تعلقات میں تلخی روز بروز بڑھتی رہی ہے جس سے پاکستان کو نقصان پہنچ رہا ہے۔
سیاسی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ جہاں مشرف حکومت نے درجنوں امریکا مخالف لوگوں کو اس کے حوالے کیا تھا وہاں اس غدار وطن شکیل آفریدی کو تو فوراً ہی امریکا کے حوالے کردینا چاہیے۔ اگر امریکا کو اس کی سخت ضرورت ہے تو ہمیں کسی غدار کا ملک میں ایک پل بھی رہنا گوارا نہیں ہے البتہ اس کے بدلے قوم کی مظلوم بیٹی عافیہ صدیقی جو سترہ سال سے اسلام اور پاکستان سے محبت کی سزا امریکی جیل میں کاٹ رہی ہے اسے کیوں نہ وطن واپس لایا جائے۔
عمران خان نے جب سے وزارت عظمیٰ کا عہدہ سنبھالا ہے دنیا میں پاکستان کے امیج میں بہتری کے آثار نمایاں ہوئے ہیں۔ ٹرمپ کی پاکستان کو امریکی امداد سے محروم رکھنے کی دھمکی کا عمران خان نے جب سے انھیں منہ توڑ جواب دیا ہے وہ سمجھ گئے ہیں کہ عمران خان پاکستان کے سابق حکمرانوں سے بہت مختلف ہیں اور وہ ان کے رعب میں آنے والے نہیں چنانچہ لگتا ہے ،انھوں نے عمران خان کو امریکا بلاکر پاکستان سے تمام گلے شکوے دور کرنے کا پکا ارادہ کرلیا ہے۔
عمران خان ایک کٹر محب وطن شخص ہیں چنانچہ ٹرمپ سے ملاقات کے دوران انھیں ٹرومین سے پہلی ملاقات میں لیاقت علی خان جیسا بولڈ رویہ اختیار کرنے کی ضرورت ہے لگتا ہے عمران خان اپنی فہم و فراست سے پاکستان کے امریکا سے پہلے جیسے خوشگوار تعلقات بحال کرانے میں کامیاب ہوجائیں گے مگر وہ اس نادر موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے مظلوم عافیہ صدیقی کو امریکی جیل سے رہائی دلا کر اپنے ساتھ واپس لانا ہرگز نہیں بھولیں۔ وہ پہلے ہی عافیہ کی بہن اور بیمار والدہ سے عافیہ کو ہر صورت میں رہائی دلانے کا وعدہ کرچکے ہیں۔ پی ٹی آئی کے انتخابی منشور میں بھی عافیہ صدیقی کو رہائی دلانے کا وعدہ کیا گیا تھا، اگر عمران خان عافیہ کو اپنے ساتھ پاکستان واپس لانے میں کامیاب ہوگئے تو قوم ان کے اس احسان کو کبھی فراموش نہیں کرسکے گی۔