3 سال کا انتظار ختم ہندو میرج قانون عملدرآمد کیلیے تیار
بلدیاتی حکام کو قانون پر اس کی اصل روح کے مطابق عمل کرانے کی ہدایات جاری
BANGKOK:
ہندوبرادری کیلیے3 سال کا انتظار ختم ہوگیا، ہندو میرج بل2016 عمل درآمد کے لیے تیار ہے۔
بلدیاتی حکام کوہندو میرج بل 2016 پر اس کی اصل روح کے مطابق عمل کرانے کی ہدایات جاری کر دی گئیں، فروری 2016 میں سندھ اسمبلی تاریخی بل منظور کرکے پہلی اسمبلی بن گئی تھی،اس قانون کے تحت ہندو برادری کے افراد اپنی شادیوں کو باضابطہ رجسٹر کرا سکیں گے۔ سیکریٹری بلدیات خالد حیدرشاہ نے 2نوٹیفکیشن جاری کردیے ہیں جن میں بلدیاتی حکام کو ہندومیرج بل2016پر قانون کی روح کے مطابق عمل درآمد کرانے کی ہدایت کی گئی ہے۔
ہندومیرج بل کے مطابق ہندوبرادری میں شادی کو45دن کے اندریونین کونسل یا وارڈ میں رجسٹر کیاجائے گا، میرج سرٹیفکیٹ کی 4نقول متعلقہ بلدیاتی افسر کے پاس جمع کرائی جائیں گی، 18سال کے کم عمر لڑکا یالڑکی کی شادی کی سخت ممانعت ہے جس کی خلاف ورزی پر قانونی کارروائی کی جائے گی۔
خالد حیدر شاہ نے ایکسپریس ٹریبیون کو بتایا کہ ہندو میرج بل 2016وزارت اقلیتی امور کی جانب سے 2017 میں بھیجا گیا تھا لیکن اس پر اس کی اصل روح کے مطابق عمل نہیں ہُوا۔ اب بلدیاتی حکام کو اس حوالے سے خصوصی ہدایات جاری کردی گئی ہیں۔
ہندو شادیوں کے اس قانون کے سیکشن 6کے تحت ہر شادی کو یونین کونسل یا وارڈ میں رجسٹرڈ کرانا لازمی ہوگا جہاں وہ شادی ہوئی ہو۔ قانون کے تحت شادی کی رجسٹریشن کا عمل 45روز میں مکمل کرنا لازمی ہوگا اور متعلقہ افسرکو اس کی 4کاپیان دینی ہونگی۔ کراچی سمیت سندھ کے ڈویژنل ہیڈکوارٹز حیدرآباد، میرپورخاص سکھر ، لاڑکانہ اور شہید بینظیر آباد میں اس حوالے سے ہدایات جاری کردی گئی ہیں اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ بچوں کی شادی کی ممانعت کے قانون پر بھی مکمل عمل کیا جائے۔
یہ بات بھی اہم ہے کہ قانون کی منظوری کے بعد تاحال سندھ میں اس پر عملدرآمد ایک چیلنج بنا ہوا ہے۔ صوبائی اسٹیئرنگ کمیٹی کے رکن اقبال احمد ڈیتھو کے مطابق یہ ایک بڑا اہم قانون ہے جس میں بچوں کی شادیوں کو روکنے کا ایکٹ بھی شامل کیا گیا ہے اور اس کی خلاف ورزی کرنے والوں کیلیے سزائیں رکھی گئی ہیں۔
ہندوبرادری کیلیے3 سال کا انتظار ختم ہوگیا، ہندو میرج بل2016 عمل درآمد کے لیے تیار ہے۔
بلدیاتی حکام کوہندو میرج بل 2016 پر اس کی اصل روح کے مطابق عمل کرانے کی ہدایات جاری کر دی گئیں، فروری 2016 میں سندھ اسمبلی تاریخی بل منظور کرکے پہلی اسمبلی بن گئی تھی،اس قانون کے تحت ہندو برادری کے افراد اپنی شادیوں کو باضابطہ رجسٹر کرا سکیں گے۔ سیکریٹری بلدیات خالد حیدرشاہ نے 2نوٹیفکیشن جاری کردیے ہیں جن میں بلدیاتی حکام کو ہندومیرج بل2016پر قانون کی روح کے مطابق عمل درآمد کرانے کی ہدایت کی گئی ہے۔
ہندومیرج بل کے مطابق ہندوبرادری میں شادی کو45دن کے اندریونین کونسل یا وارڈ میں رجسٹر کیاجائے گا، میرج سرٹیفکیٹ کی 4نقول متعلقہ بلدیاتی افسر کے پاس جمع کرائی جائیں گی، 18سال کے کم عمر لڑکا یالڑکی کی شادی کی سخت ممانعت ہے جس کی خلاف ورزی پر قانونی کارروائی کی جائے گی۔
خالد حیدر شاہ نے ایکسپریس ٹریبیون کو بتایا کہ ہندو میرج بل 2016وزارت اقلیتی امور کی جانب سے 2017 میں بھیجا گیا تھا لیکن اس پر اس کی اصل روح کے مطابق عمل نہیں ہُوا۔ اب بلدیاتی حکام کو اس حوالے سے خصوصی ہدایات جاری کردی گئی ہیں۔
ہندو شادیوں کے اس قانون کے سیکشن 6کے تحت ہر شادی کو یونین کونسل یا وارڈ میں رجسٹرڈ کرانا لازمی ہوگا جہاں وہ شادی ہوئی ہو۔ قانون کے تحت شادی کی رجسٹریشن کا عمل 45روز میں مکمل کرنا لازمی ہوگا اور متعلقہ افسرکو اس کی 4کاپیان دینی ہونگی۔ کراچی سمیت سندھ کے ڈویژنل ہیڈکوارٹز حیدرآباد، میرپورخاص سکھر ، لاڑکانہ اور شہید بینظیر آباد میں اس حوالے سے ہدایات جاری کردی گئی ہیں اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ بچوں کی شادی کی ممانعت کے قانون پر بھی مکمل عمل کیا جائے۔
یہ بات بھی اہم ہے کہ قانون کی منظوری کے بعد تاحال سندھ میں اس پر عملدرآمد ایک چیلنج بنا ہوا ہے۔ صوبائی اسٹیئرنگ کمیٹی کے رکن اقبال احمد ڈیتھو کے مطابق یہ ایک بڑا اہم قانون ہے جس میں بچوں کی شادیوں کو روکنے کا ایکٹ بھی شامل کیا گیا ہے اور اس کی خلاف ورزی کرنے والوں کیلیے سزائیں رکھی گئی ہیں۔