تماشہ میرے آگے
ہمارا معاشرہ ابھی نیم قبائلیت اور نیم جاگیردارانہ کلچر کی مضبوط گرفت میں جکڑا ہوا ہے
شاید اس وقت ملک کا سب سے بڑا مسئلہ سوئس عدالت کو خط لکھنا ہے اس لیے اعلیٰ ترین عدلیہ کی یہ اولین ترجیح ہے کہ دیگر مقدمات کے مقابلے میں اس پر خصوصی توجہ دی جا رہی ہے۔ میڈیا کے لیے بھی خط کا لکھا جانا اہم ترین مسئلہ ہے جو 24 گھنٹوں کی نشریات میں سے 20 گھنٹے اس مسئلے کی گتھیاں سلجھانے پر صرف کر رہا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ بجلی کا بحران، پٹرول کی بڑھتی قیمتیں، ہوشربا مہنگائی، ریلوے کی زبوں حالی اور امن و امان کی مخدوش صورتحال اہمیت کے حامل مسائل نہ ہوں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ عدلیہ سمیت ملک کے مقتدر حلقوں کی نظر میں لوگوں کو بسوں سے اتار کر ان کے ناموں سے فقہوں کی بنیاد پر شناخت کرکے انھیں گولیوں سے بھوننا اور تعلیمی اداروں کو بم سے اڑانا اہم قومی مسئلہ نہ ہو۔
ایک گیارہ سالہ ذہنی طور پر کمزور مسیحی لڑکی رمشا کو توہین رسالت کے مقدمے میں جیل میں ڈالنا بھی شاید عام سی بات ہو۔ کیونکہ ہماری اعلیٰ عدلیہ نے ان مسائل پر ازخود نوٹس لینے کے بجائے اپنی پوری توجہ خط لکھنے پر مرکوز کر رکھی ہے۔ اس لیے گمان یہی گزر رہا ہے جیسے شاید خط نہ لکھنا اس ملک کا سب سے قبیح اور گردن زدنی جرم ہے، باقی سب ہیرپھیر ہے۔
اگر سوئس عدالت کو خط لکھنے کے معاملے کو ایک طرف رکھ دیں تو بھی ادارہ جاتی تصادم کے کئی اسباب موجود ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ مزاج میں موجود رعونت اور آمرانہ طرزعمل ہے۔ ہمارا معاشرہ ابھی نیم قبائلیت اور نیم جاگیردارانہ کلچر کی مضبوط گرفت میں جکڑا ہوا ہے اس لیے نہ جمہوریت کی اساس کو سمجھ پایا ہے اور نہ اداروں کی اہمیت سے واقف ہے لہٰذا پورا ریاستی نظام خواہ انتظامیہ ہو، عدلیہ ہو یا پارلیمان ہو، شخصیات کے گرد گھوم رہا ہے۔ پارلیمان میں اصل فیصلہ 342 اراکین نہیں بلکہ جماعتوں کے سربراہ کرتے ہیں۔ وہ رکن اسمبلی جو چار لاکھ کے قریب ووٹروں کا نمایندہ ہوتا ہے محض اپنی جماعت کے رہبر کے اشارے پر ہاتھ اٹھاتا ہے۔
اکثر امور پر اسمبلی میں کھل کر بحث تک نہیں ہوتی۔ سیاسی جماعتوں میں اندرونی انتخابات اور ایک معینہ مدت کے بعد نئے رہنما کے انتخاب کا کوئی تصور نہیں ہے۔ اسی لیے پاکستان وہ واحد ملک ہے جہاں سیاسی جماعتیں شراکتی جمہوریت کے فروغ میں سب سے بڑی رکاوٹ بنی ہوئی ہیں۔
اب عدلیہ پر آئیے۔ آزاد عدلیہ سے مراد سپریم کورٹ میں بیٹھے ججوں کی آزادی نہیں ہے بلکہ انتظامی ڈھانچے کی نچلی ترین سطح تک ایک آزاد عدالتی نظام کی تشکیل ہے مگر 'اے بسا آرزو کہ خاک شدہ' کے مصداق اس خواہش کے حقیقت کا روپ دھارنے کی کوئی امید مستقبل قریب میں نظر نہیں آتی۔ اب تو ایک نیا عدالتی کلچر پروان چڑھ رہا ہے کہ عدالت عظمیٰ میں گزشتہ تین برس کے دوران کوئی اختلافی فیصلہ بھی نہیں آیا۔ برطانوی عدالتی نظام کے مطابق، جو ہمارے یہاں مستعمل ہے، چیف جسٹس عدلیہ کا انتظامی سربراہ ہوتا ہے اور بحیثیت جج اس کی حیثیت دیگر ججوں کے مساوی ہوتی ہے اس لیے کسی بنچ میں موجود کوئی بھی جج کسی مقدمہ کے بارے میں مختلف فیصلہ بھی لکھ سکتا ہے۔ ایسا بارہا ہوا۔
بھٹو مرحوم کے مقدمہ ہی کو لیجیے تین ججوں مسٹر جسٹس حلیم، مسٹر جسٹس دراب پٹیل اور مسٹر جسٹس صفدر شاہ نے اختلافی نوٹ لکھا تھا مگر اب ایسا نہیں ہو رہا۔ یہ تشویش کی بات ہے۔ اس پر متوشش حلقوں کو غور کرنا چاہیے۔ جو حلقے عدلیہ کے وقار اور اس کی آزاد حیثیت کے حامی ہیں انھیں سوچنا چاہیے کہ آیا صرف سپریم کورٹ کی آزادی ان کا مطمع نظر تھی یا وہ عدالتی نظام کو انتظامیہ کے چنگل سے آزاد کرانے کا عزم رکھتے ہیں۔ اگر وہ حقیقی معنی میں ایک آزاد عدلیہ کی خواہش رکھتے ہیں تو انھوں نے ان چار برسوں کے دوران اس مقصد کے حصول کے لیے کیا کوششیں کیں یا محض پیپلزپارٹی کا حلقہ تنگ کرنے کے لیے وہ عدالت عظمیٰ کو بطور آلہ کار استعمال کرنا چاہتے ہیں۔
پیپلز پارٹی کی موجودہ حکومت کی خراب حکمرانی میں کوئی کلام نہیں ہے مگر اپوزیشن نے بھی تو اپنا کردار صحیح طور پر ادا نہیں کیا۔ کرپشن ایک بہت بڑا مسئلہ ہے مگر اس سے بڑا مسئلہ نظم حکمرانی ہے جس کی فرسودگی دور کیے بغیر نہ امن و امان کی صورتحال بہتر ہو سکتی ہے اور نہ ہی کرپشن پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ پھر کیا کرپشن صرف سیاسی جماعتوں میں ہے؟ دیگر ریاستی ادارے اس سے مبرا ہیں؟ یہ بھی سوچنے کا مقام ہے۔ جب تک ریاست کا انتظامی ڈھانچہ یعنی نظام حکمرانی کے تمام شعبے درست نہیں ہوں گے اس قسم کی برائیوں سے چھٹکارا ممکن نہیں ہے۔
سب سے بڑا مسئلہ شراکتی جمہوریت کو پروان چڑھانے کا ہے۔ اس مقصد کے لیے اقتدار و اختیار کی نچلی سطح تک منتقلی بہت ضروری ہو چکی ہے مگر فیوڈل Mindset کی قیادت ایک نیا بنگلہ دیش تو بنا سکتی ہے، مگر اختیارات کو نچلی سطح تک منتقل کرکے عوام کو ریلیف دینے پر رضامند نہیں ہو سکتی۔ وہ صوبوں کی حالیہ ساخت میں سیاسی مقاصد کے لیے ردوبدل کرکے کشت و خون تو کرا سکتی ہے لیکن سیاسی اختیارات میں کمی قبول نہیں کر سکتی۔ آج صوبوں کی تشکیل نو کے حوالے سے پورے ملک میں جس انداز میں بحث جاری ہے اسے دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ آنے والے دنوں میں وہ سرپھٹول کا سبب بھی بن سکتی ہے۔ اس مسئلے کو صائب طریقے سے حل کرنے کے بجائے اسے مزید الجھانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
اگر صوبوں میں توڑ پھوڑ اور ان کی تنظیم نو کے بجائے ملک کے 130 اضلاع میں ضلعی نظام نافذ کرکے ریاستی انتظامی ڈھانچے کو دو درجاتی سے تین درجاتی میں تبدیل کر دیا جائے تو صوبوں کی تنظیم نو کے حساس مسئلے سے چھٹکارا مل سکتا ہے۔ ضلع کی سطح پر سیاسی، انتظامی اور مالیاتی اختیار منتقل ہونے سے ایک طرف انتظامی ڈھانچہ میں بہتری کے امکانات پیدا ہو سکتے ہیں تو دوسری طرف عدالتی نظام کی عدم مرکزیت سے نچلی سطح پر عوام کو سستے اور فوری انصاف ملنے کی توقع کی جا سکتی ہے۔ مگر اس مقصد کے لیے نیک نیتی پر مبنی سیاسی عزم کی ضرورت ہے جس کا ہماری قومی سیاسی جماعتوں میں فقدان ہے۔
یہ جماعتیں اقتدار و اختیار کی مرکزیت قائم رکھنے پر مصر ہیں کیونکہ اس طرح انھیں کرپشن کرنے کے وافر مواقع میسر ہیں۔ ہر رکن قومی و صوبائی اسمبلی اور سینیٹر قانون سازی کے بجائے گلیاں، نالیاں درست کرنے کی تگ و دو میں مصروف رہتا ہے کیونکہ اس طرح ترقیاتی فنڈز اس کی دسترس میں ہوتے ہیں جس کا کمیشن کھانے اور اکثر پوری رقم ہڑپ کر جانے کے نادر مواقع ہوتے ہیں۔
ہمیں ذہن میں رکھنا ہو گا کہ انفرادی روّیے ہی اجتماعی رویوں کی تشکیل کرتے ہیں۔ اگر انفرادی روّیے دلیل کی بنیاد پر مکالمے کی روایت سے عاری ہوں تو فیصلے نہیں فتوے جاری ہوتے ہیں۔ فتوے بلا چون و چرا تسلیم کرنا ہوتے ہیں جب کہ فیصلوں سے اختلاف ممکن ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سیاسی جماعتوں میں آمرانہ رویے ایک فعال سیاسی جماعت کے علاوہ دیرپا اداروں کی تشکیل میں بھی رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔ جمہوریت نے فکری کثرتیت کا درس دیا اور اس کو عملی جامہ پہنا کر دکھایا مگر ہمارے یہاں نہ فکری کثرتیت کو تسلیم کیا جاتا ہے اور نہ اختلاف رائے کو اہمیت دی جاتی ہے۔ سیاسی جماعت کے اندر اگر کوئی کارکن پارٹی رہنما کی پالیسیوں سے اختلاف کرے تو اسے پارٹی چھوڑنا پڑتی ہے کیونکہ پارٹی وہ لمیٹڈ کمپنی ہے جس کی ملکیت کا حق صرف اور صرف ایک خاندان کو حاصل ہے۔
یہی وجہ ہے کہ ہمارے یہاں جمہوریت عوام کی نظم حکمرانی میں شرکت کے بجائے محض انتخابات کے انعقاد سے عبارت ہے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ حکمرانی کے طور طریقے چاہے آمریت ہو یا جمہوریت زیادہ تبدیل نظر نہیں آتے۔ اسی طرح ادارے بھی شخصیت کے گرد گھومتے ہیں' جونہی شخصیت جاتی ہے، ادارے تتر بتر ہو جاتے ہیں۔
معاف کیجیے کچھ لوگوں کو شاید یہ مشورہ برا لگے لیکن حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کو ایک بہتر سمت دینے کے لیے پنڈت جواہر لعل نہرو، مولانا ابوالکلام آزاد اور ولبھ بھائی پٹیل جیسا ویژن رکھنے والی قیادت کی ضرورت ہے جو نوآبادیاتی طرز حکمرانی کو قومی رجحان کے حامل جدید انتظامی ڈھانچے میں تبدیل کر سکے۔ یہ تبدیلی کسی مارشل لاء یا کسی آمر کے فیصلوں سے ممکن نہیں بلکہ سیاسی جماعتوں کو خود اپنے اندر تبدیلیاں لانا ہوں گی۔ ان تبدیلیوں کے لیے کارکنوں کو اپنی قیادتوں پر دبائو ڈالنا ہو گا۔ اپنی جماعتوں میں تواتر کے ساتھ انتخابات کرانے ہوں گے اور قیادت کی تبدیلی کے لیے عملی کوششیں کرنا ہوں گی۔ پاکستان کے مسائل کا حل صرف اور صرف شراکتی جمہوریت اور اقتدار و اختیار کی نچلی سطح تک منتقلی ہے جس میں عدالتی نظام کی Devolution بھی شامل ہے لہٰذا اس وقت جو کچھ ہو رہا ہے اس کے بارے میں غالب کا یہ مصرعہ دہرانا ہی کافی ہے کہ 'ہوتا ہے شب و روز تماشہ میرے آگے'۔
ایک گیارہ سالہ ذہنی طور پر کمزور مسیحی لڑکی رمشا کو توہین رسالت کے مقدمے میں جیل میں ڈالنا بھی شاید عام سی بات ہو۔ کیونکہ ہماری اعلیٰ عدلیہ نے ان مسائل پر ازخود نوٹس لینے کے بجائے اپنی پوری توجہ خط لکھنے پر مرکوز کر رکھی ہے۔ اس لیے گمان یہی گزر رہا ہے جیسے شاید خط نہ لکھنا اس ملک کا سب سے قبیح اور گردن زدنی جرم ہے، باقی سب ہیرپھیر ہے۔
اگر سوئس عدالت کو خط لکھنے کے معاملے کو ایک طرف رکھ دیں تو بھی ادارہ جاتی تصادم کے کئی اسباب موجود ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ مزاج میں موجود رعونت اور آمرانہ طرزعمل ہے۔ ہمارا معاشرہ ابھی نیم قبائلیت اور نیم جاگیردارانہ کلچر کی مضبوط گرفت میں جکڑا ہوا ہے اس لیے نہ جمہوریت کی اساس کو سمجھ پایا ہے اور نہ اداروں کی اہمیت سے واقف ہے لہٰذا پورا ریاستی نظام خواہ انتظامیہ ہو، عدلیہ ہو یا پارلیمان ہو، شخصیات کے گرد گھوم رہا ہے۔ پارلیمان میں اصل فیصلہ 342 اراکین نہیں بلکہ جماعتوں کے سربراہ کرتے ہیں۔ وہ رکن اسمبلی جو چار لاکھ کے قریب ووٹروں کا نمایندہ ہوتا ہے محض اپنی جماعت کے رہبر کے اشارے پر ہاتھ اٹھاتا ہے۔
اکثر امور پر اسمبلی میں کھل کر بحث تک نہیں ہوتی۔ سیاسی جماعتوں میں اندرونی انتخابات اور ایک معینہ مدت کے بعد نئے رہنما کے انتخاب کا کوئی تصور نہیں ہے۔ اسی لیے پاکستان وہ واحد ملک ہے جہاں سیاسی جماعتیں شراکتی جمہوریت کے فروغ میں سب سے بڑی رکاوٹ بنی ہوئی ہیں۔
اب عدلیہ پر آئیے۔ آزاد عدلیہ سے مراد سپریم کورٹ میں بیٹھے ججوں کی آزادی نہیں ہے بلکہ انتظامی ڈھانچے کی نچلی ترین سطح تک ایک آزاد عدالتی نظام کی تشکیل ہے مگر 'اے بسا آرزو کہ خاک شدہ' کے مصداق اس خواہش کے حقیقت کا روپ دھارنے کی کوئی امید مستقبل قریب میں نظر نہیں آتی۔ اب تو ایک نیا عدالتی کلچر پروان چڑھ رہا ہے کہ عدالت عظمیٰ میں گزشتہ تین برس کے دوران کوئی اختلافی فیصلہ بھی نہیں آیا۔ برطانوی عدالتی نظام کے مطابق، جو ہمارے یہاں مستعمل ہے، چیف جسٹس عدلیہ کا انتظامی سربراہ ہوتا ہے اور بحیثیت جج اس کی حیثیت دیگر ججوں کے مساوی ہوتی ہے اس لیے کسی بنچ میں موجود کوئی بھی جج کسی مقدمہ کے بارے میں مختلف فیصلہ بھی لکھ سکتا ہے۔ ایسا بارہا ہوا۔
بھٹو مرحوم کے مقدمہ ہی کو لیجیے تین ججوں مسٹر جسٹس حلیم، مسٹر جسٹس دراب پٹیل اور مسٹر جسٹس صفدر شاہ نے اختلافی نوٹ لکھا تھا مگر اب ایسا نہیں ہو رہا۔ یہ تشویش کی بات ہے۔ اس پر متوشش حلقوں کو غور کرنا چاہیے۔ جو حلقے عدلیہ کے وقار اور اس کی آزاد حیثیت کے حامی ہیں انھیں سوچنا چاہیے کہ آیا صرف سپریم کورٹ کی آزادی ان کا مطمع نظر تھی یا وہ عدالتی نظام کو انتظامیہ کے چنگل سے آزاد کرانے کا عزم رکھتے ہیں۔ اگر وہ حقیقی معنی میں ایک آزاد عدلیہ کی خواہش رکھتے ہیں تو انھوں نے ان چار برسوں کے دوران اس مقصد کے حصول کے لیے کیا کوششیں کیں یا محض پیپلزپارٹی کا حلقہ تنگ کرنے کے لیے وہ عدالت عظمیٰ کو بطور آلہ کار استعمال کرنا چاہتے ہیں۔
پیپلز پارٹی کی موجودہ حکومت کی خراب حکمرانی میں کوئی کلام نہیں ہے مگر اپوزیشن نے بھی تو اپنا کردار صحیح طور پر ادا نہیں کیا۔ کرپشن ایک بہت بڑا مسئلہ ہے مگر اس سے بڑا مسئلہ نظم حکمرانی ہے جس کی فرسودگی دور کیے بغیر نہ امن و امان کی صورتحال بہتر ہو سکتی ہے اور نہ ہی کرپشن پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ پھر کیا کرپشن صرف سیاسی جماعتوں میں ہے؟ دیگر ریاستی ادارے اس سے مبرا ہیں؟ یہ بھی سوچنے کا مقام ہے۔ جب تک ریاست کا انتظامی ڈھانچہ یعنی نظام حکمرانی کے تمام شعبے درست نہیں ہوں گے اس قسم کی برائیوں سے چھٹکارا ممکن نہیں ہے۔
سب سے بڑا مسئلہ شراکتی جمہوریت کو پروان چڑھانے کا ہے۔ اس مقصد کے لیے اقتدار و اختیار کی نچلی سطح تک منتقلی بہت ضروری ہو چکی ہے مگر فیوڈل Mindset کی قیادت ایک نیا بنگلہ دیش تو بنا سکتی ہے، مگر اختیارات کو نچلی سطح تک منتقل کرکے عوام کو ریلیف دینے پر رضامند نہیں ہو سکتی۔ وہ صوبوں کی حالیہ ساخت میں سیاسی مقاصد کے لیے ردوبدل کرکے کشت و خون تو کرا سکتی ہے لیکن سیاسی اختیارات میں کمی قبول نہیں کر سکتی۔ آج صوبوں کی تشکیل نو کے حوالے سے پورے ملک میں جس انداز میں بحث جاری ہے اسے دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ آنے والے دنوں میں وہ سرپھٹول کا سبب بھی بن سکتی ہے۔ اس مسئلے کو صائب طریقے سے حل کرنے کے بجائے اسے مزید الجھانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
اگر صوبوں میں توڑ پھوڑ اور ان کی تنظیم نو کے بجائے ملک کے 130 اضلاع میں ضلعی نظام نافذ کرکے ریاستی انتظامی ڈھانچے کو دو درجاتی سے تین درجاتی میں تبدیل کر دیا جائے تو صوبوں کی تنظیم نو کے حساس مسئلے سے چھٹکارا مل سکتا ہے۔ ضلع کی سطح پر سیاسی، انتظامی اور مالیاتی اختیار منتقل ہونے سے ایک طرف انتظامی ڈھانچہ میں بہتری کے امکانات پیدا ہو سکتے ہیں تو دوسری طرف عدالتی نظام کی عدم مرکزیت سے نچلی سطح پر عوام کو سستے اور فوری انصاف ملنے کی توقع کی جا سکتی ہے۔ مگر اس مقصد کے لیے نیک نیتی پر مبنی سیاسی عزم کی ضرورت ہے جس کا ہماری قومی سیاسی جماعتوں میں فقدان ہے۔
یہ جماعتیں اقتدار و اختیار کی مرکزیت قائم رکھنے پر مصر ہیں کیونکہ اس طرح انھیں کرپشن کرنے کے وافر مواقع میسر ہیں۔ ہر رکن قومی و صوبائی اسمبلی اور سینیٹر قانون سازی کے بجائے گلیاں، نالیاں درست کرنے کی تگ و دو میں مصروف رہتا ہے کیونکہ اس طرح ترقیاتی فنڈز اس کی دسترس میں ہوتے ہیں جس کا کمیشن کھانے اور اکثر پوری رقم ہڑپ کر جانے کے نادر مواقع ہوتے ہیں۔
ہمیں ذہن میں رکھنا ہو گا کہ انفرادی روّیے ہی اجتماعی رویوں کی تشکیل کرتے ہیں۔ اگر انفرادی روّیے دلیل کی بنیاد پر مکالمے کی روایت سے عاری ہوں تو فیصلے نہیں فتوے جاری ہوتے ہیں۔ فتوے بلا چون و چرا تسلیم کرنا ہوتے ہیں جب کہ فیصلوں سے اختلاف ممکن ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سیاسی جماعتوں میں آمرانہ رویے ایک فعال سیاسی جماعت کے علاوہ دیرپا اداروں کی تشکیل میں بھی رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔ جمہوریت نے فکری کثرتیت کا درس دیا اور اس کو عملی جامہ پہنا کر دکھایا مگر ہمارے یہاں نہ فکری کثرتیت کو تسلیم کیا جاتا ہے اور نہ اختلاف رائے کو اہمیت دی جاتی ہے۔ سیاسی جماعت کے اندر اگر کوئی کارکن پارٹی رہنما کی پالیسیوں سے اختلاف کرے تو اسے پارٹی چھوڑنا پڑتی ہے کیونکہ پارٹی وہ لمیٹڈ کمپنی ہے جس کی ملکیت کا حق صرف اور صرف ایک خاندان کو حاصل ہے۔
یہی وجہ ہے کہ ہمارے یہاں جمہوریت عوام کی نظم حکمرانی میں شرکت کے بجائے محض انتخابات کے انعقاد سے عبارت ہے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ حکمرانی کے طور طریقے چاہے آمریت ہو یا جمہوریت زیادہ تبدیل نظر نہیں آتے۔ اسی طرح ادارے بھی شخصیت کے گرد گھومتے ہیں' جونہی شخصیت جاتی ہے، ادارے تتر بتر ہو جاتے ہیں۔
معاف کیجیے کچھ لوگوں کو شاید یہ مشورہ برا لگے لیکن حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کو ایک بہتر سمت دینے کے لیے پنڈت جواہر لعل نہرو، مولانا ابوالکلام آزاد اور ولبھ بھائی پٹیل جیسا ویژن رکھنے والی قیادت کی ضرورت ہے جو نوآبادیاتی طرز حکمرانی کو قومی رجحان کے حامل جدید انتظامی ڈھانچے میں تبدیل کر سکے۔ یہ تبدیلی کسی مارشل لاء یا کسی آمر کے فیصلوں سے ممکن نہیں بلکہ سیاسی جماعتوں کو خود اپنے اندر تبدیلیاں لانا ہوں گی۔ ان تبدیلیوں کے لیے کارکنوں کو اپنی قیادتوں پر دبائو ڈالنا ہو گا۔ اپنی جماعتوں میں تواتر کے ساتھ انتخابات کرانے ہوں گے اور قیادت کی تبدیلی کے لیے عملی کوششیں کرنا ہوں گی۔ پاکستان کے مسائل کا حل صرف اور صرف شراکتی جمہوریت اور اقتدار و اختیار کی نچلی سطح تک منتقلی ہے جس میں عدالتی نظام کی Devolution بھی شامل ہے لہٰذا اس وقت جو کچھ ہو رہا ہے اس کے بارے میں غالب کا یہ مصرعہ دہرانا ہی کافی ہے کہ 'ہوتا ہے شب و روز تماشہ میرے آگے'۔