پاکستان امریکا تعلقات کا مستقبل
ملکی صورت حال اورامریکا کے ساتھ مستقبل میں تعلقات کی نوعیت کیاہوگی اس کافیصلہ وزیر اعظم کے موجودہ دورے میں ہوجائے گا۔
ہمارے وزیر اعظم ان دنوں امریکا کے دورے پر ہیں، ان سے پہلے بھی ہمارے کئی وزراء اعظم اپنے لاؤ لشکر اور اہل خانہ کے ساتھ امریکا یاترا کر چکے ہیں ۔ کسی بھی سربراہ مملکت کے بیرون ملک دورے کے اخراجات اپنے ہی ملک کے خزانے سے ادا کیے جاتے ہیں سوائے ان چند مہمانوں کے جن کو میزبان نے دورے کی دعوت دی ہوتی ہے، ان چند مہمانوں کے علاوہ باقی لاؤ لشکر کے اخراجات کی ذمے داری ملکی خزانے کو برادشت کرنی پڑتی ہے اور بیرون ملک میں یہ فریضہ وہاں پر موجود سفارت خانے کے عملے کی مدد سے سرا نجام دیا جاتا ہے جن کو دورے کے شروع ہونے سے پہلے ہی ایک معقول رقم پہنچا دی جاتی ہے تا کہ اس سے معزز مہمانوں کی قیام و طعام کا بندوبست کیا جا سکے۔
میں خود ایسے کئی دوروں کی عیاشی کا گناہ کر چکا ہوں جب ماضی میں سربراہ مملکت کے ساتھ دورے کو کامیاب بنانے کے لیے اخبار نویسوں کا وفد لازم و ملزوم تھا اور دورے کی کامیابی کا انحصار اخبار نویسوں پر کیا جاتا تھا کہ وہ اگر سب اچھا کی رپورٹ دیں گے تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ دورہ کامیاب رہا ہے۔ یہ تو ماضی کی یادیں ہیں اب تو سنا ہے کہ حکومت نے ہماری اخبار نویس برادری کو لفٹ کرانی چھوڑ دی ہے اور صحافیوں کو اپنی صحافتی ذمے داریاں نبھانے کے لیے اپنے ادارے کے اخراجات پر سربراہ مملکت کا ہم سفر بننا پڑتا ہے۔ اخبار نویس اب حکومتی امداد سے بے نیاز ہو چکے ہیں یعنی حکومت کے مرہون منت نہیں رہے ۔
وزیر اعظم کا دورہ پاک امریکا تعلقات کے ایک نئے دور کا آغاز ہو گا۔ یہ دورہ اس وقت ہو رہا ہے جب ہمارے خطے کی سیاست میں ایک مرتبہ پھر ہلچل پیدا ہونے جا رہی ہے۔ امریکا افغانستان میں ایک بار پھر پاکستانی مدد کا خواہاں ہے جب کہ ایران کے ساتھ معاملات طے کرنے کے لیے بھی اسے پاکستان کی ضرورت ہے۔ اس لحاظ سے اگر دیکھا جائے تو ہمارے وزیر اعظم کے دورے کی اہمیت اور بھی بڑھ جاتی ہے۔
خارجہ محاذ کی اگر بات کی جائے تو گزشتہ ایک سال کے دوران پاکستان نے اپنی بہتر خارجہ پالیسی کے ذریعے پاکستان کا نقطہ نظر دنیا تک کامیابی سے پہنچایا ہے، یہی وجہ ہے کہ بھاری سرمایہ کاری کے باوجود بھارت افغانستان میں اپنے قدم جمانے سے محروم رہا ہے اور افغانستان کے ساتھ معاملات پاکستان کے ذریعے ہی حل کرنے کی منصوبہ بندی کی جا رہی ہے۔
پاکستان کی دوسری سرحد کی بات کی جائے تو امریکا اور ایران کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی میں پاکستان کا کردار بھی اہم ہو گا۔ امریکا کی یہ کوشش ہو گی کہ ایران کو ڈرا دھمکا کر اپنا مقصد حل کر لیا جائے ۔ ایران چونکہ پاکستان کا ہمسائیہ اور برادر اسلامی ملک ہے اس لیے امریکا کی یہ خواہش ہو گی کہ ایران کے ساتھ معاملات پاکستان کے ذریعے طے کیے جائیں۔ پاکستان جو اپنے قیام کے بعد سے ہی امریکا کا اتحادی رہا ہے، اس کی یہ کوشش ہو گی کہ اس خطے میں پاکستان کا کردار تعمیری ہو کیونکہ پاکستان اپنے کسی بھی ہمسائے اور خاص طور پر مسلمان ہمسائیہ ممالک کے ساتھ خراب تعلقات کو برداشت نہیں کر سکتا۔
امریکا جو کہ کبھی ہمارا قریبی دوست تھا اور جس نے پاکستان کو اپنی آہنی گرفت میں لے رکھا تھا، اب تک اس کی گرفت میں کوئی ڈھیل نہیں آئی، ہم نے اس آہنی گرفت سے نکلنے کی کوئی خاص کوشش بھی نہیں کی، اس لیے امریکا نہ صرف ہمارے سیاستدانوں کو اپنے قابو میں رکھتا ہے بلکہ ہماری اعلیٰ بیورو کریسی کو بھی کنٹرول کرتا ہے، اس کا تحفظ کرتا ہے، ہمارے بد عنوان بیورو کریٹ امریکا کی پناہ گاہ میں چلے جاتے ہیں۔
امریکا پاکستان کے اندر اور باہر ہر جگہ ہمارے ان افسر حکمرانوں کو تحفظ دیتا ہے، یہی وہ لوگ ہیں جنھوں نے پاکستان کو قرضوں کے مضبوط جال میں پھنسایا ہے اور ہم سب دیکھ رہے ہیں کہ نئی حکومت کو بھی تگنی کا ناچ نچا رہے ہیں۔
پاکستان اس وقت نہ صرف بیرونی دشمنوں میں گھرا ہوا ہے، اس کے اندر بھی با اثر دوستوں کی تعداد زیادہ نہیں ہے۔ پاکستان کے مسائل بے شمار ہیں اور باہر کی دنیا کے لیے اس کی ایٹمی گستاخی سر فہرست ہے ۔ عمران خان اس وقت ایک مشکل ملک کے سربراہ ہیں ۔ ایک ایسا ملک جس کے دشمنوں کی تعداد بے شمار مگر دوستوں کی بہت محدود ہے۔ عمران خان ایک چیلنج کے طور پر حکمرانی کر رہے ہیں اور یہ چیلنج انھوں نے از خود قبول کیا ہے، وہ عوام سے وعدوں کی بھر مار کر کے اقتدار تک پہنچے ہیں، ان وعدوں کو وفا انھوں نے خود کرنا ہے، اس میں ان کی مدد کسی نے نہیں کرنی، اگر کسی نے مدد کرنی ہے تو وہ عوام ہیں جن کو وہ اپنے گزشتہ ایک برس میں خوش نہیں کر سکے بلکہ انھوں نے ان کو صبر کرنے کا مشورہ دیا ہے۔ اگرچہ عوام تو ہر حکومت سے ناراض ہی رہتے ہیں مگر عوامی موڈ دیکھ کر کچھ سیاستدانوں نے اپنی سیاست چمکانے کی کوشش شروع کر دی ہے لیکن ابھی تک عوامی مزاج اس حد تک برہم نہیں ہوا کہ وہ اپوزیشن کی مدد کو آن پہنچے ۔ عوام کو اپنی حکومت سے شکایات ہیں لیکن وہ اس کو مزید وقت دینے کو تیار نظر آتے ہیں۔
ملکی صورت حال اور امریکا کے ساتھ مستقبل میں تعلقات کی نوعیت کیا ہو گی اس کا فیصلہ وزیر اعظم کے موجودہ دورے میں ہو جائے گا۔ اطلاعات کے مطابق عمران خان نے صدر ٹرمپ کے ساتھ پاکستان کا کیس بڑی وضاحت سے بیان کر دیا ہے اور مستقبل میں دونوں ملکوں کے درمیان تعاون کا عندیہ بھی دیا ہے۔ پاکستان اب اس مقام تک پہنچ چکا ہے جہاں پر اس کو امریکا کے ساتھ دوستی کو بڑ ھانے میں اپنے مفادات کو سامنے رکھنا ہو گا اور امریکا کو بھی برابری کی سطح پر نہ سہی لیکن ایک خود مختار ملک کے طور پر امریکا کو پاکستان کی خود مختاری کا پاس رکھنا ہو گا۔ اس سے معاملات سلجھیں گے اور یہ دونوں ملکوں کے مفاد کے لیے بہتر ہو گا۔ وزیر اعظم کے امریکی دورے کے متعلق مزید معروضات اگلے کالم میں۔
میں خود ایسے کئی دوروں کی عیاشی کا گناہ کر چکا ہوں جب ماضی میں سربراہ مملکت کے ساتھ دورے کو کامیاب بنانے کے لیے اخبار نویسوں کا وفد لازم و ملزوم تھا اور دورے کی کامیابی کا انحصار اخبار نویسوں پر کیا جاتا تھا کہ وہ اگر سب اچھا کی رپورٹ دیں گے تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ دورہ کامیاب رہا ہے۔ یہ تو ماضی کی یادیں ہیں اب تو سنا ہے کہ حکومت نے ہماری اخبار نویس برادری کو لفٹ کرانی چھوڑ دی ہے اور صحافیوں کو اپنی صحافتی ذمے داریاں نبھانے کے لیے اپنے ادارے کے اخراجات پر سربراہ مملکت کا ہم سفر بننا پڑتا ہے۔ اخبار نویس اب حکومتی امداد سے بے نیاز ہو چکے ہیں یعنی حکومت کے مرہون منت نہیں رہے ۔
وزیر اعظم کا دورہ پاک امریکا تعلقات کے ایک نئے دور کا آغاز ہو گا۔ یہ دورہ اس وقت ہو رہا ہے جب ہمارے خطے کی سیاست میں ایک مرتبہ پھر ہلچل پیدا ہونے جا رہی ہے۔ امریکا افغانستان میں ایک بار پھر پاکستانی مدد کا خواہاں ہے جب کہ ایران کے ساتھ معاملات طے کرنے کے لیے بھی اسے پاکستان کی ضرورت ہے۔ اس لحاظ سے اگر دیکھا جائے تو ہمارے وزیر اعظم کے دورے کی اہمیت اور بھی بڑھ جاتی ہے۔
خارجہ محاذ کی اگر بات کی جائے تو گزشتہ ایک سال کے دوران پاکستان نے اپنی بہتر خارجہ پالیسی کے ذریعے پاکستان کا نقطہ نظر دنیا تک کامیابی سے پہنچایا ہے، یہی وجہ ہے کہ بھاری سرمایہ کاری کے باوجود بھارت افغانستان میں اپنے قدم جمانے سے محروم رہا ہے اور افغانستان کے ساتھ معاملات پاکستان کے ذریعے ہی حل کرنے کی منصوبہ بندی کی جا رہی ہے۔
پاکستان کی دوسری سرحد کی بات کی جائے تو امریکا اور ایران کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی میں پاکستان کا کردار بھی اہم ہو گا۔ امریکا کی یہ کوشش ہو گی کہ ایران کو ڈرا دھمکا کر اپنا مقصد حل کر لیا جائے ۔ ایران چونکہ پاکستان کا ہمسائیہ اور برادر اسلامی ملک ہے اس لیے امریکا کی یہ خواہش ہو گی کہ ایران کے ساتھ معاملات پاکستان کے ذریعے طے کیے جائیں۔ پاکستان جو اپنے قیام کے بعد سے ہی امریکا کا اتحادی رہا ہے، اس کی یہ کوشش ہو گی کہ اس خطے میں پاکستان کا کردار تعمیری ہو کیونکہ پاکستان اپنے کسی بھی ہمسائے اور خاص طور پر مسلمان ہمسائیہ ممالک کے ساتھ خراب تعلقات کو برداشت نہیں کر سکتا۔
امریکا جو کہ کبھی ہمارا قریبی دوست تھا اور جس نے پاکستان کو اپنی آہنی گرفت میں لے رکھا تھا، اب تک اس کی گرفت میں کوئی ڈھیل نہیں آئی، ہم نے اس آہنی گرفت سے نکلنے کی کوئی خاص کوشش بھی نہیں کی، اس لیے امریکا نہ صرف ہمارے سیاستدانوں کو اپنے قابو میں رکھتا ہے بلکہ ہماری اعلیٰ بیورو کریسی کو بھی کنٹرول کرتا ہے، اس کا تحفظ کرتا ہے، ہمارے بد عنوان بیورو کریٹ امریکا کی پناہ گاہ میں چلے جاتے ہیں۔
امریکا پاکستان کے اندر اور باہر ہر جگہ ہمارے ان افسر حکمرانوں کو تحفظ دیتا ہے، یہی وہ لوگ ہیں جنھوں نے پاکستان کو قرضوں کے مضبوط جال میں پھنسایا ہے اور ہم سب دیکھ رہے ہیں کہ نئی حکومت کو بھی تگنی کا ناچ نچا رہے ہیں۔
پاکستان اس وقت نہ صرف بیرونی دشمنوں میں گھرا ہوا ہے، اس کے اندر بھی با اثر دوستوں کی تعداد زیادہ نہیں ہے۔ پاکستان کے مسائل بے شمار ہیں اور باہر کی دنیا کے لیے اس کی ایٹمی گستاخی سر فہرست ہے ۔ عمران خان اس وقت ایک مشکل ملک کے سربراہ ہیں ۔ ایک ایسا ملک جس کے دشمنوں کی تعداد بے شمار مگر دوستوں کی بہت محدود ہے۔ عمران خان ایک چیلنج کے طور پر حکمرانی کر رہے ہیں اور یہ چیلنج انھوں نے از خود قبول کیا ہے، وہ عوام سے وعدوں کی بھر مار کر کے اقتدار تک پہنچے ہیں، ان وعدوں کو وفا انھوں نے خود کرنا ہے، اس میں ان کی مدد کسی نے نہیں کرنی، اگر کسی نے مدد کرنی ہے تو وہ عوام ہیں جن کو وہ اپنے گزشتہ ایک برس میں خوش نہیں کر سکے بلکہ انھوں نے ان کو صبر کرنے کا مشورہ دیا ہے۔ اگرچہ عوام تو ہر حکومت سے ناراض ہی رہتے ہیں مگر عوامی موڈ دیکھ کر کچھ سیاستدانوں نے اپنی سیاست چمکانے کی کوشش شروع کر دی ہے لیکن ابھی تک عوامی مزاج اس حد تک برہم نہیں ہوا کہ وہ اپوزیشن کی مدد کو آن پہنچے ۔ عوام کو اپنی حکومت سے شکایات ہیں لیکن وہ اس کو مزید وقت دینے کو تیار نظر آتے ہیں۔
ملکی صورت حال اور امریکا کے ساتھ مستقبل میں تعلقات کی نوعیت کیا ہو گی اس کا فیصلہ وزیر اعظم کے موجودہ دورے میں ہو جائے گا۔ اطلاعات کے مطابق عمران خان نے صدر ٹرمپ کے ساتھ پاکستان کا کیس بڑی وضاحت سے بیان کر دیا ہے اور مستقبل میں دونوں ملکوں کے درمیان تعاون کا عندیہ بھی دیا ہے۔ پاکستان اب اس مقام تک پہنچ چکا ہے جہاں پر اس کو امریکا کے ساتھ دوستی کو بڑ ھانے میں اپنے مفادات کو سامنے رکھنا ہو گا اور امریکا کو بھی برابری کی سطح پر نہ سہی لیکن ایک خود مختار ملک کے طور پر امریکا کو پاکستان کی خود مختاری کا پاس رکھنا ہو گا۔ اس سے معاملات سلجھیں گے اور یہ دونوں ملکوں کے مفاد کے لیے بہتر ہو گا۔ وزیر اعظم کے امریکی دورے کے متعلق مزید معروضات اگلے کالم میں۔