ظفر کا سفر وسیلۂ ظفر
مشہور مفروضہ ہے کہ اگر کسی ملک کے لوگوں کا مزاج معلوم کرنا ہو تو وہاں کی ٹریفک کو دیکھو ۔
ایک دن صبح نیند سے اٹھا اور جوتی پہنے کا ارادہ کیا تو دیکھا کہ جوتی جوتی پر چڑھی ہوئی ہے۔ایک دم ماتھا ٹھنکا کہ ہو نہ ہو یہ کسی سفر کا شگون ہے۔
پرانی کہاوت ہے کہ (سسرال میں) روٹھی ہوئی بیٹھی تھی کہ، میکے سے سندیسہ آگیا۔ اب تو سندیسے نہیں آتے، موبائل بجتے ہیں۔ خیر میں روٹھا ووٹھا تو نہیں تھا، لیکن فون آگیا کہ آپ کا ٹکٹ ای میل کے ذریعہ بھیجا ہے، آنے کی تیاری پکڑیں۔ پھر کیا ہوا کہ بغل میں جوتی دبائی اور رخت سفر باندھنے کی تیاری شروع کردی۔ یہ پچھلے سال فروری کے مہینے کی بات ہے۔ اتفاق سے اس سال کراچی میں بھی کڑاکے کی سردی تھی۔ سوچا کہ وہاں تو سردی بڑی کڑاکے کی ہوگی، کہ قلفی جم جائے گی۔ یہ کراچی کی سردی تو وہاں کی سردی کی عشر عشیر بھی نہیں ہے۔ کچھ سیانوں نے بھی سمجھایا کہ بھلے مانس! وہاں سردی میں باہر نکلنا مشکل ہوتا ہے، گھر میں ہی مقید بیٹھے رہوگے وغیرہ، لیکن چوں کہ سفر سر پر سوار ہو چکا تھا، اس لیے برق رفتاری سے تیاری پکڑی اور 15 فروری کی آدھی رات کو عازم ایرپورٹ ہوئے۔
سردی ایسی تھی کہ بیٹے نے کہا، بابا گھر واپس چلیں، لیکن ہم تھے کہ عزم مصمم سے بھی بہت بڑا عزم کیے ہوئے تھے کہ کچھ بھی ہوجائے، جانا ہے۔ پہلے تو سوچا کہ یہاں سے ایک عدد انگیٹھی ساتھ لے جائیں، کیوںکہ وہاں گھروں میں انگیٹھیاں رکھنے کا رواج نہیں ہے۔ پھر خیال آیا کہ ہونا ہو وہاں بھی بجلی کی لوڈشیڈنگ ہو اور ہیٹر کبھی چلتے ہوں، کبھی نہیں، لیکن دوسرے لمحے اپنے اُس خیال کو دل سے جھٹک دیا۔ پھر دوسرا خیال آیا کہ پتا نہیں ہوائی جہاز میں انگیٹھی لے جانے کی اجازت ملے یا نہ ملے، کہیں انگیٹھی بھی دہشت گردی کے آلات یا ہتھیاروں کی فہرست میں شامل نہ ہو۔ اس خیال سے سوچا کہ وہاں پہنچ کر ایرپورٹ سے نکلتے ہی انگیٹھی خرید کے، پھر گھر کو چلیں گے۔ ماضی سے سبق سیکھ کر اس سال پہلی اپریل کو سفر کو سدھارے۔
پچھلے سال چوں کہ سفر ابوظہبی کی ایرلائین سے تھا، اس لیے جہاز 4 گھنٹے وہاں رکا اور اس کے بعد 14 گھنٹے میں بخیریت پہنچ گئے۔ راستے میں انہوں نے ہمارے آرام، مشروبات، کھانے وغیرہ کا جوگا خیال رکھا، دیگر لوازمات، مثلاً ٹوتھ برش وغیرہ بھی پیش کیے۔ یہ بات میں نہیں لکھتا، لیکن لکھ رہا ہوں، جس کی وجہ یہ ہے کہ اس سال ہمیں خیال آیا کہ کیوں نہ اپنی لاجواب پرواز میں سفر کرکے باکمال لوگوں میں شامل ہوجائیں اور اور اپنے اوپر لگی ہوئی اس تہمت سے چھٹکارا حاصل کریں کہ ہم محب وطن نہیں ہیں۔ تو ہوا یہ کہ انہوں نے وہ لوازمات تو درکنار، پانی پلانے میں بھی ایسا رویہ رکھا، جیسے کوئی احسان کر رہے ہوں۔ بہر حال یہ تہ جملۂ معترضہ تھا۔
آمدم برسرِمطلب۔ ایرپورٹ سے گھر تک دیکھا کہ راستے میں جو بھی درخت تھے، ان پر ایک بھی پتا نہیں تھا، بلکہ ان پر سوکھی لکڑیاں دکھائی دے رہی تھیں۔ بس ان کے تنے ان کے درخت ہونے کی چغلی کھا رہے تھے۔ میرے پوچھنے پر بتایا کہ سردیوں اور سرو کے موسم میں ان کی یہ صورت ہوتی ہے، لیکن جوں ہی بہار کا موسم شروع ہوگا تو آپ ان پر پتے، پھول اور میوہ جات لگے دیکھ کر حیران رہ جائیں گے کہ کیا یہ وہی سوکھی لکڑیوں کے تنے ہیں جو اب اتنے ہرے بھرے ہو گئے ہیں! میں اس بات پر متذبذب تھا کہ ایسا کیسے ہو سکتا ہے، لیکن مجھے ایک دم یاد آیا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ جب تم لوگ خاک میں مل جاؤگے، تو تمہیں دوبارہ زندہ کروںگا، تو اس ذات اقدس کے لیے یہ کوئی مشکل نہیں کہ وہ جب سے دنیا آباد ہوئی ہے، تب سے ان درختوں میں پھر سے جان ڈالتا رہا ہے اور یہ کام ہر سال باقاعدگی سے ہوتا رہتا ہے۔
