’’کام چھوڑ ہڑتال‘‘
حکومت تو برائے نام اونٹ کے منہ میں ’’زیرہ‘‘ جتنی تنخواہ دے کر آرام سے بیٹھ جاتی ہے۔
مملکت اللہ داد ناپرساں جس کا دارالخلافہ بمقام ''انعام آباد اکرم آباد''واقع ہے، اس کے بارے میں ہم نے آپ کو ویسے تو بہت کچھ بتایا ہے لیکن یہاں کے ''عدل وانصاف''کے بارے میں نہیں بتایاہے۔جو دنیا بھر بلکہ ستاروں سیاروں میں بھی فمیس ہے۔ نمونے کے طور پر وہی مقدمہ ہے جو عدل وانصاف کی بنیاد ہے۔
اس کے مطابق جب ایک شریف نجیب الطرفین اور محنتی چور بہ دوران ڈیوٹی نقب لگاتے ہوئے دیوار کے گرنے سے شہید ہوا تو اس کے لواحقین نے اپنے سارے ہم پیشہ وہم مشرب و ہمرازوں کو لے کر''انعام آباد اکرام آباد''میں ایک گرانڈ ''دھرنا'' دے دیا اور حکومت کو الٹی میٹم دیا کہ ہمارے ساتھ اگر انصاف نہیں کیاگیا توہم''کام چھوڑ''ہڑتال پر چلے جائیں گے جس سے قانون نافذ کرنے والے ادارے، تفتیشی ادارے اور تقریباً سارے سرکاری ادارے ہماری سرپرستی سے محروم ہوکر ''تنخواہ''پر گزارہ کرنے کی ''سزا'' پالیں گے۔
حکومت تو برائے نام اونٹ کے منہ میں ''زیرہ'' جتنی تنخواہ دے کر آرام سے بیٹھ جاتی ہے اور پھر ان اداروں کے سارے پالن پوس کا بار ہم پر آ پڑتاہے جو ہم اب تک ایمانداری سے ادا کر رہے ہیں۔ لیکن ہمارے شہید کو انصاف نہیں ملا تو ہم حکومت کے ان تمام ''سفید ہاتھیوں'' کے پالن پوسن سے ہاتھ اٹھاکر''کام چھوڑ''ہڑتال پرچلے جائیں گے، تب حکومت کو لگ پتہ جائے گا۔
سرکاری اداروں میں خطرے کی گھنٹیاں بج اٹھیں، نوٹس پرنوٹس لیے جانے لگے اور آخر شہید چور کے ساتھ ''انصاف'' کرنے کا اعلان شاہ ناپرساں نے بزبان خود کیا اور خصوصی عدالت انصاف کے قیام کا اپنی سربراہی میں سرکلر جاری کردیا ۔ کیس کی سماعت شروع ہوئی اور روداد آپ کو پتہ ہے کہ مقدمہ مالکان سے زینہ بہ زینہ ہوتا ہوا، ایک سنار تک پہنچا جسے ہتھوڑابردار لوہاروں کے ذریعے ڈنڈا ڈولی کرکے لایا گیا تھا۔
اس کے پہنچنے سے پہلے ہی اس پر''ہینگ ٹل ڈیتھ'' کا حکم جاری ہوچکا تھا۔ پھانسی کا پھندا بھی تیار تھا چنانچہ دربار میں شاہ والا کے سامنے ہی''سنار''کو لٹکایاگیا لیکن اس کم بخت کی گردن پھوکنی پھونکتے پھونکتے اتنی باریک ہوچکی تھی کہ پھانسی کے پھندے سے یوں نیچے ٹپکا جیسے نیوٹن نے سیب کو ٹپکتے دیکھا تھا۔اسے دوبارہ پھندا تنگ کرکے پھانسی دینے کا حکم صادر ہوا لیکن بہت سارے پیرالدین شیخ زادوں نے قرار دیا کہ آئین میں دوبارہ پھانسی دینے کی کوئی شق نہیں ہے۔
اس لیے سنار کو دوسری بار نہیں لٹکایا جاسکتا۔بہت بڑا قانونی پھڈا پڑگیا تھا اور شاہی عدل وانصاف سنکٹ میں پڑگیا۔لیکن شاہ ناپرساں عادل زماں منصف جہاں نے مسئلے کو چٹکی میں حل فرماتے ہوئے کہا کہ کسی نہ کسی کو تو پھانسی دینا ضروری ہے ورنہ شاہی عدل وانصاف کے سیاہ ترین جامے پر سفید داغ پڑجائے گا۔ شاہی حکم کے ذریعے حاضرین کی گردنیں ناپنے کا سلسلہ شروع ہوا تو باقی سارے ناپرسانی تو ناپرسانی پروسیجر سے واقف تھے اس لیے گردن ناپتے وقت ناپنے والوں سے مٹھی لڑاکر''تعویزنجات''تھمادیتے تھے لیکن دو خدائے مارے پردیسی اس رولز ریگولیشن سے سراسر نا آشنا تھے، اس لیے پکڑے گئے، پھر جکڑے گئے لیکن اس سے پہلے کہ پھانسی کی کارروائی عمل میں آتی عدالت کا وقت ختم ہوگیا چنانچہ استاد اور شاگرد کو سرکاری تحویل میں دے دیاگیا لیکن تحویل سے پہلے شاہی حکم کے ذریعے ان کی تصاویر نشان انگوٹھا اور نشانات شناخت وغیرہ درج کرلیے گئے کیونکہ شاہ ناپرساں کو معلوم تھا کہ سرکاری تحویل میں سب کچھ ''بدلنے'' کا رجحان ہے، ممکن ہے کل ان کی جگہ کسی اور کو پیش کیا جائے۔
حوالات پہنچے تو شاگرد نے استاد کے تمام تر احترام کو لات مارکر حوالات کے باہر پھینک دیا اور اپنے استاد کی سات اگلی اور سات پچھلی پشتوں کی خواتین سے طرح طرح کے جانوروں کے رشتے قائم کرنے لگا کہ میں نے کہاتھا کہ اس شہر سے نکلناچاہیے لیکن تم کو مفت کے لنگر کھانے کا چسکہ پڑگیا،تمہاری تو خیر ہے کہ اب تک پندرہ بیس خواتین کو نکاح کی سولی پرچڑھاچکے ہو،لیکن میرا کیا ہے کہ اب تک جنم جنماترکا کنوارا ہوں، درد کا مارا ہوں اور ڈوبتا ستارا ہوں۔ استاد نے بمشکل شانت کرنے کے بعد اسے ایک ڈرامے کا ایکٹ ازبرکرایا۔
رات گئے تک دونوں نے ریہرسل کرکے اپنے اپنے ڈائیلاک یاد کیے۔چنانچہ جیسے ہی دربار میں بلکہ پھندے کے سامنے زبردست قسم کی ہالی وڈ اور آسکرٹائپ کی اداکاری کا آغاز کیا، شاگرد استاد سے اور استاد شاگرد سے خود کو چھڑا کر پھانسی کے پھندے پر جھپٹ جھپٹ کر''پہلے میں، پہلے میں'' کہنے لگا۔ استاد نے کہا، میں تمہارا استاد ہوں، میرا تم پرحق ہے کہ شہادت کی یہ سعادت مجھے حاصل کرنے دو۔
شاگرد زور کرکے خود کو چھڑانے کی کوشش کرتے ہوئے کہتا،نہیں استاد نہیں، یہ سعادت مجھے حاصل کرنے دو۔شاہ عالم ان دونوں کی یہ ہائی فائی اداکاری دیکھ کر حیران ہورہے تھے۔ پوچھا، یہ معاملہ کیاہے ؟کئی دفعہ ان کے انکار اور بادشاہ کے اصرار پراستاد بولا، ہم دونوں ماہرین نجوم، استادان سیارہ گان اور پروفیسران کاملان ہیں۔ اپنے علوم سے ہمیں معلوم ہواہے کہ آج کے دن افلاک وسماوات میں حسن کا ایک گرانڈ فینالے ہورہاہے جس میں حسینان فلک جسے زہرہ بائی ،ہاروت، ماروت والی افروڈایٹی یونان والی، وینس روم والی ، عشتار بابل والی، پروین بائی ایران والی، ایک یونیورس مقابلہ حسن میں حصہ لیتی ہیں۔ سورج کی سربراہی اور مشتری عطارد و زحل کی جمگھٹ سے آیندہ کے لیے ملکہ ''یونیورس''کا انتخاب ہوتا ہے۔
سارے افلاک میں تعطیل عام ہوتی ہے۔ اس دن جو کوئی پھانسی کے پھندے پرشہید ہوجاتا ہے، اسے سپشل چارٹرڈ ایروپلین کے ذریعے بغیر ویزہ پاسپورٹ چیکنگ کے جنت کا لگژری ایراول دیا جاتا ہے۔ ہم نے ستاروں کی چال سے آج کے دن کا پتہ کیا تھا، بہت دور سے یہاں پہنچے ہیں، بڑی محنت سے گردن فربہ کیے ہوئے ہیں کہ یہ سعادت مل جائے لیکن اب یہ میرا ناہنجار میرے آڑے آرہاہے، اس نے پھر زور لگایا لیکن شاہ ناپرساں نے فوراً ان دونوں کو ہٹایا ، یہ پرکشش سعادت خود حاصل کی چنانچہ اس کے بعد سے ہر حکومت پر اس کا ''سایہ''، عدل وانصاف پرقائم رہتاچلا آیاہے۔
