دہشت گردی اور ادیب
یہ المناک صداقت ہے کہ چند ادیبوں اور دانشوروں کو چھوڑ کر ان کی اکثریت ہماری فوجی آمریتوں کے سامنے سر بہ زانو رہی۔
ادھرکچھ دنوں سے دہشتگردی کا محاذ قدرے خاموش تھا لیکن دو دن پہلے ڈیرہ اسماعیل خان سے ایک بار پھر خبر آئی ہے کہ ایک عورت نے خودکش دھماکا کیا اور اپنے ساتھ کئی دوسروں کو لے گئی۔ جان کسے پیاری نہیں ہوتی اور وہ بھی ایک عورت کو جو خواب دیکھتی ہے، نئی نسل کو پروان چڑھانے کے خواب۔ ایسے میں خودکش دھماکے سے اپنی جان اور اپنے خوابوں کو ریزہ ریزہ کردینا ایک غیر معمولی رویہ ہے۔ یہ واقعات ہمارے یہاں سالہا سال سے ہو رہے ہیں جنھوں نے ہم سب کو مضطرب کر رکھا ہے، بہ طور خاص ادیب اس سے نہایت دل گرفتہ ہیں۔
ہمیں تسلیم کرنا چاہیے آج جس دہشتگردی کا ہمیں سامنا ہے اس کے بیج مارچ 1948 میں اس وقت بوئے گئے تھے جب پاکستان کی آئین ساز اسمبلی میں قرارداد مقاصد منظور کی گئی تھی اور ملک کو مذہبی عناصر کی مرضی و منشا کے مطابق چلانے کا فیصلہ کرلیا گیا تھا لیکن اس وقت ہمارے دانشوروں اور ادیبوں کی اکثریت نے اس کے خلاف احتجاج نہیں کیا تھا۔ یہ عناصر طاقتور ہوتے چلے گئے۔ ہمارے ادیبوں اور دانشوروں نے جنرل ایوب خان کے اقتدار پر قبضے کے وقت بھی اجتماعی طور سے آواز بلند نہیں کی بلکہ ادیبوں اور دانشوروں کے نمایندہ اجتماع میں انھیں سپاس نامے پیش کیے گئے۔
فیضؔ، سبط حسن اور کئی دوسرے قید و بند کی صعوبتوں سے گزرے، حسن ناصر اذیتیں دے کر ہلاک کیے گئے لیکن اس وقت بھی عمومی طور سے ہمارے یہاں سناٹا رہا۔ جنرل یحییٰ خان کے دور میں دائیں بازو کو اصل عروج حاصل ہوا اور مذہبی انتہا پسندی کی جڑیں مضبوط ہوگئیں، مشرقی پاکستان پر ہونے والی لشکر کشی کے خلاف بھی ہمارے بیشتر ادیب خاموش رہے اور چند کے سوا کسی نے بھی اس قومی سانحے پر آواز بلند نہیں کی۔ بھٹو صاحب کا دور مذہبی انتہاپسندی کے حوالے سے ایک نرم دور کہا جا سکتا ہے۔ لیکن جنرل ضیا الحق نے اسلام کے نام پر جس ریاستی تشدد اور انتہا پسندی کو فروغ دیا، آج ہم اس کی لہلہاتی ہوئی فصل ''دہشتگردی'' کی شکل میں دیکھ رہے ہیں۔
یہ جنرل ضیا الحق ہی تو تھے کہ انھوں نے بھٹو کی سولی کے سائے میں ادیبوں اور دانشوروں کے لیے دسترخوان بچھایا اور دبدبے کے ساتھ ادیبوں کی 11 اپریل 1979کی اس محفل میں یہ اعلان کیا کہ جو ''اہل علم، ادیب اور مصنف پاکستان کے ساتھ اپنے تشخص پر شرم محسوس کرتے ہیں، ان کے لیے پاکستان کا رزق، یہاں کا پانی اور اس ملک کا سایہ اور اس کی چاندنی حرام ہے'' تو افسوس کہ ادیبوں کے اس بڑے اجتماع میں سے کوئی ایک لکھنے والا بھی اٹھ کر کھڑا نہیں ہوا جو اقتدار پر غاصبانہ قبضہ کرنے اور 7 دن پہلے کے منتخب وزیر اعظم کو پھانسی دینے والے سے یہ سوال کرتا کہ وہ معتوب ادیبوں اور دانشوروں میں سے کسی ایک کا نام لے دیں جس نے اپنے پاکستانی تشخص پر شرم محسوس کی ہو، جنرل ضیا الحق جن معدودے چند ادیبوں کی طرف اشارہ کر رہے تھے یہ وہ لوگ تھے جن کا جرم یہ تھا کہ وہ اس سرزمین اور یہاں رہنے والے محروم اور مظلوم لوگوں کے لیے اچھے دنوں کے خواب دیکھتے تھے۔
