جب رسم و رواج امتحان اور بوجھ بن جائیں۔۔۔

بلاشبہ صنفِ نازک صدیوں سے طویل اور صبرآزما سفر طے کرتی، اپنے نازک کاندھوں پر زمانوں کا بوجھ اُٹھائے چلی آرہی ہے۔


شائستہ زرّیں July 23, 2019
بلاشبہ صنفِ نازک صدیوں سے طویل اور صبرآزما سفر طے کرتی، اپنے نازک کاندھوں پر زمانوں کا بوجھ اُٹھائے چلی آرہی ہے۔ فوٹو: فائل

ISLAMABAD: بعض رسم و رواج اور روایات نہ صرف کسی معاشرے کی شناخت بنتے ہیں بلکہ اس معاشرے کے لوگوں کا فخر بھی ہوتے ہیں۔

ہمارے یہاں بھی صدیوں سے رائج بعض رسومات ایسی ہیں جو ہماری تہذیب اور ثقافت کا خوب صورت حصہ ہیں، لیکن انہی میں بعض تکلیف دہ اور دل آزار رسمیں بھی شامل ہیں جن کی کسی صورت حوصلہ افزائی اور قدر نہیں کی جاسکتی۔ ان رسموں کو نبھانے میں عورتیں ہر طرح سے آگے ہوتی ہیں۔ خواہ ان رسوم میں اُن کی آرزوؤںکا رنگ چھلکے یا ارمانوں کی موت نظر آئے اور پھر وہ ''عزت کا سوال'' بنا کر مردوں کو بھی اس کے حصار میں لے لیتی ہیں۔ یہ وہ رسوم ہیں جنھیں اگر خواتین اپنی خوشی سے اپناتی ہیں تو کبھی جبراً بھی اُن پر مسلط کی جاتی ہیں اور ان کے نام پر خواتین ہی کا استحصال ہوتا ہے۔ آج کے ترقی یافتہ دور میں بھی صدیوں پرانی فضول رسوم بوجھ بنی ہوئی ہے۔

بلاشبہ صنفِ نازک صدیوں سے طویل اور صبرآزما سفر طے کرتی، اپنے نازک کاندھوں پر زمانوں کا بوجھ اُٹھائے چلی آرہی ہے، لیکن المیہ یہ ہے کہ اس ریاضت کا ثمر اس کے مقدر میں نہیں۔ بوجھ اُٹھانے والی یہ عورت زمانے کی نظروں میں بوجھ بنی ہُوئی ہے۔ دنیا میںآتے ہی طعنے سہتی ہے، عمر بھر لوگوں کی تضحیک، تحقیر اور تذلیل بھری نظروں کا ہدف بنی رہتی ہے، اپنی ذمہ داری خوش اسلوبی اور دیانت داری سے نباہنے کے باوجود بوجھ کہلاتی ہے۔ کبھی اُس کے ساتھ جانوروں سے بدتر سلوک کیا جاتا ہے تو کبھی اُس جرم کی پاداش میں جو دراصل جرم ہوتا ہی نہیں ''دوسرے درجے کی شہری'' قرار پاتی ہے۔

مضحکہ خیز المیہ یہ ہے کہ اسے ان''اعزازات'' سے نوازنے والی کوئی اور نہیں بلکہ عورت ہی ہوتی ہے۔ ایک عورت ہی کسی کی بیٹی کو اس کے والدین کے لیے بوجھ بنا دیتی ہے۔ یہ عورت نام نہاد رسوم کے نام پر جو تماشا کرتی ہے اس پر جتنا افسوس کیا جائے کم ہے۔ بیٹی کے فرض سے سبک دوش ہونے کے لیے والدین کو جن رسومات کا زہر پینا پڑتا ہے وہ بسا اوقات انہیں زندہ درگورکر دیتا ہے۔ مُعاملہ صرف بیٹی کو جہیز دینے تک محدود نہیں بلکہ یہ سلسلہ بیٹی کی شادی کے موقع پر اُس کے سسرال والوںکو پہناؤنی، نیوتا دینے اور شادی کے بعد بھی مختلف رسوم کے نام پر کسی نہ کسی طرح جاری رہتا ہے۔

