آدھے اِدھر آدھے اُدھر باقی میرے پیچھے
اور یہ کہ ‘‘عاشق‘‘ کے لیے یکساں تصویر یا بیانیہ خلوت اعیانیہ، یہ خلوت عامیانہ۔ والی بات ہو جاتی ہے۔
حکومت کروں؟ مگر کس پر؟ یہ مکالمہ ایک فلم کا ہے لیکن ہمیں لگتا ہے کہ آج کل میں یہ منصہ شہود پر بھی آنے والا ہے۔ ہوا یوں کہ بدمعاشوں کا ایک بڑا گینگ تھا جو ایک ایسے شخص کوبھی قتل کردیتاہے جس کا بوڑھاباپ اپنے وقت کا بہت بڑا گینگسٹر اور شارپ شوٹر رہاتھا۔ اس بوڑھے نے کسی نہ کسی طرح اس گینگ سے رابطہ کیا اور اپنی شارپ شوٹنگ کے ہنر کے ذریعے گینگ میں شامل ہوگیا اور ایک دن موقع پاکر ایک ہی وقت میں سارے گینگ کا خاتمہ کرڈالا ، صرف ایک معمولی سا غنڈا بچاتھا جو ڈر کے مارے کانپ رہاتھا۔ شارپ شوٹر نے اسے کہا، گھبراو نہیں میں تمہیں نہیں ماروں گا۔
اس سردار کی کرسی پربیٹھ اور حکومت کر۔ اس ڈرے ہوئے غنڈے نے کہا ، حکومت کروں؟ مگرکس پر؟کیونکہ گینگ کا تو صفایا ہو چکاتھا۔ آپ کا کیاخیال ہے۔یہ قصہ ہم نے محض قصہ برائے قصہ اور آپ کو انٹرٹین کرنے کے لیے سنایا۔بلکہ اس لیے سنایا کہ ہم دھندلے مستقبل میں دیکھ رہے ہیں اور ایسا کچھ دکھائی دے رہا ہے، شاید یہ ہمارا وہم ہو لیکن جو حالات اس وقت چل رہے ہیں، اس سے تو لگتاہے کہ شاید یہ ہمارا وہم نہ ہو بلکہ مستقبل کی جھلک ہو۔ یہ تو آپ بھی دیکھ رہے ہیں کہ سندیسے سنانے والے ایک دوسرے سے مشورہ کیے اور اپنے خیالات شئیر کیے بغیر روزانہ نماز کی سی باقاعدگی سے خوشخبریاں سنا رہے ہیں۔ بلکہ ان میں سے بعض تو بجائے خود بہت بڑی بڑی خوش خبریاں ہیں کم از کم تصویروں جلوہ گریوں اور نام کی حد تک تو اتنی بڑی سراپا خوش خبری ہی خوش خبریں ہیں کہ دیکھ اور سن کر:
موج خرام ساقی و ذوق صدائے چنگ
وہ جنت نگاہ یہ ''فردوس'' گوش تک
اور یہ کہ ''عاشق'' کے لیے یکساں تصویر یا بیانیہ خلوت اعیانیہ، یہ خلوت عامیانہ۔ والی بات ہو جاتی ہے۔ اس موقع پر ایک لطیفہ دُم ہلانے لگا ہے، اس سے بھی نبٹتے ہیں۔ کہ ایک ''خاص'' نے ایک انجر پنچر دبلے پتلے، حاسد ایکسرے شخص کو دیکھ کر پھبتی کسی کہ تمہیں دیکھ کر لوگ کہیں گے کہ ملک میں قحط ہے۔ اس پر ڈھانچے نے جواب دیا کہ۔ اور تمہیں دیکھ کر قحط کی وجہ بھی سمجھ آ جائے گی۔ اب ''قحط'' اور قحط کی ''وجوہات'' کی تفصیل بتائیں گے کہ ''عیاں'' را چہ ''بیاں۔ کیونکہ آثار تو نظر آنے لگے ہیں ،کچھ ہی دنوں میں آپ قحط دیکھ بھی لیں گے اور وہ بھی حق الیقین کے درجے میں۔ لیکن ہم دوسرے قحط کی بات کرتے ہیں جسے ''قحط الرجال'' کہا جاتا ہے۔ قحط الرجال کا معاملہ عام قحط سے قطعی مختلف ہوتا ہے۔ عام قحط تو قلت سے پیدا ہوتا ہے لیکن قحط الرجال کی وجہ ''کثرت الرجال'' ہوتی ہے۔ کہ اس میں ''رجال'' اتنے زیادہ ہو جاتے ہیں کہ ''رجل'' کہیں گم ہو جاتا ہے اور صرف قحط رہ جاتا ہے اور ہم تم سب دیکھ رہے ہیں کہ
جہل فرد نے دن یہ دکھائے
گھٹ گئے انساں بڑھ گئے سائے
وہ وہ رجل دیکھنے میں آ رہے ہیں کہ ''آدمی خجل'' ہو کر رہ جائے اور زمانہ ''دجل'' پر اتر آئے۔ کھیل جنگ بن جائے اور جنگ کو کھیل سمجھ لیا جائے۔ اس سلسلے میں بھی مرشد کا ایک شعر ہے کہ:
قطرہ میں دجلہ دکھائی نہ دے اور جزو میں کلُ
کھیل لڑکوں کا ہوا دیدۂ بینا نہ ہوا
اور اس وقت بھی گلی گلی کوچے کوچے بلکہ سڑک سڑک ''کھیل'' لڑکوں کا ہی جاری ہے۔ لیکن اس میں سدا سدا کے منفرد پاکستانیوں نے یہ انفرادیت نکالی ہے کہ لڑکے ہی قطرے میں ''دجلہ'' نہ صرف دیکھ رہے ہیں بلکہ دکھا بھی رہے ہیں اور اس سے بھی زیادہ تعجب کی بات یہ ہے کہ ''لوگ دیکھ بھی رہے ہیں''۔ مشتاق احمدیوسفی نے ایک جگہ لکھا ہے کہ ہمارے ہاں اب بھی بخار، اسہال اور ہیضے کا علاج تعویز سے کیا جا رہا ہے اور مزے کی بات یہ کہ وہ ''اچھے'' بھی ہو جاتے ہیں۔ لیکن یوسفی صاحب کو اس پر تعجب اس لیے تھا کہ وہ ''عقیدے'' کی طاقت سے واقف نہیں تھے۔ عقیدہ ہو تو لوگ ''پیروں'' کو اڑتا ہوا بھی دیکھ لیتے ہیں۔
پیران نمی پرد مریدان می پرانند
پیر اڑتے نہیں ہیں لیکن مرید ان کو اڑاتے رہتے ہیں۔ اب اس بات کی دمُ ہم موجودہ سلسلہ ''عمرانیہ انصافیہ تبدیلیہ'' کی طرف بھی موڑ سکتے ہیں لیکن نہیں موڑیں گے کیونکہ اب وہ اتنی ٹیڑھی ہو چکی ہے کہ مزید موڑنے یا سیدھی ہونے کی گنجائش ہی ختم ہو چکی ہے۔ پشتو میں ایک کہاوت ہے کہ پیڑ کو دیکھ پھر اس کے سائے میں بیٹھو۔ اور پاکستانیوں کا سب سے بڑا پرانا اور جدی پشتی المیہ یہ ہے کہ ''پیڑ'' کو دیکھے بغیر اس کی چھاؤں میں بیٹھ جاتے ہیں۔ یہ پتہ تو بعد میں چلتا ہے کہ پیڑ تھا ہی نہیں صرف کانٹوں بھری جھاڑی کا کھجلی بھرا درخت یا کیکر تھا۔
اب لوٹتے ہیں اصل قصے کی طرف کہ اس غنڈے نے کہا حکومت؟ مگر کروں گا کس پر۔ ہم بلا شک و شبہ یقین کیے لیتے ہیں کہ بنیادیں ڈال دی ہیں بس کچھ دنوں کی بات ہے پھر نیا پاکستان تعمیر ہو جائے گا لیکن اس کی کیا گارنٹی ہے کہ کون جیتا ہے تری زلف کے سر ہونے تک۔ اس وقت تک کوئی زندہ بچا بھی ہو گا یا۔ تا تریاق از عراق آوردہ شود۔ مار گزیدہ مردہ شود۔ گرنے کے بعد ہوش میں آئے تو کیا ہوا۔ ویسے اس میں ایک قرینہ تو ہے، شاید آدھے مرنے والوں کا ترکہ آدھے زندوں کو مل جانے پر وہ ہو جائے جس کی خوشخبریاں فردوس گوش ہو رہی ہیں ویسے بھی انصاف کا مطلب نصف نصف کرنا ہی ہوتا ہے۔ آدھے ادھر جائیں آدھے ادھر اور باقی میرے پیچھے آئیں۔
اس سردار کی کرسی پربیٹھ اور حکومت کر۔ اس ڈرے ہوئے غنڈے نے کہا ، حکومت کروں؟ مگرکس پر؟کیونکہ گینگ کا تو صفایا ہو چکاتھا۔ آپ کا کیاخیال ہے۔یہ قصہ ہم نے محض قصہ برائے قصہ اور آپ کو انٹرٹین کرنے کے لیے سنایا۔بلکہ اس لیے سنایا کہ ہم دھندلے مستقبل میں دیکھ رہے ہیں اور ایسا کچھ دکھائی دے رہا ہے، شاید یہ ہمارا وہم ہو لیکن جو حالات اس وقت چل رہے ہیں، اس سے تو لگتاہے کہ شاید یہ ہمارا وہم نہ ہو بلکہ مستقبل کی جھلک ہو۔ یہ تو آپ بھی دیکھ رہے ہیں کہ سندیسے سنانے والے ایک دوسرے سے مشورہ کیے اور اپنے خیالات شئیر کیے بغیر روزانہ نماز کی سی باقاعدگی سے خوشخبریاں سنا رہے ہیں۔ بلکہ ان میں سے بعض تو بجائے خود بہت بڑی بڑی خوش خبریاں ہیں کم از کم تصویروں جلوہ گریوں اور نام کی حد تک تو اتنی بڑی سراپا خوش خبری ہی خوش خبریں ہیں کہ دیکھ اور سن کر:
موج خرام ساقی و ذوق صدائے چنگ
وہ جنت نگاہ یہ ''فردوس'' گوش تک
اور یہ کہ ''عاشق'' کے لیے یکساں تصویر یا بیانیہ خلوت اعیانیہ، یہ خلوت عامیانہ۔ والی بات ہو جاتی ہے۔ اس موقع پر ایک لطیفہ دُم ہلانے لگا ہے، اس سے بھی نبٹتے ہیں۔ کہ ایک ''خاص'' نے ایک انجر پنچر دبلے پتلے، حاسد ایکسرے شخص کو دیکھ کر پھبتی کسی کہ تمہیں دیکھ کر لوگ کہیں گے کہ ملک میں قحط ہے۔ اس پر ڈھانچے نے جواب دیا کہ۔ اور تمہیں دیکھ کر قحط کی وجہ بھی سمجھ آ جائے گی۔ اب ''قحط'' اور قحط کی ''وجوہات'' کی تفصیل بتائیں گے کہ ''عیاں'' را چہ ''بیاں۔ کیونکہ آثار تو نظر آنے لگے ہیں ،کچھ ہی دنوں میں آپ قحط دیکھ بھی لیں گے اور وہ بھی حق الیقین کے درجے میں۔ لیکن ہم دوسرے قحط کی بات کرتے ہیں جسے ''قحط الرجال'' کہا جاتا ہے۔ قحط الرجال کا معاملہ عام قحط سے قطعی مختلف ہوتا ہے۔ عام قحط تو قلت سے پیدا ہوتا ہے لیکن قحط الرجال کی وجہ ''کثرت الرجال'' ہوتی ہے۔ کہ اس میں ''رجال'' اتنے زیادہ ہو جاتے ہیں کہ ''رجل'' کہیں گم ہو جاتا ہے اور صرف قحط رہ جاتا ہے اور ہم تم سب دیکھ رہے ہیں کہ
جہل فرد نے دن یہ دکھائے
گھٹ گئے انساں بڑھ گئے سائے
وہ وہ رجل دیکھنے میں آ رہے ہیں کہ ''آدمی خجل'' ہو کر رہ جائے اور زمانہ ''دجل'' پر اتر آئے۔ کھیل جنگ بن جائے اور جنگ کو کھیل سمجھ لیا جائے۔ اس سلسلے میں بھی مرشد کا ایک شعر ہے کہ:
قطرہ میں دجلہ دکھائی نہ دے اور جزو میں کلُ
کھیل لڑکوں کا ہوا دیدۂ بینا نہ ہوا
اور اس وقت بھی گلی گلی کوچے کوچے بلکہ سڑک سڑک ''کھیل'' لڑکوں کا ہی جاری ہے۔ لیکن اس میں سدا سدا کے منفرد پاکستانیوں نے یہ انفرادیت نکالی ہے کہ لڑکے ہی قطرے میں ''دجلہ'' نہ صرف دیکھ رہے ہیں بلکہ دکھا بھی رہے ہیں اور اس سے بھی زیادہ تعجب کی بات یہ ہے کہ ''لوگ دیکھ بھی رہے ہیں''۔ مشتاق احمدیوسفی نے ایک جگہ لکھا ہے کہ ہمارے ہاں اب بھی بخار، اسہال اور ہیضے کا علاج تعویز سے کیا جا رہا ہے اور مزے کی بات یہ کہ وہ ''اچھے'' بھی ہو جاتے ہیں۔ لیکن یوسفی صاحب کو اس پر تعجب اس لیے تھا کہ وہ ''عقیدے'' کی طاقت سے واقف نہیں تھے۔ عقیدہ ہو تو لوگ ''پیروں'' کو اڑتا ہوا بھی دیکھ لیتے ہیں۔
پیران نمی پرد مریدان می پرانند
پیر اڑتے نہیں ہیں لیکن مرید ان کو اڑاتے رہتے ہیں۔ اب اس بات کی دمُ ہم موجودہ سلسلہ ''عمرانیہ انصافیہ تبدیلیہ'' کی طرف بھی موڑ سکتے ہیں لیکن نہیں موڑیں گے کیونکہ اب وہ اتنی ٹیڑھی ہو چکی ہے کہ مزید موڑنے یا سیدھی ہونے کی گنجائش ہی ختم ہو چکی ہے۔ پشتو میں ایک کہاوت ہے کہ پیڑ کو دیکھ پھر اس کے سائے میں بیٹھو۔ اور پاکستانیوں کا سب سے بڑا پرانا اور جدی پشتی المیہ یہ ہے کہ ''پیڑ'' کو دیکھے بغیر اس کی چھاؤں میں بیٹھ جاتے ہیں۔ یہ پتہ تو بعد میں چلتا ہے کہ پیڑ تھا ہی نہیں صرف کانٹوں بھری جھاڑی کا کھجلی بھرا درخت یا کیکر تھا۔
اب لوٹتے ہیں اصل قصے کی طرف کہ اس غنڈے نے کہا حکومت؟ مگر کروں گا کس پر۔ ہم بلا شک و شبہ یقین کیے لیتے ہیں کہ بنیادیں ڈال دی ہیں بس کچھ دنوں کی بات ہے پھر نیا پاکستان تعمیر ہو جائے گا لیکن اس کی کیا گارنٹی ہے کہ کون جیتا ہے تری زلف کے سر ہونے تک۔ اس وقت تک کوئی زندہ بچا بھی ہو گا یا۔ تا تریاق از عراق آوردہ شود۔ مار گزیدہ مردہ شود۔ گرنے کے بعد ہوش میں آئے تو کیا ہوا۔ ویسے اس میں ایک قرینہ تو ہے، شاید آدھے مرنے والوں کا ترکہ آدھے زندوں کو مل جانے پر وہ ہو جائے جس کی خوشخبریاں فردوس گوش ہو رہی ہیں ویسے بھی انصاف کا مطلب نصف نصف کرنا ہی ہوتا ہے۔ آدھے ادھر جائیں آدھے ادھر اور باقی میرے پیچھے آئیں۔