ماحولیاتی بربادی میں انسانی سرگرمیوں کا یقینی ہاتھ ہے تحقیق
پچھلے دو ہزار سال کی نسبت بیسویں صدی کے اختتام پر ماحولیاتی تبدیلیاں غیرمعمولی اور شدید رہیں
انسانی کارگزاریوں کے باعث ماحولیاتی تبدیلی (کلائمیٹ چینج) کوئی قیاس آرائی نہیں بلکہ زمین کے دو ہزار سالہ ریکارڈ سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے کہ عالمی تپش اور خطرناک ماحولیاتی تغیرات کی ذمہ داری انسانی سرگرمیوں پر ہی عائد ہوتی ہے۔ ماہرینِ ماحولیات کی ایک عالمی ٹیم نے دریافت کیا ہے کہ بیسویں صدی کے اختتام تک عالمی ماحول میں ہونے والی تبدیلیاں اس قدر غیرمعمولی ہو چکی تھیں کہ دو ہزار سالہ زمینی تاریخ میں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ اس دریافت کی تفصیلات مؤقر تحقیقی جرائد ''نیچر'' اور ''نیچر جیو سائنس'' کے تازہ شماروں میں بالترتیب شائع ہوئی ہیں۔
یہ تحقیق سوئٹزرلینڈ، امریکا، اسپین اور ناروے کے سائنسدانوں نے مشترکہ طور پر کی ہے جس میں زمینی ماحول سے متعلق دستیاب، دو ہزار سالہ اعداد و شمار اور سطح زمین کے درجہ حرارت میں اضافے کا باریک بینی سے تجزیہ کیا گیا تھا۔
عالمی ماحول (کلائمیٹ) میں گزشتہ دو ہزار سال کے دوران ہونے والی تبدیلیوں پر آج بھی بحث جاری ہے کیونکہ اس دوران قرونِ وسطی کی ماحولیاتی بے قاعدگی، مختصر عہدِ برفانی اور گزشتہ 150 سال کے دوران (انسانی سرگرمیوں کے نتیجے میں) تیز رفتار عالمی تپش جیسے واقعات رونما ہوچکے ہیں۔ یہ جاننا اور سمجھنا خاصا مشکل رہا ہے کہ ان ادوار میں موسمیاتی بے قاعدگیاں کتنی شدید تھیں، ان کے اثرات کتنے عرصے تک اور کہاں کہاں تک نمایاں رہے؛ اور یہ کہ ان میں کون کونسے عوامل کارفرما تھے۔
یونیورسٹی آف برن، سوئٹزرلینڈ کے ڈاکٹر رافیل نیوکوم کی سربراہی میں ماحولیات اور ارضیات کے ماہرین کی ایک عالمی ٹیم نے سن یکم عیسوی سے لے کر سن 2000 عیسوی تک، زمینی کرہ ہوائی اور سطح زمین کے درجہ حرارت میں تبدیلی سے متعلق دستیاب 700 مختلف ریکارڈز کا پوری احتیاط سے تجزیہ کیا۔ ''نیچر'' میں شائع شدہ تحقیقی مقالے میں ان کا کہنا تھا کہ ہمارے اب تک کے تصورات کے برعکس، بیسویں صدی سے پہلے تک رونما ہونے والے ماحولیاتی تغیرات عالمی پیمانے پر واقع نہیں ہوئے تھے۔
مثلاً، گزشتہ دو ہزار سال میں سرد ترین موسم کا مشاہدہ مشرقی بحرِ اوقیانوس کے علاقوں میں پندرہویں صدی عیسوی کے دوران کیا گیا، سترہویں صدی عیسوی کے دوران شمال مغربی یورپ اور شمالی امریکا کے جنوب مشرقی علاقے سرد ترین رہے، جبکہ انیسویں میں دنیا کے باقی کئی مقامات نے انتہائی سرد موسم کا سامنا کیا۔ اسی طرح صنعتی انقلات سے پہلے تک ایسا کوئی واقعہ ریکارڈ پر موجود نہیں جب ساری دنیا میں طویل مدتی بنیادوں پر گرمی میں اضافہ ہوا ہو۔ اس کے برعکس، گزشتہ دو ہزار سال میں گرم ترین زمانہ اس کے آخری چند عشروں پر محیط ہے کہ جس کے اثرات کرہ زمین کے 98 فیصد علاقے پر واضح محسوس کیے گئے۔