جہیز والدین اپنی حیثیت کے مطابق دیں تو مسئلہ نہیں، لیکن جہاں''زمانہ کیا کہے گا'' اور ''سسرال والوںکی طلب'' پر جب والدین اپنی بیٹی کا سَر بلند رکھنے کی خاطر اپنا سَر جھکا لیں تو یہ ایک بڑا المیہ ہے۔ جہیز کے ساتھ پہناؤنیاں اور مختلف ناموں پر طرح طرح کا لین دین بیٹی کے والدین کا امتحان ہوتے ہیں۔ وہ کبھی اپنی اور کبھی اس کے سسرال والوں کی ''رضا اور خوشی'' کے لیے بھی دیتے ہیں اور اتنا آگے بڑھ جاتے ہیں کہ اس کا نقصان اُٹھاتے ہیں۔ اور جو اس رسم سے ''بغاوت'' کرتے ہیں عموماً اُن کی بیٹیاں والدین کی اس ''سرکشی'' کا تاوان عمر بھر ادا کرتی رہتی ہیں۔ یُوں بھی ہوتا ہے کہ سسرال والے محض طعنوں ہی سے کام چلا لیتے ہیںکہ زبان کا وار خنجر سے بھی کاری ہوتا ہے۔ والدین کی اس ''غفلت'' کی سزا بیٹی کو لعن طعن کی صورت جھیلنی پڑتی ہے۔

کچھ لوگ اسے وقتی قصہ سمجھ کر بھلا دیتے ہیں اور بعض گھرانے بیٹی کے والدین کے اس ''گناہِ عظیم'' کو دائمی روگ بنالیتے ہیں، برسوں بیت جانے کے بعد بھی انہیں اپنی''توہین'' نہیں بھولتی کہ ''پہناؤنی'' کو وہ اپنا حق اور بیٹی کے والدین کا فرض سمجھتے ہیں۔ سو اُن کی انا کا ناگ ہر دَم پھن پھیلائے رہتا ہے جس کا زہر قطرہ قطرہ اُس ''مجرم'' کے اندر اترتا رہتا ہے۔ فسانہ یہیں تمام نہیں ہوتا۔ جب عورت اپنی تکمیل کی نوید سنتی ہے تو جہاں اُس کے والدین کو نانا نانی بننے کی خوشی ہوتی ہے وہاں یہ فکر بھی دامن گیر ہوتی ہے کہ ''اب'' کوئی کمی نہ رہ جائے۔ بیٹی اور داماد کو اس پُرمسرت موقع پر جو دیں گے، سو دیںگے، بیٹی کے سسرالیوں کو بھی ملبوسات اور نقدی کی صورت میںکچھ نہ کچھ دینا ہی ہوگا۔ اور وہ ''کچھ نہ کچھ'' بیٹی کے والدین کی حیثیت کے مطابق نہیں بلکہ سسرال والوں کے مرتبے اور معیار کے مطابق ہونا چاہیے۔

اولاد کی کفالت کا ذمہ دار باپ ہوتا ہے، مگر اکثر گھرانوں میں بچے کی ولادت کے تمام اخراجات ننھیال اٹھاتا ہے۔ یہ نہیں پوچھا جاتاکہ وہ اس کی استطاعت رکھتے ہیں یا نہیں کہ یہ ایک رسم ہے جسے بہرحال نباہنا ہے۔ وہ والدین جو ابھی شادی کے حوالے سے مقروض ہیں، مزید قرض کے بوجھ تلے دب جاتے ہیں، لیکن بیٹی کا سَر نہیں جھکنے دیتے۔ بیٹی جو واقف حال ہوتی ہے کیا ان حالات میں اپنے گھر میں سکھی رہ سکتی ہے؟ والدین کی بے بسی محسوس کرنے کے باوجود وہ چپ کا زہر پیتی ہے اور بظاہر خوش رہتی ہے کہ مصلحت کا تقاضا یہی ہے۔

یوں چکی کے دو پاٹوںکے بیچ اس کی روح کچل جاتی ہے۔ یہ اذیت ناک احساس ہی اسے مار دیتا ہے کہ شادی کے بعد بھی وہ اپنے والدین پر بوجھ ہے۔ ان رسومات اور فرمائشوں کی تکمیل نہ ہو تو ایسا بھی ہوتا ہے کہ ''اپنے پھوہڑ پن، بے پروائی سے چولھا پھٹ جانے کے باعث'' بہو جل کر راکھ ہو گئی۔ اور والدین سوچتے ہی رہ جاتے ہیں کہ جس بیٹی کی سلیقہ شعاری اور ذمہ داری کی دھاک بیٹھی ہُوئی تھی وہ یکایک اتنی بے سلیقہ اور غیر ذمہ دار کیسے ہوگئی؟ لیکن اس سوال کا جواب اُنہیں نہیں ملتا۔ ہمارے معاشرے کی یہ غیرضروری اور قبیح رسومات پیسے اور وقت کا ہی نہیں بلکہ انسانی جانوںکے زیاںکا سبب بن جاتی ہیں اور بیٹیاں سوچتی رہ جاتی ہیں۔

