خوش گوار بڑھاپا

بڑھاپے میں آپ کے پاس وقت اور دولت دونوں ہوتے ہیں مگر طاقت رخصت ہو جاتی ہے


Amjad Islam Amjad August 29, 2012
[email protected]

برسوں پہلے ایک چینی مفکر کی کتاب کا اردو ترجمہ ''جینے کی اہمیت'' کے نام سے نظر سے گزرا تھا۔ روسی ادیب رسول حمزہ توف کی کتاب میرا داغستان کی طرح اس کا بھی ایک ایک ورق دانش اور بصیرت کی باتوں سے بھرا ہوا تھا لیکن اس کا جو حصہ ذہن سے چپک کر رہ گیا اس کا تعلق بڑھتی ہوئی عمر کے ساتھ ایک خوش دلانہ سمجھوتہ کرتے ہوئے اس پر پریشان ہونے کے بجائے اس سے لطف اندوز ہونے کے بارے میں تھا۔ آج کل تو دنیا بھر میں انسان کی اوسط عمر کا دورانیہ بڑھتا چلا جا رہا ہے' یورپ امریکا جاپان اور سکینڈے نیویا میں تو نوے برس کی عمر ایک عام سی بات بنتی چلی جا رہی ہے اور اس کا اثر باقی دنیا پر بھی پڑا ہے کہ ایشیا اور افریقہ میں زچہ اور بچہ کی بہتر نگہداشت نہ ہونے کی وجہ سے جو جانیں ضایع ہوتی ہیں ان سے قطع نظر عمر کی اوسط حد میں اضافہ ہوا ہے اور یوں ساٹھ کی لائن کراس کرتے ہی ''بزرگوں'' کو زندگی کی دوڑ سے خارج کرنے کا رجحان اور رویہ کم سے کم ہوتا جا رہا ہے۔ برصغیر کے عوامی محاوروں میں تو ستر سال کے آدمی کو نیم بائولا تک قرار دے دیا گیا ہے کہ ان کے مطابق اس کی ذہنی حالت قابل اعتبار نہیں رہتی۔

بڑھاپے کو خوشگوار کیسے بنایا جا سکتا ہے؟ اس پر چینی مفکر لِن یو تانگ کی کتاب کے علاوہ بھی بے شمار دانشوروں نے اظہار خیال کیا ہے اور ترقی یافتہ دنیا میں ریٹائرمنٹ کی حد میں نہ صرف مسلسل اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے بلکہ بعض شعبوں میں تو اس کو سرے سے ختم ہی کر دیا گیا ہے اور مختلف فنون کے ماہرین کی خدمات سے اس وقت تک استفادہ کیا جاتا ہے جب تک وہ جسمانی یا ذہنی صحت کے حوالے سے کام کرنے کے قابل رہتے ہیں۔ بدقسمتی سے پاکستان میں سرکاری طور پر اب تک برٹش راج کے زمانے کے بنائے ہوئے قوانین پر آنکھیں بند کر کے عمل کیا جا رہا ہے اور یوں ہمارا معاشرہ اس دانش سے فائدہ نہیں اٹھا رہا جو صرف اور صرف تجربے سے حاصل ہوتی ہے۔

یہ بحث اپنی جگہ پر بہت سنجیدہ اور فکر انگیز ہے لیکن ہر تصویر کی طرح اس کا بھی ایک دوسرا رخ ہے یعنی اگر اس صورت حال کو ہلکے پھلکے اور نیم مزاحیہ انداز میں دیکھنے کی کوشش کی جائے تو اس کا ایک اپنا لطف ہے۔ اس حوالے سے جو دو مختلف تحریریں مجھ تک پہنچی ہیں ان کا خلاصہ اپنے قارئین سے Share کرنا چاہتا ہوں مجھے ان کے مطالعے کے دوران اسکول کی جماعتوں میں پڑھی ہوئی Cheerful Mr. کی کہانی بہت یاد آئی کہ جس نے حادثے میں ایک ٹانگ ضایع ہو جانے پر کہا تھا کہ ''یہ نقصان اپنی جگہ مگر اس کا ایک فائدہ بھی ہے اور وہ کہ اب آیندہ مجھے جوتے کا صرف ایک پائوں خریدنا پڑے گا۔''

