ملک کے 50 فیصد خاندان دو وقت کی روٹی اور 40 فیصد بچے غذائی قلت کے شکار
غذائی کمی سےسندھ اور بلوچستان کے بچے بری طرح متاثر ہیں اور وہ اپنے پورے قد تک بھی نہیں پہنچ پارہے،نیشنل نیوٹریشن سروے
غذائی کمی سےسندھ اور بلوچستان کے بچے بری طرح متاثر ہیں
پاکستان میں آباد 50 فیصد گھرانے غذائی قلت کے شکار ہیں اور انہیں دو وقت کی روٹی بھی نہیں مل پاتی،ساتھ ہی غذائی کمی سے سندھ اور بلوچستان کے بچے بری طرح متاثر ہیں اور وہ اپنے پورے قد تک بھی نہیں پہنچ پارہے ہیں جسے طب کی زبان میں بونا پن یا اسٹنڈ گروتھ کہا جاتا ہے۔
یہ تمام تفصیلات نیشنل نیوٹریشن سروے 2018 کے تحت شائع کی گئی ہیں جس میں پورے پاکستان کا احاطہ کیا گیا ہے، سروے میں پاکستان میں غذائی قلت کی پریشان کن صورت سامنے آئی ہے۔
سروے میں کہا گیا ہے کہ مجموعی طور پر ملک کے 40.2 فیصد بچے شدید اور مستقل غذائی قلت کے شکار ہیں اور اپنی عمر کے لحاظ سے مجوزہ قد سے بہت نیچے ہیں۔ اس طرح ان کی دماغی، جسمانی اور سیکھنے کی صلاحیتیں شدید متاثر ہورہی ہیں، یہ سروے وزارتِ برائے ہیلتھ سروسز (این ایچ ایس) نے کیا ہے۔
سروے سے مزید انکشاف ہوا ہے کہ 36.9 فیصد گھرانے غذائی تحفظ (فوڈ سیکیورٹی) سے بہت دور ہیں اور انہیں قابلِ اعتبار غذائی ذرائع تک رسائی حاصل نہیں اور اگر ہے بھی تو وہ غذا ان کے لیے کافی نہیں ۔
اس سروے کا مقصد پورے پاکستان کے عوام اور بالخصوص بچوں کی غذائی کیفیات کا جائزہ لینا تھا اور اس کی تفصیلات کراچی میں تقریب میں لانچ کی جائیں گی جس کا مقصد پالیسی سازوں کو اس اہم مسئلے پر عملی اقدامات کی جانب راغب کرنا ہے۔
غذائی ایمرجنسی
یہ غذائی قلت کی ایمرجنسی ہے جو فوری توجہ چاہتی ہے۔ وفاقی حکومت نے پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ غذائیت سے بھرپور خوراک کا بِل پیش کیا ہے۔ اس کی تفصیل بتاتے ہوئے پاکستان پیڈیاٹرک ایسوسی ایشن (پی پی اے) کے سیکریٹری جنرل ڈاکٹر خالد شفیع نے کہا کہ اس بل کے بہت سے حصے ہیں جن میں گھی اور آٹے وغیرہ میں خردغذائی (مائیکرونیوٹریئنٹس) شامل کرنے کو لازمی بنایا جائےگا۔ مناسب وٹامن، معدنیات اور غذائی اجزا سے بچوں کی نشوونما بہتر ہوتی ہے۔
سروے کی تفصیلات
اس سروے میں پاکستان کے چار صوبوں کے ساتھ ساتھ گلگت بلتستان اور آزاد جموں و کشمیر کے دیہی اور شہری علاقوں کا جائزہ لیا گیا تھا۔ سروے میں 115,600 خاندانوں، 145,324 خواتین، پانچ سال سے کم عمر کے 76,742 بچوں اور 10 سے 19 سال تک کے 145,847 بچوں اور نوعمر افراد کا جائزہ لیا گیا تھا۔
سروے ٹیم نے مطالعے میں شامل افراد کے خون اور پیشاب کے نمونے لیے اور ہرعلاقے میں پانی کے معیار اوراطراف میں نکاسی آب (سیوریج) کا جائزہ بھی لیا تاکہ پتا لگایا جاسکے کہ جسمانی اثرات غذائی قلت سے ہورہے ہیں یا اس کی وجہ صحت و صفائی کی صورتحال ہے۔ ساتھ ہی انٹرویو میں شرکا کا کارخانوں اور فیکٹریوں پر روزگار کے لیے انحصار، تعلیم اور خواتین سے ان کے نومولود بچوں کو دودھ پلانے کی شرح بھی نوٹ کی گئی۔
اہم انکشافات
نیشنل نیوٹریشن سروے میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں صرف48.4 فیصد مائیں اپنے نومولود بچوں کو اپنا دودھ پلاتی ہیں۔ یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ غذائی قلت کی شکار ماؤں سے کمزور اور بھوکےبچوں کی پیدائش کی شرح بھی بہت زیادہ ہے۔ یہ ایک ایسا چکر ہے جو فوری توجہ چاہتا ہے۔
دنیا بھر کی تحقیق سے ظاہر ہے کہ بچے کے ابتدائی چند برس بہت ہی ضروری ہوتے ہیں اور اس مرحلے (پانچ سال تک) انہیں مناسب غذا نہ دی جائے تو ان کی جسمانی اور دماغی نشوونما شدید متاثر ہوتی ہے۔ یہاں تک کہ اس کے اثرات پوری زندگی پر محیط ہوسکتے ہیں۔
مجموعی طور پر پاکستان میں پانچ سال سے کم عمر کے 10 میں سے 4 بچے اپنی عمر کے لحاظ سے پورے قد تک نہیں دیکھے گئے جسے اسٹنٹڈ گروتھ کہا جاتا ہے۔ تعلیم کی کمی اور شعور نہ ہونے کو اس کی بڑی وجہ قرار دیا گیا ہے۔ پاکستانی معاشرے میں یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ لڑکیوں کے مقابلے میں لڑکوں کو غذا دی جاتی ہے اور یوں بچیاں غذائی تفریق کی شکار بھی ہیں۔
ایکسپریس ٹریبیون سے بات کرتے ہوئے نینشل انسٹی ٹیوٹ آف چائلڈ ہیلتھ کے سربراہ پروفیسر جمال رضا نے بتایا کہ ملک میں جتنے بچے آج غذائی قلت کے شکار ہیں عین وہی شرح آج سے 24 سال پہلے بھی تھی، انہوں نے مدتِ حمل میں خواتین کی مناسب اور توانائی سے بھرپور غذاؤں پر زور دیا، انہوں ںے ماؤں سے کہا کہ جو کچھ وہ کھاتی ہیں وہی ان کے بچے کو ملتا ہے۔