رتوڈیرو میں ایڈز مریض 3 ماہ سے دواؤں کے منتظر

75دن میں22بچے لقمہ اجل بن چکے، میڈیا، ٹرینی ڈاکٹرز کو اسکریننگ ٹیسٹ پر مامور کیا گیا، صحافی

ہمیں لازمی اینٹی ریٹرووائرل ادویہ کے بجائے سیرپ اور وٹامن کی گولیاں دی جارہی ہیں، متاثرہ فیملی کا موقف۔ فوٹو : فائل

رتو ڈیرو میں ایچ آئی وی (ایڈز) کی وبائی صورتحال کوسامنے آئے 4ماہ ہوچکے ہیں جس میں مجرمانہ غفلت کے باعث936 افراد ایڈزکا شکار ہوچکے ہیں۔

ایکسپریس ٹریبیون کورتو ڈیرو کے رہائشی گل بہار نے بتایاکہ 3ماہ ہوچکے ہیں جب انھیں اپنی2سالہ بچی کے ایڈز سے متاثر ہونے کا معلوم ہوا، پیڈیاٹرک سینٹر لاڑکانہ کے ڈاکٹر انھیں صبر کرنے کا کہہ رہے ہیں، ایتھوپیا سے مطلوبہ دوائیں ابھی تک پاکستان نہیں پہنچیں، بیٹی کو بخار اور دیگر امراض کی علامتیں واضح ہیں ہم اس کی زندگی کے بارے میں تشویش کا شکار ہیں۔

صوبائی محکمہ صحت کے مطابق ایڈز سے متاثرہ 936افراد میں 56فیصد بچوں کی عمر5سال سے کم ہے، 26فیصد بچوں کی عمر5سے 14سال تک ہے، 16فیصدکی عمر14سے45سال ہے جبکہ صرف 2فیصد افراد کی عمر 45سال سے زیادہ ہے۔

مقامی میڈیاکی رپورٹ کے مطابق 75دن میں ایڈز کا شکار22بچے موت کے منہ میں جاچکے ہیں، ایک بچی عائشہ3ہفتے قبل موت کو گلے لگاچکی ہے اس کو مئی میں ایڈز کی تشخیص ہوئی تھی اس کے خاندان کے دیگر افراد بھی متاثر ہیں۔

عائشہ کے انکل اسداللہ سومرو نے بتایاکہ ان کے گھرانے کے 4بچے ایڈز سے متاثر ہیں، ہمیں ایڈز کے علاج کیلیے لازمی اینٹی ریٹرووائرل ادویہ کے بجائے سیرپ اور وٹامن کی گولیاں دی جارہی ہیں، میریبھتیجی عائشہ کو ضرورت کے مطابق دوائیں مل جاتیں توشاید وہ ابھی زندہ ہوتی۔


رتو ڈیرو کے رہائشی ذوالفقار جلبانی نے بتایاکہ اس کے 5سالہ بچے کو ایڈز کی تشخیص ہوئی ہے ، ہم روزانہ لاڑکانہ جاتے ہیںبچے کو سیپٹراڈی ایس(Septra DS)اور ویلو سیف اینٹی بائیوٹکس(Velosef antibiotics) دے دی جاتی ہے، کوئی ہمیں یہ بتانے کو تیار نہیں کہ اینٹی ریٹرو وائرل (anti-retroviral ) ادویہ کب میسر ہوں گی۔ رتو ڈیرو کے متاثرہ خاندانوں کیلیے روزانہ 30کلومیٹر کا سفر سوہان روح بن چکا ہے۔

گل بہار کا کہناہے کہ ہمیں بار بار لاڑکانہ بلایا جاتاہے ہرٹیسٹ میں 5سے 6دن لگ جاتے ہیںاور یہ کہاجاتا ہے کہ دوائیاں پہنچنے والی ہیں انتظار کریں۔ مقامی صحافی جمال داؤد پوتا کاکہناہے کہ ٹرینی ڈاکٹروں کو اسکریننگ ٹیسٹ پر مامور کردیاگیا ہے، متاثرہ افراد اور خاندانوں کو آگاہی دینے کا کوئی انتظام نہیں کیاگیا۔

ایچ آئی وی/ایڈز کنٹرول پروگرام کے سربراہ ڈاکٹر سکندر میمن کاکہناہے کہ اینٹی ریٹرو وائرل (anti-retroviral ) ادویہ کی عدم فراہمی میں کوئی صداقت ہے اور نہ ہی 22ہلاکتوں کی تصدیق ہوسکی ہے۔ ایڈز سے متاثرہ 770بچوں میں 648بچوں کا رجسٹریشن کرچکے ہیں428بچوں کو اینٹی ریٹرو وائرل (anti-retroviral ) ادویہ فراہم کی جارہی ہیں، 124بالغ افرادرجسٹر ہیں جن میں 6افراد کو اینٹی ریٹرو وائرل (anti-retroviral ) ادویہ گلوبل فنڈ ٹو فائٹ ایچ آئی وی/ایڈز کے تعاون سے فراہم کی جارہی ہیں۔

جن بچوں کا ہیضہ ، ٹی بی اور دیگر امراض کا علاج کیاجارہاہے انھیں اینٹی ریٹرو وائرل (anti-retroviral ) ادویہ نہیں دی جارہیں، 122متاثرہ بچے علاج کیلیے نہیں لائے جارہے ان کی تلاش کیلیے ہم نے لیڈی ہیلتھ ورکرز کو ٹاسک دے دیاہے۔

ڈاکٹر سکندر میمن نے اعتراف کیاکہ سندھ حکومت کے اعلان کے باوجود تاحال رتو ڈیرو میں ایڈز کے علاج کی سہولت میسر نہیں کی جاسکی۔ آغا خان اسپتال کے تعاون سے رتو ڈیرو میں ایچ آئی وی ٹریٹمنٹ سینٹر اور لیبارٹری قائم کی جائے گی۔

 
Load Next Story