زندگی کے تین حصوں کو کسی ستم ظریف نے یوں بیان کیا ہے۔

نوجوانی کی عمر:آپ کے پاس وقت اور طاقت تو ہوتے ہیں مگر دولت نہیں ہوتی۔

درمیانی عمر:آپ کے پاس دولت بھی ہوتی ہے اور طاقت بھی مگر وقت نہیں ہوتا۔

بڑھاپا:آپ کے پاس وقت اور دولت دونوں ہوتے ہیں مگر طاقت رخصت ہو جاتی ہے
اس کے بعد پچاس ساٹھ اور ستر سال کی عمر کے لوگوں کو ان کی بڑھتی ہوئی عمر کے کچھ ایسے ''فوائد'' سے آگاہ کیا گیا ہے جو عام طور پر ان کے دھیان میں نہیں ہوتے۔ مثال کے طور پر
-1 بردہ فروش یا اغواکاروں کی فہرست سے آپ خارج ہو جاتے ہیں۔
-2 کسی ایسی صورت میں جب لوگوں کے کسی گروہ کو اغواکار گرفتار کر لیں تو سب سے پہلے رہا کیے جانے والوں میں آپ کے age group کو ترجیح دی جاتی ہے۔
-3 لوگ آپ کو رات 9 بجے فون کر کے بات کا آغاز اس جملے سے کر سکتے ہیں کہ ''میں نے آپ کو جگا تو نہیں دیا''
-4 آپ کو سیکھنے کے لیے پہلے کی طرح محنت نہیں کرنا پڑتی۔
-5 جو اشیا آپ خریدتے ہیں ان کے پرانا اور بوسیدہ ہونے کے امکانات کم سے کم ہو جاتے ہیں۔
-6 اب آپ چاہیں تو رات کا کھانا چار بجے سہ پہر بھی کھا سکتے ہیں۔
-7 آپ سوائے اپنے نظر کے چشمے کے ہر چیز کے بغیر گزارا کر سکتے ہیں۔
-8 آپ کو سوائے اپنی پنشن کے معاملات کے کوئی پریشانی باقی نہیں رہتی۔
-9 ٹریفک پولیس کی مقرر کردہ حد رفتار اب آپ کو مقابلے کی دعوت نہیں دیتی۔
-10 آپ لفٹ (Lift) کی آواز کے ساتھ آواز ملا کر اکیلے بھی گا سکتے ہیں۔
-11 اب آپ کی آنکھیں مزید خراب نہیں ہو سکتیں۔
-12 زندگی بھر کی ہیلتھ انشورنس میں کٹوائی ہوئی رقم اب آپ کے کام آنا شروع ہو جاتی ہے۔
-13 آپ کے گُھٹنے محکمہ موسمیات کی نسبت بہتر پیش گوئی کر سکتے ہیں۔
-14 آپ کے راز آپ کے دوست کبھی افشا نہیں کر سکتے کیونکہ وہ ان کی یادداشت سے بھی محو ہو چکے ہیں۔

لیجیے، ایڈٹ کرنے کے باوجود یہ تفصیل تین چوتھائی سے زیادہ کالم کھا گئی۔ سو اب اسی موضوع پر موصول ہونے والی دوسری دلچسپ تحریر کا ذکر پھر کبھی سہی۔ اصل بات یہی ہے کہ بڑھاپے کو اپنے اوپر طاری کرنے کے بجائے اسے زندگی کا ایک ایسا حصہ سمجھنا چاہیے جس میں انسان جسمانی طور پر تو شاید کمزور ہوتا چلا جاتا ہے مگر اس کی ذہنی صلاحیتیں زندگی بھر کے تجربات اور وہ دانش جو اس کے مختلف ذرایع سے حاصل کی ہے ایک ایسا خزانہ ہیں جو کسی صدقہ جاریہ کی طرح اس کے بعد آنے والوں کو منتقل ہوتا رہتا ہے اور ان کی زندگیوں میں آسانیاں پیدا کرنے کا موجب بنتا ہے۔

بڑھاپے اور زندہ دلی کے حوالے سے مرحوم احمد ندیم قاسمی ایک بہت دلچسپ واقعہ سنایا کرتے تھے کہ ایک دفعہ انھوں نے اپنی ایک بزرگ عزیزہ جنھیں وہ بی اماں کہا کرتے تھے، سے پوچھا کہ 1857ء کی جنگ آزادی کے دنوں میں آپ کی کیا عمر ہو گی؟ اس پر وہ مسکرا کر بولیں۔
''ندیم بیٹا کچھ ٹھیک سے تو یاد نہیں مگر اتنا یاد ہے کہ تمہارے افسانے بہت شوق سے پڑھا کرتی تھی۔''

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں