قبائلی اضلاع میں انتخابات‘جمہوریت کی جیت

قبائلی علاقوں میں پرامن طور پر صوبائی انتخابات کا پایہ تکمیل تک پہنچنا یقیناً ریاستی اداروں کی ایک بہت بڑی کامیابی ہے

قبائلی علاقوں میں پرامن طور پر صوبائی انتخابات کا پایہ تکمیل تک پہنچنا یقیناً ریاستی اداروں کی ایک بہت بڑی کامیابی ہے (فوٹو: فائل)

خیبرپختونخوا میں ضم ہونے والے 7 قبائلی اضلاع میں تاریخ میں پہلی بار گزشتہ روز صوبائی اسمبلی کی 16 نشستوں پر انتخابات ہوئے۔ اس طرح پاکستان کی سیاسی تاریخ میں پہلی مرتبہ ان قبائلی علاقوں میں صوبائی سطح پر جمہوریت کی بنیاد رکھی گئی۔

یہاں کے لوگوں نے براہ راست انتخابی عمل میں حصہ لیا اور اپنی پسند کے امیدواروں کو ووٹ ڈالا، انھیں قومی سیاسی دھارے میں شمولیت کا آزادانہ موقع میسر آیا جو جمہوریت کے استحکام اور ان علاقوں میں خوشحالی کی جانب اہم پیش رفت ہے۔ جنگ زدہ اور جنگجوؤں کی محفوظ پناہ گاہ سمجھے جانے والے اس علاقے میں بیلٹ سے بلٹ تک کا یہ سفر ایک تاریخی کامیابی ہے۔ یہ انتخابات انتہائی پرامن ماحول میں ہوئے اور کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش نہیں آیا۔

نئے ضم شدہ سات قبائلی علاقوں میں خیبرپختونخوا اسمبلی کی16نشستوں پر ہونے والے انتخابات میں تین سو سے زائد امیدواروں نے حصہ لیا۔ ان انتخابات میں تحریک انصاف' جماعت اسلامی' جے یو آئی ف' اے این پی' پاکستان پیپلز پارٹی' قومی وطن پارٹی سمیت متعدد سیاسی جماعتوں نے حصہ لیا جب کہ ایک بڑی تعداد آزاد امیدواروں کی تھی۔

اب تک موصول ہونے والے انتخابی نتائج کے مطابق آزاد امیدوار سب سے آگے ہیں جب کہ دوسرے نمبر پر تحریک انصاف کے امیدوار ہیں۔ ان انتخابات میں عوام کا جوش و خروش دیدنی تھا' انھوں نے انتخابات میں بھرپور حصہ لے کر ثابت کر دیا کہ وہ پرامن طور پر تبدیلی کے خواہاں اورجمہوری سوچ کے حامل ہیں اور وہ کسی ایسی قوت کا ساتھ دینے کے لیے آمادہ نہیں جو انتشار اور افراتفری کی سیاست کو فروغ دے' غیرمتوقع طور پر خواتین کی بڑی تعداد بھی ووٹ ڈالنے کے لیے پولنگ اسٹیشنوں پر پہنچ گئی۔ فاٹا کے قبائلی علاقوں کو قومی سیاسی دھارے میں شامل کرنے کے لیے کئی دہائیوں سے آوازیں اٹھ رہی تھیں تاکہ یہ علاقے جو انتہائی غربت' جہالت اور پسماندگی کا شکار ہیں یہاں بھی ترقی اور خوشحالی کا سفر شروع ہو سکے۔

قیام پاکستان کے بعد سے اب تک یہ قبائلی لوگ مقامی انتظامیہ اور جرگے کے ماتحت رہے اور ان کی کوئی سیاسی حیثیت نہیں تھی' کمزور اور محروم طبقات کا کوئی سیاسی اور سماجی مقام نہ ہونے کے باعث یہاں جمہوریت کبھی پروان نہ چڑھ سکی۔ فاٹا سے خیبرپختونخوا میں شمولیت کے اس سیاسی سفر میں مقامی لوگوں کو بے پناہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، لوگوں میں یہ خوف تھا کہ یہ علاقے جو ایک عرصے تک دہشت گردوں کی آماجگاہ بنے رہے اور وطن دشمن عناصر ان علاقوں کا امن تباہ کرنے کے لیے سرگرم رہے ، کیا ان علاقوں میں پرامن اور آزادانہ ماحول میں الیکشن کا مرحلہ کامیابی سے پایہ تکمیل تک پہنچ سکے گا۔


الیکشن کے موقع پر بھرپور حفاظتی انتظامات کیے گئے' حساس ترین پولنگ اسٹیشنوں کے اندر باہر فوجی اہلکار تعینات رہے جب کہ دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکار بھی بڑی تعداد میں موجود تھے۔ تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ یہ الیکشن شفاف ہوئے اور کسی قسم کی دھاندلی کی اطلاع نہیں ملی۔

صوبائی اسمبلی کے انتخابات ہونے کے بعد جہاں مقامی لوگ جمہوری ثمرات سے مستفیض ہوں گے وہاں ترقی اور خوشحالی کے نئے سفر کا بھی آغاز ہو گا' منتخب ہونے والے افراد صوبائی اسمبلی میں جانے کے بعد یہاں کے مسائل کو اجاگر کریں گے' ممکن ہے نئی وزارتیں تشکیل پائیں اور یہاں ان وزارتوں کے دفاتر تعمیر ہوں جس سے لوگوں کے نہ صرف مقامی مسائل حل ہوں گے بلکہ روز گار کے وسیع مواقع بھی میسر آئیں گے' اس طرح یہ لوگ جو ایک عرصے سے محرومیوں کا شکار چلے آ رہے تھے اس کی یقیناً کافی حد تک تلافی ہوگی۔

ان صوبائی انتخابات کے بعد اگلا سیاسی مرحلہ بلدیاتی انتخابات کا ہو گا' ان انتخابات میں نچلی سطح پر عام آدمیوں اور نوجوان نسل کو سیاسی طور پر آگے آنے اور اپنی صلاحیتوں کے اظہار کا موقع ملتا ہے' سیاسی عمل تیز ہونے سے وطن دشمن اور شرپسند عناصر کمزور ہوتے چلے جاتے ہیں اور عوام ایسے عناصر مسترد کر دیتے ہیں جو ان کے علاقائی مسائل حل کرنے میں ناکام ہو جاتے ہیں۔ مسلسل انتخابی عمل سے سیاسی نظام کو تقویت ملتی اور علاقے کی محرومیاں دور ہوتی ہیں۔

انگریز دور سے یہاں ایف سی آر (فرنٹیئر کرائمز ریگولیشنز) کا کالا قانون لاگو رہا جس کے تحت یہاں کے لوگوں کی نہ کوئی سیاسی حیثیت تھی اور نہ سماجی' وہ مقامی انتظامیہ کے فیصلوں کے سامنے مکمل طور پر بے بس تھے۔ ایف سی آر کے قانون کے خاتمے اور قومی اسمبلی کے بعد صوبائی اسمبلی کے انتخابی عمل سے لوگوں کو آزاد فضا میں سانس لینے کا موقع ملا ہے اور ان کے اندر یہ احساس اجاگر ہوا ہے کہ وہ بھی اس ملک کے سیاسی نظام کا ایک حصہ ہیں جو اپنی پسند کے امیدوار کا انتخاب کر کے اپنی آواز اشرافیہ تک پہنچا سکتے ہیں۔

قبائلی علاقوں کا ایک اپنا مزاج ہے اس لیے یہاں پر روایتی طریقوں سے تبدیلی لانے کی کوئی بھی کوشش لوگوں میں بے چینی اور اضطراب کا محرک بن سکتی ہے' اس لیے یہاں تبدیلی کے شروع ہونے والے اس نئے دور میں لوگوں کے مزاج' روایات اور اقدار کو سامنے رکھتے ہوئے فیصلے کیے جائیں تو شہریوں کو بھی یہ احساس ہو گا کہ وہ اس نظام کا ایک حصہ ہیں جنھیں نظر انداز نہیں کیا جا رہا۔ ان قبائلی علاقوں میں پرامن طور پر صوبائی انتخابات کا پایہ تکمیل تک پہنچنا یقیناً ریاستی اداروں کی ایک بہت بڑی کامیابی ہے اب انھیں اس کے بعد یہاں بلدیاتی انتخابات کے انعقاد پر توجہ دینی چاہیے۔
Load Next Story