استاد …جدید نصاب اور طریقۂ تدریس
تعلیمی انحطاط ہمارے معاشرے کی تنزلی کی سب سے بڑی وجہ ہے۔ ہمارے ہاں تعلیم کے لئے نہ تو جدید آلات ہی...
تعلیمی انحطاط ہمارے معاشرے کی تنزلی کی سب سے بڑی وجہ ہے۔ ہمارے ہاں تعلیم کے لئے نہ تو جدید آلات ہیں اور نہ ہی پڑھانے کے جدید طریقے۔
حکمرانوں اور متعلقہ افسروں کی عدم دلچسپی کے باعث ہر دور حکومت میں نصاب میں جدت لانے کے لئے لاحاصل کوششیں کی گئیں بلکہ نصاب کو بھی باقی چیزوں کی طرح بدعنوانی اور سیاست کی بھینٹ چڑھا دیا جاتا ہے۔ مشرف دور حکومت میں نصاب بنوا کر پرائیویٹ پبلشرز کو ٹیکسٹ بکس لکھنے کیلئے مقابلے کی دعوت سے ہی نصاب اقرباء پروری، سفارش اور بدعنوانی کی نظر ہو گیا۔ اس لئے جب ٹیکسٹ بکس مارکیٹ میں آئیں تو مواد اور مراد دونوں سے کافی حد تک عاری تھیں۔ پھر بھی کسی حدتک نصاب میں تبدیلی لائی گئی ہے۔ مثلاً جنس کے فرق کو ختم کرکے اور تہذیب وثقافت کو مدنظر رکھ کر کتابیں لکھی گئیں۔
کتابوں کو زراعت اور سائنس سے لے کر مذہب تک آراستہ کیا گیا لیکن جب کتابیں اسکولوں تک پہنچیں تووہاں پڑھانے والے غیرتربیت یافتہ اساتذہ کے ہتھے چڑھ گئیں۔ اب ان کا بھرکس نکالا جارہا ہے، یعنی بچوں کو حسب سابق رٹا لگوایا جا رہا ہے حالاں کہ ان کتابوں کا مقصد بچوں کو رٹے سے نجات دلا کر ان کو تخلیقی بنانا تھا۔ ان کتابوں میں مشق کو سات حصوں میں تقسیم کیا جانا تھا لیکن مکمل طور پر ایسا نہیں ہوسکا۔ علاوہ ازیں اساتذہ کیلئے رہنمائی کا حصہ بھی ہر سبق میں شامل ہے اور ہر سبق کے ایس ایل اوز(student learning outcomes) بھی دیے ہوئے ہیں۔ ایس ایل اوز طلباء کی وہ صلاحیتیں، علم اور مہارتیں ہیں جو وہ تعلیمی تجربات کے دوران سیکھتے ہیں۔
ایس ایل اوز سے بچوں کو تعلیمی تجربات کے ذریعے سبق کی اہمیت وافادیت کے بارے میں آگاہی دی جاتی ہے تاکہ بچے عملی زندگی میں سبق کے مقاصد سے فائدہ اٹھا سکیں، اس طرح اسباق اپلائیڈ نالج (applied knowledge) بن گئے۔ علم کو موثر اور بامقصد بنانے کیلئے ایس ایل اوز اپروچ طلبہ میں تبدیلی لانے کیلئے مددگار ثابت ہوتی ہے۔ اکثر طلباء تعلیم کو عجیب سی ذہنی مشق سمجھتے ہیں، ایس ایل اوز سے ان کی یہ اجنبیت دور کرنے میں معاون ثابت ہوتے ہیں۔ ایس ایل اوز سے طلبہ میں آگاہی بڑھتی ہے اور وہ علم میں دلچسپی لینے لگ جاتے ہیں، طلبہ کو عام زبان اور بحث و مباحثہ کیلئے ڈھانچہ مل جاتا ہے، سبق دہرانے کا موقع مل جاتا ہے، نصاب میں تبدیلی لانے کیلئے اپروچ مل جاتی ہے۔ ایس ایل اوز کی تین اقسام ہیں۔
(1)اداراتی: جس کا مقصد ادارے سے ڈگری حاصل کرنا ہے، اس دوران بچے کی سوچ کو تنقیدی بنایا جاتا ہے، اس میں تجزیہ کرنے کی صلاحیت، دلائل لانے، ثبوت کا موازنہ کرنے، نتائج اخذ کرنے، بات چیت کرنے، خود کے بارے میں آگاہی، ذاتی عوامل اور سماجی ذمہ داری، دنیا کے بارے میں آگاہی اور ٹیکنالوجی کے بارے میں شعور کی تربیت دی جاتی ہے۔ (2) پروگرام کی سطح پر: جس کا مقصد پروگرام ختم کرنا اور طلباء کی سرگرمیوں کو پایہ تکمیل تک پہنچانا۔ اس قسم کے ایس ایل اوز کے تحت بچے کو تازہ ترین معاشرتی ایشوز پر مضامین لکھوائے جاتے ہیں۔ علاقائی یا بین الاقوامی رہنماء تقاریر کا موازنہ کرایا جا سکتا ہے۔ دونوں طریقوں سے بچے کی لکھنے اور بولنے کی صلاحیت میں اضافہ ہوتا ہے۔ بچے کی سیکھنے کی صلاحیتوں کو سمجھ کر مختلف النوع حکمت عملی اختیار کی جا سکتی ہے۔ پڑھانے کیلئے مختلف منصوبے بنائے جا سکتے ہیں۔ (3) کورس کی سطح پر: کورس کو مکمل کرنا۔ کورس کو سالانہ یا سہ ماہی بنیادوں پر مقررہ مدت میں ختم کیا جاتا ہے۔
عمومی اور خصوصی مقاصد بھی سبق کا حصہ ہیں جن میں بچوں کو سبق کا تعارف کرایا جاتا ہے اور عام و عملی زندگی میں سبق کے مقاصد پر سیر حاصل بحث کی جاتی ہے۔ اساتذہ کیلئے سبق کے بنچ مارکس (benchmarks) سمجھنا بھی ضروری ہیں کیونکہ نئی کتابیں لکھتے وقت بنچ مارکس کو مدنظر رکھا گیا ہے۔ بنچ مارکس کا مطلب ایک ایسا معیار ہے جس کے تحت چیزوں کا موازنہ کیا جاتا ہے یا معیار کے ساتھ چیزوں کا تجزیہ کیا جاتا ہے۔ بنچ مارکس کا تعلیم میں بڑا اہم کردار ہے کیوں کہ موازنہ کرنا سیکھنے کا ایک بہترین طریقہ ہے۔ اس سے مشکل سے مشکل سبق قابل فہم بن جاتا ہے۔ یہ ہمارے رد عمل کو برقرار رکھتے ہیں اور اس میں بہتری لاتے ہیں۔ ناکامی کی وجہ سے پیدا ہونے والے خلا کو بھرتے ہوئے کامیابی کی پیمائش میں مد دیتے ہیں۔ بہتری کے مواقع کی نشاندہی کرتے ہیں۔ اس طرح متوازن شخصیت کی تعمیر میں مدد ملتی ہے۔
مشق کو سات حصوں میں تقسیم کے معاملے میں سستی برتی گئی ہے۔ مثلاً اردو اور انگریزی میں اسباق کو جن سات حصوں میں تقسیم کیا گیا وہ درج ذیل ہیں۔ ریڈنگ سکل (reading skill)، رائٹنگ سکل (writing skill)، لسننگ سکل (listening skill)، سپیکنگ سکل (speaking skill)، گرائمر سکل (grammer skill)، ووکیبلری سکل (vocabulary skill) اور کری ایٹو سکل (creative skill) لیکن یہ ساتوں سکلز ترتیب کے ساتھ خال خال ہی ملتی ہیں۔ ان مہارتوں میں بہتری لانے کیلئے مختلف مشقیں بھی تجویز کی گئیں ہیں۔ اگر ان ساتوں مہارتوں کی بنیاد پر تدریس شروع کر دی جائے تو رٹے سے چھٹکارا پانا کافی حد تک ممکن ہے۔ بچوں کو جب ان مہارتوں کو مدنظر رکھ کر پڑھنے، لکھنے، سننے کی پریکٹس کرائی جائے گی تو ان کو رٹے سے چھٹکارا ملنے کے امکانات بڑھ جائیں گے۔ جب ان کے اسباق میں سے مشکل الفاظ کو پڑھنے کی تراکیب اور مطالب کی تشریح ہو جائے گی توان کیلئے سبق کا مفہوم اور مقصد سمجھنا آسان ہو جائے گا، اس طرح کی مشقوں سے نہ صرف بچوں کے ذخیرہ الفاظ میں اضافہ ہو گا بلکہ اعتماد کی سطح بھی بلند ہو گی۔