''نیچر جیو سائنس'' کے تحقیقی مقالے میں نیوکوم اور ان کے ساتھیوں نے سطح زمین کے گرم ہونے کی شرح اور اس کے پس پشت کارفرما عوامل کا جائزہ لیا جو کئی عشروں پر محیط ہے۔ اس تجزیئے سے معلوم ہوا کہ بیسویں صدی کے اختتامی برسوں میں کم از کم بیس سال ایسے گزرے ہیں جب سطح زمین گرم ہونے کی رفتار سب سے تیز تھی۔ صنعی انقلاب سے پہلے بھی سطح زمین کے درجہ حرارت میں اتار چڑھاؤ واقع ہوتا تھا لیکن اوّل تو اس کا پیمانہ محدود رہتا تھا اور دوم یہ کہ وہ عام طور پر آتش فشاں کے پھٹ پڑنے کے نتیجے میں ہوا کرتا تھا۔
اس وقت جبکہ ساری دنیا ماحولیاتی تبدیلیوں کے سنگین اثرات کا سامنا کررہی ہے، قدرتی عوامل کو موردِ الزام ٹھہرا کر انسان کو بری الذمہ قرار دینے کا کوئی معقول جواز ہمارے پاس نہیں رہا۔
ڈائریکٹر پاکستان واٹر پارٹنرشپ، ڈاکٹر پرویز امیر نے اس تحقیق پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا، ''عالمی درجہ حرارت میں اضافے کو 2 ڈگری تک محدود رکھنا صرف ایک خواہش ہے۔ سائنسدان تنبیہ کرتے رہے لیکن لوگوں نے توجہ نہیں دی۔ اب نتائج بھگتنے کا وقت آگیا ہے۔''
ان کے مطابق، 1920 کے بعد سے لے کر موجودہ صدی تک فضائی کاربن ڈائی آکسائیڈ میں جو اضافہ ہوا ہے، اتنا اضافہ اس سے پہلے کبھی نہیں ہوا۔ عالمی درجہ حرارت میں ریکارڈ توڑ اضافہ، خشک سالی، گرمی کی لہر اور سیلاب جیسے واقعات جس قدر شدید ہیں، اس طرح کا مشاہدہ ماضی میں پہلے کبھی نہیں کیا گیا۔ دوسری جانب گلیشیئرز کے پگھلنے کے سنگین ترین اثرات ہمارے میدانی علاقوں پر مرتب ہوں گے۔
''فطرت سے دست درازی کے نتائج شدید اور متنوع فیہ ہیں۔ ماحول میں تبدیلیوں کا جو سلسلہ شروع ہوچکا ہے، اسے روکا نہیں جاسکتا۔ اس لیے بہترین حکمتِ عملی یہی ہے کہ ہم ان ماحولیاتی تبدیلیوں سے لڑنے کے بجائے ان سے ہم آہنگ ہونا سیکھیں،'' ڈاکٹر پرویز امیر نے بتایا۔
''اس مطالعے سے عالمی سطح پر بہت سی چیزیں واضح ہورہی ہیں لیکن اگر آپ مقامی سطح پر بھی دیکھیں تو ماحولیاتی تبدیلی کے اثرات آپ کو واضح نظر آئیں گے،'' پاکستان میں عالمی انجمن برائے تحفظِ ماحول (آئی یو سی این) کے قومی نمائندے، ڈاکٹر محمود اختر چیمہ نے کہا۔ ڈاکٹر پرویز امیر کے مؤقف کی تائید کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ماضی میں جب کلائمیٹ چینج پر بات کی جاتی تھی تو اسے افسانہ سمجھ کر نظرانداز کردیا جاتا تھا، لیکن اب یہ ایک عالمگیر اور تلخ حقیقت کے طور پر ہمارے سامنے موجود ہے، جس سے انکار ممکن نہیں۔
انہوں نے خبردار کرتے ہوئے کہا کہ کلائمیٹ چینج کی وجہ سے ہمارے یہاں برفباری میں تاخیر ہونے لگی ہے اور نتیجتاً بالائی علاقوں میں پڑنے والی برف کو منجمد رہنے کےلیے خاصا کم وقت ملتا ہے۔ ''ہم یہ تو سنتے ہیں کہ اس سال بالائی علاقوں میں شدید برفباری ہوئی ہے، لیکن دیر سے برف پڑنے کی وجہ سے اس برف کو وہاں (بالائی علاقوں میں) جمے رہنے کا زیادہ وقت نہیں مل پاتا۔ جلد ہی موسم گرمانے لگتا ہے اور اس برف کا بیشتر حصہ پگھل کر بہہ جاتا ہے،'' انہوں نے وضاحت کی۔
