کراچی میں ٹارگٹڈ آپریشن پر اتفاق

وفاقی اور سندھ حکومت نے کراچی میں امن و امان بحال کرنے اور اسے پر امن شہر بنانے کے لیے ٹارگٹڈ آپریشن جاری رکھنے پر۔۔۔

تاجر برادری انتظامیہ سے مایوس اور عدم تحفظ کا شکار ہو کر بھتہ مافیا کے مطالبات پورا کرنے پر مجبور ہو چکی ہے۔ فوٹو: فائل

وفاقی اور سندھ حکومت نے کراچی میں امن و امان بحال کرنے اور اسے پر امن شہر بنانے کے لیے ٹارگٹڈ آپریشن جاری رکھنے پر اتفاق کیا ہے۔ اخباری اطلاعات کے مطابق ہفتے کو وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان اور وزیر اعلیٰ سندھ قائم علی شاہ نے ٹیلی فون پر بات چیت کرتے ہوئے اس بات پر اتفاق کیا کہ بھتہ خوروں' ٹارگٹ کلرز اور جرائم پیشہ افراد کے خلاف آپریشن جاری رکھا جائے اور کراچی شہر کو پر امن بنانے کے لیے تمام وسائل بروئے کار لائے جائیں۔ اس امر میں کوئی شبہ نہیں کہ کراچی جو پاکستان کا سب سے بڑا تجارتی شہر ہے ایک طویل عرصے سے امن و امان کے حوالے سے مسائل کا شکار ہے۔ کوئی دن ایسا نہیں گزرتا جب وہاں کسی بے گناہ کی لاش نہ گرتی ہو۔ بھتہ خور مافیا نے تاجر برادری کا جینا حرام کر رکھا ہے۔ یہ مافیا اس قدر طاقتور ہے کہ انتظامیہ اور پولیس بھی اس کے سامنے بے بس دکھائی دیتی ہے۔

تاجر برادری انتظامیہ سے مایوس اور عدم تحفظ کا شکار ہو کر بھتہ مافیا کے مطالبات پورا کرنے پر مجبور ہو چکی ہے۔ انتظامیہ کی جانب سے بارہا دعوے کیے گئے کہ کراچی کو بھتہ خوروں اور جرائم پیشہ افراد سے نجات دلا کر پرامن شہر بنا دیں گے مگر یہ دعوے کبھی ایفا نہ ہو سکے اور معاملات روز بروز بگڑتے ہی چلے گئے۔ بعض تجزیہ نگاروں کے مطابق متعدد لسانی' مذہبی اور سیاسی جماعتیں کراچی شہر کے حالات بگاڑنے کی ذمے دار ہیں۔ ان جماعتوں کے مسلح ونگز ہیں جو ایک دوسرے کو ٹارگٹ بناتے اور قتل و غارت گری کا بازار گرم کرتے ہیں۔ ان جماعتوں کے کارکن اپنی مالی ضروریات پوری کرنے کے لیے تاجروں سے بھتہ وصول کرتے ہیں۔ جب کبھی انتظامیہ اور پولیس ان بھتہ خوروں کے خلاف کارروائی شروع کرتی ہے تو سیاسی جماعتیں ان کارکنوں کو اپنے اثر و رسوخ کی بنا پر چھڑا لیتی ہیں۔ اس طرح یہ دھندا رکنے کے بجائے بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے۔ ان بھتہ خوروں کی دیکھا دیکھی متعدد جرائم پیشہ گروہوں نے بھی کراچی شہر کو یرغمال بنا رکھا ہے۔

وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف نے کراچی کو پھر سے پر امن شہر بنانے اور اس کی روشنیاں اسے واپس دلانے کے لیے صوبائی حکومت کے تعاون سے ٹارگٹڈ آپریشن کرنے کا فیصلہ کیا جس کا فوری آغاز بھی کر دیا گیا۔ کراچی میں ٹارگٹڈ آپریشن کی تمام سیاسی جماعتوں نے حمایت کی اور یہ فیصلہ کیا گیا کہ کسی بھی سیاسی جماعت کو سیاسی انتقام کا نشانہ نہیں بنایا جائے گا صرف جرائم پیشہ عناصر کو قانون کی گرفت میں لایا جائے گا۔ ٹارگٹڈ آپریشن کا مقصد ہی یہ بیان کیا گیا کہ کسی بے گناہ شخص کو نہیں پکڑا جائے گا۔ اب وفاقی حکومت اور سندھ کی صوبائی حکومت پولیس اور رینجرز کی مدد سے جرائم پیشہ افراد کے خلاف آپریشن کر رہی ہیں۔ ابھی تک چند بھتہ خوروں اور ٹارگٹ کلرز کو پکڑنے اور ان سے اسلحہ برآمد کرنے کے دعوے کیے جا رہے ہیں لیکن دوسری جانب اس آپریشن پر اعتراضات بھی شروع ہو گئے ہیں۔


بعض ماہرین کا موقف ہے کہ کراچی کا مسئلہ اس قدر گھمبیر اور پیچیدہ ہو چکا ہے کہ یہ آپریشن طول پکڑ سکتا ہے کیونکہ شہر میں متعدد نوگو ایریاز ہیں' جرائم پیشہ افراد نے آبادیوں میں پناہ لے رکھی ہے اور انھیں بعض سیاسی جماعتوں کی آشیر باد بھی حاصل ہے۔ اس لیے حکومت کو آپریشن کے مطلوبہ نتائج حاصل کرنے کے لیے بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ خواہ کچھ بھی ہو حکومت کو یہ آپریشن جاری رکھنا چاہیے۔ کراچی میں امن و امان پھر سے بحال کرنے کے لیے آپریشن ہی واحد حل ہے۔ اگر حکومت کسی سیاسی مصلحت یا دباؤ کے باعث آپریشن کو ست رو یا موخر کرتی ہے تو پھر کراچی میں کبھی امن قائم نہیں ہو سکے گا کیونکہ شہر میں جرائم پیشہ عناصر انتہائی منظم اور جدید ہتھیاروں سے لیس ہیں پولیس روایتی کارروائیوں کے ذریعے بھتہ خوروں اور ٹارگٹ کلرز پر قابو نہیں پا سکتی۔ اگر ایسا ہوتا تو پولیس کب کی ان عناصر کو قانون کی گرفت میں لا کر کراچی کو پر امن شہر بنا چکی ہوتی۔ بعض حلقوں کی جانب سے یہ آوازیں بھی اٹھائی جا رہی ہیں کہ پولیس کے اندر کالی بھیڑیں جرائم پیشہ افراد کی باقاعدہ پشت پناہی کر رہی ہیں۔

پولیس اہلکاروں کو معلوم ہے کہ کون بھتہ لے رہا ہے اور کون ٹارگٹ کلنگ کی کارروائیوں میں ملوث ہے۔ اس لیے ٹارگٹڈ آپریشن کو کامیاب بنانے کے لیے پولیس کے اندر موجود ان کالی بھیڑوں کا بھی صفایا کرنا ناگزیر ہے۔ تمام سیاسی جماعتیں کراچی کو پر امن شہر بنانے اور وہاں ہونے والی قتل و غارت گری پر احتجاج تو کرتی ہیں' اب ان پر یہ بھاری ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ جرائم پیشہ عناصر کا قلع قمع کرنے کے لیے حکومت سے بھرپور تعاون کریں۔ ریاستی سطح پر اتنا بڑا آپریشن عوامی حمایت کے بغیر کامیاب نہیں ہو سکتا۔ حکومت کو مجرموں کو پکڑنے کے لیے انٹیلی جنس کا نظام بھی مؤثر بنانا ہو گا تا کہ کوئی بے گناہ نہ پکڑا جائے اور اصل مجرم ہی قانون کی گرفت میں آئیں۔ وفاقی حکومت کو بھی کراچی میں ہونے والے ٹارگٹڈ آپریشن کی حساسیت کا بخوبی ادراک ہے کہ ذرا سی غلطی حکومت کی بدنامی اور مخالفت کا باعث بن سکتی ہے۔

اسی امر کو مد نظر رکھتے ہوئے وفاقی حکومت نے صوبائی حکومت کے تعاون سے اس آپریشن کا آغاز کیا تا کہ بلا جواز پکڑ دھکڑ کے بجائے حقیقی مجرموں ہی کو شکنجے میں جکڑا جائے اور کوئی بھی سیاسی جماعت حکومت پر سیاسی انتقام کا الزام لگا کر اسے تنقید کا نشانہ نہ بنائے۔ اخباری خبر کے مطابق گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد خان کے اچانک دبئی روانہ ہونے پر ان کے استعفیٰ کے بارے میں متضاد اطلاعات گردش کر رہی ہیں۔ وفاقی حکومت کے ذرایع کے مطابق وفاقی وزیر اسحاق ڈار نے ڈاکٹر عشرت العباد سے ٹیلی فون پر بات چیت کرتے ہوئے کراچی آپریشن کے حوالے سے بعض فیصلوں پر ان کے تحفظات دور کرنے کی یقین دہانی کراتے ہوئے کہا کہ کسی سیاسی جماعت کو نشانہ نہیں بنایا جا رہا اور کراچی میں جرائم پیشہ عناصر کے خلاف آپریشن جاری ہے۔

کراچی میں جرائم پیشہ عناصر انتہائی طاقتور ہو چکے ہیں ان سے نجات کے لیے آپریشن کے سوا اس کا کوئی حل نہیں۔ اسی لیے وفاقی حکومت نے آپریشن شروع کرنے سے قبل اس کی حساسیت کے پیش نظر دیگر سیاسی جماعتوں کو اعتماد میں لیا تا کہ اس کے لیے بہتر لائحہ عمل تیار کیا جا سکے اور مستقبل میں آپریشن کی راہ میں بے جا رکاوٹیں پیدا نہ ہوں۔
Load Next Story