گرائمر کی مہارتوں سے فقرے کی ساخت اور مفہوم کو سمجھنے میں مدد ملے گی۔ ان تمام مشقوں سے بچہ آگے بڑھتے ہوئے تخلیقی صلاحیت کی دنیا میں قدم رکھ دے گا۔ بچے کو سبق سے متعلق کوئی بھی موضوع دیا جا سکتا ہے یا بچے کو کم از کم اسی سبق کی اپنے الفاظ میں سمری ہی لکھنے کیلئے دے دی جائے تو اس کی تخلیقی صلاحیت بڑھے گی۔ جدید نصاب کو پڑھانے کیلئے اساتذہ کو جی ٹی میتھڈ (grammer-translation ) کے تحت بیک وقت بچوں کو اردو اور انگریزی زبان میں پڑھایا جا سکتا ہے اورلیکچر میتھڈ (lecture method) جسے اردو میں تقریری طریقہ بھی کہتے ہیں، اس میں کلاس کو زبانی لیکچر دیا جاتا ہے سے بخوبی آگاہ ہونا ضروری ہے کیونکہ یہ دونوں طریقے بائی لنگوول (bilingual ) بچوں کیلئے بہت مفید ہیں۔ اس جدید طرز کے سلیبس کو پڑھانے کیلئے اساتذہ کی تربیت کی اشد ضرورت ہے۔اساتذہ کو ایس ایل اوزکے بارے میں مکمل آگاہی دینی ضروری ہے۔ علاوہ ازیں اساتذہ کو مختلف سکلز کی مشقوں کی پریکٹس کرائی جانی چاہیے تاکہ وہ بچوں کی متذکرہ بالا مہارتوں میں بہتری لاسکیں۔ سب سے بڑھ کر طرز تکلم اور طرز تدریس میں بہتری کیلئے اساتذہ کی سوچ بدلنا نہایت ضروری ہے۔
حکمرانوں اور متعلقہ افسروں کی عدم دلچسپی کے باعث ہر دور حکومت میں نصاب میں جدت لانے کے لئے لاحاصل کوششیں کی گئیں بلکہ نصاب کو بھی باقی چیزوں کی طرح بدعنوانی اور سیاست کی بھینٹ چڑھا دیا جاتا ہے۔ مشرف دور حکومت میں نصاب بنوا کر پرائیویٹ پبلشرز کو ٹیکسٹ بکس لکھنے کیلئے مقابلے کی دعوت سے ہی نصاب اقرباء پروری، سفارش اور بدعنوانی کی نظر ہو گیا۔ اس لئے جب ٹیکسٹ بکس مارکیٹ میں آئیں تو مواد اور مراد دونوں سے کافی حد تک عاری تھیں۔ پھر بھی کسی حدتک نصاب میں تبدیلی لائی گئی ہے۔ مثلاً جنس کے فرق کو ختم کرکے اور تہذیب وثقافت کو مدنظر رکھ کر کتابیں لکھی گئیں۔
کتابوں کو زراعت اور سائنس سے لے کر مذہب تک آراستہ کیا گیا لیکن جب کتابیں اسکولوں تک پہنچیں تووہاں پڑھانے والے غیرتربیت یافتہ اساتذہ کے ہتھے چڑھ گئیں۔ اب ان کا بھرکس نکالا جارہا ہے، یعنی بچوں کو حسب سابق رٹا لگوایا جا رہا ہے حالاں کہ ان کتابوں کا مقصد بچوں کو رٹے سے نجات دلا کر ان کو تخلیقی بنانا تھا۔ ان کتابوں میں مشق کو سات حصوں میں تقسیم کیا جانا تھا لیکن مکمل طور پر ایسا نہیں ہوسکا۔ علاوہ ازیں اساتذہ کیلئے رہنمائی کا حصہ بھی ہر سبق میں شامل ہے اور ہر سبق کے ایس ایل اوز(student learning outcomes) بھی دیے ہوئے ہیں۔ ایس ایل اوز طلباء کی وہ صلاحیتیں، علم اور مہارتیں ہیں جو وہ تعلیمی تجربات کے دوران سیکھتے ہیں۔
