میں کراچی ہوں
میں کراچی ہوں، دنیا کا ایک بڑا شہر۔ میں سندھ کا دارالخلافہ ہوں تو سندھی مجھے اپنا سمجھتے ہیں۔ قیام پاکستان کے...
میں کراچی ہوں، دنیا کا ایک بڑا شہر۔ میں سندھ کا دارالخلافہ ہوں تو سندھی مجھے اپنا سمجھتے ہیں۔ قیام پاکستان کے وقت میری آبادی چار پانچ لاکھ تھی۔ ہندوستان سے لاکھوں مہاجر ہجرت کرکے مجھ میں آباد ہوگئے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ شہر اردو بولنے والوں کا ہے۔ ایوب دور میں صنعتی ترقی ہوئی تو پٹھان محنت کش میری دھرتی میں سما گئے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ میں کابل اور پشاور سے بڑھ کر پختونوں کا شہر ہوں۔ سن 70 کے بعد یہاں مذہبی پارٹیوں کا زور تھا۔ وہ سمجھتے ہیں کہ میں اسلامی دنیا کا سب سے بڑا شہر ہوں۔ میں کیا ہوں؟
میں پاکستان کا سب سے بڑا شہر ہوں۔صرف بڑا ہی نہیں بلکہ صنعتی شہر۔ صرف صنعتی شہر نہیں بلکہ ایک بڑی بندرگاہ والا شہر۔ میں پاکستان کو 70 فی صد رقم جمع کرکے دیتا ہوں۔ گو کہ میری آبادی پاکستان کی آبادی کا بارہ تیرہ فیصد ہے لیکن میں اس ملک کو تیس اور سندھ کو90 فی صد ریونیو کماکر دیتا ہوں۔ پورا پاکستان مجھے اپنا سمجھتا ہے۔ میں پوری دنیا میں ''منی پاکستان'' کے نام سے مشہور ہوں۔
قائد اعظم کی جائے پیدائش ہونے کا اعزاز مجھے حاصل ہے۔ میں بابائے قوم کی آخری آرام گاہ ہونے کا شرف بھی رکھتا ہوں۔ ڈیڑھ سو سال قبل مجھے صرف مچھیروں کی ایک بستی سمجھا جاتا تھا۔ مائی کلاچی کے نام پر میرا نام کراچی ہوگیا۔ 1876 میں قائد اعظم محمد علی جناح یہاں پیدا ہوئے۔ انھوں نے ابتدائی تعلیم یہاں کے ایک اسکول، سندھ مدرسۃ الاسلام حاصل کی۔ یہ زمانہ انگریزوں کا تھا۔ مدراس، ممبئی، دہلی، آگرہ، کلکتہ، لاہور اور احمد آباد کے مقابلے میں میری کوئی حیثیت نہ تھی۔ خلافت موومنٹ کے بعد جب مولانا محمد علی جوہر اور مولانا شوکت علی گرفتار ہوئے تو ان پر مقدمہ یہاں چلا تھا۔ خالق دینا ہال اور میری شہرت پہلی مرتبہ برصغیر میں گونجی تھی۔ تحریک پاکستان کے بڑے رہنما سر عبداللہ ہارون یہاں کے رہائشی تھے۔ جب جناح صاحب میرے یہاں تشریف لاتے تو اکثر انھیں میزبانی کا موقع ملتا۔ سندھ اسمبلی نے سن 43 میں پاکستان کی قرارداد منظور کرکے شہر اور صوبے کو عزت بخشی وقت گزرتا رہا۔
پاکستان بنا تو مجھے اسلامی دنیا کے سب سے بڑے ملک کا دارالخلافہ بننے کا اعزاز حاصل ہوا۔ پانچ لاکھ کی آبادی کا ٹاؤن چند برسوں میں پانچ ملین کا شہر ہوگیا۔ سندھ اسمبلی کی بلڈنگ کو پاکستان کی اسمبلی قرار دیا گیا۔ مجھے قائداعظم اور مسلم لیگ کو اقتدار کی منتقلی دیکھنے کا شرف حاصل ہے۔ اس کے ایک دن کے بعد یہ اعزاز دہلی کو ملا۔ لیاقت علی خان کی حکومت کا پہلا بڑا مسئلہ مہاجرین کی آبادکاری تھا۔ مسلمان جوق درجوق ہندوستان سے پاکستان آرہے تھے۔ پنجاب کے سکھوں کی طرح سندھ کے ہندو بھارت کی جانب بڑھ رہے تھے۔ یہ آبادی کی منتقلی کا دنیا بھر میں سب سے بڑا واقعہ قرار دیا جاتا ہے۔ پھر ون یونٹ بنادیا گیا اور یوں میں صوبہ مغربی پاکستان کا ایک شہر قرار پایا۔ نہ ملک کا دارالخلافہ نہ سندھ کا کہ وہ تو رہا ہی نہیں۔
نیا ملک، نئی حکومت، نئے لوگ تو نئے مسائل۔ میں دیکھتے ہی دیکھتے دنیا کا ایک بڑا شہر بن گیا۔ سندھیوں کا خیال تھا کہ ان کا ایک پورٹ سٹی اب ان کا نہیں رہا۔ دارالخلافے کا سمندر کے نزدیک ہونا غیر مناسب قرار دیا جارہا تھا۔ ایوب حکومت نے نیا دارالخلافہ بنایا۔ میں حکومت پاکستان کی تحویل سے نکل کر ون یونٹ کے خاتمے پر پھر سے سندھ کا دارالخلافہ بن گیا۔ صنعتیں بھی بڑھ رہی تھیں اور میری آبادی بھی۔ میں کچھ بوجھ سا محسوس کر رہا تھا لیکن دل وسیع تھا اور ظرف اعلیٰ۔
ایوب اور یحییٰ کے بعد ذوالفقار علی بھٹو پاکستان کے حکمران بنے۔ انھوں نے مجھے حیدرآباد اور سکھر کے ساتھ شہری علاقے قرار دے کر دیہی علاقوں سے الگ کردیا۔ اسے کوٹہ سسٹم کہاگیا۔ اب کچھ کچھ سندھیوں نے بھی میری شہری وضع کو پسند کرنا شروع کردیا۔ وہ مجھ میں بسنے لگے کہ میں تو تھا ہی سندھ کا دارالخلافہ۔ یوں پاکستان بننے کے تیس سال تک میں واقعتاً منی پاکستان بن چکا تھا۔ یقین نہ آئے تو ذرا یہ منظر ملاحظہ فرمائیے۔ پنجابی ہنرمند، تاجر و صنعت کار اور سرکاری افسران یہاں تھے تو دہلی، آگرہ اور کلکتے کے اردو بولنے والے تو احمد آباد و ممبئی کے گجراتی ومیمن تو لاڑکانہ، دادو اور سکھر کے سندھی لہجے میں اردو بولنے والے اجرک پوش تو مشرقی پاکستان کے بنگالی و بہاری تو پشاور و سوات کے پٹھان۔ یہ پھولوں کا گلدستہ تھا جس میں ہر رنگ وبوکے چھوٹے بڑے پھول یہاں تھے۔ میں روشنیوں کا شہر کہلاتا تھا۔ میرے پھول کیوں مرجھاگئے اور میری روشنیاں کیوں اندھیروں میں ڈوب گئیں؟ یہ ایک دلخراش داستان ہے۔ میں آج اپنا دل کھول کر بیان کروں گا اور کھل کر بھی۔
انگریزوں نے بہادر شاہ ظفر کی حکومت ختم کرکے دہلی کو دارالخلافہ بنایا۔ انھوں نے افسران پسند کیے یوپی اور سی پی سے تو فوجی لیے پنجاب سے۔ یوں اردو بولنے والوں اور پنجابیوں کو ایک صدی تک وہ برتری حاصل رہی جو بنگالیوں، سندھیوں، پٹھانوں اور بلوچوں کو حاصل نہ تھی۔ پاکستان آکر بھی سول و ملٹری بیوروکریسی میں یہ حاوی رہے۔ اس قدرتی امر کو چاروں کو ماننا چاہیے تھا۔ فائدہ میں رہنے والے پنجابیوں اور مہاجروں کو دوسروں کو کچھ رعایت دینی چاہیے تھی لیکن دونوں میرٹ کی بات کرتے رہے۔ انگریزوں نے سندھی وڈیروں، پنجابی چوہدریوں، پختون خوانین اور بلوچ سرداروں کو جنم دیا۔ صنعتی ترقی نے شہری سرمایہ دار طبقے کو وجود بخشا۔ یوں معاشی مفادات کی نہ ختم ہونے والی جنگ شروع ہوگئی۔ کراچی والوں کی اکثریت نے ایوب اور بھٹو سے فاصلہ رکھا۔ انھوں نے سمجھا کہ ایوب پٹھانوں کے بہی خوا تو بھٹو سندھیوں کے سرپرست بن کر ان سے کچھ چھیننا چاہتے ہیں۔
