عمران خان سیاست کی نئی شان
عمران خان کی سیاسی زندگی طویل نہیں ہے کیونکہ لوگوں کی تو عمرکے تیس تیس چالیس چالیس سال قید وبند میں گزرے ہیں۔
LONDON:
عمران خان کے رئیسانہ ٹھاٹھ تو پرانے ہیں، لیکن ان میں کچھ بھی شاہانہ جلال نہ دیکھا گیا جب کہ تھوڑی سی مقبولیت میں اضافہ پاتے ہی مریم نواز نے سونے کے تاج بنوا کے جلسہ عام میں اپنے سر پر آویزاں کیا اورخود کو عوامی لیڈر کے نعرے لگوائے جب کہ عمران خان کو خود یہ معلوم ہے کہ ان کی روش اور راستے عام عوام سے کچھ فاصلے پر ہیں۔ گوکہ غریب طبقات میں بھی ان کی مقبولیت بہت زیادہ ہے، اسی لیے غریب طبقات نے بعض چیزوں کی قیمتوں میں سو سو اور دو دو سو بڑھ جانے پر ان کے خلاف دیوار نہ کھڑی کی اور وہ پرامید ہیں کہ جلد یا بہ دیر ان کے دن عمران خان پھیر دیں گے جب کہ مجموعی طور پر عمران خان مڈل کلاس کے پسندیدہ ہیں اور تمام ٹیکسوں اور مہنگائی کا طوق گزشتہ پندرہ سالہ لیڈرشپ کے گلے میں ڈالتے ہیں۔
ابھی امریکی دورے میں واشنگٹن ڈی سی ارینا میں تقریباً تیس ہزار افراد جمع ہوئے جس کا اہتمام امریکی پاکستانیوں نے کیا تھا، اس میں داخلے کا ٹکٹ بھی تھا، پھر بھی اسٹیڈیم بھر گیا تھا۔ گویا مڈل کلاس عوام میں ان کی مقبولیت بہت زیادہ ہے اور انھی میں ایک چھوٹا سا طبقہ ان کی مخالفت میں سرگرداں ہے۔ گوکہ عمران خان کی سیاسی زندگی طویل نہیں ہے کیونکہ لوگوں کی تو عمرکے تیس تیس چالیس چالیس سال قید وبند میں گزرے ہیں مگر انھوں نے سلپ کے بہترین کٹ لگا کر سیاست میں مقام پیدا کرلیا اور آج یہ کہنا بالکل درست ہوگا کہ واشنگٹن ڈی سی کے اس گراؤنڈ میں اتنا بڑا اجتماع کسی عوامی لیڈر کا نہ دیکھا گیا۔
مگر یہ تمام لوگ مڈل کلاس کے تھے۔ ڈاکٹروں کی تنظیمیں، خصوصاً جو حضرات پاکستان سے گئے ہیں۔ ان کا اس میں بہت اہم کردار ہے۔ اس کے علاوہ امریکا میں مقیم پڑھے لکھے دانشور حضرات یہ سمجھتے ہیں کہ عمران خان ان کے ملک کی کشتی پار لگانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ یہ بڑا اتفاقیہ موقع ہے کہ عمران خان کی آمد امریکا میں ایسے موقع پر ہوئی ہے جب مڈل ایسٹ کے تنازعات بھڑکنے کی طرف جا رہے ہیں۔ لہٰذا یہ ان کے تدبر کا امتحان بھی ہوگا۔
یہاں چلتے چلتے یہ تذکرہ بھی ضروری ہے کہ خلیج ٹائمز نے یہ انکشاف کیا ہے کہ اس میٹنگ کا اہتمام سعودی پرنس اور ڈونلڈ ٹرمپ کے داماد جیرڈ کشز نے کیا ہے جس کا جھکاؤ تل ابیب کی طرف ہے۔ لہٰذا مشرق وسطیٰ میں سعودی عرب اور ایران کے معاملات بھی زیر غور آسکتے ہیں جو پاکستان کے لیے ایک نازک مرحلہ ہے۔گوکہ عمران خان ماضی میں یہ کہہ چکے ہیں کہ وہ دونوں ملکوں کے تضادات کو ختم کرنے کی کوشش کرتے رہیں گے، ظاہر ہے جنگی صورتحال میں خطے کی ترقی پر معکوس اثرات پڑیں گے۔
دوسرا اہم مسئلہ پاکستان کی معاشی صورتحال ہے جو ماضی کے حکمرانوں کا تحفہ ہے۔ لہٰذا اس کو حل کرنے کے لیے مدبرین کی ضرورت ہے۔ البتہ ان کے استقبال کرنے والے حقیقتاً زیادہ تر امریکا کا پرمغز طبقہ ہے۔ اب یہ کام پاکستانی سیاستدانوں کے اس قافلے کا ہے جو دانشوروں کو اپنی ترقیاتی اسکیم کا سرچشمہ بنائیں۔ ابھی تو سیاسی اور معاشی بحث کا آغاز بھی نہیں ہوا۔ اس لیے یہ کہنا قبل از وقت ہوگا کہ کون کون سے حصے زیر بحث آئیں گے۔ لیکن ستر سال سے الجھا ہوا کشمیر کا مسئلہ بھی ایجنڈے کا حصہ معلوم ہوتا ہے۔
