ریکوڈک گھاٹے کا سودا

ملکی قوانین کی ترویج و تدریج بھی اس طرح کی جاتی ہے کہ وہ عالمی قوانین کے آگے کمزور و مضحکہ خیز بن کر رہ جاتے ہیں۔

ملک آج کل ایسے مقدمات اور واقعات کو جھیل رہا ہے جو کہ بڑے پیمانے پر ملکی بدنامی کا باعث بن رہے ہیں ۔ جج ارشد ملک کی ویڈیو لیکس کا معاملہ ہو یا کلبھوشن یادو کا مقدمہ ، براڈ شیٹ کو 5.21بلین ہرجانے کی ادائیگی والا مقدمہ ہو یا ریکوڈک معاہدے کی منسوخی کیس میں 6ارب ڈالر ہرجانہ کی ادائیگی کا فیصلہ ۔ ملکی خزانے کو ایسے غلط فیصلوں اور تجربوں پر لٹایا جارہا ہے ، جس کے پیچھے وہ ناعاقبت اندیش مخصوص ریاستی طبقہ ہے جوکہ ہر قسم کی اکاؤنٹبلٹی سے ماورا رہا ہے ۔

پاکستان کے آئین کے مطابق تو ہر فرد اور ادارے کی حیثیت یکساں اور اُن کے اختیارات میں توازن رکھا گیا ہے لیکن عملی طور پر ملکی قانون کے ترازو کے دو پلڑوں میں سے قانون بنانے والے اداروں سے زیادہ قانون کی تشریح کرنے والے اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کا پلڑا ہمیشہ بھاری رہا ہے۔ دیکھا جائے تو حالیہ عالمی معاہدوں اور اُن کی منسوخی پر عالمی ثالثی عدالتوں کے فیصلوں نے ملکی اداروں اور عملداروں کی اہلیت پر بھی سوالیہ نشان لگادیا ہے ۔

دنیا میں تسخر اڑایا جارہا ہے کہ پاکستان میں معاہدے کرنے، اُن کی باریکیوں کو سمجھنے اور اُن معاہدوں کو نبھانے کی اہلیت ہی نہیں ہے اور تو اور اُن کے پاس ایسے قابل قانون دان بھی نہیں ہیں جو عالمی سطح پر ملکی مفاد کا تحفظ کرسکیں ۔ اس ملک کے اداروں و عملداروں اور قانوندانوں کی تمام تر ہوشیاری صرف اور صرف ملک میں داخلی سطح پر تنازعے پیدا کرنے اور ملکی وسائل کی لوٹ کھسوٹ کرنے والے طبقہ کے گروہی مفادات کے تحفظ پر ہی مرکوز رہی ہے ۔

عالمی بینک کے سرمایہ کاری سے متعلق ثالثی ٹربیونل انٹر نیشنل سینٹر فار سیٹلمنٹ آف انویسٹمنٹ ڈسپیوٹس کی جانب سے پاکستان پر معاہدے کی منسوخی پر 6ارب ڈالر جرمانہ عائد کردیاگیا ہے ۔700 صفحات پر مشتمل جاری کردہ اس فیصلے کو کہیں چیلنج بھی نہیں کیاجاسکتا ۔ یہ پہلی مرتبہ نہیں ہے کہ ملک کو اداراتی غلط فیصلوں کی وجہ سے بھاری مالی نقصان بھی برداشت کرنا پڑا ہو اور عالمی سطح پر قومی شرمندگی بھی اُٹھانی پڑی ہو۔

ماضی میں 1998میں نواز شریف کی دوسری حکومت کے دوران بھی کیٹی بندر پاور و پورٹ منصوبے کو منسوخ کرنے کی بناء پر عالمی کمپنی گورڈن وو اور سیپا کو بھاری جرمانے کی رقم ادا کرنی پڑی تھی۔ جس سے ملک میں بیرونی سرمایہ کاری کو بھی شدید نقصان پہنچا اور ملک کی جگ ہنسائی بھی ہوئی ۔ پھر مشرف دور میں نیب کی جانب سے براڈ شیٹ کمپنی کے ساتھ سیاسی قیادت کے اثاثوں کی تحقیقات کے لیے کیے گئے معاہدے کے خاتمے کی بنیاد پر بھی پاکستان کو عالمی ثالثی عدالت کے کٹہرے میں کھڑا ہونا پڑا اور وہاں سے جرمانہ ادا کرنے کا حکم ملا، جس کے خلاف اپیل دائر کی گئی جو حال ہی میں مسترد ہوگئی ہے اور عالمی عدالت نے پاکستان کو براڈ شیٹ کمپنی کو ہرجانے کی رقم ادا کرنے کا حکم بھی صادر کیا ہے ، اور اب ریکو ڈک کے معاہدے کو توڑنے پر عالمی ثالثی عدالت نے تقریباً 6ارب ڈالر کا بھاری جرمانہ عائد کردیا ہے ۔

