ولیم شیکسپیئر کے دیس سے ایک کالم
ولیم شیکسپیئر نے اپنی تحریروں اور ڈائیلاگ میں جس دانش کے پھول بکھیرے ہیں وہ علم و ادب کا عظیم خزانہ ہیں۔
میں ایک تحقیقی کام کے سلسلے میں گزشتہ تین ہفتے سے مشرقی یورپ، اسکینڈے نیویا اور برطانیہ کے مختلف شہروں کی جہاں گردی کر رہا ہوں۔ اسی سلسلے میں مجھے برمنگھم کے قریب ''واروک شائر'' کانٹی میں واقع ولیم شیکسپیئر کے آبائی گاؤں جانے کا موقع ملا۔ ولیم شیکسپیئر کے نام اور کام سے سبھی اہل علم اور خصوصی طور پر انگریزی ادب سے متعلق افراد بخوبی آگاہ ہیں۔
مجھے یہ دیکھ کر خوشگوار حیرت ہوئی کہ برطانوی قوم نے اپنے اس ہیرو کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے کیا خوب طریقہ اختیار کیا ہے۔ انھوں نے جس طرح اس گاؤں کے ساتھ ساتھ شیکسپیر کے گھر اور رہائشی علاقے کو قومی ورثہ قرار دیا ہے وہ قابل تقلید ہے۔ کاش ہم بھی علامہ اقبال اور دوسرے قومی مشاہیر کو اس طرح خراج تحسین پیش کر سکتے۔ انھوں نے نہ صرف یہ کہ شیکسپیر کے ورثے کو آیندہ نسلوں کے لیے محفوظ کیا ہے بلکہ اس کے گاؤں کو اس قدر خوبصورت اور دلکش بنا دیا ہے کہ یہاں اگر آپ ایک ہفتہ سے زیادہ بھی قیام کرنا چاہیں تو بوریت محسوس نہ ہو گی۔
برمنگھم سے ''واروکشائر'' تک کے راستے میں انگور اور دوسرے پھلوں کے خوبصورت باغات ہیں۔ سرسبز مناظر سیاحوں کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ برمنگھم میں ولیم شیکسپیئر کے آبائی گاوں کے درمیان نصف مسافت پر سڑک کے کنارے ''ہینلے'' کا قصبہ ہے۔ یہاں کی ہینڈ میڈ(Hand made) آئس کریم کھائے بغیر آگے بڑھنا مشکل ہے۔
روایات کے مطابق شیکسپئر کا جب بھی یہاں سے گزر ہوتا وہ اس جگہ آئسکریم ضرور کھاتے تھے۔ شیکسپیئر کے شیدائی اس روایت پر عمل کرتے ہیں۔ ہم نے بھی یہاں رک کر آئسکریم کھائی اور تصاویر بنوائیں۔ سرراہ یہاں رک کر آئس کریم کھانا کئی اعتبار سے ایک یادگار لمحہ ہے۔
ولیم شیکسپیئر کے آبائی قصبے کا پورا نام ''اسٹراٹفورڈ ایوان'' ہے۔ اس قصبے کے بیچوں بیچ ایک خوبصورت جیل بھی ہے جس میں دن کے وقت سیاح کشتی رانی کرتے نظر آتے ہیں۔ یہ خوابناک قصبہ Dream Town صدیوں پرانی یادوں کو اس طرح محفوظ کیے ہوئے ہے کہ یہاں آ کر ایسا لگتا ہے کہ آپ زمانہ قدیم میں پہنچ گئے ہیں۔ لیکن اس قدیم ماحول میں آج کی تمام جدید سہولیات حاصل ہیں۔ یہاں فائیو اسٹار ہوٹل، ریسٹورنٹس اور ہر عمر کے افراد کے لیے تفریح کا سامان موجود ہے۔ برطانیہ کی نوجوان نسل کو ولیم شیکسپیر سے روشناس کرانے کے لیے مختلف اسکولوں کالجز اور یونیورسٹیز کے طالب علموں کو گروپ کی شکل میں اس گاؤں کی سیر کرائی جاتی ہے۔
ولیم شیکسپیئر ایک ایسا شاعر اور مصنف تھا جس کی تحریروں نے ادب سے متعلق سبھی مصنفین، ڈرامہ نگاروں اور تخلیق کاروں کو متاثر کیا ہے۔ولیم شیکسپیئر کو برطانیہ کے قومی شاعر کی حیثیت بھی حاصل ہے۔ اس کے لکھے ہوئے ڈراموں کا دنیا کی بہت سی زبانوں میں ترجمہ کیا گیا۔ شیکسپیئر کا ڈرامہ ''رومیو اور جولیٹ'' دنیائے ادب کی تاریخ میں ایک حوالے بن گیا ہے۔