ایس ایل اوز سے بچوں کو تعلیمی تجربات کے ذریعے سبق کی اہمیت وافادیت کے بارے میں آگاہی دی جاتی ہے تاکہ بچے عملی زندگی میں سبق کے مقاصد سے فائدہ اٹھا سکیں، اس طرح اسباق اپلائیڈ نالج (applied knowledge) بن گئے۔ علم کو موثر اور بامقصد بنانے کیلئے ایس ایل اوز اپروچ طلبہ میں تبدیلی لانے کیلئے مددگار ثابت ہوتی ہے۔ اکثر طلباء تعلیم کو عجیب سی ذہنی مشق سمجھتے ہیں، ایس ایل اوز سے ان کی یہ اجنبیت دور کرنے میں معاون ثابت ہوتے ہیں۔ ایس ایل اوز سے طلبہ میں آگاہی بڑھتی ہے اور وہ علم میں دلچسپی لینے لگ جاتے ہیں، طلبہ کو عام زبان اور بحث و مباحثہ کیلئے ڈھانچہ مل جاتا ہے، سبق دہرانے کا موقع مل جاتا ہے، نصاب میں تبدیلی لانے کیلئے اپروچ مل جاتی ہے۔ ایس ایل اوز کی تین اقسام ہیں۔
(1)اداراتی: جس کا مقصد ادارے سے ڈگری حاصل کرنا ہے، اس دوران بچے کی سوچ کو تنقیدی بنایا جاتا ہے، اس میں تجزیہ کرنے کی صلاحیت، دلائل لانے، ثبوت کا موازنہ کرنے، نتائج اخذ کرنے، بات چیت کرنے، خود کے بارے میں آگاہی، ذاتی عوامل اور سماجی ذمہ داری، دنیا کے بارے میں آگاہی اور ٹیکنالوجی کے بارے میں شعور کی تربیت دی جاتی ہے۔ (2) پروگرام کی سطح پر: جس کا مقصد پروگرام ختم کرنا اور طلباء کی سرگرمیوں کو پایہ تکمیل تک پہنچانا۔ اس قسم کے ایس ایل اوز کے تحت بچے کو تازہ ترین معاشرتی ایشوز پر مضامین لکھوائے جاتے ہیں۔ علاقائی یا بین الاقوامی رہنماء تقاریر کا موازنہ کرایا جا سکتا ہے۔ دونوں طریقوں سے بچے کی لکھنے اور بولنے کی صلاحیت میں اضافہ ہوتا ہے۔ بچے کی سیکھنے کی صلاحیتوں کو سمجھ کر مختلف النوع حکمت عملی اختیار کی جا سکتی ہے۔ پڑھانے کیلئے مختلف منصوبے بنائے جا سکتے ہیں۔ (3) کورس کی سطح پر: کورس کو مکمل کرنا۔ کورس کو سالانہ یا سہ ماہی بنیادوں پر مقررہ مدت میں ختم کیا جاتا ہے۔
عمومی اور خصوصی مقاصد بھی سبق کا حصہ ہیں جن میں بچوں کو سبق کا تعارف کرایا جاتا ہے اور عام و عملی زندگی میں سبق کے مقاصد پر سیر حاصل بحث کی جاتی ہے۔ اساتذہ کیلئے سبق کے بنچ مارکس (benchmarks) سمجھنا بھی ضروری ہیں کیونکہ نئی کتابیں لکھتے وقت بنچ مارکس کو مدنظر رکھا گیا ہے۔ بنچ مارکس کا مطلب ایک ایسا معیار ہے جس کے تحت چیزوں کا موازنہ کیا جاتا ہے یا معیار کے ساتھ چیزوں کا تجزیہ کیا جاتا ہے۔ بنچ مارکس کا تعلیم میں بڑا اہم کردار ہے کیوں کہ موازنہ کرنا سیکھنے کا ایک بہترین طریقہ ہے۔ اس سے مشکل سے مشکل سبق قابل فہم بن جاتا ہے۔ یہ ہمارے رد عمل کو برقرار رکھتے ہیں اور اس میں بہتری لاتے ہیں۔ ناکامی کی وجہ سے پیدا ہونے والے خلا کو بھرتے ہوئے کامیابی کی پیمائش میں مد دیتے ہیں۔ بہتری کے مواقع کی نشاندہی کرتے ہیں۔ اس طرح متوازن شخصیت کی تعمیر میں مدد ملتی ہے۔
