پولیس میں سنگین مقدمات کی تفتیش کے دوران ملزموں کا خاکہ تیار کروانا آج بھی لازمی
لاہور کے کریمینل ریکارڈ آفس میں 2002 سے اب تک 20 ہزار سےزائد خطرناک ملزموں کے خاکے تیار کئے جاچکے ہیں
پنجاب پولیس میں سنگین مقدمات کی تفتیش کے دوران ملزموں کا خاکہ تیار کروانا آج بھی لازمی سمجھا جاتا ہے۔
صوبہ پنجاب کےتمام اضلاع کی اہم شاہراہوں اور گلی محلوں میں سکیورٹی خدشات کے باعث جگہ جگہ کیمرے نصب کئے جارہےہیں لیکن سنگین وارداتوں میں پولیس کی تحقیقات ملزم کا خاکہ تیار کئے بغیر نامکمل سمجھی جاتی ہے۔ آج بھی قتل، چوری، ڈکیتی ، راہ زنی اور دہشت گردی کے سنگین مقدمات کی تفتیش کا آغاز ملزموں کے خاکہ نویسی سے ہوتا ہے۔
لاہور پولیس کے انوسٹی گیشن ہیڈ کوارٹر قلعہ گجر سنگھ کا ایک اہم حصہ کرمنل ریکارڈ آفس ہے۔ یہاں صوبے بھر سے جرائم پیشہ افراد کے کوائف، حلیے اور تصاویر پر مشتمل اہم ریکارڈ کا اندراج کیا جاتا ہے۔
پولیس کا دعوی ہے کہ ان کے پاس لاہور کے 2 لاکھ 10 ہزار اور پنجاب کے 8 لاکھ سے زائد عادی ملزموں کا ڈیٹا محفوظ کیا گیا ہے۔ کرمنل ریکارڈ آفس کے اسکیچ میکنگ یونٹ (Sketch Making Unit) میں ماہر خاکہ نویس موجود ہوتے ہیں۔ جو مدعی مقدمہ یا پھرعینی شاہدین سے واردات کی تفصیل پوچھتے ہیں اور ایک سافٹ وئیرکی مدد سے ملزم کا فرضی خاکہ تیار کرتے ہیں۔ اس سافٹ ویئر میں انسانی اشکال کو ترتیب دینے کے لیے مختلف خصوصیات موجود ہیں۔
پولیس کی تفتیشی ٹیمیں چوری، ڈکیتی ، راہزانی ،قتل اور دہشتگردی کےمقدمات میں ملزموں کے خاکے لازمی بنواتی ہیں۔ 2002 سے پہلے خاکے بنانے کا کام پولیس کے نقشہ نویس برانچ کی ذمہ داری تھی۔ اس برانچ کے اہلکار واردات کے فوری بعد جائے وقوعہ کامعائنہ کرتے اور مدعی مقدمہ سمیت عینی شاہدین کے بیانات سے ملزم کا خاکہ تیار کرواتے تھے۔ اس وقت جرائم پیشہ افراد کا خاکہ ایک کاغذ پر ہاتھ سے تیار کیا جاتا تھا۔ اس کام کے لیے سرکاری خاکہ نویسوں کےعلاوہ پرائیوٹ مصوروں کی خدمات بھی حاصل کی جاتی تھی۔ ملزموں کا خاکہ ہاتھ سے تیارکروانا خاصہ مہنگا کام ہوتا تھا۔ اس کام کے لیے خاصا وقت درکار ہوتا اور غلطی کی گنجائش بھی زیادہ ہوتی تھی۔ اس لئےدور جدید میں پولیس کا نظام ڈیجیٹل کرنے کے لیے تفتیشی ونگ نے کراچی سے ایک سافٹ وئیر حاصل کیا ۔
حکام کے مطابق کرمنل ریکارڈ آفس کا یہ یونٹ 2002 سے اب تک 20ہزار سے زائد خطرناک ملزموں کے خاکے تیار کرچکا ہے۔ خاکہ تیار ہونے کے بعد تفتیشی ٹیمیں پولیس ریکارڈ کی فہرست میں موجود ملزموں کی تصاویر سے اس خاکے کا موازنہ کرتے ہیں۔ ماضی میں اکثرمقدمات کی تفتیش کا مرحلہ ملزموں کےخاکوں کی مماثلت سے ممکن ہوا۔
کرمنل ریکارڈ آفس نے ملزموں کی تصاویروں پر مشتمل محفوظ ڈیٹا کی ذیلی فہرستیں بھی بنا رکھی ہیں۔ ان میں کرمنل ریکارڈ منیجمنٹ سسٹم (CRMS)، سرچ آپریشنز کے دوران جمع شدہ مشکوک افراد کے کوائف پر مشتمل سسپیکٹ ٹریکنگ سسٹم (STS) اور اشتہاریوں کے لئے بنائے گئے (PORMS) ریکارڈ سے بھی خاکوں کا موازنہ کیا جاتا ہے۔
خاکہ نویس یونٹ کےانچارج ماجد حسین کا دعوی ہے کہ ان کے یونٹ کی ایک بڑی کامیابی 2016 میں گلشن اقبال پارک میں ہونے والے بم دھماکے میں ملوث دہشت گرد کا خاکہ جاری کرنا تھی کیونکہ وہ خاکہ دھماکےکی ذمہ داری قبول کرنے والی تنظیم کی جانب سے جاری کی گئی دہشت گرد کی تصویر سے 90 فیصد مماثلت رکھتا تھا۔