مشہور مفروضہ ہے کہ اگر کسی ملک کے لوگوں کا مزاج معلوم کرنا ہو تو وہاں کی ٹریفک کو دیکھو اور اگر اقتصادی حالت معلوم کرنی ہو تو اسٹاک ایکسچینج کو دیکھو۔ ہماری تو سمجھ میں نہیں آ رہا ہے کہ کیا دیکھیں اور کیا نہ دیکھیں۔ اونٹ رے اونٹ تیری کون سی کل سیدھی؟ ہمارے ہاں ٹریفک تو دور کی بات ہے، 66 سالوں ابھی تک قطار میں کھڑے ہو کر اپنی باری کا انتظار کرنے والی قوم بھی نہیں بن سکے۔ ٹریفک کا سرخ سگنل توڑنا یا یک طرفہ ٹریفک کو توڑ کر اپنا راستہ نکالنا یا تیز رفتاری یا درمیاں سے سڑک پار کرنا تو ہماری مردانگی کی نشانی ہے۔ ہماری اس ہپڑدپڑ کی وجہ سے کئی گھنٹے ٹریفک میں کھڑا رہنا پڑتا ہے اور اس دوران گاڑیوں کے انجن رواں دواں ہوتے ہیں اور اگر کسی ایک سال کا بھی حساب کیا جائے، تو اس تیل کی قیمت اربوں روپیہ بنتی ہے، اور ہماری قوم کا اس تیل کی درآمد کرتے کرتے تیل نکل جاتا ہے۔
ہمارا اسٹاک ایکسچینج ایک دم اوپر چڑھ جاتا ہے اور دوسرے دن دھڑام سے نیچے بیٹھ جاتی ہے۔ ان دو دنوں عوامل کی وجوہات معلوم نہیں ہوتیں، جب کہ مہذب دنیا کے لوگ ہر جگہ قطار میں کھڑے ہوکر اپنی باری کا انتظار کرتے ہیں، سرخ سگنل پر رکتے ہیں، یک طرفہ ٹریفک توڑ کر راستہ نہیں نکالتے ہیں، نہ ہی تیز رفتاری کرتے ہیں اور ہمیشہ زیبرا کراسنگ سے راستہ پار کرتے ہیں، بلکہ اگر آپ کو راستہ پار کرنا ہے تو فٹ پاتھ پر لگے ہوئے کھمبے پر لگے ہوئے بٹن کو دبائیں تو آپ بڑی آسانی سے سڑک پار کرسکتے ہیں۔ اس وجہ سے حادثات کم ہوتے ہیں۔ میں نہیں کہتا کہ وہاں حادثات بلکل نہیں ہوتے، لیکن کم ہوتے ہیں۔
ٹورنٹو، اقتصادی طور پر کینیڈا کے صوبے اونٹاریو کا صدر مقام ہے، بل کہ اسی طرح جیسے ہمارا کراچی ہے۔ یہ ایک پرانا اور گنجان شہر ہے، بالکل کراچی کے صدر کی طرح، لیکن وہاں کبھی کبھار تو ٹریفک جام ہوتا ہے، لیکن ہمارے صدر کی طرح روزانہ نہیں۔ لیکن کوئی بھی اپنی لائن توڑ کر آپ کی گاڑی کے عین سامنے نہیں آکر کھڑا نہیں ہوتا۔ یہاں بسیں، کاریں، بجلی پر چلنے والی ٹرام، ٹرک اور بڑے بڑے ٹرالر (جیسے ہمارے ہاں 40 فٹ چوڑے ٹرالر ہوتے ہیں) آسانی سے چلتی ہیں۔ ہمارے ہاں بھی کسی زمانے میں کیماڑی سے گاندھی گارڈن اور کینٹ اسٹیشن تک ٹرام چلتی تھی، جس کو بس مافیا نے بند کرادیا۔ پوری دنیا میں ٹرام چلتی ہے اور وہاں بھی ہماری طرح پہلے کھلی باڈی والی اور ڈیزل پر تھی، اور اس کے بعد اس کی صورت بدل کر بس کی طرح کری گئی اور وہ بجلی پر چلنے لگیں۔ ہمارے ہاں بجائے اس کی حالت سدھارنے کے، اس کو جڑ سے ہی ختم کردیا گیا، محض ایک لابی کو خوش کرنے کے لیے، حالاںکہ ٹرام اپنی مقررہ پٹری پر چلتی تھی اور بسوں، کاروں وغیرہ کو اس پٹڑی سے مناسب فاصلے پر چلنا ہوتا تھا۔ اب وہاں تو بسیں بھی اب بیٹری پر چل رہی ہیں۔ ہماری نئی حکومت نے بھی ہمیں بیٹری سے چلنے والی کاروں کا خواب دکھایا ہے۔ پتا نہیں کہ یہ خواب شرمندۂ تعبیر بھی ہوتا ہے کہ نہیں۔
