دھماکے سے بیج بکھیرنے والا ’’گھس بیٹھیا‘‘ پودا
ہمالیائی بالسم میں چھلکا زور سے پھٹتا ہے اور کئی میٹر دور تک بیج بکھرتے ہیں جس سے پودا اپنی تعداد بڑھاتا ہے
ہمالیائی بالسم ایک ایسا پودا ہے جو ایک مرتبہ کہیں اگ آئے تو وہ بہت تیزی سے اپنی تعداد بڑھاتا ہے۔ اسی بنا پر یہ حملہ آور پودا ( انویزوو پلانٹ) کہلاتا ہے۔ لیکن اس کا طریقہ واردات بہت ہی دلچسپ ہے۔
پودے پر بیجوں بھرے بہت سی چھوٹی چھوٹی کونپلیں ہوتی ہیں اور جب ان پرپانی گرتا ہے یا کوئی انہیں چھوتا ہے تو وہ ہلکے پٹاخے کی آواز کے ساتھ پھٹ جاتی ہیں اور اس طرح ان کے اندر رکھے بیج کئی میٹر تک پھیل جاتے ہیں۔ بعض بیج تو 5 سے 7 میٹر تک پھیل جاتے ہیں۔
اس پودے کا حیاتیاتی نام 'امپاٹینس گلانڈولائی فیرا' ہے جو پاکستان اور انڈیا کے ہمالیائی خطے میں عام پایا جاتا ہے اور اسی بنا پریہ 'ہمالیائی بالسم' کہلاتا ہے۔ لیکن اب یہ اپنی توسیع پسندانہ خواص کی بنا پر پوری دنیا میں تیزی سے پھیل رہا ہے۔ یہاں تک کہ یورپ کے 23 ممالک میں بھی دیکھا گیا ہے۔ کینیڈا، امریکا اور نیوزی لینڈ سے بھی اس کی خبریں مل رہی ہیں۔
ہمالیائی بالسم کا پودا ڈھائی سے تین میٹر تک پہنچتا ہے ۔ اس کے بیج والی کونپلیں تیزی سے پھٹتی ہیں اور ہر سمت میں سات میٹرتک اس کے بیج بکھرجاتے ہیں۔ لیکن اس کے پودے ایک جگہ اگنے کے بعد دیگر پودوں کو وہاں جمنے نہیں دیتے اسی بنا پر یہ گھس بیٹھیا پودا کہلاتا ہے۔ اس پر خوشنما گلابی پھول بھی اگتے ہیں ۔
ان سب باتوں کے باوجود یہ دیگر درختوں اور پودوں کا دشمن ہے اور یہی وجہ ہے کہ ماہرینِ نباتیات اس سے پریشان ہیں اور ہرسال اس کی بڑی تعداد کو کاٹ کر تلف کیا جاتا ہے تاکہ دیگر پودے سبزہ بھی اپنی جگہ بناسکے۔
https://www.youtube.com/watch?time_continue=28&v=XUOEHDRLDFk
صرف برطانیہ میں یہ 1839 میں متعارف ہوا تھا ۔ اس کے چند عشروں میں ہی یہ پورے ملک میں پھیل گیا۔ لوگ اس کےپھٹنے کی کیفیت کو دیکھتے ہوئے اپنے گھر لے گئے اور یوں پودا تیزی سے اپنی جگہ بنانے لگا۔
اس کے ہر پودے میں درجنوں بیج بھری کلیاں ہوتی ہیں اور ایک کلی میں 800 سے زائد بیج پائے جاتےہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ یہ پودے کچھ سال میں بڑی جگہ گھیرلیتے ہیں۔
پودے پر بیجوں بھرے بہت سی چھوٹی چھوٹی کونپلیں ہوتی ہیں اور جب ان پرپانی گرتا ہے یا کوئی انہیں چھوتا ہے تو وہ ہلکے پٹاخے کی آواز کے ساتھ پھٹ جاتی ہیں اور اس طرح ان کے اندر رکھے بیج کئی میٹر تک پھیل جاتے ہیں۔ بعض بیج تو 5 سے 7 میٹر تک پھیل جاتے ہیں۔
اس پودے کا حیاتیاتی نام 'امپاٹینس گلانڈولائی فیرا' ہے جو پاکستان اور انڈیا کے ہمالیائی خطے میں عام پایا جاتا ہے اور اسی بنا پریہ 'ہمالیائی بالسم' کہلاتا ہے۔ لیکن اب یہ اپنی توسیع پسندانہ خواص کی بنا پر پوری دنیا میں تیزی سے پھیل رہا ہے۔ یہاں تک کہ یورپ کے 23 ممالک میں بھی دیکھا گیا ہے۔ کینیڈا، امریکا اور نیوزی لینڈ سے بھی اس کی خبریں مل رہی ہیں۔
ہمالیائی بالسم کا پودا ڈھائی سے تین میٹر تک پہنچتا ہے ۔ اس کے بیج والی کونپلیں تیزی سے پھٹتی ہیں اور ہر سمت میں سات میٹرتک اس کے بیج بکھرجاتے ہیں۔ لیکن اس کے پودے ایک جگہ اگنے کے بعد دیگر پودوں کو وہاں جمنے نہیں دیتے اسی بنا پر یہ گھس بیٹھیا پودا کہلاتا ہے۔ اس پر خوشنما گلابی پھول بھی اگتے ہیں ۔
ان سب باتوں کے باوجود یہ دیگر درختوں اور پودوں کا دشمن ہے اور یہی وجہ ہے کہ ماہرینِ نباتیات اس سے پریشان ہیں اور ہرسال اس کی بڑی تعداد کو کاٹ کر تلف کیا جاتا ہے تاکہ دیگر پودے سبزہ بھی اپنی جگہ بناسکے۔
https://www.youtube.com/watch?time_continue=28&v=XUOEHDRLDFk
صرف برطانیہ میں یہ 1839 میں متعارف ہوا تھا ۔ اس کے چند عشروں میں ہی یہ پورے ملک میں پھیل گیا۔ لوگ اس کےپھٹنے کی کیفیت کو دیکھتے ہوئے اپنے گھر لے گئے اور یوں پودا تیزی سے اپنی جگہ بنانے لگا۔
اس کے ہر پودے میں درجنوں بیج بھری کلیاں ہوتی ہیں اور ایک کلی میں 800 سے زائد بیج پائے جاتےہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ یہ پودے کچھ سال میں بڑی جگہ گھیرلیتے ہیں۔