حمایت علی شاعر کسی انسان کی تلاش رہی
اورنگ آباد میں پیدا ہونے والا کہاں کہاں سے ہوتا ہوا دور دیس جا سوئے گا، یہ گمان تو شاید انھیں بھی نہیں ہوگا۔
کینیڈا کے شہر ٹورنٹو سے خبر آئی ہے کہ ہمارے عہدکا ایک اہم علمی اور ادبی نام حمایت علی شاعر ہم سے رخصت ہوا۔ ایک زمانہ تھا کہ وہ شہرکی ادبی محفلوںکی جان تھے،کوئی شعری نشست اور مشاعرہ ان کے بغیر ممکن نہ تھا، پھر ان کے جی میں جانے کیا آئی کہ وہ کینیڈا جا بسے۔ شاید وہاں چلے جانے میں اپنے بچوں کی محبت کا دخل ہو۔ وہاں سے ان کی خبر ملتی رہی پھر آہستہ آہستہ وہ زندگی کے سامنے پسپا ہوتے گئے۔ وہ ایک ہشت پہلو شخصیت تھے، جہاں رہے شمع محفل رہے، ان کی صحت کی خرابی ان کے دوستوں کا دل دکھاتی رہی اور اب وہ شمع بجھ گئی ہے۔
ٹیلنٹس گلڈ کے شفیق الزماں نے ان کی شخصیت پر برسوں پہلے ایک ضخیم مجلہ شائع کیا تھا جس میں ان کی شاعری اور شخصیت کو بہت ہنرمندی سے سمیٹ لیا تھا۔ 1996 کی کوئی تاریخ تھی جب حمایت بھائی سے ملاقات ہوئی اور انھوں نے دستخط شدہ مجلہ مجھے عنایت کیا تھا۔آج بھی جب اس پر نظر پڑتی ہے تو ایک ہوک سی اٹھتی ہے۔کیسے کیسے شاعر اور ادیب اس کے صفحوں پر اپنی جھلک دکھا رہے ہیں۔ حمایت صاحب کا پُر بہار وجود اس کی ہر سطر میں لہریں لے رہا ہے۔
وہ شاعر اور نثرنگار تھے۔ فلمی دنیا میں پہنچے تو وہاں اپنے نام کا سکہ جمایا، اردو میں تین مصرعوں کی ثلاثی ان کی ایجاد تھی۔ منظوم ڈرامے لکھے۔ دوسرے اردو شاعروں کے برعکس انھوں نے اپنا تخلیقی سفر نظم سے شروع کیا اور پھر غزل کا رخ کیا اور اس میں اپنے جھنڈے گاڑ دیے۔ انھوںنے منظوم ریڈیائی تمثیل پر بھی طبع آزمائی کی۔'' شکست کی آواز'' اس کی ایک بہترین مثال ہے۔
وہ 1926 میں پیدا ہوئے تو پہلی جنگ عظیم کے زخم ابھی مندمل نہیں ہوئے تھے اور دوسری جنگ عظیم کے بادل دنیا کے سروں پر منڈلانے لگے تھے۔ ہندوستان برطانوی نوآبادی تھا اور عالمی سیاسی کشیدگی اس پر بھی براہ راست اثر انداز ہوتی تھی۔ پہلی جنگ عظیم کے دوران ہمارے ہزاروں نوجوان سپاہی بھرتی ہوئے تھے اور دوردراز کے میدانوںمیں کھیت رہے تھے۔ حمایت حیدرآباد دکن میں پیدا ہوئے تھے اور نظام شاہی کی جکڑ بندیوں نے ابتداء سے ہی انھیں بتا دیا تھا کہ آزاد فضا کیا ہوتی ہے۔
ہندوستان آزاد ہوا تو وہ ایک نئے وطن کی طرف کھنچے چلے آئے۔ وہ شاعر تھے، ڈرامے سے انھیں گہری دلچسپی تھی۔ اس لیے بہت سے ڈرامے لکھے اور ان میں سے بیشتر منظوم تھے۔ان کی زندگی کا ایک بڑا حصہ سندھ کے ادبی اور ثقافتی شہر حیدرآباد میں گزرا۔ وہ ریڈیو پاکستان حیدرآباد سے وابستہ رہے، سندھ یونیورسٹی میں پڑھاتے رہے۔ سندھی کے بے مثل شاعر شیخ ایاز کے بارے میں انھوں نے ایک جامع کتاب ''شیخ ایاز، شخصیت و فن'' مرتب کی۔ حمایت علی شاعر نے ایاز کے بارے میں لکھا:
''ایاز کی شاعری کا ٹھنڈے دل سے مطالعہ کیا جائے تو محسوس ہوتا ہے کہ تاریخ زندہ لفظوں میں بول رہی ہے۔کوئی لمحہ، کوئی قدر اورکوئی حقیقت وقت کی گرد میں دفن ہوکر فنا نہیں ہوگئی، بلکہ ایک ابدی زندگی کے خواب کی طرح اس کے اشعار میں آنکھیں کھولے ہوئے ہے اور ایاز ان کو نئے لفظ اور نئے جسد کے ساتھ اپنے ادب میں آباد کرتا جا رہا ہے اور انھیں اپنے عہد کی آگاہی دے رہا ہے۔'' اس کتاب پر اور ایاز فہمی پر انھیں بہت داد ملی۔ اور جب اردو اور سندھی بولنے والوں کے درمیان کشیدگی بڑھی تو حمایت علی شاعر ان چند لوگوں میں سے تھے، جنہوں نے اس تنائو کو کم کرنے کی اپنی سی کوشش کی۔
وہ غزل کے مستحکم اور مضبوط شاعر تھے لیکن جیسا کہ میں ابتدا میںلکھ چکی ہوں انھوں نے اپنی تخلیقی زندگی کا آغاز نظم سے کیا تھا۔ آج کی نسل کوریا کے نام سے واقف ضرور ہے لیکن عمومی طور پر یہ نہیں جانتی کہ 50ء کی دہائی میں کوریائی قوم جنگ کے کس جہنم میں جلی تھی۔ حمایت صاحب نے اپنی طویل نظم '' بنگال سے کوریا تک'' میں ایک ایسے نوجوان کی کہانی لکھی ہے، جس کی آنکھوں میں رومان کے چراغ جلتے ہیں، اس کا سفر بنگال سے آغاز ہوتا ہے، وہ کوریا کے میدان جنگ سے گزرتا ہے، ایک طرف جنگ کی گرم بازاری دیکھتا ہے اور دوسری طرف بنگال کا قحط ہے جس کے بھیانک مناظر شاعر کا سینہ کھرچنے لگتے ہیں۔ اپنی اس نظم کے بارے میں حمایت علی شاعر نے لکھا کہ ''دراصل بنگال کے قحط کا جنگ سے تعلق میرا بنیادی موضوع ہے اور یہ واقعہ ہے کہ بنگال کا قحط قدرتی نہیں بلکہ مصنوعی تھا اور اس کا عالمگیر جنگ کی تباہ کاریوں سے ایک تعلق ضرور تھا۔''
حمایت علی شاعر نے جس زمانے میں ''بنگال سے کوریا تک'' لکھی، اس دور میں ہمارے کئی اہم شاعر جنگ مخالف نظمیں لکھ رہے تھے۔ان میں ساحرؔ لدھیانوی کی طویل نظم ''پرچھائیاں'' بہ طور خاص بہت اہم ہے۔ ویت نام، کوریا اورکئی دوسرے ملک جو ہوس ملک گیری کی آگ میں جھلس گئے۔ ان کی کہانی ہماری نئی نسل کو یاد نہیں لیکن حمایت علی شاعرکی یہ نظم انھیں سب کچھ یاد دلادیتی ہے:
''جنگ تہذیب کا نشاں تھامے... سارے عالم پہ چھائے جاتی تھی... دل میں کانٹے لبوں پہ پھول کھلائے... خوں مسلسل بہائے جاتی تھی... جھونپڑوں کے چراغ گل کرکے... شہرکے شہرکھائے جاتی تھی... مستقل امن کی قسم کھا کر... زندگی کو مٹائے جاتی تھی... آئینہ خانہ تصور میں... ایک اک نقش ابھرکے آتا ہے... اورکچھ دیر تھر تھراتے ہی... آپ ہی آپ ڈوب جاتا ہے... وہ برستے لپکتے شعلوں میں... دوڑتے، چیختے، چٹختے سر... دیوہیکل گرجتے طیارے... خاک برسر دھواں دھواں منظر... سڑتی گلتی کریہہ لاشوں کے... خون میں تر ہر اک راہ گزر... شام زخموں سے چور چور نڈھال... صبح کے لب خموش آنکھیں تر...کس کو معلوم جنگ کا میداں... کس کی دنیا کو خون دیتا ہے۔''
ان کی یہ نظم ان کے مجموعے ''آگ میں پھول'' میں شامل ہے۔ اس مجموعے میں ہمیں ان کی کئی غزلیں ملتی ہیں۔
ثلاثی ان کی ایجاد تھی اور اس میں انھوں نے اپنا ہنر خوب خوب آزمایا۔ان کی یہ ثلاثتی بہت مشہور و مقبول ہوئی۔
یہ ایک پتھر جو راستے میں پڑا ہوا ہے
اسے محبت سنوار دے تو یہی صنم ہے
اسے عقیدت تراش لے تو یہی خدا ہے
وہ اپنی زندگی کو حریر و دیبا کے پردوں میں پوشیدہ کرنے کے بجائے بے دھڑک کہتے ہیں کہ :
''مجھے اپنے طبقے، اپنی کچی مٹی کے مکان اور اپنی معمولی سی زندگی پر ناز ہے جس کی وساطت سے مجھے سماج میں زندگی کے جدلیاتی عمل کو سمجھنے کا موقع ملا۔ مجھے وہ درد نصیب ہوا جو میرے شعور کی روشنی میں چمک کر شعلہ نہ بن سکا تو ایک انگارہ ضرور بن گیا۔ یہی انگارہ کبھی ہوائے زمانہ سے بھڑک اٹھتا ہے تو میرے اور میرے فن کے لیے مشعلِ راہ بن جاتا ہے اور کبھی ... چراغ سر مزار''
انھوں نے فلمیں بنائیں، فلمی گیت لکھے اور زندگی بسر کرنے کے مختلف انداز اختیارکیے۔ پرائیڈ آف پرفارمنس اور نگار ایوارڈ سے نوازے گئے۔ یہ بات اداس کرتی ہے کہ ان کی زندگی ترک وطن کا ایک تسلسل ہوگئی۔ وہ حیدرآباد دکن سے نکلے تھے اور پھر آدھی زندگی گزار کر پاکستان سے کینیڈا کا رخ کیا۔ آخری عمر میں یوں شہر درشہر بھٹکتے پھرنا شاید انھیں اچھا نہ لگا ہو لیکن زندگی مجبوریوں کا نام ہے اور شاید اپنی زندگی کے آخری دنوں کو انھوں نے بہت پہلے ہی یوں نظم کیا تھا۔
دل کو ہرگام پرکسی دل کی
کسی انسان کی تلاش رہی
لوگ ملتے رہے بچھڑتے رہے
میرے کندھوں پہ میری لاش رہی
ان کے بیٹے بلند اقبال نے اور ان کے شاعر اور ادیب دوستوں نے انھیں ٹورنٹوکی خاک کے سپرد کر دیا۔ اورنگ آباد میں پیدا ہونے والا کہاں کہاں سے ہوتا ہوا دور دیس جا سوئے گا، یہ گمان تو شاید انھیں بھی نہیں ہوگا۔
ٹیلنٹس گلڈ کے شفیق الزماں نے ان کی شخصیت پر برسوں پہلے ایک ضخیم مجلہ شائع کیا تھا جس میں ان کی شاعری اور شخصیت کو بہت ہنرمندی سے سمیٹ لیا تھا۔ 1996 کی کوئی تاریخ تھی جب حمایت بھائی سے ملاقات ہوئی اور انھوں نے دستخط شدہ مجلہ مجھے عنایت کیا تھا۔آج بھی جب اس پر نظر پڑتی ہے تو ایک ہوک سی اٹھتی ہے۔کیسے کیسے شاعر اور ادیب اس کے صفحوں پر اپنی جھلک دکھا رہے ہیں۔ حمایت صاحب کا پُر بہار وجود اس کی ہر سطر میں لہریں لے رہا ہے۔
وہ شاعر اور نثرنگار تھے۔ فلمی دنیا میں پہنچے تو وہاں اپنے نام کا سکہ جمایا، اردو میں تین مصرعوں کی ثلاثی ان کی ایجاد تھی۔ منظوم ڈرامے لکھے۔ دوسرے اردو شاعروں کے برعکس انھوں نے اپنا تخلیقی سفر نظم سے شروع کیا اور پھر غزل کا رخ کیا اور اس میں اپنے جھنڈے گاڑ دیے۔ انھوںنے منظوم ریڈیائی تمثیل پر بھی طبع آزمائی کی۔'' شکست کی آواز'' اس کی ایک بہترین مثال ہے۔
