نشاں یہی ہے زمانے میں زندہ قوموں کا
امریکا کے حالیہ دورے میں اس نے جس خوش اسلوبی سے پاکستان کے حق میں ایک فضااستوارکی ہے اس کافائدہ ساری قوم کو پہنچے گا۔
بہت سی باتوں کی طرح قومی سطح پر مل جل کر آگے بڑھنے، ترقی کرنے اور اپنی اجتماعی خوبیوں اور خامیوں کو سمجھنے کے ضمن میں بھی ہمارا ریکارڈ کوئی بہت اچھا نہیں رہا اس کی کچھ وجوہات تو تاریخی اور جغرافیائی ہیں جن کے دباؤ سے انکار ممکن نہیں مگر زیادہ تر کا تعلق ہماری سیاسی سوچ اور طرزعمل سے ہے کہ ہم نے بین الاقوامی سطح پر باوقار انداز میں زندہ رہنے کے مطالبات کو کبھی سنجیدگی سے دیکھا اور برتا ہی نہیں۔
پاکستان کا قیام اُس وقت عمل میں آیا جب دوسری جنگ عظیم کے خاتمے کے بعد دنیا ہر اعتبار سے ایک انقلابی دور میں داخل ہو رہی تھی، دیکھتے ہی دیکھتے بہت سے نئے ملک اٹلس کے صفحوں پر نمودار ہوگئے سپر پاورز کی پوزیشنیںبدل گئیں اور مستقبل میں ہونے والی جنگوں اور استعمار کے ہتھیار بدل گئے۔قومیت ، زبان اور ہمسائیگی کے نئے تصورات نہ صرف تبدیل ہوگئے بلکہ زبردست اور زیردست قوموں کے تعلقات بھی ایک ایسے سانچے میں ڈھلنا شروع ہوگئے جن کی بنیاد معیشت پر استوار تھی ۔
چھوٹے، غریب اور کمزور ملک آبادی کے حساب سے بڑے ہونے کے باوجود معاشی اعتبار سے ترقی کی دوڑمیں پیچھے رہنے کے ساتھ ساتھ مختلف طرح کے تضادات، مسائل اور معاملات میں اس طرح سے اُلجھا دیے گئے کہ اُن میں عزتِ نفس، اعتماد اور دُوراندیشی کے روّیئے مسلسل زوال پذیر ہوتے چلے گئے اور اُن کی جگہ ایک نئے انداز کی خوئے غلامی نے لے لی کہ اُن کی ساری توجہ اپنے اپنے کاسہ گدائی کو بھرنے میں لگ گئی اور اُن کے لیڈر رہنما اور سیاستدان ذاتی اور اجتماعی دونوں حوالوں سے اس خوفناک صورتِ حال کا حصہ بنتے چلے گئے اور یوں ایک ایسے انتشار کے گرداب میں پھنس کر رہ گئے کہ اُن کی آپس کی لڑائیاں ہی اُن کے رستے کی سب سے بڑی دیوار بن گئیں۔
وطنِ عزیز پاکستان اس صورتِ حال کی نمایاں ترین مثالوں میں سے ایک ہے کہ ہماری تاریخ اور جغرافیہ دونوں ہی ایک مخصوص نوعیت کے آئینہ دار ہیں کہ گزشتہ ستر برس میں ہمارا علاقہ بوجوہ عالمی طاقتوں اور اُن کے مخصوص مفادات کے حوالے سے ''میدان جنگ'' بنارہا ہے۔
آزادی کے فوراً بعد ہمیں قریبی ہمسائے رُوس اور دنیا کے دوسرے کونے پر واقع امریکا میں سے کسی ایک کے انتخاب کا مسئلہ کھڑا ہوگیا،بدقسمتی سے ہماری اُس وقت کی سیاسی قیادت میں اتنی طاقت اور سمجھ بوجھ نہیں تھی کہ وہ کوئی درمیان کا راستہ نکال سکتے اور اپنے قومی مفاد کی نظر سے دنیا اور آنے والے وقت کو دیکھتے اور ممکنہ حد تک آزادی کے ساتھ اپنے معاشرے کو ترقی کے راستے پر ڈالتے ۔ ہم نے ایک ایسے راستے کا انتخاب کیا جس کی وجہ سے ہم ایک ''طفیلی ملک'' کی شکل اختیار کرتے چلے گئے اور اکیس کروڑ کی آبادی ، دنیا کا ہر موسم اور بے شمار قدرتی وسائل رکھنے کے باوجود ہمارے لوگ غریب سے غریب تر ہوتے چلے گئے۔
عمران خان کے طرزِ حکومت اور اُ س سے پیدا ہونے والے عوامی مسائل اور اُن کی سنگینی پر یقینا بہت سے اعتراضات ہوسکتے ہیں اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ اُس کی ترجیحات میں ردوبدل کی شدید گنجائش اور ضرورت ہے مگر جس طرح سے اُس نے بین الاقوامی سطح پر پاکستان کو سفارتی تنہائی اور بدنامی کے حصارسے نکالنے کی عمدہ اور کامیاب کوشش کی ہے اُس کی داد نہ دینا یقینا زیادتی ہوگی جس مہارت اور خوش اسلوبی سے اُس نے امریکا، روس اور چین تینوں بڑی عالمی طاقتوں کے ساتھ اپنے روابط کو مستحکم اور بہتر کیا ہے کہ تینوں ہمسائیوں یعنی بھارت ،افغانستان اور ایران کے ساتھ معاملات کے حل میں اپنی پوزیشن کو بہتر اور باوزن بنایا ہے ۔یہ ایسی باتیں ہیں کہ جن کا تعلق اس کی ذات یا سیاسی جماعت سے بہت کم اور پاکستان کی اجتماعی تعمیر و ترقی سے بہت زیادہ ہے۔
امریکا کے حالیہ دورے میں اُس نے جس خوش اسلوبی سے پاکستان کے حق میں ایک فضا استوار کی ہے اس کا فائدہ ساری قوم کو پہنچے گا اور یہ بڑی خوش آیند بات ہے کہ عمومی طور پر بھی ساری اپوزیشن جماعتوں میں اس کا احساس اور ادراک نہ صرف پیدا ہوا ہے بلکہ بعض حلقوں کی طرف سے اس کا باقاعدہ اظہار بھی کیا گیا ہے ۔مغربی دنیا اور بالخصوص امریکا سے بات کرنے کے لیے جس قابلیت اور صلاحیت کی ضرورت تھی اور ہے بدقسمتی سے ہماری ستر سالہ تاریخ میں اس کے حامل لوگ تقریباً نہ ہونے کے برابر رہے ہیں، سو ضرورت اس بات کی ہے کہ اُس کی اندرونی پالیسیوں سے اختلاف رکھنے کے باوجود پوری قوم اُس کی خارجہ پالیسی اور اس کے ضمن میں آبرومندانہ، معقول اور دُوررس سوچ کا ساتھ دے کہ اس کا فائدہ اصل میں ہمارا اجتماعی فائدہ ہے۔
امریکا کے ساتھ اچھے اور آبرومندانہ تعلقات کا مطلب یہ ہے کہ نہ صرف ہمیں اپنے ہمسائیوں سے وابستہ مسائل کو سلجھانے میں مدد ملے گی بلکہ آگے چل کر ملکی ترقی ، تعلیم، صحت اور معیشت کے معاملات میں بھی آسانیاں بڑھتی چلی جائیں گی تمام اپوزیشن جماعتوں اور پاکستان کے ہر شہری کا حق ہے کہ وہ حکومتِ وقت سے اختلاف کرے اور اُسے قومی ترقی کے راستے سے ہٹنے نہ دے اور اس ضمن میں اپنے ہر جائز حق کا استعمال کرے مگر جہاں تک بین الاقوامی سطح پر ملک کے وقارکو بلند کرنے اور قومی مفادات کی نگہداشت کا تعلق ہے اُس حد تک اُس کا ساتھ دینا بھی ہم سب کا فرض ہے، میری ذاتی رائے میں قائداعظم محمد علی جناح اور مرحوم ذوالفقار علی بھٹو کے بعد عمران خان وہ تیسرا قومی لیڈر ہے جومغرب سے بات کرنے کا ہنر اور حوصلہ رکھتا ہے سو اس ضمن میں اس کی ہر کامیابی کو وہ اصل پاکستان کی کامیابی کی شکل میں سمجھنا اور دیکھنا چاہیے کہ
نشاں یہی ہے زمانے میں زندہ قوموں کا
کہ صبح و شام بدلتی ہیں اُن کی تقدیریں
پاکستان کا قیام اُس وقت عمل میں آیا جب دوسری جنگ عظیم کے خاتمے کے بعد دنیا ہر اعتبار سے ایک انقلابی دور میں داخل ہو رہی تھی، دیکھتے ہی دیکھتے بہت سے نئے ملک اٹلس کے صفحوں پر نمودار ہوگئے سپر پاورز کی پوزیشنیںبدل گئیں اور مستقبل میں ہونے والی جنگوں اور استعمار کے ہتھیار بدل گئے۔قومیت ، زبان اور ہمسائیگی کے نئے تصورات نہ صرف تبدیل ہوگئے بلکہ زبردست اور زیردست قوموں کے تعلقات بھی ایک ایسے سانچے میں ڈھلنا شروع ہوگئے جن کی بنیاد معیشت پر استوار تھی ۔
چھوٹے، غریب اور کمزور ملک آبادی کے حساب سے بڑے ہونے کے باوجود معاشی اعتبار سے ترقی کی دوڑمیں پیچھے رہنے کے ساتھ ساتھ مختلف طرح کے تضادات، مسائل اور معاملات میں اس طرح سے اُلجھا دیے گئے کہ اُن میں عزتِ نفس، اعتماد اور دُوراندیشی کے روّیئے مسلسل زوال پذیر ہوتے چلے گئے اور اُن کی جگہ ایک نئے انداز کی خوئے غلامی نے لے لی کہ اُن کی ساری توجہ اپنے اپنے کاسہ گدائی کو بھرنے میں لگ گئی اور اُن کے لیڈر رہنما اور سیاستدان ذاتی اور اجتماعی دونوں حوالوں سے اس خوفناک صورتِ حال کا حصہ بنتے چلے گئے اور یوں ایک ایسے انتشار کے گرداب میں پھنس کر رہ گئے کہ اُن کی آپس کی لڑائیاں ہی اُن کے رستے کی سب سے بڑی دیوار بن گئیں۔
وطنِ عزیز پاکستان اس صورتِ حال کی نمایاں ترین مثالوں میں سے ایک ہے کہ ہماری تاریخ اور جغرافیہ دونوں ہی ایک مخصوص نوعیت کے آئینہ دار ہیں کہ گزشتہ ستر برس میں ہمارا علاقہ بوجوہ عالمی طاقتوں اور اُن کے مخصوص مفادات کے حوالے سے ''میدان جنگ'' بنارہا ہے۔
آزادی کے فوراً بعد ہمیں قریبی ہمسائے رُوس اور دنیا کے دوسرے کونے پر واقع امریکا میں سے کسی ایک کے انتخاب کا مسئلہ کھڑا ہوگیا،بدقسمتی سے ہماری اُس وقت کی سیاسی قیادت میں اتنی طاقت اور سمجھ بوجھ نہیں تھی کہ وہ کوئی درمیان کا راستہ نکال سکتے اور اپنے قومی مفاد کی نظر سے دنیا اور آنے والے وقت کو دیکھتے اور ممکنہ حد تک آزادی کے ساتھ اپنے معاشرے کو ترقی کے راستے پر ڈالتے ۔ ہم نے ایک ایسے راستے کا انتخاب کیا جس کی وجہ سے ہم ایک ''طفیلی ملک'' کی شکل اختیار کرتے چلے گئے اور اکیس کروڑ کی آبادی ، دنیا کا ہر موسم اور بے شمار قدرتی وسائل رکھنے کے باوجود ہمارے لوگ غریب سے غریب تر ہوتے چلے گئے۔
عمران خان کے طرزِ حکومت اور اُ س سے پیدا ہونے والے عوامی مسائل اور اُن کی سنگینی پر یقینا بہت سے اعتراضات ہوسکتے ہیں اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ اُس کی ترجیحات میں ردوبدل کی شدید گنجائش اور ضرورت ہے مگر جس طرح سے اُس نے بین الاقوامی سطح پر پاکستان کو سفارتی تنہائی اور بدنامی کے حصارسے نکالنے کی عمدہ اور کامیاب کوشش کی ہے اُس کی داد نہ دینا یقینا زیادتی ہوگی جس مہارت اور خوش اسلوبی سے اُس نے امریکا، روس اور چین تینوں بڑی عالمی طاقتوں کے ساتھ اپنے روابط کو مستحکم اور بہتر کیا ہے کہ تینوں ہمسائیوں یعنی بھارت ،افغانستان اور ایران کے ساتھ معاملات کے حل میں اپنی پوزیشن کو بہتر اور باوزن بنایا ہے ۔یہ ایسی باتیں ہیں کہ جن کا تعلق اس کی ذات یا سیاسی جماعت سے بہت کم اور پاکستان کی اجتماعی تعمیر و ترقی سے بہت زیادہ ہے۔
امریکا کے حالیہ دورے میں اُس نے جس خوش اسلوبی سے پاکستان کے حق میں ایک فضا استوار کی ہے اس کا فائدہ ساری قوم کو پہنچے گا اور یہ بڑی خوش آیند بات ہے کہ عمومی طور پر بھی ساری اپوزیشن جماعتوں میں اس کا احساس اور ادراک نہ صرف پیدا ہوا ہے بلکہ بعض حلقوں کی طرف سے اس کا باقاعدہ اظہار بھی کیا گیا ہے ۔مغربی دنیا اور بالخصوص امریکا سے بات کرنے کے لیے جس قابلیت اور صلاحیت کی ضرورت تھی اور ہے بدقسمتی سے ہماری ستر سالہ تاریخ میں اس کے حامل لوگ تقریباً نہ ہونے کے برابر رہے ہیں، سو ضرورت اس بات کی ہے کہ اُس کی اندرونی پالیسیوں سے اختلاف رکھنے کے باوجود پوری قوم اُس کی خارجہ پالیسی اور اس کے ضمن میں آبرومندانہ، معقول اور دُوررس سوچ کا ساتھ دے کہ اس کا فائدہ اصل میں ہمارا اجتماعی فائدہ ہے۔
امریکا کے ساتھ اچھے اور آبرومندانہ تعلقات کا مطلب یہ ہے کہ نہ صرف ہمیں اپنے ہمسائیوں سے وابستہ مسائل کو سلجھانے میں مدد ملے گی بلکہ آگے چل کر ملکی ترقی ، تعلیم، صحت اور معیشت کے معاملات میں بھی آسانیاں بڑھتی چلی جائیں گی تمام اپوزیشن جماعتوں اور پاکستان کے ہر شہری کا حق ہے کہ وہ حکومتِ وقت سے اختلاف کرے اور اُسے قومی ترقی کے راستے سے ہٹنے نہ دے اور اس ضمن میں اپنے ہر جائز حق کا استعمال کرے مگر جہاں تک بین الاقوامی سطح پر ملک کے وقارکو بلند کرنے اور قومی مفادات کی نگہداشت کا تعلق ہے اُس حد تک اُس کا ساتھ دینا بھی ہم سب کا فرض ہے، میری ذاتی رائے میں قائداعظم محمد علی جناح اور مرحوم ذوالفقار علی بھٹو کے بعد عمران خان وہ تیسرا قومی لیڈر ہے جومغرب سے بات کرنے کا ہنر اور حوصلہ رکھتا ہے سو اس ضمن میں اس کی ہر کامیابی کو وہ اصل پاکستان کی کامیابی کی شکل میں سمجھنا اور دیکھنا چاہیے کہ
نشاں یہی ہے زمانے میں زندہ قوموں کا
کہ صبح و شام بدلتی ہیں اُن کی تقدیریں