ایس ایس پی انوسٹی گیشن ذیشان اصغر کا کہنا ہے کہ مستقبل میں پولیس کے پاس موجود کرمنل ریکارڈ کو نادرا کے ڈیٹابیس سے منسلک کرنےکی منصوبہ بندی کی جارہی ہے تاکہ بڑے پیمانے پر ملزموں کی نقل وحرکت پر نظر رکھی جاسکے۔
صوبہ پنجاب کےتمام اضلاع کی اہم شاہراہوں اور گلی محلوں میں سکیورٹی خدشات کے باعث جگہ جگہ کیمرے نصب کئے جارہےہیں لیکن سنگین وارداتوں میں پولیس کی تحقیقات ملزم کا خاکہ تیار کئے بغیر نامکمل سمجھی جاتی ہے۔ آج بھی قتل، چوری، ڈکیتی ، راہ زنی اور دہشت گردی کے سنگین مقدمات کی تفتیش کا آغاز ملزموں کے خاکہ نویسی سے ہوتا ہے۔
لاہور پولیس کے انوسٹی گیشن ہیڈ کوارٹر قلعہ گجر سنگھ کا ایک اہم حصہ کرمنل ریکارڈ آفس ہے۔ یہاں صوبے بھر سے جرائم پیشہ افراد کے کوائف، حلیے اور تصاویر پر مشتمل اہم ریکارڈ کا اندراج کیا جاتا ہے۔
پولیس کا دعوی ہے کہ ان کے پاس لاہور کے 2 لاکھ 10 ہزار اور پنجاب کے 8 لاکھ سے زائد عادی ملزموں کا ڈیٹا محفوظ کیا گیا ہے۔ کرمنل ریکارڈ آفس کے اسکیچ میکنگ یونٹ (Sketch Making Unit) میں ماہر خاکہ نویس موجود ہوتے ہیں۔ جو مدعی مقدمہ یا پھرعینی شاہدین سے واردات کی تفصیل پوچھتے ہیں اور ایک سافٹ وئیرکی مدد سے ملزم کا فرضی خاکہ تیار کرتے ہیں۔ اس سافٹ ویئر میں انسانی اشکال کو ترتیب دینے کے لیے مختلف خصوصیات موجود ہیں۔
پولیس کی تفتیشی ٹیمیں چوری، ڈکیتی ، راہزانی ،قتل اور دہشتگردی کےمقدمات میں ملزموں کے خاکے لازمی بنواتی ہیں۔ 2002 سے پہلے خاکے بنانے کا کام پولیس کے نقشہ نویس برانچ کی ذمہ داری تھی۔ اس برانچ کے اہلکار واردات کے فوری بعد جائے وقوعہ کامعائنہ کرتے اور مدعی مقدمہ سمیت عینی شاہدین کے بیانات سے ملزم کا خاکہ تیار کرواتے تھے۔ اس وقت جرائم پیشہ افراد کا خاکہ ایک کاغذ پر ہاتھ سے تیار کیا جاتا تھا۔ اس کام کے لیے سرکاری خاکہ نویسوں کےعلاوہ پرائیوٹ مصوروں کی خدمات بھی حاصل کی جاتی تھی۔ ملزموں کا خاکہ ہاتھ سے تیارکروانا خاصہ مہنگا کام ہوتا تھا۔ اس کام کے لیے خاصا وقت درکار ہوتا اور غلطی کی گنجائش بھی زیادہ ہوتی تھی۔ اس لئےدور جدید میں پولیس کا نظام ڈیجیٹل کرنے کے لیے تفتیشی ونگ نے کراچی سے ایک سافٹ وئیر حاصل کیا ۔
حکام کے مطابق کرمنل ریکارڈ آفس کا یہ یونٹ 2002 سے اب تک 20ہزار سے زائد خطرناک ملزموں کے خاکے تیار کرچکا ہے۔ خاکہ تیار ہونے کے بعد تفتیشی ٹیمیں پولیس ریکارڈ کی فہرست میں موجود ملزموں کی تصاویر سے اس خاکے کا موازنہ کرتے ہیں۔ ماضی میں اکثرمقدمات کی تفتیش کا مرحلہ ملزموں کےخاکوں کی مماثلت سے ممکن ہوا۔
کرمنل ریکارڈ آفس نے ملزموں کی تصاویروں پر مشتمل محفوظ ڈیٹا کی ذیلی فہرستیں بھی بنا رکھی ہیں۔ ان میں کرمنل ریکارڈ منیجمنٹ سسٹم (CRMS)، سرچ آپریشنز کے دوران جمع شدہ مشکوک افراد کے کوائف پر مشتمل سسپیکٹ ٹریکنگ سسٹم (STS) اور اشتہاریوں کے لئے بنائے گئے (PORMS) ریکارڈ سے بھی خاکوں کا موازنہ کیا جاتا ہے۔
خاکہ نویس یونٹ کےانچارج ماجد حسین کا دعوی ہے کہ ان کے یونٹ کی ایک بڑی کامیابی 2016 میں گلشن اقبال پارک میں ہونے والے بم دھماکے میں ملوث دہشت گرد کا خاکہ جاری کرنا تھی کیونکہ وہ خاکہ دھماکےکی ذمہ داری قبول کرنے والی تنظیم کی جانب سے جاری کی گئی دہشت گرد کی تصویر سے 90 فیصد مماثلت رکھتا تھا۔
ایس ایس پی انوسٹی گیشن ذیشان اصغر کا کہنا ہے کہ مستقبل میں پولیس کے پاس موجود کرمنل ریکارڈ کو نادرا کے ڈیٹابیس سے منسلک کرنےکی منصوبہ بندی کی جارہی ہے تاکہ بڑے پیمانے پر ملزموں کی نقل وحرکت پر نظر رکھی جاسکے۔