کشن گنگا ڈیم تنازعہ ہو یا کشمیر ایشو ، افغانستان کا معاملہ ہو یا طالبان ایشو ، کیا وجہ ہے کہ دنیا ہمارے ساتھ کھڑی ہونا تو ایک طرف ہم پر اعتبار کرنے کو بھی تیار نہیں ۔ ؟ اس سوال کے جواب اور ریکوڈک معاملے پر یوں تو کئی باتیں ہورہی ہیں لیکن ملک پر 70سال سے باالواسطہ یا بلا واسطہ ہمیشہ قابض مقتدر قوتیں اور اُن کے حامیوں کا ہمیشہ کی طرح اس بار بھی ایک ہی بیانیہ ہے کہ یہ سب پاکستان کو کمزور کرنے کی عالمی سازش کا نتیجہ ہے ۔ چلیں اس بیانیے کو ہم مان لیتے ہیں (بلکہ ہمیشہ مانتے بھی آئے ہیں )، تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایٹمی قوت ہوتے ہوئے بھی ہم اس اہل نہیں کہ دشمنوں کی سازشوں کا مقابلہ کر پائیں تو پھر کیا فائدہ ایسی قوت اور طاقت کا ۔؟

تجزیہ کاروں کی رائے ہے کہ یہ ملک تیل ، گیس ، کوئلے ، سونے ، چاندی اور شیل گیس سمیت دیگر قدرتی وسائل سے مالامال ہے لیکن یہ سب ملکی ترقی اور عوام کی خوشحالی کے لیے کارآمد نہیں ہوسکے ہیں تو اُس کی وجہ قومی سطح پر سرمایہ کاری کا کوئی رجحان اور مربوط نظام نہ ہونااور بیرونی ملٹی نیشنل کمپنیوں کے ساتھ سرمایہ کاری کے معاہدوںمیں مطلوبہ مہارت نہ ہونا ہے ۔ ملکی قوانین کی ترویج و تدریج بھی اس طرح کی جاتی ہے کہ وہ عالمی قوانین کے آگے کمزور و مضحکہ خیز بن کر رہ جاتے ہیں۔ پھر گروہی مفادات کی بنیاد پر ایسے معاہدوں کو تکراری بنا دیا جاتا ہے ۔ جس کی بظاہر جو وجوہات سمجھ میں آرہی ہیں وہ یا تو عالمی قوانین سے مکمل واقفیت نہ ہونا ہے یا پھر ریکوڈک طرز کے ایسے معاملوں کی حساسیت کا ادراک نہ ہونا ہے۔

آج تک عالمی سطح پر کیے گئے مالی و معاشی ، سیاسی و سفارتی اور جنگی معاہدوں میں پاکستان کو اکثر معاہدوں سے نقصان زیادہ اور فائدہ کم ہی ہوا ہے ۔ لے دے کر ایک شملہ معاہدہ ہے جس کی کامیابی کے ریکارڈ والی کیسٹ کی ایک سائیڈ50سالوں سیسنا سنا کر ہمیں خاموش کیا جاتا رہا ہے ، تاکہ قوم تاشقند معاہدے ، سندھ طاس معاہدے ، بنگلہ دیش میں ہتھیار ڈالنے کے معاہدے ، افغان روس جنگ والے پاک امریکی معاہدے سمیت دیگر معاہدوں اور فیصلوں و پالیسیوں پر سوال نہ کریں ،بلکہ دھونس کی بنیاد پر ملک میں ایسے سوال اٹھانا بھی غداری کے زمرے میں آتا ہے۔

اور ایسے معاہدوں کی تفصیل عوام میں عام نہیں کی جاتی ۔ حالانکہ ایسے کئی معاہدوں سے ملک و ملت کو مالی ، سفارتی ، سیاسی اور تہذیبی و ڈیموگرافیائی نقصانات اُٹھانے پڑے ہیں ،لیکن اُن پر کوئی مستقل قومی کمیشن نہیں بن سکا جو ملک کو دیمک کی طرح چاٹنے والے اس گروہ کی نشاندہی کرکے اُسے واجب سزا دے سکے ، 1998میں اگر کیٹی بندر پراجیکٹ کی منسوخی پر ادا کی گئی ہرجانے کی رقم اور ملک کی جگ ہنسائی پر کوئی کمیشن بناکر کارروائی کی جاتی تو شاید آج ملک کو ریکوڈک معاملے جیسے قومی المیے کا سامنا نہیں کرنا پڑتا ۔ اُس وقت کیٹی بندر منصوبے کے خاتمے پر چیختے ہوئے سندھ کو صوبائیت و علاقائی سیاست قرار دیکر خاموش کرادیا گیا ۔

خیر ''دیر آید ، درست آید '' والی کہاوت پر یقین رکھتے ہوئے قوم ایک مرتبہ پھر اُمید رکھ بیٹھی ہے کہ وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے اعلان کردہ تحقیقاتی کمیشن اس معاملے کی غیرجانبدارانہ اور شفاف تحقیقات کے ذریعے ملک کو پہنچنے والے اس بھاری نقصان کے ملزمان کا نہ صرف تعین کرے گا بلکہ اُن کے لیے سزائیں بھی تجویز کریگا ۔اس لیے کمیشن کو چاہیے کہ ان افراد کی بھی جانچ پڑتال کرے جو اس معاہدے کو منسوخ کروانے عدالت گئے کہ اُن کے اس عمل کے پیچھے کیا محرکات تھے ۔ ساتھ ہی 1993سے اب تک جتنی حکومتیں رہی ہیں ، جو جو ادارے و افراد اس کے ذمے دار ہیں اُن کے خلاف قانونی کارروائی پر عمل کو یقینی بنایا جائے۔


آئیںذرا دیکھتے ہیں کہ ریکوڈک کیا ہے ؟اور اُس معاملے کے اس نہج پر پہنچنے کی وجوہات کیا ہیں ۔ 1993میں ریکوڈک کے حوالے سے بلوچستان حکومت نے امریکی کمپنی بروکن ہلز پراپرٹیز(BHP) سے ڈرلنگ کا معاہدہ کیا ۔لیکن بعد میں بی ایچ پی نے بلوچستان یا پاکستان کی حکومت کو اعتماد میں لیے بغیر 2004میں کان کنی کے حقوق آسٹریلوی کمپنی ٹیتھیان کوپر کمپنی کو دے دیے۔ یہ معاہدہ صرف ڈرلنگ کے لیے کیا گیا تھا لیکن معاہدہ فنی طور پر کمپنی کے فائدے اور پاکستان کے نقصان کی مثال تھا جوکہ اُس وقت ملک کے کسی بھی ادارے کو سمجھ نہیں آیا ۔ معاہدے کی رو سے یہ کمپنی اسٹیٹ بینک سمیت پاکستان کے کسی بھی ادارے کو بتائے بغیر سونے کا ایک ایک اونس برآمد کرسکتی تھی ۔

کمپنی نے کان کنی کے لیے 400کلومیٹر کا رقبہ اپنے قبضے میں لے لیا ۔ جب کہ کمپنی کو آڈٹ سے بھی مستثنیٰ قرار دیا گیا تھا ۔ بتایا جاتا ہے کہ اس سونے کی مالیت تقریباً دو کھرب ڈالر ہے ۔ اس معاہدے کو پہلے ہائی کورٹ میں چیلنج کیا گیا ۔اُس چیلنج کو ہائی کورٹ نے مسترد کردیا ۔ بعد میںیہ کیس سپریم کورٹ میں لایا گیا اور 2011میں پاکستان کی عدالت ِ عظمیٰ نے اس معاہدے کو منسوخ کرنے کا فیصلہ دیا ۔ جس کی وجوہات قواعد کی خلاف ورزی اور معاہدے کے وقت قانونی ضروریات پوری نہ کرنا بتائی گئیں ۔ اس فیصلے پر ٹیتھیان کمپنی نے پاکستان کی عدالت میں نظر ثانی کے لیے رجوع کرنے کے بجائے عالمی فورم پر اس فیصلے کو چیلنج کردیا ۔جس پر پاکستان نے برطانیہ کے سابقہ وزیر اعظم ٹونی بلیئر کی زوجہ سمیت دیگرعالمی شہرت یافتہ وکیل کیے۔