اس کے مطابق جب ایک شریف نجیب الطرفین اور محنتی چور بہ دوران ڈیوٹی نقب لگاتے ہوئے دیوار کے گرنے سے شہید ہوا تو اس کے لواحقین نے اپنے سارے ہم پیشہ وہم مشرب و ہمرازوں کو لے کر''انعام آباد اکرام آباد''میں ایک گرانڈ ''دھرنا'' دے دیا اور حکومت کو الٹی میٹم دیا کہ ہمارے ساتھ اگر انصاف نہیں کیاگیا توہم''کام چھوڑ''ہڑتال پر چلے جائیں گے جس سے قانون نافذ کرنے والے ادارے، تفتیشی ادارے اور تقریباً سارے سرکاری ادارے ہماری سرپرستی سے محروم ہوکر ''تنخواہ''پر گزارہ کرنے کی ''سزا'' پالیں گے۔
حکومت تو برائے نام اونٹ کے منہ میں ''زیرہ'' جتنی تنخواہ دے کر آرام سے بیٹھ جاتی ہے اور پھر ان اداروں کے سارے پالن پوس کا بار ہم پر آ پڑتاہے جو ہم اب تک ایمانداری سے ادا کر رہے ہیں۔ لیکن ہمارے شہید کو انصاف نہیں ملا تو ہم حکومت کے ان تمام ''سفید ہاتھیوں'' کے پالن پوسن سے ہاتھ اٹھاکر''کام چھوڑ''ہڑتال پرچلے جائیں گے، تب حکومت کو لگ پتہ جائے گا۔
سرکاری اداروں میں خطرے کی گھنٹیاں بج اٹھیں، نوٹس پرنوٹس لیے جانے لگے اور آخر شہید چور کے ساتھ ''انصاف'' کرنے کا اعلان شاہ ناپرساں نے بزبان خود کیا اور خصوصی عدالت انصاف کے قیام کا اپنی سربراہی میں سرکلر جاری کردیا ۔ کیس کی سماعت شروع ہوئی اور روداد آپ کو پتہ ہے کہ مقدمہ مالکان سے زینہ بہ زینہ ہوتا ہوا، ایک سنار تک پہنچا جسے ہتھوڑابردار لوہاروں کے ذریعے ڈنڈا ڈولی کرکے لایا گیا تھا۔
اس کے پہنچنے سے پہلے ہی اس پر''ہینگ ٹل ڈیتھ'' کا حکم جاری ہوچکا تھا۔ پھانسی کا پھندا بھی تیار تھا چنانچہ دربار میں شاہ والا کے سامنے ہی''سنار''کو لٹکایاگیا لیکن اس کم بخت کی گردن پھوکنی پھونکتے پھونکتے اتنی باریک ہوچکی تھی کہ پھانسی کے پھندے سے یوں نیچے ٹپکا جیسے نیوٹن نے سیب کو ٹپکتے دیکھا تھا۔اسے دوبارہ پھندا تنگ کرکے پھانسی دینے کا حکم صادر ہوا لیکن بہت سارے پیرالدین شیخ زادوں نے قرار دیا کہ آئین میں دوبارہ پھانسی دینے کی کوئی شق نہیں ہے۔
اس لیے سنار کو دوسری بار نہیں لٹکایا جاسکتا۔بہت بڑا قانونی پھڈا پڑگیا تھا اور شاہی عدل وانصاف سنکٹ میں پڑگیا۔لیکن شاہ ناپرساں عادل زماں منصف جہاں نے مسئلے کو چٹکی میں حل فرماتے ہوئے کہا کہ کسی نہ کسی کو تو پھانسی دینا ضروری ہے ورنہ شاہی عدل وانصاف کے سیاہ ترین جامے پر سفید داغ پڑجائے گا۔ شاہی حکم کے ذریعے حاضرین کی گردنیں ناپنے کا سلسلہ شروع ہوا تو باقی سارے ناپرسانی تو ناپرسانی پروسیجر سے واقف تھے اس لیے گردن ناپتے وقت ناپنے والوں سے مٹھی لڑاکر''تعویزنجات''تھمادیتے تھے لیکن دو خدائے مارے پردیسی اس رولز ریگولیشن سے سراسر نا آشنا تھے، اس لیے پکڑے گئے، پھر جکڑے گئے لیکن اس سے پہلے کہ پھانسی کی کارروائی عمل میں آتی عدالت کا وقت ختم ہوگیا چنانچہ استاد اور شاگرد کو سرکاری تحویل میں دے دیاگیا لیکن تحویل سے پہلے شاہی حکم کے ذریعے ان کی تصاویر نشان انگوٹھا اور نشانات شناخت وغیرہ درج کرلیے گئے کیونکہ شاہ ناپرساں کو معلوم تھا کہ سرکاری تحویل میں سب کچھ ''بدلنے'' کا رجحان ہے، ممکن ہے کل ان کی جگہ کسی اور کو پیش کیا جائے۔