بہت ہے یہ روایتوں کا زہر ساری عمر کو

جو تلخیاں ہمارے آنچلوں میں باندھ دی گئیں

( عشرت آفریں)

جانے کیوں تلخیوںکا یہ زہر ازل سے عورت کا مقدر رہا ہے۔ عورت ہمیشہ بے نوا رہی ہے اور جب اُس نے احتجاج کے لیے سَر اُٹھایا تو اسے کچل دیا گیا۔ صنفِ نازک پر جب ظلم صنفِ قوی نے کیا تو اسے عورت کی کم زوری کہا گیا، لیکن جب عورت ہی عورت کی صداؤں کا گلا گھونٹ دے تو اس بے بسی کو کیا نام دیا جائے؟

رسومات کو پروان چڑھانے والی بھی عورت ہے اور ان رسومات کے خنجرکی ضرب سے گھائل ہونے والی بھی عورت ہے۔ ان بے رحم رسومات کے خلاف علمِِ بغاوت بلندکرنے والی بھی عورت ہی ہے۔ ایک عورت کے کتنے چہرے ہیں۔ ان میں سب سے زیادہ تکلیف دہ اورکریہہ روپ رسم و رواج کے نام پر اپنی ہی ہم صنف کو نشانہ اور تماشا بنانے والی کا ہے۔

ہمارے معاشرے کے بعض رسم و رواج ایسے بھی ہیں جنھیں اگر سادگی اور وقار کو ملحوظ رکھتے ہوئے اختیار کیا جائے تو زندگی میں حُسن اورگہماگہمی کا احساس ہوتا ہے، لیکن اس کے برعکس اگر یہی نمود و نمائش اور مقابلے کی دوڑ میں آگے بڑھ جانے کا ذریعہ بن جائیں تو معاشرے کے لیے عذاب اور عورت کے لیے وبال بن جاتی ہیں۔ ہمارے سماج میں ان رسومات کو اپنانے کے لیے ایک نہیںکئی ایک توجیہات اور توضیحات موجود ہیں۔ مثلاً پہناؤنی کوئی رسم کہاں ہے، تحفہ ہے جو بیٹی کے والدین اپنی خوشی سے دیتے ہیں۔ یہ تو محبت اور خوشی کا سودا ہے۔ تحائف کا لین دین تو محبت بڑھاتا ہے۔ مانا یہ تحفہ سہی لیکن محبت کے اظہار کے اور طریقے بھی تو ہیں، اپنے رویے سے اپنائیت کا احساس دلا کر بھی تو محبت کا اظہار کیا جا سکتا ہے۔

اس کے لیے اسراف ضروری تو نہیں۔ اگر تعلق کے استحکام کے لیے ایسی محبت اتنی ہی ناگزیر ہے تب بھی محبت کا یہ اظہار محض بیٹی کے والدین کی طرف ہی سے کیوں؟ کیا بیٹے کے والدین کو محبت کے اس اظہارکی ضرورت نہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ ان کی یہ خوشی تو اس بیٹی کے والدین کی وجہ سے دو چند ہوتی ہے جو اپنے گھر کا آنگن سُونا کر کے اُن کے بیٹے کا گھر آباد کرتے ہیں۔ پھر پوتا پوتی کی آمد سے بیٹے کے والدین اپنے گھر میں رونق دیکھتے ہیں۔

اس لحاظ سے تو خوشی اور محبت کے اظہار کا زیادہ حق بھی بیٹے کے والدین کا بنتا ہے، نہ کہ بیٹی کے والدین کا جو اسے اُن کے حوالے کر دیتے ہیں۔ کیا یہ بیٹی کے والدین کے ساتھ ناانصافی نہیں کہ وہ اپنی متاعِ عزیز بھی دے دیں اور اُس کے بعد ''نذرانے'' بھی پیش کرتے رہیں جب کہ ان رسومات کی شرعی حیثیت بھی نہیں۔ ہماری اکثر خواتین گھریلو بجٹ متوازن رکھنے کے لیے ان رسومات سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہتی ہیں مگر بے بس اور مجبور ہیں۔

معاشرے خصوصاً تعلیم یافتہ اور سمجھ دار گھرانوں کو چاہیے کہ وہ ان رسومات کو ختم کرنے میں اپنا کردار ادا کریں اور اس حوالے سے سب اپنی ذمہ داری کا احساس کریں۔ یہ وہ رسومات ہیں جو بیٹی کے والدین اور اس کے سرپرستوں کو گھن کی طرح کھارہی ہیں۔

کیا ہی اچھا ہو کہ اخراجات سے پریشان خواتین اور کسی کا نہیں تو بڑھتی ہُوئی منہگائی کا خیال کرکے ہی یہ رسومات ترک کردیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں