پاکستان میں غذائی کمی پر قابو پانے کی کوششیں تیز قانون کا مسودہ تیار

گھی اور آٹے میں لازمی غذائی اجزا شامل کرنا ہونگے جو غذائی کمی پر قابو پانے میں مددگار ثابت ہونگے

کراچی میں آج نیشنل نیوٹریشن سروے تقریب منعقد کی جائیگی جس میں غذائی کمی کے حوالے سے ماہرین اطفال کو آگاہی فراہم کی جائیگی۔ فوٹو: فائل

پاکستان میں پہلی بار بچوں اور خواتین میں غذائی کمی کو پورا کرنے کیلیے فوڈ فوٹیفکیشن ایکٹ لانے کا فیصلہ کیا گیا ہے جس کا قانونی مسودہ تیار کر لیا گیا۔


پاکستان میں بچوں اور خواتین میں غذائی قلت ہولناک صورت اختیار کرتی جا رہی ہے، جس کی بنیادی وجہ غربت ہے، غذائی کمی کی وجہ سے پاکستان کے نصف فیصد سے زائد گھروں میں غذائی قلت کا سامنا ہے جبکہ کم آمدن والے گھرانوں میں 2 وقت کا کھانا مشکل ہوتا جا رہا ہے یہی وجہ ہے کہ ملک میں 40.2 فیصد بچے غذائی قلت کا شکار ہیں، ملک میں پیدا ہونے والے لو برتھ ویٹ بچوں کی شرح 20 فیصد سے بھی تجاوز کر گئی۔

طبی نکتہ نگاہ سے غذائی قلت کا شکار بچوں کو (اسٹینٹنگ) کہا جاتا ہے جس میں کم عمری میں بچوں کی ذہنی و جسمانی نشوونما (گروتھ) بھی رک جاتی ہے، پاکستان میں پہلی بار بچوں اور خواتین میں غذائی کمی کو پورا کرنے کیلیے فوڈ فوٹیفکیشن ایکٹ لانے کا فیصلہ کیا گیا ہے جس کا قانونی مسودہ تیار کر لیا گیا، اس ایکٹ کے تحت گھی، آٹے میں لازمی (Micro Nutrients) غذائی اجزا شامل کیے جائیں گے جو غذائی کمی پر قابو پانے میں مددگار ثابت ہوں گے۔

کراچی میں آج (بدھ کو) نیشنل نیوٹریشن سروے تقریب منعقد کی جائے گی جس میں غذائی کمی کے حوالے سے ماہرین اطفال کو آگاہی فراہم کی جائے گی۔

دریں اثنا نیشنل نیوٹریشن سروے کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان میں (بریسٹ فیڈنگ) کی شرح 48.4 فیصد ہے جبکہ نئی تحقیق کے مطابق 6 ماہ کے بچے کو بریسٹ فیڈنگ کے ساتھ ہلکی غذا بھی دینے کی سفارش کی گئی ہے، قومی غذائی سروے 2018 پاکستان کا سب سے بڑا سروے ہے جس کا مقصد پالیسی ساز اداروںکی توجہ دلانا ہے کہ ملک میں بچوں میں غذائی کمی تشویشناک حد تک اضافہ ہورہا ہے۔

نیشنل نیوٹریشن سروے 1965کے بعد پانچواں بڑا سروے ہے جو گھریلوسطح پرکیا گیا، اس سروے میں سندھ، پنجاب، خیبرپختونخوا، بلوچستان، اسلام آباد، گلگت بلتستان، آزاد کشمیر کے دیہی اور شہری آبادی کو شامل کیا گیا۔

نیشنل نیوٹریشن سروے میں بتایا گیا کہ نوزائیدہ بچے کی زندگی کے ابتدائی سال نہایت اہم ترین ہوتے ہیں، کم عمری میں بچے کو غذائی کمی کی وجہ سے ذہنی و جسمانی نشوونما رک جاتی ہے جس کی وجہ سے بچے کی مستقبل کی زندگی اور تعلیمی سرگرمیوں میں شدید منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں، چھوٹی عمر میں کمزور جسمانی بچے بڑی عمر میں پہنچ کر مختلف طبی اورنفسیاتی مسائل کا بھی شکار ہوجاتے ہیں جبکہ ایسے بچوں میں بیماریوں کے خلاف قوت مدافعت بھی شدید کمزور ہو جاتی ہے جبکہ غذائی کمی کا شکار خواتین کمزور بچوں کو جنم دیتی ہیں، پاکستان میں غذائی کمی کا مسئلہ تیزی سے سر اٹھا رہا ہے۔

سروے میں مزید بتایا گیا کہ ملک کی کل آبادی میں بچوں میں غذائی قلت اور نامکمل نشوونما (اسٹنٹنگ) کی شرح 40.2 فیصد ہے جو خطرناک بات ہے، غذائی تحفظ 63.1 فیصد ہے، سروے کے دوران 115,600خاندانوں کا مطالعہ کیا گیا ہے جس میں 0 سے 59 ماہ کے 76,742بچوں، 10 سال سے 19 سال کے 145,847نوجوان بچوں اور 15سے 45 عمر کی 145,324 تولید عمرکی خواتین شامل ہیں۔


اس سروے میں فیلڈ ٹیم نے دیہات، قصبوں اور شہروں کے مقیم افراد کے خون اور پیشاب کے نمونے حاصل کیے جس کی مدد سے جسم میں نشوونما، گھر میں دستیاب پانی کا معیار اور نکاسی آب کی صورت حال کا جائزہ لیا گیا تاکہ بیماریوں اور غذائی کمی کا پتہ چل سکے، ٹیم نے گھریلو مجموعی آمدنی، صنعتی خود مختاری، تعلیمی سطح اور شیر خوار بچوں کے ماں کا دودھ پلانے کی شرح کا بھی تعین کیا جس سے یہ بات ظاہر ہوئی کہ غذا ایک کثیر تخلیقی اثر ہے جس کی وجہ سے غذائی کمی کا شکار خاتون کے بچے کم وزن کے پیدا ہوتے ہیں۔

اس سروے میں سندھ ، پنجاب، اسلام آباد، خیبر پختونخوا، بلوچستان،گلگت بلتستان، آزاد کشمیر کے تولیدی عمر کی 31,828 خواتین اور 31,828 بچوں کے خون نمونے جبکہ تولیدی عمرکی 5,780 خواتین اور 5,780 بچوںکے پیشاب کے نمونے حاصل کیے گئے۔

دورانِ سروے جب 68,493 ماؤں کا انٹرویو لیا گیا، یہ بات سامنے آئی کہ 2سال سے کم عمرکے 24,209 بچوں میںکھانا کھلانے کا رحجان ہے اور یہ اعداد و شمار شہری علاقوں میں 36.4 فیصد اور دیہی علاقوں میں 63.6 فیصد ہے، ملک 5سال سے کم عمر کے بچوں میں 10میں سے 4 بچے نامکمل نشوونماکا شکار ہیں۔

ملک میں غذائی قلت کا بوجھ دن بدن دگنا ہوتا جا رہا ہے جس کی اہم وجہ تعلیم اور شعورکی کمی ہے، شہری اور دیہی علاقوں میں لڑکوں اور لڑکیوں کے درمیان غذائیت کی تقسیم بھی اہم وجہ ہے، زیادہ تر علاقوں میں لڑکیوں کے مقابلے میں لڑکوں کوزیادہ ترجیح دی جاتی ہے اور لڑکوں کو بہترین نشوونما دی جاتی ہے، اس بات پر زور دیاگیا ہے کہ صحت مند اورتعمیری افراداور اقوام کی بنیاد اچھی غذائیت سے بنتی ہے۔

دریں اثنا معلوم ہواہے کہ حکومت پاکستان نے ملک میں پہلی بار (Food fortification ) فوڈ فوٹیفکیشن ایکٹ لانے کی تیاریاں مکمل کر لی ہیں، ایکٹ کے تحت آٹے، گھی میں غذائی اجزا شامل کیے جائیں گے تاکہ بچوںکو کم عمری میں مطلوبہ مقدار میں غذائیت ملے سکے اور ملک میں بڑھتی ہوئی غذائی قلت پر قابو پایا جا سکے۔

قومی ادارہ اطفال (NICH )کے سربراہ پروفیسر جمال رضا نے ایکسپریس کو بتایا کہ ملک کے بچوں میں غذائی قلت کا مسئلہ ہولناک صورت اختیارکر رہا ہے، 1995کے سروے میں بھی بچوں میں40 فیصد غذائی کمی کا سامنا تھا اورآج بھی ہمارے بچے شدید غذائی کمی کا شکار ہیں جبکہ پاکستان میں لوبرتھ ویٹ مطلوبہ وزن سے کم وزن کے25 فیصد پیدا ہو رہے ہیں جبکہ بچے کی پیدائش کے وقت نوزائیدہ کا وزن ڈھائی کلو ہونا چاہیے۔ کم وزن کے پیدا ہونے والے بچوں میں غذائی قلت کے ساتھ ان بچوں کی ذہنی و جسمانی نشوونما بھی شدید متاثر ہوتی ہے۔

انھوں نے کہا کہ خواتین کو چاہیے کہ وہ دوران حمل اپنی خوراک کو بہتر بنائیں کیونکہ جو خوراک ماں کھائے گی وہی بچہ کے جسم میں جائے گی، انھوں نے ایک نئی تحقیق کا حوالہ دیتے ہوئے کہاکہ اب 6ماہ کے بچے کو ماں کے دودھ کے ساتھ ہلکی غذا بھی دی جا سکتی ہے تاکہ بچے کی نشوونما بہتر ہو سکے، بچوں میں غذائی قلت کی وجہ سے بچوں کی نشوونما رک جانے سے ان کے قد پستہ (چھوٹے) رہتے ہیں، انھوں نے کہاکہ پاکستان میں2.6 فیصدگروتھ ریٹ ہے۔تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی سے طبی مسائل کے ساتھ دیگر مسائل بھی جنم لے رہے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ پیدا ہونے والے نوزائیدہ بچوں میں پہلے ایک ماہ کے دوران ایک ہزار میں 42 بچے انتقال کر جاتے ہیں جبکہ ایک سال کی عمر کے ایک ہزار بچوں میں سے62 اور 5 سال عمر کے ایک ہزار بچوں میں 74بچے مختلف طبی مسائل کا شکار ہوکر مر جاتے ہیں۔

پاکستان پیڈیا ٹرکس ایسوسی ایشن کے سیکریٹری جنرل ڈاکٹر خالد شفیع کا کہنا تھا کہ کم وزن کے پیدا ہونے والے بچوں میں مختلف طبی مسائل جنم لیتے ہیں ،ان میں سے 30فیصد بچے کمزور دماغ کے پیدا ہورہے ہیں، پاکستان میں 45 فیصد افراد غربت کی انتہائی سطح پر زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔
Load Next Story