البتہ، ڈاکٹر چیمہ مستقبل سے مایوس نہیں۔ ''ماحولیاتی تبدیلیوں سے وابستہ چیلنجوں میں ہمارے لیے نئے مواقع بھی ہیں۔ سب سے پہلے تو ہمیں ماحولیاتی بگاڑ کو درست کرنے کےلیے فوری اور بھرپور انداز میں کام کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے علاوہ، ہمیں اپنی کوششوں کو اس انداز سے منظم کرنا چاہیے کہ ''گرین کریڈٹس'' کے تحت دستیاب عالمی مواقع سے فائدہ بھی اٹھا سکیں۔ اس طرح نہ صرف اپنے ماحول بلکہ اپنی معیشت کو بھی بہتر بنا سکیں۔''
یہ تحقیق سوئٹزرلینڈ، امریکا، اسپین اور ناروے کے سائنسدانوں نے مشترکہ طور پر کی ہے جس میں زمینی ماحول سے متعلق دستیاب، دو ہزار سالہ اعداد و شمار اور سطح زمین کے درجہ حرارت میں اضافے کا باریک بینی سے تجزیہ کیا گیا تھا۔
عالمی ماحول (کلائمیٹ) میں گزشتہ دو ہزار سال کے دوران ہونے والی تبدیلیوں پر آج بھی بحث جاری ہے کیونکہ اس دوران قرونِ وسطی کی ماحولیاتی بے قاعدگی، مختصر عہدِ برفانی اور گزشتہ 150 سال کے دوران (انسانی سرگرمیوں کے نتیجے میں) تیز رفتار عالمی تپش جیسے واقعات رونما ہوچکے ہیں۔ یہ جاننا اور سمجھنا خاصا مشکل رہا ہے کہ ان ادوار میں موسمیاتی بے قاعدگیاں کتنی شدید تھیں، ان کے اثرات کتنے عرصے تک اور کہاں کہاں تک نمایاں رہے؛ اور یہ کہ ان میں کون کونسے عوامل کارفرما تھے۔
یونیورسٹی آف برن، سوئٹزرلینڈ کے ڈاکٹر رافیل نیوکوم کی سربراہی میں ماحولیات اور ارضیات کے ماہرین کی ایک عالمی ٹیم نے سن یکم عیسوی سے لے کر سن 2000 عیسوی تک، زمینی کرہ ہوائی اور سطح زمین کے درجہ حرارت میں تبدیلی سے متعلق دستیاب 700 مختلف ریکارڈز کا پوری احتیاط سے تجزیہ کیا۔ ''نیچر'' میں شائع شدہ تحقیقی مقالے میں ان کا کہنا تھا کہ ہمارے اب تک کے تصورات کے برعکس، بیسویں صدی سے پہلے تک رونما ہونے والے ماحولیاتی تغیرات عالمی پیمانے پر واقع نہیں ہوئے تھے۔
مثلاً، گزشتہ دو ہزار سال میں سرد ترین موسم کا مشاہدہ مشرقی بحرِ اوقیانوس کے علاقوں میں پندرہویں صدی عیسوی کے دوران کیا گیا، سترہویں صدی عیسوی کے دوران شمال مغربی یورپ اور شمالی امریکا کے جنوب مشرقی علاقے سرد ترین رہے، جبکہ انیسویں میں دنیا کے باقی کئی مقامات نے انتہائی سرد موسم کا سامنا کیا۔ اسی طرح صنعتی انقلات سے پہلے تک ایسا کوئی واقعہ ریکارڈ پر موجود نہیں جب ساری دنیا میں طویل مدتی بنیادوں پر گرمی میں اضافہ ہوا ہو۔ اس کے برعکس، گزشتہ دو ہزار سال میں گرم ترین زمانہ اس کے آخری چند عشروں پر محیط ہے کہ جس کے اثرات کرہ زمین کے 98 فیصد علاقے پر واضح محسوس کیے گئے۔
''نیچر جیو سائنس'' کے تحقیقی مقالے میں نیوکوم اور ان کے ساتھیوں نے سطح زمین کے گرم ہونے کی شرح اور اس کے پس پشت کارفرما عوامل کا جائزہ لیا جو کئی عشروں پر محیط ہے۔ اس تجزیئے سے معلوم ہوا کہ بیسویں صدی کے اختتامی برسوں میں کم از کم بیس سال ایسے گزرے ہیں جب سطح زمین گرم ہونے کی رفتار سب سے تیز تھی۔ صنعی انقلاب سے پہلے بھی سطح زمین کے درجہ حرارت میں اتار چڑھاؤ واقع ہوتا تھا لیکن اوّل تو اس کا پیمانہ محدود رہتا تھا اور دوم یہ کہ وہ عام طور پر آتش فشاں کے پھٹ پڑنے کے نتیجے میں ہوا کرتا تھا۔
اس وقت جبکہ ساری دنیا ماحولیاتی تبدیلیوں کے سنگین اثرات کا سامنا کررہی ہے، قدرتی عوامل کو موردِ الزام ٹھہرا کر انسان کو بری الذمہ قرار دینے کا کوئی معقول جواز ہمارے پاس نہیں رہا۔
ڈائریکٹر پاکستان واٹر پارٹنرشپ، ڈاکٹر پرویز امیر نے اس تحقیق پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا، ''عالمی درجہ حرارت میں اضافے کو 2 ڈگری تک محدود رکھنا صرف ایک خواہش ہے۔ سائنسدان تنبیہ کرتے رہے لیکن لوگوں نے توجہ نہیں دی۔ اب نتائج بھگتنے کا وقت آگیا ہے۔''
ان کے مطابق، 1920 کے بعد سے لے کر موجودہ صدی تک فضائی کاربن ڈائی آکسائیڈ میں جو اضافہ ہوا ہے، اتنا اضافہ اس سے پہلے کبھی نہیں ہوا۔ عالمی درجہ حرارت میں ریکارڈ توڑ اضافہ، خشک سالی، گرمی کی لہر اور سیلاب جیسے واقعات جس قدر شدید ہیں، اس طرح کا مشاہدہ ماضی میں پہلے کبھی نہیں کیا گیا۔ دوسری جانب گلیشیئرز کے پگھلنے کے سنگین ترین اثرات ہمارے میدانی علاقوں پر مرتب ہوں گے۔
''فطرت سے دست درازی کے نتائج شدید اور متنوع فیہ ہیں۔ ماحول میں تبدیلیوں کا جو سلسلہ شروع ہوچکا ہے، اسے روکا نہیں جاسکتا۔ اس لیے بہترین حکمتِ عملی یہی ہے کہ ہم ان ماحولیاتی تبدیلیوں سے لڑنے کے بجائے ان سے ہم آہنگ ہونا سیکھیں،'' ڈاکٹر پرویز امیر نے بتایا۔
''اس مطالعے سے عالمی سطح پر بہت سی چیزیں واضح ہورہی ہیں لیکن اگر آپ مقامی سطح پر بھی دیکھیں تو ماحولیاتی تبدیلی کے اثرات آپ کو واضح نظر آئیں گے،'' پاکستان میں عالمی انجمن برائے تحفظِ ماحول (آئی یو سی این) کے قومی نمائندے، ڈاکٹر محمود اختر چیمہ نے کہا۔ ڈاکٹر پرویز امیر کے مؤقف کی تائید کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ماضی میں جب کلائمیٹ چینج پر بات کی جاتی تھی تو اسے افسانہ سمجھ کر نظرانداز کردیا جاتا تھا، لیکن اب یہ ایک عالمگیر اور تلخ حقیقت کے طور پر ہمارے سامنے موجود ہے، جس سے انکار ممکن نہیں۔
انہوں نے خبردار کرتے ہوئے کہا کہ کلائمیٹ چینج کی وجہ سے ہمارے یہاں برفباری میں تاخیر ہونے لگی ہے اور نتیجتاً بالائی علاقوں میں پڑنے والی برف کو منجمد رہنے کےلیے خاصا کم وقت ملتا ہے۔ ''ہم یہ تو سنتے ہیں کہ اس سال بالائی علاقوں میں شدید برفباری ہوئی ہے، لیکن دیر سے برف پڑنے کی وجہ سے اس برف کو وہاں (بالائی علاقوں میں) جمے رہنے کا زیادہ وقت نہیں مل پاتا۔ جلد ہی موسم گرمانے لگتا ہے اور اس برف کا بیشتر حصہ پگھل کر بہہ جاتا ہے،'' انہوں نے وضاحت کی۔
البتہ، ڈاکٹر چیمہ مستقبل سے مایوس نہیں۔ ''ماحولیاتی تبدیلیوں سے وابستہ چیلنجوں میں ہمارے لیے نئے مواقع بھی ہیں۔ سب سے پہلے تو ہمیں ماحولیاتی بگاڑ کو درست کرنے کےلیے فوری اور بھرپور انداز میں کام کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے علاوہ، ہمیں اپنی کوششوں کو اس انداز سے منظم کرنا چاہیے کہ ''گرین کریڈٹس'' کے تحت دستیاب عالمی مواقع سے فائدہ بھی اٹھا سکیں۔ اس طرح نہ صرف اپنے ماحول بلکہ اپنی معیشت کو بھی بہتر بنا سکیں۔''