حوالات پہنچے تو شاگرد نے استاد کے تمام تر احترام کو لات مارکر حوالات کے باہر پھینک دیا اور اپنے استاد کی سات اگلی اور سات پچھلی پشتوں کی خواتین سے طرح طرح کے جانوروں کے رشتے قائم کرنے لگا کہ میں نے کہاتھا کہ اس شہر سے نکلناچاہیے لیکن تم کو مفت کے لنگر کھانے کا چسکہ پڑگیا،تمہاری تو خیر ہے کہ اب تک پندرہ بیس خواتین کو نکاح کی سولی پرچڑھاچکے ہو،لیکن میرا کیا ہے کہ اب تک جنم جنماترکا کنوارا ہوں، درد کا مارا ہوں اور ڈوبتا ستارا ہوں۔ استاد نے بمشکل شانت کرنے کے بعد اسے ایک ڈرامے کا ایکٹ ازبرکرایا۔
رات گئے تک دونوں نے ریہرسل کرکے اپنے اپنے ڈائیلاک یاد کیے۔چنانچہ جیسے ہی دربار میں بلکہ پھندے کے سامنے زبردست قسم کی ہالی وڈ اور آسکرٹائپ کی اداکاری کا آغاز کیا، شاگرد استاد سے اور استاد شاگرد سے خود کو چھڑا کر پھانسی کے پھندے پر جھپٹ جھپٹ کر''پہلے میں، پہلے میں'' کہنے لگا۔ استاد نے کہا، میں تمہارا استاد ہوں، میرا تم پرحق ہے کہ شہادت کی یہ سعادت مجھے حاصل کرنے دو۔
شاگرد زور کرکے خود کو چھڑانے کی کوشش کرتے ہوئے کہتا،نہیں استاد نہیں، یہ سعادت مجھے حاصل کرنے دو۔شاہ عالم ان دونوں کی یہ ہائی فائی اداکاری دیکھ کر حیران ہورہے تھے۔ پوچھا، یہ معاملہ کیاہے ؟کئی دفعہ ان کے انکار اور بادشاہ کے اصرار پراستاد بولا، ہم دونوں ماہرین نجوم، استادان سیارہ گان اور پروفیسران کاملان ہیں۔ اپنے علوم سے ہمیں معلوم ہواہے کہ آج کے دن افلاک وسماوات میں حسن کا ایک گرانڈ فینالے ہورہاہے جس میں حسینان فلک جسے زہرہ بائی ،ہاروت، ماروت والی افروڈایٹی یونان والی، وینس روم والی ، عشتار بابل والی، پروین بائی ایران والی، ایک یونیورس مقابلہ حسن میں حصہ لیتی ہیں۔ سورج کی سربراہی اور مشتری عطارد و زحل کی جمگھٹ سے آیندہ کے لیے ملکہ ''یونیورس''کا انتخاب ہوتا ہے۔
سارے افلاک میں تعطیل عام ہوتی ہے۔ اس دن جو کوئی پھانسی کے پھندے پرشہید ہوجاتا ہے، اسے سپشل چارٹرڈ ایروپلین کے ذریعے بغیر ویزہ پاسپورٹ چیکنگ کے جنت کا لگژری ایراول دیا جاتا ہے۔ ہم نے ستاروں کی چال سے آج کے دن کا پتہ کیا تھا، بہت دور سے یہاں پہنچے ہیں، بڑی محنت سے گردن فربہ کیے ہوئے ہیں کہ یہ سعادت مل جائے لیکن اب یہ میرا ناہنجار میرے آڑے آرہاہے، اس نے پھر زور لگایا لیکن شاہ ناپرساں نے فوراً ان دونوں کو ہٹایا ، یہ پرکشش سعادت خود حاصل کی چنانچہ اس کے بعد سے ہر حکومت پر اس کا ''سایہ''، عدل وانصاف پرقائم رہتاچلا آیاہے۔