وہاں سال کے 9مہینے سردی اور 3 مہینے گرمی پڑتی ہے، جس میں کبھی کبھار تو پارہ تقریباً کراچی کے برابر بھی ہو جاتا ہے، لیکن اکثر اس گرمی کے دوران ہلکی ہلکی خنکی بھی ہوتی ہے۔ موٹر سائیکلیں عام طور پر نہیں چلتیں، البتہ گرمی کے موسم میں کچھ لوگ بڑی بڑی موٹر سائیکلوں پر سوار دکھائی دیتے ہیں، لیکن ان کے سائلنسر نکلے ہوئے نہیں ہوتے، لیکن چوںکہ وہ بڑی ہوتی ہیں، اس لیے ان کی طرف دھیان ضرور مبذول ہو جاتا ہے۔ ہمارے ہاں بھی کسی زمانے میں بڑی بڑی امریکن موٹر سائیکلیںTriumph کے نام سے ہوتی تھیں۔ البتہ چھوٹے چھوٹے اسکوٹر صرف خواتین چلاتی ہیں۔ رکشاؤں کا نام بھی نہیں ہے۔ ہمارے رکشے بغیر سائلنسر کے اور دھواں بکھیرتی ہوئیں، فضا کو معطر کرتی ہوئی چلتی ہیں۔ کراچی کے ایک پولیس افسر نے ان رکشاؤں کے سائلنسر صحیح کرنے کی ٹھانی تو، سب رکشا والے پولیس ہیڈکوارٹر کے سامنے پہنچ گئے اور ان کے انجن اور ہارن پورے زور سے گھنٹوں بجاتے رہے، جس سے اس پولیس افسر کے ارادے متزلزل ہو گئے۔ رکشا والوں کا کہنا ہے کہ سائلنسر صحیح رکھنے سے تیل زیادہ کھپتا ہے۔
ٹیکسی کی سواری بھی عام ہے۔ یہاں ٹیکسیاں پیلی یا کالی پیلی نہیں ہوتیں۔ کسی بھی کار کو ٹیکسی کے طور پر رجسٹر کراکے، اس کے اوپر ٹیکسی کا بورڈ لگا کر چلائی جا سکتی ہیں۔ یہاں کے لوگ بھی ٹیکسی چلاتے ہیں اور باہر سے یہاں آنے والے بھی۔ میں ایک ٹیکسی میں سوار ہوا تو ڈرائیور پاکستانی نکلا۔ معلوم ہوا کہ صاحب موصوف پاکستان میں انکم ٹیکس افسر ہیں، بیگم ان کی ڈاکٹر ہیں، دونوں یہاں آئے ہیں۔ وہ ٹیکسی چلا رہے ہیں، اور بیگم چھوٹے موٹے کام کرتی ہیں۔ وہ چھوٹے موٹے کام یہ ہوتے ہیں کہ جسی ہوٹل میں برتن مانجھنا اور کسی کافی خانے میں گاہکوں کو کافی پیش کرنا وغیرہ۔ پاکستان میں بھی میٹر چل رہا ہے۔ سال کے جاکر حاضری کے رجسٹر پر دستخط کرکے، تن خواہیں بھی وصول فرماتے ہیں اور سینیارٹی بھی۔ اس طرح ترقیاں بھی پاتے ہیں۔
کچھ لوگ 5 سال کی چھٹی لے کر آتے ہیں، جو کہ انہیں قانونی طور مل جاتی ہیں، بشرطے کہ وہ کسی وزیر یا بیوروکریٹ کے بیٹے، داماد یا منظور نظر ہوں۔ اس پر طرہ یہ کہ وہ جگہ خالی بھی کی جاتی ہے۔ یعنی اس کی جگہ پر کوئی دوسرا آدمی تعینات نہیں کیا جاتا۔ ایسے ہی ایک دین دار صاحب سے ملاقات ہوئی۔ میں نے تھوڑی سی گستاخی کرکے ان کو یاد دلایا کہ یہ تو سراسر غیراسلامی حرکت ہے، تو انہوں نے جواب دینے سے پہلو تہی فرمائی۔ لگتا تھا کہ وہ یہ کہنا چاہ رہے تھے کہ چوری میرا پیشہ ہے اور نماز میرا فرض۔ یہ وہی ڈائیلاگ ہے جو سنتوش کمار نے فلم سرفروش میں صبیحہ خانم سے کہا تھا، جس پر وہ ہمیشہ کے لیے ان کی ہو کر رہ گئیں۔ ایسے لوگ کینیڈا کے علاوہ امریکا اور دیگر مغربی ملکوں میں بہت ملتے ہیں۔ ہائے امریکا! کینیڈا تمھاری گود میں پناہ لینے کے لیے ہم نے کیا کیا نہیں کیا۔
کینیڈا میں تیل تو نکلتا ہے، لیکن ان کے پاس اپنی ریفائنری نہیں ہے۔ تیل پائپوں کے ذریعے امریکا بھیجا جاتا ہے، وہاں سے صاف ہوکر آتا ہے۔ بین الاقوامی قیمت پر بکتا ہے، بل کہ امریکا سے بھی منہگا۔
کینیڈا میں تھوڑے تھوڑے فاصلوں پر چھوٹے چھوٹے شہر ہیں، جہاں ہر چیز بڑے شہروں کی قیمتوں پر دست یاب ہوتی ہے، اس لیے لوگوں کو بڑے شہروں میں جانے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ بڑے بڑے شاپنگ مال، مشہور فوڈچینز بھی، بڑی بڑی صنعتیں بھی۔ ان شہروں کے نام انگلینڈ کے شہروں والے رکھے گئے ہیں، مثلاً لندن، ملٹن، واٹرلو وغیرہ۔ وہاں مختلف صنعتیں بھی لگائی گئیں ہیں، لیکن ہماری طرح نہیں کہ سب ایک جیسی صنعتیں ایک ہی شہر میں، جیسا کہ ہم نے پاکستان بننے کے بعد ضلع ٹھٹھہ کے گھارو شہر میں صرف کپڑے کے کارخانے لگائے اور اس کو پاکستان کا مانچیسٹر بنانے کی کوشش کی، لیکن آج وہاں ان صنعتوں کا نام و نشان بھی نہیں ہے اور سوائے چند پولٹری فارموں کے وہاں کچھ نہیں ہے، جس سے لوگوں کو معقول روزگار مہیا ہو۔