مشق کو سات حصوں میں تقسیم کے معاملے میں سستی برتی گئی ہے۔ مثلاً اردو اور انگریزی میں اسباق کو جن سات حصوں میں تقسیم کیا گیا وہ درج ذیل ہیں۔ ریڈنگ سکل (reading skill)، رائٹنگ سکل (writing skill)، لسننگ سکل (listening skill)، سپیکنگ سکل (speaking skill)، گرائمر سکل (grammer skill)، ووکیبلری سکل (vocabulary skill) اور کری ایٹو سکل (creative skill) لیکن یہ ساتوں سکلز ترتیب کے ساتھ خال خال ہی ملتی ہیں۔ ان مہارتوں میں بہتری لانے کیلئے مختلف مشقیں بھی تجویز کی گئیں ہیں۔ اگر ان ساتوں مہارتوں کی بنیاد پر تدریس شروع کر دی جائے تو رٹے سے چھٹکارا پانا کافی حد تک ممکن ہے۔ بچوں کو جب ان مہارتوں کو مدنظر رکھ کر پڑھنے، لکھنے، سننے کی پریکٹس کرائی جائے گی تو ان کو رٹے سے چھٹکارا ملنے کے امکانات بڑھ جائیں گے۔ جب ان کے اسباق میں سے مشکل الفاظ کو پڑھنے کی تراکیب اور مطالب کی تشریح ہو جائے گی توان کیلئے سبق کا مفہوم اور مقصد سمجھنا آسان ہو جائے گا، اس طرح کی مشقوں سے نہ صرف بچوں کے ذخیرہ الفاظ میں اضافہ ہو گا بلکہ اعتماد کی سطح بھی بلند ہو گی۔
گرائمر کی مہارتوں سے فقرے کی ساخت اور مفہوم کو سمجھنے میں مدد ملے گی۔ ان تمام مشقوں سے بچہ آگے بڑھتے ہوئے تخلیقی صلاحیت کی دنیا میں قدم رکھ دے گا۔ بچے کو سبق سے متعلق کوئی بھی موضوع دیا جا سکتا ہے یا بچے کو کم از کم اسی سبق کی اپنے الفاظ میں سمری ہی لکھنے کیلئے دے دی جائے تو اس کی تخلیقی صلاحیت بڑھے گی۔ جدید نصاب کو پڑھانے کیلئے اساتذہ کو جی ٹی میتھڈ (grammer-translation ) کے تحت بیک وقت بچوں کو اردو اور انگریزی زبان میں پڑھایا جا سکتا ہے اورلیکچر میتھڈ (lecture method) جسے اردو میں تقریری طریقہ بھی کہتے ہیں، اس میں کلاس کو زبانی لیکچر دیا جاتا ہے سے بخوبی آگاہ ہونا ضروری ہے کیونکہ یہ دونوں طریقے بائی لنگوول (bilingual ) بچوں کیلئے بہت مفید ہیں۔ اس جدید طرز کے سلیبس کو پڑھانے کیلئے اساتذہ کی تربیت کی اشد ضرورت ہے۔اساتذہ کو ایس ایل اوزکے بارے میں مکمل آگاہی دینی ضروری ہے۔ علاوہ ازیں اساتذہ کو مختلف سکلز کی مشقوں کی پریکٹس کرائی جانی چاہیے تاکہ وہ بچوں کی متذکرہ بالا مہارتوں میں بہتری لاسکیں۔ سب سے بڑھ کر طرز تکلم اور طرز تدریس میں بہتری کیلئے اساتذہ کی سوچ بدلنا نہایت ضروری ہے۔