وہ 1926 میں پیدا ہوئے تو پہلی جنگ عظیم کے زخم ابھی مندمل نہیں ہوئے تھے اور دوسری جنگ عظیم کے بادل دنیا کے سروں پر منڈلانے لگے تھے۔ ہندوستان برطانوی نوآبادی تھا اور عالمی سیاسی کشیدگی اس پر بھی براہ راست اثر انداز ہوتی تھی۔ پہلی جنگ عظیم کے دوران ہمارے ہزاروں نوجوان سپاہی بھرتی ہوئے تھے اور دوردراز کے میدانوںمیں کھیت رہے تھے۔ حمایت حیدرآباد دکن میں پیدا ہوئے تھے اور نظام شاہی کی جکڑ بندیوں نے ابتداء سے ہی انھیں بتا دیا تھا کہ آزاد فضا کیا ہوتی ہے۔
ہندوستان آزاد ہوا تو وہ ایک نئے وطن کی طرف کھنچے چلے آئے۔ وہ شاعر تھے، ڈرامے سے انھیں گہری دلچسپی تھی۔ اس لیے بہت سے ڈرامے لکھے اور ان میں سے بیشتر منظوم تھے۔ان کی زندگی کا ایک بڑا حصہ سندھ کے ادبی اور ثقافتی شہر حیدرآباد میں گزرا۔ وہ ریڈیو پاکستان حیدرآباد سے وابستہ رہے، سندھ یونیورسٹی میں پڑھاتے رہے۔ سندھی کے بے مثل شاعر شیخ ایاز کے بارے میں انھوں نے ایک جامع کتاب ''شیخ ایاز، شخصیت و فن'' مرتب کی۔ حمایت علی شاعر نے ایاز کے بارے میں لکھا:
''ایاز کی شاعری کا ٹھنڈے دل سے مطالعہ کیا جائے تو محسوس ہوتا ہے کہ تاریخ زندہ لفظوں میں بول رہی ہے۔کوئی لمحہ، کوئی قدر اورکوئی حقیقت وقت کی گرد میں دفن ہوکر فنا نہیں ہوگئی، بلکہ ایک ابدی زندگی کے خواب کی طرح اس کے اشعار میں آنکھیں کھولے ہوئے ہے اور ایاز ان کو نئے لفظ اور نئے جسد کے ساتھ اپنے ادب میں آباد کرتا جا رہا ہے اور انھیں اپنے عہد کی آگاہی دے رہا ہے۔'' اس کتاب پر اور ایاز فہمی پر انھیں بہت داد ملی۔ اور جب اردو اور سندھی بولنے والوں کے درمیان کشیدگی بڑھی تو حمایت علی شاعر ان چند لوگوں میں سے تھے، جنہوں نے اس تنائو کو کم کرنے کی اپنی سی کوشش کی۔
وہ غزل کے مستحکم اور مضبوط شاعر تھے لیکن جیسا کہ میں ابتدا میںلکھ چکی ہوں انھوں نے اپنی تخلیقی زندگی کا آغاز نظم سے کیا تھا۔ آج کی نسل کوریا کے نام سے واقف ضرور ہے لیکن عمومی طور پر یہ نہیں جانتی کہ 50ء کی دہائی میں کوریائی قوم جنگ کے کس جہنم میں جلی تھی۔ حمایت صاحب نے اپنی طویل نظم '' بنگال سے کوریا تک'' میں ایک ایسے نوجوان کی کہانی لکھی ہے، جس کی آنکھوں میں رومان کے چراغ جلتے ہیں، اس کا سفر بنگال سے آغاز ہوتا ہے، وہ کوریا کے میدان جنگ سے گزرتا ہے، ایک طرف جنگ کی گرم بازاری دیکھتا ہے اور دوسری طرف بنگال کا قحط ہے جس کے بھیانک مناظر شاعر کا سینہ کھرچنے لگتے ہیں۔ اپنی اس نظم کے بارے میں حمایت علی شاعر نے لکھا کہ ''دراصل بنگال کے قحط کا جنگ سے تعلق میرا بنیادی موضوع ہے اور یہ واقعہ ہے کہ بنگال کا قحط قدرتی نہیں بلکہ مصنوعی تھا اور اس کا عالمگیر جنگ کی تباہ کاریوں سے ایک تعلق ضرور تھا۔''