آنحضورؐ نے بڑے بڑے شہر بنانے کی جگہ تھوڑے تھوڑے فاصلے پر چھوٹے چھوٹے شہر آباد کرنے کی ہدایت فرمائی تھی۔
کینیڈا کا نظام حکومت بالکل سادہ سا ہے۔ وہ آزاد ملک ہے، لیکن اس نے ابھی تک اپنے آپ کو جمہوریہ ڈکلیئر نہیں کیا ہے۔ اس کے سکے پر ملکہ برطانیہ کی تصویر ہوتی ہے اور شہریت دیتے وقت ملکۂ برطانیہ سے وفاداری کا حلف لیا جاتا ہے، لیکن اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ وہ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کی صف اول میں کھڑا ہے۔ ہم جیسے ملک اس سے امداد لیتے ہیں۔ وہاں کے ایک اخبار میں میں نے پڑھا کہ گذشتہ سالوں میں سندھ میں جو سیلاب اور بارشوں کی وجہ سے تباہی آئی تھی، اس میں انہوں نے سندھ کے دادو ضلع میں 700 گھر بنواکر دینے کی امداد دی تھی۔ وہ گھر بنے یا نہ بنے، اس کے بارے میں کوئی معلومات نہیں ہے۔ ہو سکتا ہے کہ کاغذات میں وہ گھر بن گئے ہوں۔
نظام حکومت بھی سادہ سا ہے۔ سینیٹ، قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیاں۔ گورنر جنرل جو ملکہ کا نمائندہ ہوتا ہے، لیکن جنرل نہیں ہوتا، عام شہری ہوتا ہے، ہمارے غلام محمد یا اسکندر مرزا جیسا نہیں۔ وزیراعظم، وزیر اعلیٰ۔ کسی صوبائی گورنر کا نام ہم نے نہیں سنا۔ نہ کمشنر، نہ ڈپٹی کمشنر، نہ اسسٹنٹ کمشنر، نہ مختارکار، نہ پٹواری۔ صوبائی اسمبلی کے بعد ٹاؤن، ہماری یونین کونسل کی طرح۔ ٹاؤن کے سربراہ کو میئر کہا جاتا ہے۔ یہاں کے مسی ساگا ٹاؤن کی میئر ایک تقریباً 100 سالہ خاتون ہیں، جو گذشتہ 20-25 سالوں سے منتخب ہوتی آ رہی ہے۔
یہاں انٹر تک تعلیم مفت ہے، اپنوں اور دیگر ممالک سے آئے ہوئے لوگوں کے بچوں کے لیے، چاہے ان کو ابھی تک شہریت ملی ہو یا نہیں۔ البتہ یونیورسٹی کی تعلیم کافی منہگی ہے۔ یہاں کے لوگ اکثر انٹر کے بعد فنی اسکولوں یا کالجوں میں جاتے ہیں، یونیورسٹی میں کم لوگ جاتے ہیں۔ میں اپنی پوتی کی آٹھویں کلاس کی گریجویشن کی تقریب میں گیا۔ کیا اسکول کی عمارت تھی اور وہ اسکول کا آڈیٹوریم تھا۔ نظم و ضبط ایسا کہ سوئی بھی پھینکی جاتی تو اس کی آواز آتی۔ اسکول کے سرٹیفکیٹ کے ساتھ ساتھ اس علاقے کے صوبائی اسمبلی کے رکن کا مراسلہ بھی تھا، جس میں بچوں کو مبارکباد کے ساتھ اس کی راہ نمائی کے کلمات بھی تھے۔ اتفاقاً وہ رکن بھارتی نژاد تھا۔
پچھلے سال ہم نیو یارک گئے تھے، جہاں گرائونڈ زیرو، جہاں ورلڈ ٹریڈ سینٹر تھا، جو 9-11 میں تباہ ہوگیا، دیکھا۔ وہاں ہلاک ہونے والوں کے نام کندہ ہیں، جن میں پاکستانی بھی تھے بھارتی بھی اس کے علاوہ دوسری قوموں کے لوگ بھی۔ وہاں آزادی کا مجسمہ بھی دیکھا، جس پر لوگوں کو بذریعہ ایک بہت بڑے کروزر، مفت لے جایا جاتا ہے۔
واشنگٹن سے ہوتے ہوئے، میامی (فلوریڈا) گئے، گاڑی میں۔ بہت مزا آیا کہ درمیاں میں 3-4 ریاستیں آئیں۔ ہر ریاست کے شروع ہونے والی جگہ پر ایک نہایت پر وقار استقبالیہ کمپلیکس بنا ہوا تھا، جہاں سیاحوں کو اپنی ریاست میں آنے پر خوش آمدید کہا جاتا ہے اور ریاست میں گھومنے والی جگہوں کے بارے میں معلومات فراہم کی جاتی ہے۔ ریاست کے بارے میں کتابیں بھی دی جاتی ہیں۔ واشنگٹن میں وہائٹ ہائوس دیکھا، جس کو کینیڈا نے کسی زمانے میں تباہ کردیا تھا اور پھر امریکیوں نے اسے سفید رنگ کرکے دوبارہ آباد کیا اور اسے سفید گھر کا نام دیا۔