برطانیہ کے شہر برمنگھم سے پون گھنٹے کی مسافت پر واقعہ ولیم شیکسپیئر کا آبائی گاؤں دنیا بھر کے سیاحوں اور اہل علم افراد کے لیے خصوصی توجہ کا مرکز ہے۔ یہ قصبہ گزشتہ پانچ سو سال سے شیکسپیئر کے متوالوں کی زیارت گاہ بنا ہوا ہے۔ خصوصی طور پر ہفتہ اور اتوار کو اس قصبے میں وہ علاقہ جہاں شیکسپیئر کی ولادت ہوئی، رہائش رکھی یا جہاں اس کی تدفین ہوئی وہاں شیکسپیئر کے متوالے اور چاہنے والوں کا ہجوم نظر آتا ہے۔
ولیم شیکسپیئر نے اپنی تحریروں اور ڈائیلاگ میں جس دانش کے پھول بکھیرے ہیں وہ علم و ادب کا عظیم خزانہ ہیں۔شیکسپیئر نے تھیئٹر اور ڈرامے کی صنف کو ایک نئی جہت اور جلا بخشی۔ اس نے اپنی تحریروں کے ذریعے عوام کے لیے نہ صرف یہ کہ تفریح کا سامان مہیا کیا بلکہ برطانوی سماجیات کے مختلف پہلو کو انتہائی دانشمندی سے اجاگر بھی کیا۔ شیکسپیئر کی شخصیت اور اس کے کام پر دنیا بھر میں ہزارہا تحقیقی مقالات اور کتابیں لکھی گی ہیں۔پانچ سو سال گزر جانے کے بعد بھی شیکسپیئر کا تاریخی گھر اپنے تعمیراتی حسن کو برقرار رکھے ہوئے ہے، یہ گھر آپنے دور کی ایک عظیم عمارت تھا۔
ولیم شیکسپیئر کے والد ایک امیر آدمی تھے۔ بچپن میں شکسپیئر نے بڑی خوشحالی دیکھی، اسے ایک جاگیردار اور تاجر کا بیٹا تصور کیا جاتا تھا۔ لیکن جب شیکسپیئر جوان ہوا تو اس نے والد کے کاروبار میں دلچسپی نہ لی جس وجہ سے کاروبار کو نقصان اٹھانا پڑا۔ مالی مشکلات کی وجہ سے شکسپیر کی تعلیم بھی متاثر ہوئی۔ انھی مشکلات کی وجہ سے شیکسپیئر کو ملازمت اختیار کرنا پڑی۔ اس نے عملی زند گی کا آغاز اسکول ٹیچر کے طور پر کیا۔
شیکسپیئر نے اسی تنخواہ سے اپنے خاندان کی کفالت کی۔ بعد میں وہ لندن چلا گیا اور وہاں ایک اداکار کمپنی میں ملازمت اختیار کی۔ لندن ہی میں انگلینڈ کے پہلے تھیٹر "دی تھیٹر" میں اس کی صلاحیتیں کھل کر سامنے آئیں اور اس نے ڈرامہ نگاری شروع کی اور روشن مقام حاصل ہوا۔ شیکسپیئر نے اڑتالیس سال کی عمر میں تصنیف و تالیف سے بھی کنارہ کشی اختیار کر لی اور واپس اپنے گاؤں چلا گیا۔
شیکسپیئر کا انتقال اسی آبائی گاؤں میں ہوا اور یہاں ہی تدفین ہوئی۔ شیکسپیئر کو گاوں کے ایک ''چرچ ''کے صحن میں دفن کیا گیا۔ اس چرچ کے چاروں طرف اب ایک قدیم قبرستان ہے جہاں صدیوں پرانے کتبے اس شہر کی قدیم تاریخ کی نشانی ہیں۔ شیکسپیئر کا شمار دنیا کے ان چند نامور افراد میں ہوتا ہے جو موت کے بعد بھی زندہ ہیں۔ دنیا کے مختلف خطوں سے آئے ہوئے لوگ ولیم شیکسپیر کو جس طرح خراج تحسین پیش کرتے ہیں یا علم و ادب کی تاریخ میں وہ جس طرح زندہ ہیں اس حوالے سے یہی کہا جا سکتا ہے کہ
سب کہاں کچھ لالہ و گل میں نمایاں ہو گئیں
خاک میں کیا صورتیں ہوں گی کہ پنہاں ہو گئیں