حمایت علی شاعر نے جس زمانے میں ''بنگال سے کوریا تک'' لکھی، اس دور میں ہمارے کئی اہم شاعر جنگ مخالف نظمیں لکھ رہے تھے۔ان میں ساحرؔ لدھیانوی کی طویل نظم ''پرچھائیاں'' بہ طور خاص بہت اہم ہے۔ ویت نام، کوریا اورکئی دوسرے ملک جو ہوس ملک گیری کی آگ میں جھلس گئے۔ ان کی کہانی ہماری نئی نسل کو یاد نہیں لیکن حمایت علی شاعرکی یہ نظم انھیں سب کچھ یاد دلادیتی ہے:
''جنگ تہذیب کا نشاں تھامے... سارے عالم پہ چھائے جاتی تھی... دل میں کانٹے لبوں پہ پھول کھلائے... خوں مسلسل بہائے جاتی تھی... جھونپڑوں کے چراغ گل کرکے... شہرکے شہرکھائے جاتی تھی... مستقل امن کی قسم کھا کر... زندگی کو مٹائے جاتی تھی... آئینہ خانہ تصور میں... ایک اک نقش ابھرکے آتا ہے... اورکچھ دیر تھر تھراتے ہی... آپ ہی آپ ڈوب جاتا ہے... وہ برستے لپکتے شعلوں میں... دوڑتے، چیختے، چٹختے سر... دیوہیکل گرجتے طیارے... خاک برسر دھواں دھواں منظر... سڑتی گلتی کریہہ لاشوں کے... خون میں تر ہر اک راہ گزر... شام زخموں سے چور چور نڈھال... صبح کے لب خموش آنکھیں تر...کس کو معلوم جنگ کا میداں... کس کی دنیا کو خون دیتا ہے۔''
ان کی یہ نظم ان کے مجموعے ''آگ میں پھول'' میں شامل ہے۔ اس مجموعے میں ہمیں ان کی کئی غزلیں ملتی ہیں۔
ثلاثی ان کی ایجاد تھی اور اس میں انھوں نے اپنا ہنر خوب خوب آزمایا۔ان کی یہ ثلاثتی بہت مشہور و مقبول ہوئی۔
یہ ایک پتھر جو راستے میں پڑا ہوا ہے
اسے محبت سنوار دے تو یہی صنم ہے
اسے عقیدت تراش لے تو یہی خدا ہے
وہ اپنی زندگی کو حریر و دیبا کے پردوں میں پوشیدہ کرنے کے بجائے بے دھڑک کہتے ہیں کہ :
''مجھے اپنے طبقے، اپنی کچی مٹی کے مکان اور اپنی معمولی سی زندگی پر ناز ہے جس کی وساطت سے مجھے سماج میں زندگی کے جدلیاتی عمل کو سمجھنے کا موقع ملا۔ مجھے وہ درد نصیب ہوا جو میرے شعور کی روشنی میں چمک کر شعلہ نہ بن سکا تو ایک انگارہ ضرور بن گیا۔ یہی انگارہ کبھی ہوائے زمانہ سے بھڑک اٹھتا ہے تو میرے اور میرے فن کے لیے مشعلِ راہ بن جاتا ہے اور کبھی ... چراغ سر مزار''
انھوں نے فلمیں بنائیں، فلمی گیت لکھے اور زندگی بسر کرنے کے مختلف انداز اختیارکیے۔ پرائیڈ آف پرفارمنس اور نگار ایوارڈ سے نوازے گئے۔ یہ بات اداس کرتی ہے کہ ان کی زندگی ترک وطن کا ایک تسلسل ہوگئی۔ وہ حیدرآباد دکن سے نکلے تھے اور پھر آدھی زندگی گزار کر پاکستان سے کینیڈا کا رخ کیا۔ آخری عمر میں یوں شہر درشہر بھٹکتے پھرنا شاید انھیں اچھا نہ لگا ہو لیکن زندگی مجبوریوں کا نام ہے اور شاید اپنی زندگی کے آخری دنوں کو انھوں نے بہت پہلے ہی یوں نظم کیا تھا۔
دل کو ہرگام پرکسی دل کی
کسی انسان کی تلاش رہی
لوگ ملتے رہے بچھڑتے رہے
میرے کندھوں پہ میری لاش رہی
ان کے بیٹے بلند اقبال نے اور ان کے شاعر اور ادیب دوستوں نے انھیں ٹورنٹوکی خاک کے سپرد کر دیا۔ اورنگ آباد میں پیدا ہونے والا کہاں کہاں سے ہوتا ہوا دور دیس جا سوئے گا، یہ گمان تو شاید انھیں بھی نہیں ہوگا۔