بڑھتے جرائم سے لاپرواہ حکومت
کراچی میں کئی عشروں سے اسٹریٹ کرائم تشویش ناک ہو چکے ہیں مگر سندھ حکومت اس پر قابو پانے میں ناکام رہی ہے۔
ISLAMABAD:
پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت نے اسمبلی میں اپنی واضح اکثریت کے باعث اپنی مرضی کا پولیس ایکٹ دوبارہ منظور کرا لیا، جو اس سے قبل پی ٹی آئی سے تعلق رکھنے والے سندھ کے گورنر عمران اسمٰعیل نے نامنظور کر کے واپس کر دیا تھا۔ حکومت نے اپنی مرضی کا بل اسمبلی سے منظور کرا کر گورنر کو دکھا دیا کہ ان کے اعتراض کی کوئی حیثیت نہیں، پی پی حکومت اپنی اکثریت کے باعث اپنی مرضی کا بل اسمبلی سے پاس کرا سکتی ہے اور اسے اپوزیشن سے کوئی پرواہ نہیں ہے۔
پولیس ایکٹ گورنر سندھ کو پسند ہو نہ ہو مگر سندھ حکومت نے نہ صرف پولیس ایکٹ منظورکر کے اس پر عمل بھی شروع کر دیا اور اچھی شہرت رکھنے والے کراچی پولیس چیف ڈاکٹر امیر شیخ کا وقت سے قبل تبادلہ کر کے ثابت کر دیا کہ وہ اپنے صوبے میں جو بھی چاہے کر سکتی ہے۔ ڈاکٹر امیر شیخ کو 11 ماہ قبل کراچی کا پولیس چیف مقرر کیا گیا تھا، ان کے تقرر کے چند ماہ بعد ایک قتل کا کیس ہوا تھا جس میں ایک قوم پرست جرائم پیشہ شخص ارشاد رانجھانی ایک یوسی چیئرمین رحیم شاہ کی فائرنگ سے رنگے ہاتھوں ڈکیتی کرتے ہوئے مارا گیا تھا، جس پر قوم پرستوں نے تعصب کا رنگ دے کر سندھ بھر میں احتجاج کیا تھا اور ڈکیتی کو لسانی رنگ دیا تھا جس پر اندرون سندھ پختون برادری کا جانی نقصان ہوا تھا۔
اس کیس کو سندھ حکومت اپنی مرضی کا رنگ دینا چاہتی تھی اور کراچی پولیس چیف پر دباؤ ڈال کر من مانی کرنا چاہتی تھی مگر پولیس چیف نے وہی کیا جو قانون کے مطابق تھا۔ ارشاد کو قتل کرنے والا یوسی چیئرمین بھی گرفتار ہوکر مقدمہ بھگت رہا ہے مگر اس معاملے پر سندھ حکومت پولیس چیف سے ناراض ہو گئی تھی اور پولیس چیف کو ہٹانا چاہتی تھی مگر نہ ہٹا سکی کیونکہ کچھ قانونی مجبوریاں حائل ہو گئی تھیں۔
ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی میں کئی عشروں سے اسٹریٹ کرائم تشویش ناک ہو چکے ہیں مگر سندھ حکومت اس پر قابو پانے میں ناکام رہی ہے۔ سندھ میں گزشتہ 11 سال سے پیپلز پارٹی کی حکومت قائم ہے اور 2008 سے 2013 تک وفاق میں بھی پیپلز پارٹی کی حکومت تھی جو سندھ حکومت کی ہر قسم کی مدد کر رہی تھی۔ آصف زرداری کے اس وقت کے با اعتماد دیرینہ ساتھی ذوالفقار مرزا سندھ کے وزیر داخلہ تھے جو نہایت با اختیار وزیرداخلہ شمار کیے جاتے تھے مگر ان کے دور میں بھی کراچی میں جرائم کنٹرول کرنے پر توجہ جان بوجھ کر نہیں دی گئی کیونکہ کراچی کی نمایندگی کرنے والی ایم کیو ایم اس وقت پیپلز پارٹی کی وفاقی اور سندھ حکومت میں شامل تھی جس سے ڈاکٹر ذوالفقار مرزا کی نہیں بنتی تھی۔