ایک ایسے سیاسی نظام کے طلبگار تھے جہاں لوگوں کو ان کا انسانی اور جمہوری حق مل سکے، جہاں جاگیرداروں سے زمینیں لے کر بے زمین کسانوں میں تقسیم کی جا سکیں، جہاں کلرکوں کے بچے تعلیم حاصل کر سکیں اور جہاں اقلیتوں اور عورتوں کو بھی انسان سمجھا جائے۔
یہ المناک صداقت ہے کہ چند ادیبوں اور دانشوروں کو چھوڑ کر ان کی اکثریت ہماری فوجی آمریتوں کے سامنے سر بہ زانو رہی، یہ اس دورکے صحافی تھے جنھوں نے جنرل شاہی کے خلاف شاندار لڑائی لڑی۔ کوڑے کھائے، جیلوں میں گئے، روزگار سے محروم کیے گئے۔ جنرل ایوب خان، جنرل یحییٰ خان، جنرل ضیا الحق اور جنرل پرویز مشرف سب ہی قصہ کہانی ہوئے لیکن ان کے ادوار حکومت میں ادب اور صحافت کی، شاعری اور دانشوری کی جن ''سفید بھیڑوں'' نے ان کی مدح سرائی کی، ان کے زمانے کو سنہرا زمانہ کہا، وہ سب کچھ ان '' کالی بھیڑوں'' کو آج بھی یاد ہے جن پر جنرل ضیا الحق گرجے برسے تھے اور پاکستان کا دانہ پانی حرام کر دینے کی بات کرتے تھے۔
ادیب خواہ اس بات کو تسلیم کریں یا نہ کریں لیکن حقیقت یہی ہے کہ ان کا لکھا ہوا ہر لفظ سماج پر کسی نہ کسی طور اور کسی نہ کسی سطح پر ضرور اثر انداز ہوتا ہے اور اس کے جلد یا بہ دیر نتائج بھی برآمد ہوتے ہیں۔ اس تناظر میں وقوع پذیر ہونے والے نتائج کی ذمے داری ادیب پر عائد ہوتی ہے۔ یہ نکتہ جب تسلیم کر لیا جائے کہ لکھا ہوا ہر لفظ نتائج پیدا کرتا ہے اور لکھنے والا ان کا ذمے دار ہوتا ہے تو پھر اس بات پر اتفاق رائے پیدا کرنا ہو گا کہ وہ کون سے عوامل ہیں جن کی پاسداری ہر ادیب اور دانشور پر لازم ہے۔
یہ ادیبوں اور تمام لکھنے والوں کی ذمے داری ہے کہ وہ سماج کو ہر نوعیت کے امتیاز سے پاک کرنے، قانون کی حکمرانی اور ریاست میں سب کے لیے مساوی قوانین کے لیے جدوجہد کریں۔ اس بات پر اصرار کریں کہ حقوق انسانی اور بنیادی حقوق کی پامالی نہیں ہونی چاہیے اور یہ کہ عوام کو اپنے منتخب نمایندوں کے ذریعے حکمرانی کرنے کا حق حاصل ہے۔ عوام کے مینڈیٹ کا احترام کیا جائے اور کوئی فرد یا ادارہ پارلیمنٹ سے بالادست نہ ہو۔ اسی طرح معاشی نظام منصفانہ ہو، اظہار رائے کی آزادی ہو اور کسی بھی نوعیت کی انتہا پسندی، عسکریت پسندی یا دہشتگردی کو قبول نہ کیا جائے۔
آج پاکستان کے ادیبوں کا فرض بنتا ہے کہ ملک میں تمام امتیازی قوانین کے خاتمے کے لیے آواز بلند کریں۔ پاکستان کے ہر شہری کو مساوی حقوق دلانے کی بات کریں، انھیں یہ کہنا چاہیے کہ یہ اعزاز کسی غیر مسلم اور عورت کے حصے میں بھی آئے کہ وہ سربراہ ریاست بن سکے۔ پاکستان ایک وفاق ہے اس میں شامل تمام قومیتوں کی زبانوں کو قومی زبانوں کا درجہ صرف کاغذ پر نہیں دیا جائے اس پر عمل بھی ہونا چاہیے۔ ہمیں فوجی آمروں کی ستائش کرنے، ان سے اعزازات اور تمغے حاصل کرنے کے بجائے ان کی مزاحمت کرنی چاہیے اور عسکریت پسندی اور مذہبی انتہا پسندی کی لہر کو روکنے کے لیے انسان دوست فکر اور نظریات کو فروغ دیا جائے۔
یوں بھی ہم ایک ایسی دھرتی پر سانس لیتے ہیں جو صوفیا کی سرزمین کہلاتی ہے جنھوں نے اپنے کلام اور افکار سے انسان دوستی اور وسیع المشربی کو فروغ دیا تھا اور آج بھی انھی کے دم قدم کی برکت ہے کہ ہمارے لوگ انسانیت کے رشتے کو ہر رشتے سے افضل سمجھتے ہیں۔ وہ ادیب، شاعر اور دانشور جنھوں نے فوجی آمروں کو خوش آمدید کہا تھا اور ان کی تعریف اور توصیف کی تھی، عوام سے معذرت ان پر قرض ہے۔
اس وقت پاکستان اور ہندوستان کے درمیان جنگ جوئی کی جو فضا ہے اس کو ختم کرنے اور امن کو قائم کرنے میں دانشور اور ادیب اپنا کردار ادا کر سکتے ہیں۔ ان ادیبوں کا قلم دونوں ملکوں کے زخموں کو رفو کر سکتا ہے۔ اس موقع پر مجھے دنیا کے عظیم شاعر پابلو نرودا کی تقریر کے جملے یاد آ رہے ہیں جو اس نے 1971میں ادب کا نوبل انعام قبول کرتے ہوئے کی تھی اور کہا تھا کہ ''شاعر اور لکھنے والے کی حیثیت سے ہمیں صرف عام انسانوں تک ہی نہیں پہنچنا بلکہ اس دنیا پر گزری ہوئی صدیوں پرانی روایتوں، ناانصافیوں، جھوٹ اور افلاس کے خلاف آواز اٹھانی ہے۔ ان پر کڑی تنقید کرنی ہے اور ساتھ ہی ماضی میں اور ہر دور میں دہرائی جانے والی ان خواہشوں، آرزوؤں اور تمناؤں کو اپنے اندر سمونا ہے جن کی تکمیل کا خواب فنکار نے ہر عہد میں دیکھا ہے۔''
قرارداد مقاصد سے جنرل ضیا الحق اور بعد میں جنرل پرویز مشرف کی آمریت تک مذہبی انتہا پسندی کو ہماری ریاست نے بہت اہتمام سے پروان چڑھایا۔ سعودی عرب سے دولت کا سیل رواں جاری رہا، ہزاروں مدرسے وجود میں آئے اور امریکی ڈالروں سے ''مجاہدین'' پرورش کیے گئے۔ ان کی مدد سے سوویت فوجوں کی افغانستان سے واپسی ہوئی تو انھیں ملک میں ہیرو بنا کر پیش کیا گیا اور انتہا پسند عناصر کی سرپرستی ہوئی اور انھیں طاقت بہم پہنچائی گئی۔
80ء کی دہائی میں امریکی رضا سے ''مجاہدین'' پرورش کیے گئے تھے سنہ 2000کی پہلی دہائی میں جب امریکا کے حکم پر وہی ''دہشت گرد'' قرار پائے اور ان کا ستھراؤ کیا جانے لگا تو انھیں پلٹ کر وار تو کرنا تھا۔ وہ عناصر اور تنظیمیں جنھیں پاکستان کی مقتدر اشرافیہ اپنا ''اسٹرٹیجک'' اثاثہ کہتی اور سمجھتی رہی ہے اور جسے ہندوستانی کشمیر اور دوسرے اہداف کے لیے سنبھال کر محفوظ رکھا گیا وہ آج ریاست کے اندر ریاست قائم کرنے میں کامیاب ہو چکے ہیں۔
پاکستانی دانشوروں اور ادیبوں کی اکثریت ان معاملات سے لاتعلق رہی، ریاست جس مذہبی انتہا پسندی کی سرپرستی کر رہی تھی اس کے خلاف ادیبوں اور دانشوروں نے کوئی احتجاجی تحریک نہیں چلائی۔ شاید اس بات کا ادراک نہیں کیا گیا کہ بہ طور گروہ اس وقت خاموشی ادیبوں اور دانشوروں کو کتنی مہنگی پڑے گی۔
آج ہونے والے دہشتگردی کے واقعات اور خودکش بم دھماکے اپنا ایک طویل اور تاریخی پس منظر رکھتے ہیں۔ اگر یہ سمجھ لیا جائے کہ ہم چند بیانات دے کر یا کسی بیان پر دستخط کر کے اپنی ذمے داری سے عہدہ برآ ہو جائیں گے تو یہ محض ہماری خام خیالی ہے۔ ہم دانشوری اور ادب کو بھی ایک جزوقتی کام سمجھتے رہے ہیں جو نادرست ہے۔ ہماری اکثریت جمہوری تحریکوں سے نہیں جڑی، ہم نے آمریت کے خلاف بڑے پیمانے پر جدوجہد نہیں کی۔ یہ بات بہ آواز بلند نہیں کہی کہ ریاست کو مذہبی معاملات میں اور مذہب کو ریاست میں دخل اندازی کا کوئی حق نہیں اور یہ کہ صرف جمہوریت ہی ہمارے تمام مسائل کا حل ہے۔ ہم نے یہ بھی نہیں سمجھا کہ انتخابات میں کسی ایک سیاسی جماعت کی کامیابی اور اس کے برسر اقتدار آ جانے کا نام جمہوریت نہیں، یہ ایک مجموعی رویہ ہے اور آہستہ آہستہ ہی سماج میں رائج ہوتا ہے۔ ہم نے یہ سب کچھ نہیں کیا اور اسی لیے ہمیں اب یہ دن دیکھنا پڑ رہے ہیں۔