میامی سے ہم امریکا کے آخری سِرے تک گئے، جو نقشے میں نظر نہیں آتا۔ وہ سِرا ایک دْم کی طرح ہے، جو میامی سے کی ویسٹ تک صرف تقریباً 100 فٹ چوڑی ایک تنگ سڑک سے جڑا ہوا ہے۔ وہاں سمندر کے کنارے کھڑے ہوکر ہم نے دور ہی دور سے کیوبا کا نظارہ بھی کیا۔
پرانی کہاوت ہے کہ (سسرال میں) روٹھی ہوئی بیٹھی تھی کہ، میکے سے سندیسہ آگیا۔ اب تو سندیسے نہیں آتے، موبائل بجتے ہیں۔ خیر میں روٹھا ووٹھا تو نہیں تھا، لیکن فون آگیا کہ آپ کا ٹکٹ ای میل کے ذریعہ بھیجا ہے، آنے کی تیاری پکڑیں۔ پھر کیا ہوا کہ بغل میں جوتی دبائی اور رخت سفر باندھنے کی تیاری شروع کردی۔ یہ پچھلے سال فروری کے مہینے کی بات ہے۔ اتفاق سے اس سال کراچی میں بھی کڑاکے کی سردی تھی۔ سوچا کہ وہاں تو سردی بڑی کڑاکے کی ہوگی، کہ قلفی جم جائے گی۔ یہ کراچی کی سردی تو وہاں کی سردی کی عشر عشیر بھی نہیں ہے۔ کچھ سیانوں نے بھی سمجھایا کہ بھلے مانس! وہاں سردی میں باہر نکلنا مشکل ہوتا ہے، گھر میں ہی مقید بیٹھے رہوگے وغیرہ، لیکن چوں کہ سفر سر پر سوار ہو چکا تھا، اس لیے برق رفتاری سے تیاری پکڑی اور 15 فروری کی آدھی رات کو عازم ایرپورٹ ہوئے۔
سردی ایسی تھی کہ بیٹے نے کہا، بابا گھر واپس چلیں، لیکن ہم تھے کہ عزم مصمم سے بھی بہت بڑا عزم کیے ہوئے تھے کہ کچھ بھی ہوجائے، جانا ہے۔ پہلے تو سوچا کہ یہاں سے ایک عدد انگیٹھی ساتھ لے جائیں، کیوںکہ وہاں گھروں میں انگیٹھیاں رکھنے کا رواج نہیں ہے۔ پھر خیال آیا کہ ہونا ہو وہاں بھی بجلی کی لوڈشیڈنگ ہو اور ہیٹر کبھی چلتے ہوں، کبھی نہیں، لیکن دوسرے لمحے اپنے اُس خیال کو دل سے جھٹک دیا۔ پھر دوسرا خیال آیا کہ پتا نہیں ہوائی جہاز میں انگیٹھی لے جانے کی اجازت ملے یا نہ ملے، کہیں انگیٹھی بھی دہشت گردی کے آلات یا ہتھیاروں کی فہرست میں شامل نہ ہو۔ اس خیال سے سوچا کہ وہاں پہنچ کر ایرپورٹ سے نکلتے ہی انگیٹھی خرید کے، پھر گھر کو چلیں گے۔ ماضی سے سبق سیکھ کر اس سال پہلی اپریل کو سفر کو سدھارے۔
پچھلے سال چوں کہ سفر ابوظہبی کی ایرلائین سے تھا، اس لیے جہاز 4 گھنٹے وہاں رکا اور اس کے بعد 14 گھنٹے میں بخیریت پہنچ گئے۔ راستے میں انہوں نے ہمارے آرام، مشروبات، کھانے وغیرہ کا جوگا خیال رکھا، دیگر لوازمات، مثلاً ٹوتھ برش وغیرہ بھی پیش کیے۔ یہ بات میں نہیں لکھتا، لیکن لکھ رہا ہوں، جس کی وجہ یہ ہے کہ اس سال ہمیں خیال آیا کہ کیوں نہ اپنی لاجواب پرواز میں سفر کرکے باکمال لوگوں میں شامل ہوجائیں اور اور اپنے اوپر لگی ہوئی اس تہمت سے چھٹکارا حاصل کریں کہ ہم محب وطن نہیں ہیں۔ تو ہوا یہ کہ انہوں نے وہ لوازمات تو درکنار، پانی پلانے میں بھی ایسا رویہ رکھا، جیسے کوئی احسان کر رہے ہوں۔ بہر حال یہ تہ جملۂ معترضہ تھا۔
آمدم برسرِمطلب۔ ایرپورٹ سے گھر تک دیکھا کہ راستے میں جو بھی درخت تھے، ان پر ایک بھی پتا نہیں تھا، بلکہ ان پر سوکھی لکڑیاں دکھائی دے رہی تھیں۔ بس ان کے تنے ان کے درخت ہونے کی چغلی کھا رہے تھے۔ میرے پوچھنے پر بتایا کہ سردیوں اور سرو کے موسم میں ان کی یہ صورت ہوتی ہے، لیکن جوں ہی بہار کا موسم شروع ہوگا تو آپ ان پر پتے، پھول اور میوہ جات لگے دیکھ کر حیران رہ جائیں گے کہ کیا یہ وہی سوکھی لکڑیوں کے تنے ہیں جو اب اتنے ہرے بھرے ہو گئے ہیں! میں اس بات پر متذبذب تھا کہ ایسا کیسے ہو سکتا ہے، لیکن مجھے ایک دم یاد آیا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ جب تم لوگ خاک میں مل جاؤگے، تو تمہیں دوبارہ زندہ کروںگا، تو اس ذات اقدس کے لیے یہ کوئی مشکل نہیں کہ وہ جب سے دنیا آباد ہوئی ہے، تب سے ان درختوں میں پھر سے جان ڈالتا رہا ہے اور یہ کام ہر سال باقاعدگی سے ہوتا رہتا ہے۔