انھوں نے کراچی میں ایم کیو ایم کے مقابلے کے لیے لیاری گینگ کی مکمل سرپرستی کی اور لیاری گینگ کو کراچی بھر میں پھیلنے اور مضبوط ہونے کا بھرپور سرکاری موقعہ دیا، جس پر ایم کیو ایم کو اعتراض تھا۔ وزیر داخلہ ذوالفقار مرزا جنھیں اس وقت سندھ کے چار وزرائے اعلیٰ میں شمار کیا جاتا تھا جو ایم کیو ایم کی کھل کر مخالفت کرتے تھے اور کراچی میں ہونے والے جرائم اور بھتہ وصولی کا ذمے دار قرار دیتے تھے جس کا زور توڑنے کے لیے لیاری گینگ وار کو استعمال کیا۔ لیاری گینگ وار کو سندھ حکومت کی مکمل سرپرستی حاصل تھی اور لیاری کے اہم جرائم پیشہ عناصر کی تقریبات میں وزیر داخلہ اور پی پی رہنما ہی نہیں وزیر اعلیٰ سندھ بھی شریک ہوتے تھے۔
لیاری گینگ وار والوں کو کراچی میں ایم کیو ایم کے ساتھ اپنے ہی لیاری کے مخالف جرائم پیشہ عناصر سے نمٹنا پڑتا تھا جس کی وجہ سے لیاری کے جرائم پیشہ عناصر کی باہمی لڑائی میں بعض دل خراش واقعات بھی پیش آئے، لیاری گینگ وار وزیر داخلہ کی توقعات پر پورا نہ اتر سکا اور ایم کیو ایم بھی اس سلسلے میں ذوالفقار مرزا کی مخالفت کرتی رہی اور صدر آصف زرداری نے ذوالفقار مرزا کو سیاسی مجبوری کے باعث کھل کر کھیل نہیں کھیلنے دیا تو وہ غصے میں نہ صرف مستعفی ہوئے بلکہ انھوں نے ایم کیو ایم کی دشمنی میں صدر زرداری سے علیحدگی اختیار کر لی تھی۔ ایم کیو ایم کا دعویٰ ہے کہ جنرل پرویز مشرف کے دور میں جب وزارت داخلہ ایم کیو ایم کے وزیر رؤف صدیقی اور مشیر داخلہ وسیم اختر کے پاس تھی تو کراچی میں اتنے اسٹریٹ کرائم نہیں تھے۔ بھتہ خوری کی زیادہ شکایات نہیں تھیں۔
ایم کیو ایم جنرل مشرف کے بعد پیپلز پارٹی کی وفاق اور سندھ حکومت میں حلیف تھی مگر اسے مرضی کی وزارتیں نہیں ملی تھیں اس لیے حلیف ہوتے ہوئے بھی پی پی اور متحدہ دونوں کو ایک دوسرے سے شکایات رہتی تھیں، متحدہ نے الیکشن سے قبل 2007میں پی پی حکومتوں سے علیحدگی اختیار کر لی تھی۔ 2013سے سندھ حکومت اب تک متحدہ کے بغیر قائم ہے اور دونوں جماعتوں میں کشیدگی بھی برقرار ہے۔