گذشتہ 8سال تک کی طویل سماعتوں کے دوران بھاری فیسیں ادا کی گئیں لیکن بالآخررواں ماہ عالمی ثالثی ٹربیونل نے ٹیتھیان کمپنی کے حق میں فیصلہ دے دیاہے۔ جس میں پاکستان پر تقریباً 6ارب ڈالر کا جرمانہ عائد کیا گیا ہے ، جوکہ دیکھا جائے تو موجودہ حکومت کی جانب سے کتنے ہی پاپڑ بیلنے کے بعد اور کتنی ہی خواریاں اُٹھانے کے بعد IMFسے حاصل کردہ قرضہ کی رقم کے برابر ہے ۔ تشویش کی بات یہ ہے کہ اگر IMFسے حاصل کردہ قرضہ کی رقم سے یہ جرمانہ ادا کرنے کا سوچا بھی جائے تو بھی مشکل یہ ہے کہ آئی ایم ایف سے یہ رقم تین اقساط میں مختلف دورانیے میں حاصل ہوگی جب کہ کمپنی کو ہرجانے کی رقم یک مشت ادا کرنی ہے ۔ جب کہ براڈ شیٹ کو ادا کی جانیوالی ہرجانے کی رقم علیحدہ ہے ۔

تجزیہ کاروں اور وزیر اعلیٰ بلوچستان کی اس سے متعلق رائے ہے کہ بلوچستان میں معدنیات سے متعلق اچھے قواعد ہ و ضوابط موجود ہیں ۔ اگر مرحلہ وار نوٹس جاری کرکے معاہدہ منسوخ کیا جاتا تو شاید ملک کو اتنا بڑا نقصان نہیں ہوتا لیکن اداروں کی جانب سے جلد بازی میں کیے گئے فیصلوں کا خمیازہ اب بھگتنا ہی پڑے گا، کیونکہ اس فیصلے کے خلاف اب اپیل کا حق بھی نہیں ہے ۔ ایسی صورتحال میں کمپنی کی جانب سے پاکستان کو مذاکرات کے ذریعے تصفیہ کرنے کی پیشکش خوش آئند ہے کہ دوران ِ مذاکرات درخواست پر شاید کمپنی کچھ ہرجانے کی رقم معاف کرنے پر رضامند ہوجائے ۔

لیکن یہ بھی لمحہ فکر ہے کہ دنیا کا ایک ایٹمی قوت کا حامل ملک ایک کمپنی سے کم وصولی کی بھیک مانگتا دکھائی دے گا۔ اس فیصلے اور اس جیسے تمام فیصلوں سے جو ملک کی بدنامی ہوئی ہے اس سے سرمایہ کاروں کا اعتماد بھی دن بہ دن مسلسل کم ہورہا ہے جو کہ مستقبل میں بہت ہی بھیانک مسائل سے دوچار کرنے کا بھی باعث بن سکتا ہے ۔دوسری جانب معدنی وسائل سے مالامال ہونے کے باوجود پس ماندہ صوبہ بلوچستان کی مالی حیثیت ہی نہیں کہ وہ اتنی بڑی رقم ادا کرسکے ، جس کے لیے وفاقی حکومت ہرجانہ کی رقم ادا کرے گی، جوکہ بعد میں بلوچستان کے حصہ سے کٹوتی کی جائے گی ۔ جس سے مستقبل میں بلوچستان کو مزید مشکلات کا سامنا ہوگا ۔

اس صورتحال کے پیش ِ نظر بلوچستان کی سیاسی قیادت اور قوم پرست جماعتوں میں شدید غصے کی لہر پائی جاتی ہے ۔ اُن کا موقف ہے کہ وفاقی اداروں کی نااہلی کی وجہ سے صوبہ کواللہ کی عطا کردہ نعمتوں سے کوئی فائدہ حاصل نہیں ہو رہا ، الٹا یہ نعمتیں صوبہ کے لیے وبال ِ جاں بن کر رہ گئی ہیں ۔ صوبہ کی ڈیمو گرافی ، ثقافت ، سیاست اور بلوچ روایات کو شدید نقصان پہنچ رہا ہے ۔ 2013میں ریکوڈک واپس بلوچستان کو سونپ دیا گیا ۔ جب کہ اب یہ باتیں بھی گردش میں ہیں کہ ریکو ڈک مستقبل میں کسی غیر سول ادارے کے زیر انتظام رہے گا۔

اس ملک کا سب سے بڑا المیہ اداروں میں توازن نہ ہونا اور اپنے اختیارات سے تجاوز کرنا رہا ہے ۔ جس ملک میں عدالتیں ڈیم بنائیں ، جس ملک میں اینکر مقدمات کے فیصلے سنائیں، اُس ملک میں ایسے ہی بھونچال و افراتفری کا ماحول برپا رہتا ہے ۔!لیکن ملک میں بیرونی سرمایہ کاری میں آئی ایم ایف سے ملنے والے قرضے سے زیادہ جب ہم ہرجانے کی رقوم ادا کریں گے تو یہ معاشی ابتری پاکستان بھر کو صومالیائی قحط جیسی صورتحال سے دوچار کرے گی ۔ پھران دونوں عالمی جرمانوں کی رقم دینے کے بعد ملک ایک مرتبہ پھر کنگال ہوجائے گا، تو ایسے میں حکومت اور ملکی مالی اداروں کے پاس ملکی اُمور چلانے کی کیا حکمت عملی ہوگی ؟ پھر اوپر سے دسمبر یا جنوری میں سی پیک و دیگر مد میںلیے گئے قرضہ جات کے سود کی قسط کی ادائیگی بھی سر پر ہوگی ۔ ان سب محرکات کی بدولت پاکستان کے دیوالیہ ہونے کی طرف تیزی سے بڑھتے قدم بھی ملک پر قابض قوتوں کے ضمیر کو جھنجھوڑ نہیں پارہے ۔ آخر کیا وجہ ہے ؟

جمہوری نظام میں ''طاقت کا سرچشمہ عوام '' کو کہا جاتا ہے ۔لیکن یہاں عوام طاقت کا سرچشمہ نظر نہیں آتے۔ ملک کا ہر فیصلہ عوام کی منشا کے خلاف ہوتا ہے ۔یہاں اداروں کی نااہلی کی سزا عوام کو بھگتنی پڑتی ہے ۔ ملک میں ہر نیا پیدا ہونے والا بچہ بھی لاکھوں روپے کا مقروض ٹھہرتا ہے ۔تشویش کی بات یہ ہے کہ 6ارب آئی ایم ایف کے قرضہ کے لیے عوام کے منہ سے نوالا تک چھین لیا گیا ہے تو نہ جانے اب اس نقصان کی تلافی کیسے اور کتنے بھیانک روپ میں عوام پر تھونپی جائے گی ۔

عوام اداروں کی نااہلی اور قبضہ گیری کی روش کے دوپاٹوں میں پس رہے ہیں ۔ موبائیل فون کے استعمال سے راشن کی خریداری پر ، ٹرانسپورٹ کے کرایہ سے گھر کی یوٹیلٹیز پر قدم قدم پر ٹیکس دینے کے باوجود اس ملک میں عوام رعایا کا درجہ رکھتے ہیں، جب کہ عوام کے پیسے سے تنخواہ و مراعات اٹھانے والے یہ ملازمین اپنی اداراتی گٹھ جوڑ کے باعث قدیم بادشاہی اختیارات والے حکمران بنے بیٹھے ہیں اور اسی اداراتی ساز باز وگٹھ جوڑ کی بدولت وہ عوام کو ہی مسلسل چور کہتے ہیں ۔ تو عوام اپنی طاقت اداروں اور تنظیموں کے مفادات کی تکمیل پر صرف کرنے کے بجائے ملک و ملت کے مجموعی مفادات کے پیش نظر استعمال کرنے اور رائے دہی سے مانیٹرنگ والے اپنے قومی فرائض کی سرانجامی پر توجہ دیں اور خود میں سوال کرنے کی Willپیدا کریں کیونکہ یہ ملک اول و آخر ہمارا(عوام کا) ہے۔یہ تمام سیاستدان ، بیوروکریٹس اور اداروں کے عملداران تو اس ملک کو نچوڑکر بیرون ِ ملک بھاگ جاتے ہیں لیکن عوام ہمیشہ یہیں رہتے ہیں اورآیندہ بھی یہیں رہنا ہے۔ پھر کیوں عوام ابھی تک اپنے حقوق اور قومی ذمے داریوں سے منہ موڑے کھڑا ہے ۔

عوام کی یہی روش اس ملک کی اس حالت کی ذمے دار ہے ۔ ورنہ خاندانی مکان جیسی چھوٹی ملکیت کے لیے بھائی بھائی میں تکرار کرنے اور عدالتوں میں وکیلوں سے زیادہ ہوشیار دکھائی دینے والی یہ عوام کیوں اپنے اجتماعی حقوق سے اتنی غافل اورآنکھیں چراتی نظر آتی ہے ۔ لیکن تاریخ گواہ ہے کہ جب جب عوام نے اپنے اجتماعی حقوق حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ اپنی قومی ذمے داریوں کا احساس کیا ہے تو دنیا میں ایران ، کیوبا، وینزویلا اور چین جیسے انقلاب برپا ہوئے ہیں ۔ اور ملک پر قابض ان گروہی مفادات کی حامل قوتوں کو یہ بات یاد رکھنی چاہیے ۔!
Load Next Story