ہم بے وفا ہرگز نہ تھے

ہر سال کی طرح بی بی سی ورلڈ سروسز نے کچھ دن پہلے اپنا سالانہ پول کیا جس میں انھوں نے دنیا بھر کے مختلف ملکوں سےتعلق...

wabbasi@yahoo.com

ہر سال کی طرح بی بی سی ورلڈ سروسز نے کچھ دن پہلے اپنا سالانہ پول کیا جس میں انھوں نے دنیا بھر کے مختلف ملکوں سے تعلق رکھنے والے عام چھبیس ہزار لوگوں سے یہ پوچھا کہ کن ملکوں سے دنیا کو فائدہ پہنچ رہا اور کن ملکوں سے نقصان؟ جرمنی، کینیڈا، جاپان اور فرانس۔ اس لسٹ میں بیشتر لوگوں کے خیال سے دنیا کو سب سے زیادہ فائدہ پہنچانے والے ملک ہیں لیکن اس لسٹ میں ہم بالکل نیچے پائے گئے۔ ایران نے بچا لیا ورنہ لسٹ میں ہم سب سے نیچے ہوتے۔ صرف تین چار ووٹوں سے سب سے زیادہ ناپسندیدہ ملک ایران بالکل نیچے آیا اور ہم اس سے اوپر۔

لسٹ کے مطابق لوگوں سے یہ کہا گیا تھا کہ ملکوں کو ریٹ کرتے وقت ذہن میں یہ ضرور رکھیں کہ وہ ملک دنیا کی بہتری کے لیے کتنا کام کر رہا ہے، دنیا کے مختلف ملکوں میں رہنے والوں پر امریکا کا برا تاثر ہونے کی وجہ سے اپنی ہر کامیابی کے باوجود یو ایس اے بالکل اوپر نہیں بلکہ لسٹ کے بیچ میں کہیں ملتا ہے۔ جہاں چین بہت سے اچھے کام کر رہا ہے وہیں سافٹ ویئر پائریسی اور نقلی چیزیں بنانے کا سب سے بڑا حب ہونے کی وجہ سے وہ یو ایس اے کے بھی نیچے آتا ہے لیکن ہمیں چین جاپان سے نہیں پاکستان سے غرض ہے۔ بی بی سی ایک مضبوط اور پرانا نیٹ ورک ہے جس کی وجہ سے اس کی ہر پوسٹ اور رپورٹ دنیا بھر میں اہم مانی جاتی ہے اس کو بنیاد بناکر مزید ٹی وی چینلز اور اخبارات مذاکرے کرتے آرٹیکلز لکھتے ہیں اور جہاں لوگ امریکا اور چین کو لسٹ کے درمیان میں ہونے کو غلط جانتے دس دلیلیں دیتے نظر آتے ہیں وہیں پاکستان کو لسٹ میں نیچے ہونے کو کوئی غلط نہیں سمجھتا۔

دنیا میں رہنے والے بیشتر لوگوں کی تاریخ، جغرافیہ اور معلومات عامہ خراب ہے، امریکا جیسا ملک جہاں پڑھائی لازمی ہے وہاں بھی آپ کو عام لوگ چین کو جاپان کا حصہ بتاتے نظر آئیںگے۔ یورپ کو ایک ملک اور دبئی ہو یا افغانستان وہ ان کے لیے ایک جگہ ہوتی ہے۔ اسی لیے وہ لوگ جو ہمیں نہیں جانتے جو پاکستان کو صرف ویسے دیکھتے ہیں جیسا سی این این انھیں دکھانا چاہتا ان سے ہمیں اس پول میں سب سے نیچے لانے پر کوئی گلہ نہیں ہے۔

جب ایک عام امریکن یا برطانوی پاکستان کو قریب سے جانتاہی نہیں اور نہ ہی یہ سمجھتا ہے کہ دنیا میں بہتری کے لیے ہم کیا کوششیں کررہے ہیں وہ ہمیں پول میں سب سے نیچے لاتا ہے۔ لیکن ہمیں دکھ اس بات کا ہے کہ اگر انٹرنیٹ پر اس پول کو لے کر لکھے کالم اور خبروں کو سرچ کیاجائے تو حیران کن طورپر جہاں جہاں پاکستان کی برائی کی گئی ہے ان آرٹیکلز کے نیچے خود پاکستانیوں نے کمنٹس چھوڑے ہیں جن میں وہ پاکستان کو مزید برا بھلا کہہ رہے ہیں۔ ایک انڈین یا امریکن ویب سائٹ میں اگر کوئی رائٹر پاکستان کو غیر مقبول ملک لکھتا ہے تو پاکستانی خود اس کے نیچے لکھتے ہیں ''ہم اس قابل ہیں'' یا پھر مزید مذاق اڑاتے یہ بھی لکھتے ہیں کہ آیندہ سال ہم ایران کو بھی پیچھے چھوڑ دیںگے۔ دوسرے ہمیں نہیں سمجھتے لیکن یہ کیا کہ یہاں تو ہمارے اپنے ہی مذاق بنا رہے ہیں۔