کراچی میں اسٹریٹ کرائم میں اضافہ 1992 سے ہوا جب ایم کیو ایم کے خلاف یکطرفہ آپریشن شروع کیا گیا تھا جب کہ اس سے پہلے چوری ڈکیتی اور رہزنی کی وارداتیں ہوتی رہتی تھیں۔ سندھ میں پیپلز پارٹی کی 11 سالہ حکومت میں کبھی کراچی میں اسٹریٹ کرائم پر توجہ نہیں دی گئی اور شہر میں من پسند افسروں کا تقرر کیا جاتا رہا۔ کراچی پولیس کے لیے شروع سے ہی دبئی بنا رہا ہے۔ ایم کیو ایم یہ شکایت کرتی آئی ہے کہ کراچی میں مقامی پولیس نہیں ہے اور اندرون سندھ کے لوگ کراچی پولیس میں بھرے پڑے ہیں جن کی کراچی سے دلچسپی صرف کمائی کی حد تک ہے کراچی کے امن سے انھیں کبھی دلچسپی نہیں رہی۔
پیپلز پارٹی کو صرف وہ پولیس افسران پسند رہے ہیں جو ان کی ہر بات پر عمل کریں۔ اپنی بات پر عمل نہ کرنے والے پولیس افسران پی پی حکومت کی کبھی ضرورت نہیں رہے۔ جس کی ایک واضح مثال آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ تھے۔
پی پی حکومت کو کئی سال سے سندھ میں اپنی مرضی کا آئی جی نہیں مل رہا اس لیے حکومت نے اپنی مرضی کا پولیس ایکٹ نافذ کر کے کراچی کے پولیس چیف ڈاکٹر امیر شیخ کا تبادلہ کر دیا ہے جو مکمل بااختیار نہ ہونے کی وجہ سے کراچی میں اسٹریٹ کرائم پر تو قابو نہیں پا سکے تھے۔ البتہ انھوں نے کراچی کے لیے بعض اچھے اقدامات کیے تھے جن میں لوگوں کی سہولت کے لیے واٹس ایپ سروس، تھانوں پر چھاپے، پولیس میں سزا و جزا پر عمل شروع کیا، اس سے قبل انھوں نے ہیلمٹ پر سختی سے عمل شروع کرایا تھا اور ڈرائیونگ لائسنس کے لیے بھی ایپ بنائی تھی جس سے لوگوں کو سہولت ملی تھی۔ موجودہ آئی جی سے بھی سندھ حکومت خوش نہیں ہے اس لیے انھیں ہٹانے میں ناکامی کے بعد سندھ حکومت نے نئے پولیس ایکٹ کے ذریعے آئی جی پولیس کے اختیارات محدود اور اپنے اختیارات میں اضافہ کر لیا ہے۔
کراچی میں 2013سے شروع کیے گئے آپریشن کے بعد اسٹریٹ کرائم میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اور رینجرز کی موجودگی بھی موثر ثابت نہیں ہو رہی اور اب تو خواتین کو بھی مارا جا رہا ہے جس کی حالیہ مثال ایک خاتون کا قتل ہے جنھوں نے دن دہاڑے ڈکیتی میں مزاحمت کی تھی اور ملزم فرار ہوگئے تھے۔
پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت نے اسمبلی میں اپنی واضح اکثریت کے باعث اپنی مرضی کا پولیس ایکٹ دوبارہ منظور کرا لیا، جو اس سے قبل پی ٹی آئی سے تعلق رکھنے والے سندھ کے گورنر عمران اسمٰعیل نے نامنظور کر کے واپس کر دیا تھا۔ حکومت نے اپنی مرضی کا بل اسمبلی سے منظور کرا کر گورنر کو دکھا دیا کہ ان کے اعتراض کی کوئی حیثیت نہیں، پی پی حکومت اپنی اکثریت کے باعث اپنی مرضی کا بل اسمبلی سے پاس کرا سکتی ہے اور اسے اپوزیشن سے کوئی پرواہ نہیں ہے۔
