بڑے پیمانے پر شجرکاری کے بغیر گرمی سے نمٹنا ناممکن

دنیا میں درخت زیادہ کٹ رہے ہیں، کم اگائے جارہے ہیں۔

دنیا میں درخت زیادہ کٹ رہے ہیں، کم اگائے جارہے ہیں۔ فوٹو: فائل

سن 2015 سے سن 2016ء کے دوران تقریباً 16ہزار افراد نے مل کر ہیرو شاہ کے علاقے میں تقریباً نو لاکھ تیزی سے نشوونما پانے والے یوکلپٹس کے درخت لگائے تھے۔ یہاں پر شجرکاری اس بڑے منصوبے کے تحت کی گئی تھی، جس کا مقصد خیبر پختونخوا بھر میں کروڑوں نئے درخت لگانا تھا۔

ماضی کی ایک تصویر دکھاتے ہوئے محکمہ جنگلات سے وابستہ پرویز منان کا نیوز ایجنسی اے ایف پی سے کہنا تھا، ''قبل ازیں یہ بالکل خشک جگہ تھی لیکن اب یہاں سبز سونا دیکھا جا سکتا ہے۔''

اب اس وادی کا حسن ماضی کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہو چکا ہے۔ اس سے نہ صرف فضائی آلودگی بلکہ ماحولیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے میں بھی مدد ملے گی۔ پرویز منان کا کہنا تھا کہ ان درختوں کی وجہ سے اب سیلاب اور اس کے تباہی پھیلانے کے خطرات میں واضح طور پر کمی واقع ہوئی ہے۔ شجرکاری کے اس منصونے سے مقامی آبادی کی معاشی حالت میں بھی بہتری پیدا ہوئی ہے۔

خیبر پختونخوا کے ''گرین گروتھ انیشی ایٹیو'' نامی ادارے کے چیئرمین امین اسلم کے مطابق اس مہم پر اب تک گیارہ ارب روپے خرچ کیے جا چکے ہیں۔ یہ رقم ایک سو دس ملین امریکی ڈالرز کے قریب بنتی ہے۔ صوبے کے قریب ہر ضلع میں حکومتی اور پرائیویٹ نرسریاں قائم کی گئی ہیں اور ان کی تعداد تیرہ ہزار سے زائد بنتی ہے۔

کئی ناقدین کا کہنا ہے کہ لگائے جانے والے درختوں سے متعلق اعداد و شمار درست نہیں ہیں۔ پاکستان میں ورلڈ وائلڈ لائف فنڈ کے منیجر کامران حسین کے مطابق انہوں نے ایک بلین درخت لگانے کی مہم کا آزادانہ آڈٹ کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا، ''ہم ایک سو فیصد پراعتماد ہیں کہ ایک ارب درخت لگانے کا دعویٰ درست ہے۔'' ان کا اس منصوبے کی شفافیت کے حوالے سے کہنا تھا، ''ہر چیز آن لائن ہے اور اعداد وشمار تک ہر ایک کو رسائی حاصل ہے۔''

صوبہ خیبرپختونخوا میں شجرکاری کے 'بلین ٹری سونامی' منصوبے کی کئی ملکوں اور تنظیموں نے تعریف کی ہے، جن میں سوئٹرزلینڈ کی بین الاقوامی تنظیم 'آئی یو سی این' بھی شامل ہے۔ سن 2017ء میں پاکستان کی وفاقی حکومت نے بھی 'گرین پاکستان پراجیکٹ' کا آغاز کیا تھا، جس کے تحت پانچ برسوں کے دوران ملک بھر میں ایک سو ملین نئے درخت لگانے کا عزم ظاہر کیاگیاتھا۔

اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ چھ دہائیوں میں دریائے سندھ کے کناروں سے ساٹھ فیصد درخت کاٹے جا چکے ہیں۔ تجزیہ کاروں کے مطابق پاکستان میں غیرقانونی طریقے سے درختوں کی کٹائی ایک بہت بڑا مسئلہ بن چکا ہے لیکن حکومت اس مسئلے کے حل کے لیے مناسب اقدامات نہیں کر رہی۔ پاکستان بھر میں درخت تیزی سے کاٹے جا رہے ہیں۔

عالمی سطح پر جنگلاتی رقبے کی حفاظت کے لیے کوشاں اور اس رقبے میں کمی کے رجحانات پر نظر رکھنے والی تنظیم گلوبل فاریسٹ واچ کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق جنگلات نہ صرف زمین پر جانداروں (انسانوں اور جانوروں دونوں) کو پناہ مہیا کرتے ہیں بلکہ یہی جنگلات نوع انسانی کی خوراک، ایندھن اور پانی کی ضروریات پورا کرنے میں بھی کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔

گلوبل فاریسٹ واچ کے مطابق کرہ ارض کے زمینی حصے پر پائے جانے والے حیوانات اور نباتات کی 80 فیصد اقسام جنگلات ہی میں پائی جاتی ہیں۔ اس کے علاوہ درخت اس ہوا کو صاف کرنے میں بھی کلیدی کردار ادا کرتے ہیں، جس میں انسان اور جانور سانس لیتے ہیں۔ صرف یہی نہیں بلکہ یہی جنگلات زمین کے خشکی والے حصوں پر کاربن ڈائی آکسائیڈ کی سب سے بڑی ذخیرہ گاہیں بھی ہیں۔


اس بین الاقوامی ادارے نے خبردار کیا ہے کہ جنگلات زمین پر پائے جانے والے ماحولیاتی نظاموں یا 'ایکو سسٹمز' کی بقا کے لیے بھی ناگزیر ہیں اور اگر یہ جنگلات ختم ہو گئے، تو زمین پر زندگی کے لیے اس تبدیلی کے نتائج انتہائی تباہ کن ہوں گے۔

گلوبل فاریسٹ واچ کے تازہ ترین ڈیٹا کے مطابق 2017ء میں دنیا سے 29.4 ملین ہیکٹر یا 72.6 ملین ایکٹر رقبے پر پھیلے ہوئے جنگلات ناپید ہو گئے۔ یہ رقبہ اپنی جغرافیائی وسعت میں جرمنی کے کْل رقبے کا بھی دوگنا بنتا ہے۔ اس سے بھی پریشان کن بات یہ ہے کہ اس سے بھی ایک سال قبل یعنی 2016ء میں زمین سے 29.7 ملین ہیکٹر یا 73.4 ملین ایکٹر جنگلاتی رقبہ ختم ہو گیا تھا۔ کرہ ارض پر جنگلات کے تحفظ کے لیے جو کچھ کیا جانا چاہیے، وہ بالکل نہیں کیا جا رہا یا اگر کچھ کوششیں کی بھی جا رہی ہیں، تو وہ انتہائی ناکافی ہیں۔

گلوبل فاریسٹ واچ کے سرپرست امریکی ماحولیاتی تھنک ٹینک ورلڈ ریسورسز انسٹیٹیوٹ یا ڈبلیو آر آئی کے جنگلات اور ان کے تحفظ سے متعلقہ امور کے ماہر فرانسس سیمور کے مطابق، ''یہ اعداد و شمار خوش آئند بالکل نہیں ہیں۔''

انہوں نے کہا کہ دنیا کے تقریباً سبھی خطوں میں جنگلات اس لیے ختم ہوتے جا رہے ہیں کہ وہاں درخت کاٹ کر اس رقبے کو سویا، بیف، پام آئل اور ایسی دیگر اجناس اور مصنوعات کی پیداوار کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے، جو عالمی تجارت میں اہم اجناس اور اشیاء تصور کی جاتی ہیں۔ فرانسس سیمور کے مطابق، ''ان وسیع تر جنگلات کا خاتمہ زیادہ تر غیر قانونی طور پر کیا جا رہا ہے اور اس عمل میں بدعنوانی بنیادی کردار ادا کرتی ہے۔''

دوسری طرف محققین نے کہا ہے کہ انتہائی بڑے پیمانے پر درخت لگائے بغیر عالمی حدت کے مسئلے سے نمٹنا ناممکن ہے۔ زیورخ کی ٹیکنیکل یونیورسٹی کے محققین کے مطابق یہ ممکن ہے کہ شہروں اور زرعی زمین کو متاثر کیے بغیر اربوں ہیکٹر بنجر زمین پر درخت اگائے جائیں۔

چھ جولائی کو تحقیقی جریدے جریدے'سائنس' میں چھپنے والی اس تحقیق میں سوئس محققین نے بتایا ہے کہ شہروں اور زرعی اراضی سے ہٹ کر زمین پر اس مقصد کے لیے درکار جگہ اب بھی دستیاب ہے۔ ان محققین کے مطابق جس علاقے پر درخت لگائے جانے کی ضرورت ہے وہ نو ملین مربع کلومیٹر ہے۔ یہ رقبہ امریکا کے مجموعی رقبے کے برابر بنتا ہے۔

ماہرین کے مطابق جب یہ درخت بڑے ہو جائیں گے تو یہ انسانوں کی طرف سے کاربن کے اخراج کے دو تہائی حصے کا خاتمہ کر سکتے ہیں۔ ان سائسندانوں نے اندازہ لگایا ہے کہ یہ درخت ہمارے کْرہ ارض میں پھنسی ہوئی 830 بلین ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ کو جذب کر سکیں گے۔ کاربن کی یہ مقدار اس کے برابر ہے جو انسانوں نے گزشتہ 25 برس کے دوران پیدا کی ہے۔

اس تحقیقی رپورٹ کے مصنفین کے مطابق پودے لگانے کے کچھ عرصے بعد ہی اس کے مثبت نتائج برآمد ہونا شروع ہو جائیں گے کیونکہ پودے جب چھوٹے ہوتے ہیں تو وہ کاربن کی زیادہ مقدار جذب کرتے ہیں۔

اس تحقیق کے شریک مصنف اور سوئس فیڈرل انسٹیٹوٹ آف ٹیکنالوجی میں ماہر ماحولیات تھوماس کروتھر کے مطابق، ''یہ ہر طرح سے۔۔۔ موسمیاتی تبدیلی کے سستے ترین طریقے سے بھی۔۔۔ ہزاروں گْنا زیادہ مؤثر ہے۔''

اس اسٹڈی کے مطابق جن چھ ممالک میں درخت لگائے جانے کے سب سے زیادہ ممکنات موجود ہیں ان میں روس، امریکا، کینیڈا، آسٹریلیا، برازیل اور چین شامل ہیں۔
Load Next Story