ضیا الحق کا دور کچھ ترقی، کچھ سناٹے اور کچھ سمندر کے سے سکون اور آنے والے طوفان کا پیش خیمہ بنا۔ سب نے خاموشی سے اپنے معاشی مفادات کو ترازو میں تولا۔ انصاف کے ترازو میں نہیں بلکہ زبان، قوم اور نسل کے ترازو میں۔ پنجابیوں نے نواز شریف کو، سندھیوں نے بے نظیر کو تو اردو بولنے والوں نے الطاف حسین کو اپنا قائد بنایا۔ میں مزار قائد کے احاطے میں بہتے آنسوؤں کو دیکھ رہا تھا۔ قائد اعظم، قائد ملت، مادر ملت کے بہتے آنسو کسی نے نہ دیکھے۔میں جانتا تھا کہ آنے والے دنوں میں میرے شہری خون کے آنسو بہائیں گے۔ میری سرزمین پر اسلحہ عام ہوگیا، علاقے بٹ گئے اور یہ سب کچھ زبان کے نام پر ہونے لگا۔ میں چشم تصور میں قومیت، صوبائیت اور فرقہ واریت کے جراثیم دیکھ رہا تھا۔ نہ پاکستان میں کوئی وفاقی پارٹی رہی اور نہ عوام سب کی بات کرنے والوں کو پسند کرتے۔
مشرف نئی صدی میں آئے تو کچھ نہ بدلا۔ سب نے اپنی تلواریں تیز کرلیں۔ اب قومیت کے علاوہ فرقہ واریت کا پھوڑا میرے جسم پر نکل آیا۔مختلف مذہبی مسالک کے جھگڑوں نے میرے باسیوں کو آگ اور خون میں نہلادیا۔ تیسرے اور چوتھے پھوڑے بڑے خطرناک ہیں جو میرے جسم کو بدصورت بنارہے ہیں۔ طالبان کی جانب سے خوں ریزی اور سبب امریکی ڈرون حملوں کی بحث نے پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ مشرف گئے تو زرداری آئے۔ اب چوتھے پھوڑے نے مجھے درد سے بے حال کردیا ہے۔ بھتہ خوری ناسور بن رہی ہے۔ اب نواز شریف ہاتھ میں نشتر لیے میرا علاج کرنے کو آئے ہیں۔ وہ پہلے بھی دو مرتبہ کوشش کرچکے ہیں۔ دیکھیں کیا ہوتا ہے؟
میں پاکستان کا سب سے بڑا شہر ہوں۔صرف بڑا ہی نہیں بلکہ صنعتی شہر۔ صرف صنعتی شہر نہیں بلکہ ایک بڑی بندرگاہ والا شہر۔ میں پاکستان کو 70 فی صد رقم جمع کرکے دیتا ہوں۔ گو کہ میری آبادی پاکستان کی آبادی کا بارہ تیرہ فیصد ہے لیکن میں اس ملک کو تیس اور سندھ کو90 فی صد ریونیو کماکر دیتا ہوں۔ پورا پاکستان مجھے اپنا سمجھتا ہے۔ میں پوری دنیا میں ''منی پاکستان'' کے نام سے مشہور ہوں۔
قائد اعظم کی جائے پیدائش ہونے کا اعزاز مجھے حاصل ہے۔ میں بابائے قوم کی آخری آرام گاہ ہونے کا شرف بھی رکھتا ہوں۔ ڈیڑھ سو سال قبل مجھے صرف مچھیروں کی ایک بستی سمجھا جاتا تھا۔ مائی کلاچی کے نام پر میرا نام کراچی ہوگیا۔ 1876 میں قائد اعظم محمد علی جناح یہاں پیدا ہوئے۔ انھوں نے ابتدائی تعلیم یہاں کے ایک اسکول، سندھ مدرسۃ الاسلام حاصل کی۔ یہ زمانہ انگریزوں کا تھا۔ مدراس، ممبئی، دہلی، آگرہ، کلکتہ، لاہور اور احمد آباد کے مقابلے میں میری کوئی حیثیت نہ تھی۔ خلافت موومنٹ کے بعد جب مولانا محمد علی جوہر اور مولانا شوکت علی گرفتار ہوئے تو ان پر مقدمہ یہاں چلا تھا۔ خالق دینا ہال اور میری شہرت پہلی مرتبہ برصغیر میں گونجی تھی۔ تحریک پاکستان کے بڑے رہنما سر عبداللہ ہارون یہاں کے رہائشی تھے۔ جب جناح صاحب میرے یہاں تشریف لاتے تو اکثر انھیں میزبانی کا موقع ملتا۔ سندھ اسمبلی نے سن 43 میں پاکستان کی قرارداد منظور کرکے شہر اور صوبے کو عزت بخشی وقت گزرتا رہا۔
پاکستان بنا تو مجھے اسلامی دنیا کے سب سے بڑے ملک کا دارالخلافہ بننے کا اعزاز حاصل ہوا۔ پانچ لاکھ کی آبادی کا ٹاؤن چند برسوں میں پانچ ملین کا شہر ہوگیا۔ سندھ اسمبلی کی بلڈنگ کو پاکستان کی اسمبلی قرار دیا گیا۔ مجھے قائداعظم اور مسلم لیگ کو اقتدار کی منتقلی دیکھنے کا شرف حاصل ہے۔ اس کے ایک دن کے بعد یہ اعزاز دہلی کو ملا۔ لیاقت علی خان کی حکومت کا پہلا بڑا مسئلہ مہاجرین کی آبادکاری تھا۔ مسلمان جوق درجوق ہندوستان سے پاکستان آرہے تھے۔ پنجاب کے سکھوں کی طرح سندھ کے ہندو بھارت کی جانب بڑھ رہے تھے۔ یہ آبادی کی منتقلی کا دنیا بھر میں سب سے بڑا واقعہ قرار دیا جاتا ہے۔ پھر ون یونٹ بنادیا گیا اور یوں میں صوبہ مغربی پاکستان کا ایک شہر قرار پایا۔ نہ ملک کا دارالخلافہ نہ سندھ کا کہ وہ تو رہا ہی نہیں۔
نیا ملک، نئی حکومت، نئے لوگ تو نئے مسائل۔ میں دیکھتے ہی دیکھتے دنیا کا ایک بڑا شہر بن گیا۔ سندھیوں کا خیال تھا کہ ان کا ایک پورٹ سٹی اب ان کا نہیں رہا۔ دارالخلافے کا سمندر کے نزدیک ہونا غیر مناسب قرار دیا جارہا تھا۔ ایوب حکومت نے نیا دارالخلافہ بنایا۔ میں حکومت پاکستان کی تحویل سے نکل کر ون یونٹ کے خاتمے پر پھر سے سندھ کا دارالخلافہ بن گیا۔ صنعتیں بھی بڑھ رہی تھیں اور میری آبادی بھی۔ میں کچھ بوجھ سا محسوس کر رہا تھا لیکن دل وسیع تھا اور ظرف اعلیٰ۔
ایوب اور یحییٰ کے بعد ذوالفقار علی بھٹو پاکستان کے حکمران بنے۔ انھوں نے مجھے حیدرآباد اور سکھر کے ساتھ شہری علاقے قرار دے کر دیہی علاقوں سے الگ کردیا۔ اسے کوٹہ سسٹم کہاگیا۔ اب کچھ کچھ سندھیوں نے بھی میری شہری وضع کو پسند کرنا شروع کردیا۔ وہ مجھ میں بسنے لگے کہ میں تو تھا ہی سندھ کا دارالخلافہ۔ یوں پاکستان بننے کے تیس سال تک میں واقعتاً منی پاکستان بن چکا تھا۔ یقین نہ آئے تو ذرا یہ منظر ملاحظہ فرمائیے۔ پنجابی ہنرمند، تاجر و صنعت کار اور سرکاری افسران یہاں تھے تو دہلی، آگرہ اور کلکتے کے اردو بولنے والے تو احمد آباد و ممبئی کے گجراتی ومیمن تو لاڑکانہ، دادو اور سکھر کے سندھی لہجے میں اردو بولنے والے اجرک پوش تو مشرقی پاکستان کے بنگالی و بہاری تو پشاور و سوات کے پٹھان۔ یہ پھولوں کا گلدستہ تھا جس میں ہر رنگ وبوکے چھوٹے بڑے پھول یہاں تھے۔ میں روشنیوں کا شہر کہلاتا تھا۔ میرے پھول کیوں مرجھاگئے اور میری روشنیاں کیوں اندھیروں میں ڈوب گئیں؟ یہ ایک دلخراش داستان ہے۔ میں آج اپنا دل کھول کر بیان کروں گا اور کھل کر بھی۔
انگریزوں نے بہادر شاہ ظفر کی حکومت ختم کرکے دہلی کو دارالخلافہ بنایا۔ انھوں نے افسران پسند کیے یوپی اور سی پی سے تو فوجی لیے پنجاب سے۔ یوں اردو بولنے والوں اور پنجابیوں کو ایک صدی تک وہ برتری حاصل رہی جو بنگالیوں، سندھیوں، پٹھانوں اور بلوچوں کو حاصل نہ تھی۔ پاکستان آکر بھی سول و ملٹری بیوروکریسی میں یہ حاوی رہے۔ اس قدرتی امر کو چاروں کو ماننا چاہیے تھا۔ فائدہ میں رہنے والے پنجابیوں اور مہاجروں کو دوسروں کو کچھ رعایت دینی چاہیے تھی لیکن دونوں میرٹ کی بات کرتے رہے۔ انگریزوں نے سندھی وڈیروں، پنجابی چوہدریوں، پختون خوانین اور بلوچ سرداروں کو جنم دیا۔ صنعتی ترقی نے شہری سرمایہ دار طبقے کو وجود بخشا۔ یوں معاشی مفادات کی نہ ختم ہونے والی جنگ شروع ہوگئی۔ کراچی والوں کی اکثریت نے ایوب اور بھٹو سے فاصلہ رکھا۔ انھوں نے سمجھا کہ ایوب پٹھانوں کے بہی خوا تو بھٹو سندھیوں کے سرپرست بن کر ان سے کچھ چھیننا چاہتے ہیں۔
ضیا الحق کا دور کچھ ترقی، کچھ سناٹے اور کچھ سمندر کے سے سکون اور آنے والے طوفان کا پیش خیمہ بنا۔ سب نے خاموشی سے اپنے معاشی مفادات کو ترازو میں تولا۔ انصاف کے ترازو میں نہیں بلکہ زبان، قوم اور نسل کے ترازو میں۔ پنجابیوں نے نواز شریف کو، سندھیوں نے بے نظیر کو تو اردو بولنے والوں نے الطاف حسین کو اپنا قائد بنایا۔ میں مزار قائد کے احاطے میں بہتے آنسوؤں کو دیکھ رہا تھا۔ قائد اعظم، قائد ملت، مادر ملت کے بہتے آنسو کسی نے نہ دیکھے۔میں جانتا تھا کہ آنے والے دنوں میں میرے شہری خون کے آنسو بہائیں گے۔ میری سرزمین پر اسلحہ عام ہوگیا، علاقے بٹ گئے اور یہ سب کچھ زبان کے نام پر ہونے لگا۔ میں چشم تصور میں قومیت، صوبائیت اور فرقہ واریت کے جراثیم دیکھ رہا تھا۔ نہ پاکستان میں کوئی وفاقی پارٹی رہی اور نہ عوام سب کی بات کرنے والوں کو پسند کرتے۔
مشرف نئی صدی میں آئے تو کچھ نہ بدلا۔ سب نے اپنی تلواریں تیز کرلیں۔ اب قومیت کے علاوہ فرقہ واریت کا پھوڑا میرے جسم پر نکل آیا۔مختلف مذہبی مسالک کے جھگڑوں نے میرے باسیوں کو آگ اور خون میں نہلادیا۔ تیسرے اور چوتھے پھوڑے بڑے خطرناک ہیں جو میرے جسم کو بدصورت بنارہے ہیں۔ طالبان کی جانب سے خوں ریزی اور سبب امریکی ڈرون حملوں کی بحث نے پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ مشرف گئے تو زرداری آئے۔ اب چوتھے پھوڑے نے مجھے درد سے بے حال کردیا ہے۔ بھتہ خوری ناسور بن رہی ہے۔ اب نواز شریف ہاتھ میں نشتر لیے میرا علاج کرنے کو آئے ہیں۔ وہ پہلے بھی دو مرتبہ کوشش کرچکے ہیں۔ دیکھیں کیا ہوتا ہے؟