سیاست کے ایوانوں میں رسہ کشی کا کھیل

دونوں جانب کھلاڑی زخم خوردہ ضرور ہیں مگر ہار ماننے والے کے ہاتھ سے رسی جیتنے والے کے ہاتھ میں چلی جائے گی


واصب امداد July 24, 2019
سیاست کے ایوانوں میں آج کل ’ٹگ آف وار‘‘ کا کھیل جاری ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

ٹگ آف وار جسے رسہ کشی کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، بچپن سے ہی میرا محبوب کھیل رہا ہے۔ اس میں کھلاڑیوں کی آدھی تعداد رسی کو ایک کونے سے، جب کہ آدھی رسی کو دوسری طرف سے پکڑ کر اپنی جانب کھینچتی ہے۔ مقابلہ مضبوط اعصاب اور طاقت کا ہوتا ہے، جس گروپ میں زیادہ طاقت ہوتی ہے وہ رسی اپنی جانب مکمل کھینچ کر مقابل گروپ کو مات دے دیتا ہے۔

آج جب سیاست کے ایوانوں کی طرف نظر اٹھا کر دیکھتا ہوں تو وہاں چلنے والی کھینچا تانی، شعلہ بیانی، فتوے بازی اور سازشیں، اسی رسہ کشی کے کھیل کی یاد دلاتی ہیں۔ اس سیاسی ٹگ آف وار میں ایک جانب عمران خان ہیں، جو کہ بائیس سالہ جدوجہد کے بعد مسندِ اقتدار تک پہنچے ہیں۔ ان کی کشتی کمزور معیشت، ڈیفیکٹڈ جمہوریت کے اس لرزتے کانپتے نظام اور زخمی اپوزیشن سمیت ان کے ماضی کےٍ بیانات ''جب ہماری حکومت آئے گی'' کے بھنور میں تمام تر ابتدائی ہچکولوں کے بعد بھی عوام کا اپنے ساتھ رومانس کسی حد تک برقرار رکھے ہوئے ہے۔

عوام ان کی جانب دیکھ رہے ہیں کہ یہ شخص اِس کشتی کو تمام تر سوراخوں سمیت ساحل تک ضرور پہنچائے گا۔ اس ساحل تک، جس کے خواب وہ گزشتہ سات دہائیوں سے دیکھ رہے ہیں اور جس ساحل کی آرزو میں باری باری انہوں نے جمہوری اور غیرجمہوری قوتوں کو اپنا مسیحا سمجھا۔ عوام اور خصوصاً جوانوں کا ایک حصہ ابھی بھی بانوے کے ہیرو کو روایتی سیاستدان نہیں سمجھتا۔ ان کے نزدیک خان سے پہلے کی سیاست جھوٹ پر مبنی تھی اور خان ہی کی وجہ سے سیاست سے جھوٹ کو کنارے لگایا گیا۔

''آئی ایم ایف نہیں جاؤں گا'' سے لے کر ''ایمنسٹی اسکیم نہیں دوں گا'' تک اور ''غریبوں پر بوجھ نہیں ڈالوں گا'' سے لے کر ''ہر ہفتے عوام کے سوالوں کے جواب دوں گا'' تک، عمران خان کا کوئی یوٹرن ان کی امیدوں کا چراغ گل نہیں کرسکا۔ ان کا کامل یقین اس بات پر ہے کہ عمران خان ان کے ملک کو ایک عظیم قوم بنانے پر کبھی یوٹرن نہیں لے گا۔

رسی کی دوسری طرف اپوزیشن ہے، جسے عمران خان کی صورت کسی ملک الموت سے کم نہیں لگ رہی۔ انہیں یہ معلوم ہوچکا ہے کہ ان کی بقا اس شخص کے اقتدار کی فنا میں ہے۔ انہیں سمجھ آچکی ہے کہ فاسٹ بولر انتہائی جارحانہ موڈ میں ہے اور ہوا کا رخ اپنی جانب موڑنا جانتا ہے۔ یہ تھکنے اور ہار ماننے پر یقین نہیں رکھتا اور جب حالات و واقعات ناممکنات کی حد تک جاپہنچیں، یہ وہاں سے بازی پلٹنے کو اپنا فن گردانتا ہے۔ ایک ماہر فاسٹ بولر جب ہوا کے رخ کو اپنے حق میں پاتا ہے تو گیند سوئنگ کرتا ہے، مگر جب ہوا کا رخ مخالف ہو تو ریورس سوئنگ کرکے بلے باز کو مزید مشکل میں ڈالتا ہے۔ بس غلط گیند کی صورت میں ذرا سی بھی رعایت نہیں دیتا۔

اپوزیشن ویسے تو حکومت وقت کی ہر سیاسی غلطی کی تاک میں رہتی ہے، مگر فی الحال کسی بھی طرح چھکے چوکے لگانے کا رسک نہیں لے رہی۔ آپ بلاول بھٹو کی حکومت مخالف تحریک میں عدم دلچسپی دیکھیں یا مریم نواز کی پریس کانفرنس میں لیگی رہنماؤں کے حواس باختہ چہرے دیکھیں۔ ایک لمحے کو شہباز شریف کا مریم نواز کو ''بس بھی کرو نا بیٹا'' کہہ کر پریس کانفرنس سے اٹھنے کا انداز دیکھیں یا ساری گفتگو کے دوران ان کا بار بار پسینے پونچھنا دیکھیں۔ مخالف بیٹسمین سمجھ چکے ہیں کہ یہ اسپیل دیکھ بھال کر کھیلنا ہوگا، نہیں تو میانوالی ایکسپریس اپنے دس اوور پورے ہونے سے پہلے ہی ان کی ساری بیٹنگ لائن کو پویلین پہنچادے گا۔
میچ کے دوران کی جانے والی اپیلوں پر جب فیصلہ حق میں آئے تو امپائر کی پرفارمنس کی تعریف کی جاتی ہے اور جب بھی امپائر انگلی ہوا میں بلند ہوکر آپ کی اننگز کے خاتمے کا اعلان کرے تو اس پر جانبداری کا الزام لگایا جاتا ہے۔ ساری صورتحال میں دیکھ رہا ہوں کہ کپتان جب دور سے دوڑتا ہوا آکر بیٹسمین کو ایک زوردار باؤنسر مار کر زیر کرتا ہے تو ہر بار امپائر کی جانب داد طلب نظروں سے ضرور دیکھتا ہے۔ جواباً امپائر کا زیرِ لب مسکرانا مخالفین کو ایک آنکھ نہیں بھاتا۔

کبھی کبھار چند کھلاڑی پلیئنگ الیون میں نہیں ہوتے، مگر ان کا ڈریسنگ روم سے دیگر کھلاڑیوں کو سمجھانا اور ٹیم کا مورال بلند رکھنا ٹیم کی ہار جیت اور مجموعی کارکردگی میں بہت معنی رکھتا ہے۔ مریم نواز پارلیمانی سیاست سے نااہل ضرور، مگر انہوں نے بھی ٹیم کو آخری گیند تک لڑوانے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ وہ فیصلہ کرچکی ہیں کہ ہاتھ پر ہاتھ دھرنے سے، زبان بندی کرنے سے، ٹویٹر خاموش رکھنے سے اور کیواڑ مقفل کرنے سے کچھ حاصل نہیں ہوا۔ سب کشتیاں جلا کر طبل جنگ بجانے کے علاوہ اور کوئی آپشن نہیں ہے۔ والد کی بڑھتی عمر اور ڈھلتی صحت نے انہیں پریشان کررکھا ہے۔ وہ چاہتی ہیں کہ جاتی امراء￿ کے وسیع دالان میں بیٹھ کر پودوں کی آبیاری کرتے ہوئے اپنے والد کے ہمراہ ان سے ان کی جوانی کے قصے سنیں۔ نظروں کے سامنے والد کا علاج ہو اور وہ اپنے ریٹائرمنٹ کے ایام اپنے نواسوں کو گود لیتے ان کے سر پر شفقت سے ہاتھ پھیرتے ہنسی مذاق کرتے ہوئے گزاریں۔

بہرحال انہوں نے اپنے تمام کارڈز کھیلنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ جج ارشد ملک کی ویڈیو لیک کرنا اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ ویڈیو ریلیز کرتے ہوئے مریم نواز کا یہ کہنا کہ ابھی اور بھی بہت مواد ہے اور ایسا مواد جس میں 'کچھ پردہ نشینوں' کے بھی نام آتے ہیں۔ وہ ویڈیوز آنے کے بعد ان کے خیال میں وہ میچ کے باقی کھلاڑیوں کو بال ٹیمپرنگ کے الزام میں باہر کردیں گی۔

ایف آئی اے کی جانب سے درج کی گئی ایف آئی آر دیکھیں یا ویڈیو اسکینڈل کے مختلف کرداروں کی گرفتاریاں دیکھیں، آپ کو بھی معاملات یہاں تھمتے اور رکتے نظر نہیں آئیں گے۔ ویڈیو کی تحقیقات ہونی چاہئیں اور مکمل حقائق عوام کے سامنے آنے چاہئیں۔ میرے خیال میں یہ اچھا ہوا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے جج ارشد ملک کو احتساب عدالت میں زیرِ سماعت دیگر کیسز سے علیحدہ کردیا، تاکہ میگا منی لانڈرنگ کیس سمیت دیگر اہم کیسز کو شکوک وشبہات کے داغوں سے بچایا جاسکے اور نتائج پر کسی کے انگلی اٹھانے کی نوبت نہ آئے۔

راج نیتی کے اس گھن چکر کے تمام کھلاڑیوں کو میرا پیغام ہے کہ ٹگ آف وار نامی یہ کھیل مضبوط اعصاب اور طاقت کا کھیل ہے۔ دونوں جانب کھلاڑی زخم خوردہ ضرور مگر ہار ماننے والے کے ہاتھ سے رسی جیتنے والے کے ہاتھ میں چلی جائے گی اور وہ رسی جیتنے والے کی غلام ہوگی۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