پولیس ایکٹ گورنر سندھ کو پسند ہو نہ ہو مگر سندھ حکومت نے نہ صرف پولیس ایکٹ منظورکر کے اس پر عمل بھی شروع کر دیا اور اچھی شہرت رکھنے والے کراچی پولیس چیف ڈاکٹر امیر شیخ کا وقت سے قبل تبادلہ کر کے ثابت کر دیا کہ وہ اپنے صوبے میں جو بھی چاہے کر سکتی ہے۔ ڈاکٹر امیر شیخ کو 11 ماہ قبل کراچی کا پولیس چیف مقرر کیا گیا تھا، ان کے تقرر کے چند ماہ بعد ایک قتل کا کیس ہوا تھا جس میں ایک قوم پرست جرائم پیشہ شخص ارشاد رانجھانی ایک یوسی چیئرمین رحیم شاہ کی فائرنگ سے رنگے ہاتھوں ڈکیتی کرتے ہوئے مارا گیا تھا، جس پر قوم پرستوں نے تعصب کا رنگ دے کر سندھ بھر میں احتجاج کیا تھا اور ڈکیتی کو لسانی رنگ دیا تھا جس پر اندرون سندھ پختون برادری کا جانی نقصان ہوا تھا۔
اس کیس کو سندھ حکومت اپنی مرضی کا رنگ دینا چاہتی تھی اور کراچی پولیس چیف پر دباؤ ڈال کر من مانی کرنا چاہتی تھی مگر پولیس چیف نے وہی کیا جو قانون کے مطابق تھا۔ ارشاد کو قتل کرنے والا یوسی چیئرمین بھی گرفتار ہوکر مقدمہ بھگت رہا ہے مگر اس معاملے پر سندھ حکومت پولیس چیف سے ناراض ہو گئی تھی اور پولیس چیف کو ہٹانا چاہتی تھی مگر نہ ہٹا سکی کیونکہ کچھ قانونی مجبوریاں حائل ہو گئی تھیں۔
ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی میں کئی عشروں سے اسٹریٹ کرائم تشویش ناک ہو چکے ہیں مگر سندھ حکومت اس پر قابو پانے میں ناکام رہی ہے۔ سندھ میں گزشتہ 11 سال سے پیپلز پارٹی کی حکومت قائم ہے اور 2008 سے 2013 تک وفاق میں بھی پیپلز پارٹی کی حکومت تھی جو سندھ حکومت کی ہر قسم کی مدد کر رہی تھی۔ آصف زرداری کے اس وقت کے با اعتماد دیرینہ ساتھی ذوالفقار مرزا سندھ کے وزیر داخلہ تھے جو نہایت با اختیار وزیرداخلہ شمار کیے جاتے تھے مگر ان کے دور میں بھی کراچی میں جرائم کنٹرول کرنے پر توجہ جان بوجھ کر نہیں دی گئی کیونکہ کراچی کی نمایندگی کرنے والی ایم کیو ایم اس وقت پیپلز پارٹی کی وفاقی اور سندھ حکومت میں شامل تھی جس سے ڈاکٹر ذوالفقار مرزا کی نہیں بنتی تھی۔
انھوں نے کراچی میں ایم کیو ایم کے مقابلے کے لیے لیاری گینگ کی مکمل سرپرستی کی اور لیاری گینگ کو کراچی بھر میں پھیلنے اور مضبوط ہونے کا بھرپور سرکاری موقعہ دیا، جس پر ایم کیو ایم کو اعتراض تھا۔ وزیر داخلہ ذوالفقار مرزا جنھیں اس وقت سندھ کے چار وزرائے اعلیٰ میں شمار کیا جاتا تھا جو ایم کیو ایم کی کھل کر مخالفت کرتے تھے اور کراچی میں ہونے والے جرائم اور بھتہ وصولی کا ذمے دار قرار دیتے تھے جس کا زور توڑنے کے لیے لیاری گینگ وار کو استعمال کیا۔ لیاری گینگ وار کو سندھ حکومت کی مکمل سرپرستی حاصل تھی اور لیاری کے اہم جرائم پیشہ عناصر کی تقریبات میں وزیر داخلہ اور پی پی رہنما ہی نہیں وزیر اعلیٰ سندھ بھی شریک ہوتے تھے۔