مشہور مفروضہ ہے کہ اگر کسی ملک کے لوگوں کا مزاج معلوم کرنا ہو تو وہاں کی ٹریفک کو دیکھو اور اگر اقتصادی حالت معلوم کرنی ہو تو اسٹاک ایکسچینج کو دیکھو۔ ہماری تو سمجھ میں نہیں آ رہا ہے کہ کیا دیکھیں اور کیا نہ دیکھیں۔ اونٹ رے اونٹ تیری کون سی کل سیدھی؟ ہمارے ہاں ٹریفک تو دور کی بات ہے، 66 سالوں ابھی تک قطار میں کھڑے ہو کر اپنی باری کا انتظار کرنے والی قوم بھی نہیں بن سکے۔ ٹریفک کا سرخ سگنل توڑنا یا یک طرفہ ٹریفک کو توڑ کر اپنا راستہ نکالنا یا تیز رفتاری یا درمیاں سے سڑک پار کرنا تو ہماری مردانگی کی نشانی ہے۔ ہماری اس ہپڑدپڑ کی وجہ سے کئی گھنٹے ٹریفک میں کھڑا رہنا پڑتا ہے اور اس دوران گاڑیوں کے انجن رواں دواں ہوتے ہیں اور اگر کسی ایک سال کا بھی حساب کیا جائے، تو اس تیل کی قیمت اربوں روپیہ بنتی ہے، اور ہماری قوم کا اس تیل کی درآمد کرتے کرتے تیل نکل جاتا ہے۔
ہمارا اسٹاک ایکسچینج ایک دم اوپر چڑھ جاتا ہے اور دوسرے دن دھڑام سے نیچے بیٹھ جاتی ہے۔ ان دو دنوں عوامل کی وجوہات معلوم نہیں ہوتیں، جب کہ مہذب دنیا کے لوگ ہر جگہ قطار میں کھڑے ہوکر اپنی باری کا انتظار کرتے ہیں، سرخ سگنل پر رکتے ہیں، یک طرفہ ٹریفک توڑ کر راستہ نہیں نکالتے ہیں، نہ ہی تیز رفتاری کرتے ہیں اور ہمیشہ زیبرا کراسنگ سے راستہ پار کرتے ہیں، بلکہ اگر آپ کو راستہ پار کرنا ہے تو فٹ پاتھ پر لگے ہوئے کھمبے پر لگے ہوئے بٹن کو دبائیں تو آپ بڑی آسانی سے سڑک پار کرسکتے ہیں۔ اس وجہ سے حادثات کم ہوتے ہیں۔ میں نہیں کہتا کہ وہاں حادثات بلکل نہیں ہوتے، لیکن کم ہوتے ہیں۔
ٹورنٹو، اقتصادی طور پر کینیڈا کے صوبے اونٹاریو کا صدر مقام ہے، بل کہ اسی طرح جیسے ہمارا کراچی ہے۔ یہ ایک پرانا اور گنجان شہر ہے، بالکل کراچی کے صدر کی طرح، لیکن وہاں کبھی کبھار تو ٹریفک جام ہوتا ہے، لیکن ہمارے صدر کی طرح روزانہ نہیں۔ لیکن کوئی بھی اپنی لائن توڑ کر آپ کی گاڑی کے عین سامنے نہیں آکر کھڑا نہیں ہوتا۔ یہاں بسیں، کاریں، بجلی پر چلنے والی ٹرام، ٹرک اور بڑے بڑے ٹرالر (جیسے ہمارے ہاں 40 فٹ چوڑے ٹرالر ہوتے ہیں) آسانی سے چلتی ہیں۔ ہمارے ہاں بھی کسی زمانے میں کیماڑی سے گاندھی گارڈن اور کینٹ اسٹیشن تک ٹرام چلتی تھی، جس کو بس مافیا نے بند کرادیا۔ پوری دنیا میں ٹرام چلتی ہے اور وہاں بھی ہماری طرح پہلے کھلی باڈی والی اور ڈیزل پر تھی، اور اس کے بعد اس کی صورت بدل کر بس کی طرح کری گئی اور وہ بجلی پر چلنے لگیں۔ ہمارے ہاں بجائے اس کی حالت سدھارنے کے، اس کو جڑ سے ہی ختم کردیا گیا، محض ایک لابی کو خوش کرنے کے لیے، حالاںکہ ٹرام اپنی مقررہ پٹری پر چلتی تھی اور بسوں، کاروں وغیرہ کو اس پٹڑی سے مناسب فاصلے پر چلنا ہوتا تھا۔ اب وہاں تو بسیں بھی اب بیٹری پر چل رہی ہیں۔ ہماری نئی حکومت نے بھی ہمیں بیٹری سے چلنے والی کاروں کا خواب دکھایا ہے۔ پتا نہیں کہ یہ خواب شرمندۂ تعبیر بھی ہوتا ہے کہ نہیں۔
وہاں سال کے 9مہینے سردی اور 3 مہینے گرمی پڑتی ہے، جس میں کبھی کبھار تو پارہ تقریباً کراچی کے برابر بھی ہو جاتا ہے، لیکن اکثر اس گرمی کے دوران ہلکی ہلکی خنکی بھی ہوتی ہے۔ موٹر سائیکلیں عام طور پر نہیں چلتیں، البتہ گرمی کے موسم میں کچھ لوگ بڑی بڑی موٹر سائیکلوں پر سوار دکھائی دیتے ہیں، لیکن ان کے سائلنسر نکلے ہوئے نہیں ہوتے، لیکن چوںکہ وہ بڑی ہوتی ہیں، اس لیے ان کی طرف دھیان ضرور مبذول ہو جاتا ہے۔ ہمارے ہاں بھی کسی زمانے میں بڑی بڑی امریکن موٹر سائیکلیںTriumph کے نام سے ہوتی تھیں۔ البتہ چھوٹے چھوٹے اسکوٹر صرف خواتین چلاتی ہیں۔ رکشاؤں کا نام بھی نہیں ہے۔ ہمارے رکشے بغیر سائلنسر کے اور دھواں بکھیرتی ہوئیں، فضا کو معطر کرتی ہوئی چلتی ہیں۔ کراچی کے ایک پولیس افسر نے ان رکشاؤں کے سائلنسر صحیح کرنے کی ٹھانی تو، سب رکشا والے پولیس ہیڈکوارٹر کے سامنے پہنچ گئے اور ان کے انجن اور ہارن پورے زور سے گھنٹوں بجاتے رہے، جس سے اس پولیس افسر کے ارادے متزلزل ہو گئے۔ رکشا والوں کا کہنا ہے کہ سائلنسر صحیح رکھنے سے تیل زیادہ کھپتا ہے۔
ٹیکسی کی سواری بھی عام ہے۔ یہاں ٹیکسیاں پیلی یا کالی پیلی نہیں ہوتیں۔ کسی بھی کار کو ٹیکسی کے طور پر رجسٹر کراکے، اس کے اوپر ٹیکسی کا بورڈ لگا کر چلائی جا سکتی ہیں۔ یہاں کے لوگ بھی ٹیکسی چلاتے ہیں اور باہر سے یہاں آنے والے بھی۔ میں ایک ٹیکسی میں سوار ہوا تو ڈرائیور پاکستانی نکلا۔ معلوم ہوا کہ صاحب موصوف پاکستان میں انکم ٹیکس افسر ہیں، بیگم ان کی ڈاکٹر ہیں، دونوں یہاں آئے ہیں۔ وہ ٹیکسی چلا رہے ہیں، اور بیگم چھوٹے موٹے کام کرتی ہیں۔ وہ چھوٹے موٹے کام یہ ہوتے ہیں کہ جسی ہوٹل میں برتن مانجھنا اور کسی کافی خانے میں گاہکوں کو کافی پیش کرنا وغیرہ۔ پاکستان میں بھی میٹر چل رہا ہے۔ سال کے جاکر حاضری کے رجسٹر پر دستخط کرکے، تن خواہیں بھی وصول فرماتے ہیں اور سینیارٹی بھی۔ اس طرح ترقیاں بھی پاتے ہیں۔
کچھ لوگ 5 سال کی چھٹی لے کر آتے ہیں، جو کہ انہیں قانونی طور مل جاتی ہیں، بشرطے کہ وہ کسی وزیر یا بیوروکریٹ کے بیٹے، داماد یا منظور نظر ہوں۔ اس پر طرہ یہ کہ وہ جگہ خالی بھی کی جاتی ہے۔ یعنی اس کی جگہ پر کوئی دوسرا آدمی تعینات نہیں کیا جاتا۔ ایسے ہی ایک دین دار صاحب سے ملاقات ہوئی۔ میں نے تھوڑی سی گستاخی کرکے ان کو یاد دلایا کہ یہ تو سراسر غیراسلامی حرکت ہے، تو انہوں نے جواب دینے سے پہلو تہی فرمائی۔ لگتا تھا کہ وہ یہ کہنا چاہ رہے تھے کہ چوری میرا پیشہ ہے اور نماز میرا فرض۔ یہ وہی ڈائیلاگ ہے جو سنتوش کمار نے فلم سرفروش میں صبیحہ خانم سے کہا تھا، جس پر وہ ہمیشہ کے لیے ان کی ہو کر رہ گئیں۔ ایسے لوگ کینیڈا کے علاوہ امریکا اور دیگر مغربی ملکوں میں بہت ملتے ہیں۔ ہائے امریکا! کینیڈا تمھاری گود میں پناہ لینے کے لیے ہم نے کیا کیا نہیں کیا۔
کینیڈا میں تیل تو نکلتا ہے، لیکن ان کے پاس اپنی ریفائنری نہیں ہے۔ تیل پائپوں کے ذریعے امریکا بھیجا جاتا ہے، وہاں سے صاف ہوکر آتا ہے۔ بین الاقوامی قیمت پر بکتا ہے، بل کہ امریکا سے بھی منہگا۔
کینیڈا میں تھوڑے تھوڑے فاصلوں پر چھوٹے چھوٹے شہر ہیں، جہاں ہر چیز بڑے شہروں کی قیمتوں پر دست یاب ہوتی ہے، اس لیے لوگوں کو بڑے شہروں میں جانے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ بڑے بڑے شاپنگ مال، مشہور فوڈچینز بھی، بڑی بڑی صنعتیں بھی۔ ان شہروں کے نام انگلینڈ کے شہروں والے رکھے گئے ہیں، مثلاً لندن، ملٹن، واٹرلو وغیرہ۔ وہاں مختلف صنعتیں بھی لگائی گئیں ہیں، لیکن ہماری طرح نہیں کہ سب ایک جیسی صنعتیں ایک ہی شہر میں، جیسا کہ ہم نے پاکستان بننے کے بعد ضلع ٹھٹھہ کے گھارو شہر میں صرف کپڑے کے کارخانے لگائے اور اس کو پاکستان کا مانچیسٹر بنانے کی کوشش کی، لیکن آج وہاں ان صنعتوں کا نام و نشان بھی نہیں ہے اور سوائے چند پولٹری فارموں کے وہاں کچھ نہیں ہے، جس سے لوگوں کو معقول روزگار مہیا ہو۔
آنحضورؐ نے بڑے بڑے شہر بنانے کی جگہ تھوڑے تھوڑے فاصلے پر چھوٹے چھوٹے شہر آباد کرنے کی ہدایت فرمائی تھی۔