وہ پاکستانی جو بھول گئے کہ پاکستان میں کیا خاص ہے ان کے لیے پاکستان کے کچھ حقائق یہ ہیں۔ پچھلے پانچ سال میں پاکستان میں خواندگی کی شرح ڈھائی سو فیصد بڑھی ہے یہ دنیا میں آج تک کا ریکارڈ ہے یعنی کبھی کسی بھی ملک میں اتنے کم عرصے میں تعلیم میں اتنی گروتھ نہیں ہوئی۔

پاکستان دنیا کا پہلا نیو کلیئر پاور ملک ہے یعنی مسلمانوں کا سب سے طاقتور ملک ہے نہ صرف یہ بلکہ انڈونیشیاکے بعد سب سے زیادہ مسلمان پاکستان میں رہتے ہیں۔ یعنی ہم پاکستانی دنیا میں سب سے زیادہ اسلام کی شناخت ہیں۔


دنیا کا سب سے بڑا ایمبولینس کا نیٹ ورک کسی مغربی ملک میں نہیں بلکہ پاکستان کی ایدھی فائونڈیشن کے پاس ہے۔ وہ ادارہ جس کی بنیاد ایک چھوٹے سے کمرے میں رکھی گئی تھی۔

امریکا، انگلینڈ میں پڑھائی لازمی ہے لیکن دنیا کی سب سے کم عمر مائیکروسافٹ ایکسپرٹ ہونے کا اعزاز اب بھی پاکستانی بچی مرحومہ ارفع کریم کے پاس ہے۔

ہمارے پاس دنیا کی چھٹے نمبر کی بہترین ملٹری بھی ہے، ایئرکمووڈور، ایم ایم عالم کے پاس دنیا بھر میں سب کم وقت میں سب سے زیادہ ایئر کرافٹ مارنے کا ریکارڈ ہے یہ انھوںنے ایک منٹ میں پانچ جہازوں کو مار کر بنایا۔ پاکستان میں ٹیلنٹ کی کمی نہیں ہے جس کی مثال دنیا کے کم عمر ترین سول جج محمد الیاس ہیں جنہوںنے یہ پوسٹ بائیس سال کی عمر میں حاصل کی تھی۔

دنیا کے مشہور کھیل فٹ بال میں بھی پاکستان کا بڑا حصہ ہے کیوںکہ دنیا میں پچاس فیصد استعمال ہونے والی فٹ بال پاکستان میں بنتی ہے۔ پاکستانی نوجوانوں کی ذہانت کا اس بات سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ پہلا کمپیوٹر وائرس دو پاکستانی بھائیوں نے گھر میں بیٹھ کر بنایا تھا جس کے بعد اینٹی وائرس سافٹ ویئر بزنس ملٹی بلین ڈالرز بزنس بن گیا جب کہ یہ غلط چیز تھی لیکن اس سے ہم پاکستانی نوجوانوں کی ذہانت کا اچھی طرح اندازہ لگاسکتے ہیں اور اس میں کوئی حیرانی کی بات نہیں ہے کیوںکہ دنیا بھر کی انجینئرز اور سائنسدانوں کی لسٹ میں پاکستان ساتویں نمبر پر آتا ہے۔

پاکستانی انجینئرز کی مدد سے چین اور پاکستان کے درمیان بنی قراقرم ہائی وے کو اکثر دنیا کا آٹھواں عجوبہ کہاجاتاہے۔ کیوںکہ ہمارے سول انجینئرز نے وہ کر دکھایا ہے جو کئی لحاظ سے ناممکن تھا۔

پاکستان میں دہشت گرد بنتے ہیں ہم اپنی لڑکیوں کو تیزاب سے جلاتے ہیں۔ ہمارے یہاں لڑکیاں تعلیم حاصل کرنا چاہیں تو انھیں گولی ماردی جاتی ہے، ہمارے یہاں لیڈر ملک لوٹ کر باہر بھاگ جاتے ہیں۔ ہم سب ملک چھوڑ دینا چاہتے ہیں۔ یہ ہے وہ سوچ جو بیشتر دوسرے ملکوں کے لوگوں کی ہمارے لیے ہے۔ ہم دوسروں کی سوچ شاید نہیں بدل سکتے لیکن کوشش تو کرسکتے ہیں اور اگر یہ نہیں کرسکتے تو کم سے کم جہاں ہمارے ملک کی برائی ہو وہاں اپنے ملک سے متعلق اچھی بات تو کرسکتے ہیں جس سے ہم پازیٹو نظر آئیں خود اپنے ملک کا مذاق اڑانے سے ہم دنیا کو یقین دلاتے ہیں کہ ہمارا لسٹ میں سب سے نیچے ہونا غلط نہیں ہے۔
Load Next Story