اس پہلو کو نمایاں دیکھتے ہوئے بھارت کے رجعت پسند حلقوں میں مایوسی کی لہر دوڑ گئی ہے اور بی جے پی کا ایک مخصوص طبقہ کشمیر کے موضوع پر گفتگو سے گریزاں ہے۔اس لیے یہ کہنا ضروری ہے کہ پندرہ پندرہ سال سے زائد حکومت کرنے والے شور مچانے کے علاوہ کوئی عملی قدم نہ اٹھا سکے۔ مگر اقتدار کے پہلے ہی برس عمران خان نے بھارت کے اٹوٹ انگ میں سیاسی دراڑیں ڈال دیں۔ یہی وہ مسئلہ ہے کہ دونوں ہمسایہ ملک جو ایٹمی اسلحے سے لیس ہیں پھر بھی جنگ کی باتیں کرتے ہیں حالانکہ دونوں کی سرحدیں ایک دوسرے سے متصل ہیں اس لیے یہ کہنا بجا ہوگا کہ دونوں ملکوں کے جنگی اخراجات بھی امن کی میز پر آجائیں گے اور دونوں ملکوں کے عوام بھائی چارے کی زندگی گزارتے ہوئے ترقی کی راہوں پر چلیں گے۔
اس طرح دونوں ملکوں کے انتہا پسند ٹولے بغیر کسی بیرونی دباؤ کے انحطاط پذیر ہوجائیں گے جیسے کہ یہ کوئی جنگی ابال نہ تھا یہ دھلے ہوئے کپڑوں کے جھاگ جیسا تھا جس کو منفی قوتیں ہوا دے رہی تھیں۔ ہمارے وزیر اعظم نے مسٹر مودی کو کئی بار بات چیت کی پیشکش کی مگر انھوں نے نہ کے گھونٹ سے جواب دیا۔ اور اب جب عالمی طاقت کے ایک رہبر کی طرف سے کشمیر کے مسئلے کو سرفہرست لایا گیا تو اس سے اجتناب کرنے کی جرأت نہ کرسکے۔
اس موقع پر یہ کہنا ضروری ہے کہ عالمی پلیٹ فارم سے کشمیریوں کی جدوجہد اور فلسطینیوں کے حقوق پر صرف ایران نے آواز اٹھائی تھی۔ لیکن ڈونلڈ ٹرمپ کی آواز میں کشمیر کے مسئلے کو نئی حیات بخش دی۔ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ موجودہ حکومت کے کارناموں میں یہ صف اول کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس لیے اب پاکستان کو اس کے اول مسئلے پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
چلتی صنعتوں کو فعال کرنا، بیماری سے بچانا خصوصاً ٹیکسٹائل انڈسٹری کو نئی حرارت بخشنے کی ضرورت ہے یہ حرارت کپاس کے کھیتوں سے شروع ہوتی ہے اور لوموں پر بسیرا کرتی ہے۔ موجودہ معاشی انحطاط میں پاکستان کی انڈسٹری کو شدید دھچکا لگا ہے۔ امید کی جاتی ہے کہ حکومت ایکسپورٹ پر توجہ دے گی اور اپنی کپاس کی سفید چاندی کو اہم درجہ دے گی تاکہ پاکستان کی صنعتی سانس بحال ہوجائے۔
کاغذی طور پر ٹیکسٹائل انڈسٹری کے لیے بہت سے بیانات سامنے آئے ہیں مگر اس کی ابتدا ان کھیتوں سے کرنے کی ضرورت ہے جہاں سے پھول کھلتے ہیں اگر ٹیکسٹائل انڈسٹری پر نیچے سے اہمیت نہ دی گئی تو پاکستان ملبوسات اور ویلیو ایڈڈ پروڈکٹس ایکسپورٹ نہ کرسکے گا۔ صرف پاکستان کی کپاس اور دھاگہ ہی ایکسپورٹ ہوسکے گا۔ جس کے نتیجے میں بے روزگاری کا ایک سیلاب آسکتا ہے۔
اس کے علاوہ فوری معاشی عروج کے لیے پاکستان کو امریکا کے وہ دروازے کھولنے ہوں گے جہاں ٹیکنیکل میڈیکل اور فارما انڈسٹری کے ملازمین روزگار کماسکیں۔ اس وقت امریکا کے چین اسٹوروں پر بھارت کا قبضہ نظر آتا ہے۔ یہ قبضہ مین ہٹن سے لے کر کیلیفورنیا تک موجود ہے لہٰذا ایکسپورٹ مارکیٹ پر قبضہ کرنے کے لیے نوجوان مرد و زن کو تربیت کی ضرورت ہے اور ویزے کی رکاوٹوں کو دور کرنا ہوگا تاکہ پاکستان اپنی اقتصادی مشکلات سے باہر نکل سکے اور پاکستان میں مقیم عوام سکھ کا سانس لے سکیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ عمران خان نے جو اپنی نئی سیاسی شبیہ بنائی ہے اس کے ساتھ اگر ملک کی اقتصادی اور معاشی بلندی پیدا نہ ہوئی تو یہ شبیہ مدہم پڑ سکتی ہے اور سیاسی شان بھی ماند پڑ سکتی ہے۔