کینیڈا کا نظام حکومت بالکل سادہ سا ہے۔ وہ آزاد ملک ہے، لیکن اس نے ابھی تک اپنے آپ کو جمہوریہ ڈکلیئر نہیں کیا ہے۔ اس کے سکے پر ملکہ برطانیہ کی تصویر ہوتی ہے اور شہریت دیتے وقت ملکۂ برطانیہ سے وفاداری کا حلف لیا جاتا ہے، لیکن اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ وہ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کی صف اول میں کھڑا ہے۔ ہم جیسے ملک اس سے امداد لیتے ہیں۔ وہاں کے ایک اخبار میں میں نے پڑھا کہ گذشتہ سالوں میں سندھ میں جو سیلاب اور بارشوں کی وجہ سے تباہی آئی تھی، اس میں انہوں نے سندھ کے دادو ضلع میں 700 گھر بنواکر دینے کی امداد دی تھی۔ وہ گھر بنے یا نہ بنے، اس کے بارے میں کوئی معلومات نہیں ہے۔ ہو سکتا ہے کہ کاغذات میں وہ گھر بن گئے ہوں۔
نظام حکومت بھی سادہ سا ہے۔ سینیٹ، قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیاں۔ گورنر جنرل جو ملکہ کا نمائندہ ہوتا ہے، لیکن جنرل نہیں ہوتا، عام شہری ہوتا ہے، ہمارے غلام محمد یا اسکندر مرزا جیسا نہیں۔ وزیراعظم، وزیر اعلیٰ۔ کسی صوبائی گورنر کا نام ہم نے نہیں سنا۔ نہ کمشنر، نہ ڈپٹی کمشنر، نہ اسسٹنٹ کمشنر، نہ مختارکار، نہ پٹواری۔ صوبائی اسمبلی کے بعد ٹاؤن، ہماری یونین کونسل کی طرح۔ ٹاؤن کے سربراہ کو میئر کہا جاتا ہے۔ یہاں کے مسی ساگا ٹاؤن کی میئر ایک تقریباً 100 سالہ خاتون ہیں، جو گذشتہ 20-25 سالوں سے منتخب ہوتی آ رہی ہے۔
یہاں انٹر تک تعلیم مفت ہے، اپنوں اور دیگر ممالک سے آئے ہوئے لوگوں کے بچوں کے لیے، چاہے ان کو ابھی تک شہریت ملی ہو یا نہیں۔ البتہ یونیورسٹی کی تعلیم کافی منہگی ہے۔ یہاں کے لوگ اکثر انٹر کے بعد فنی اسکولوں یا کالجوں میں جاتے ہیں، یونیورسٹی میں کم لوگ جاتے ہیں۔ میں اپنی پوتی کی آٹھویں کلاس کی گریجویشن کی تقریب میں گیا۔ کیا اسکول کی عمارت تھی اور وہ اسکول کا آڈیٹوریم تھا۔ نظم و ضبط ایسا کہ سوئی بھی پھینکی جاتی تو اس کی آواز آتی۔ اسکول کے سرٹیفکیٹ کے ساتھ ساتھ اس علاقے کے صوبائی اسمبلی کے رکن کا مراسلہ بھی تھا، جس میں بچوں کو مبارکباد کے ساتھ اس کی راہ نمائی کے کلمات بھی تھے۔ اتفاقاً وہ رکن بھارتی نژاد تھا۔
پچھلے سال ہم نیو یارک گئے تھے، جہاں گرائونڈ زیرو، جہاں ورلڈ ٹریڈ سینٹر تھا، جو 9-11 میں تباہ ہوگیا، دیکھا۔ وہاں ہلاک ہونے والوں کے نام کندہ ہیں، جن میں پاکستانی بھی تھے بھارتی بھی اس کے علاوہ دوسری قوموں کے لوگ بھی۔ وہاں آزادی کا مجسمہ بھی دیکھا، جس پر لوگوں کو بذریعہ ایک بہت بڑے کروزر، مفت لے جایا جاتا ہے۔
واشنگٹن سے ہوتے ہوئے، میامی (فلوریڈا) گئے، گاڑی میں۔ بہت مزا آیا کہ درمیاں میں 3-4 ریاستیں آئیں۔ ہر ریاست کے شروع ہونے والی جگہ پر ایک نہایت پر وقار استقبالیہ کمپلیکس بنا ہوا تھا، جہاں سیاحوں کو اپنی ریاست میں آنے پر خوش آمدید کہا جاتا ہے اور ریاست میں گھومنے والی جگہوں کے بارے میں معلومات فراہم کی جاتی ہے۔ ریاست کے بارے میں کتابیں بھی دی جاتی ہیں۔ واشنگٹن میں وہائٹ ہائوس دیکھا، جس کو کینیڈا نے کسی زمانے میں تباہ کردیا تھا اور پھر امریکیوں نے اسے سفید رنگ کرکے دوبارہ آباد کیا اور اسے سفید گھر کا نام دیا۔
میامی سے ہم امریکا کے آخری سِرے تک گئے، جو نقشے میں نظر نہیں آتا۔ وہ سِرا ایک دْم کی طرح ہے، جو میامی سے کی ویسٹ تک صرف تقریباً 100 فٹ چوڑی ایک تنگ سڑک سے جڑا ہوا ہے۔ وہاں سمندر کے کنارے کھڑے ہوکر ہم نے دور ہی دور سے کیوبا کا نظارہ بھی کیا۔