لیاری گینگ وار والوں کو کراچی میں ایم کیو ایم کے ساتھ اپنے ہی لیاری کے مخالف جرائم پیشہ عناصر سے نمٹنا پڑتا تھا جس کی وجہ سے لیاری کے جرائم پیشہ عناصر کی باہمی لڑائی میں بعض دل خراش واقعات بھی پیش آئے، لیاری گینگ وار وزیر داخلہ کی توقعات پر پورا نہ اتر سکا اور ایم کیو ایم بھی اس سلسلے میں ذوالفقار مرزا کی مخالفت کرتی رہی اور صدر آصف زرداری نے ذوالفقار مرزا کو سیاسی مجبوری کے باعث کھل کر کھیل نہیں کھیلنے دیا تو وہ غصے میں نہ صرف مستعفی ہوئے بلکہ انھوں نے ایم کیو ایم کی دشمنی میں صدر زرداری سے علیحدگی اختیار کر لی تھی۔ ایم کیو ایم کا دعویٰ ہے کہ جنرل پرویز مشرف کے دور میں جب وزارت داخلہ ایم کیو ایم کے وزیر رؤف صدیقی اور مشیر داخلہ وسیم اختر کے پاس تھی تو کراچی میں اتنے اسٹریٹ کرائم نہیں تھے۔ بھتہ خوری کی زیادہ شکایات نہیں تھیں۔
ایم کیو ایم جنرل مشرف کے بعد پیپلز پارٹی کی وفاق اور سندھ حکومت میں حلیف تھی مگر اسے مرضی کی وزارتیں نہیں ملی تھیں اس لیے حلیف ہوتے ہوئے بھی پی پی اور متحدہ دونوں کو ایک دوسرے سے شکایات رہتی تھیں، متحدہ نے الیکشن سے قبل 2007میں پی پی حکومتوں سے علیحدگی اختیار کر لی تھی۔ 2013سے سندھ حکومت اب تک متحدہ کے بغیر قائم ہے اور دونوں جماعتوں میں کشیدگی بھی برقرار ہے۔
کراچی میں اسٹریٹ کرائم میں اضافہ 1992 سے ہوا جب ایم کیو ایم کے خلاف یکطرفہ آپریشن شروع کیا گیا تھا جب کہ اس سے پہلے چوری ڈکیتی اور رہزنی کی وارداتیں ہوتی رہتی تھیں۔ سندھ میں پیپلز پارٹی کی 11 سالہ حکومت میں کبھی کراچی میں اسٹریٹ کرائم پر توجہ نہیں دی گئی اور شہر میں من پسند افسروں کا تقرر کیا جاتا رہا۔ کراچی پولیس کے لیے شروع سے ہی دبئی بنا رہا ہے۔ ایم کیو ایم یہ شکایت کرتی آئی ہے کہ کراچی میں مقامی پولیس نہیں ہے اور اندرون سندھ کے لوگ کراچی پولیس میں بھرے پڑے ہیں جن کی کراچی سے دلچسپی صرف کمائی کی حد تک ہے کراچی کے امن سے انھیں کبھی دلچسپی نہیں رہی۔
پیپلز پارٹی کو صرف وہ پولیس افسران پسند رہے ہیں جو ان کی ہر بات پر عمل کریں۔ اپنی بات پر عمل نہ کرنے والے پولیس افسران پی پی حکومت کی کبھی ضرورت نہیں رہے۔ جس کی ایک واضح مثال آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ تھے۔
پی پی حکومت کو کئی سال سے سندھ میں اپنی مرضی کا آئی جی نہیں مل رہا اس لیے حکومت نے اپنی مرضی کا پولیس ایکٹ نافذ کر کے کراچی کے پولیس چیف ڈاکٹر امیر شیخ کا تبادلہ کر دیا ہے جو مکمل بااختیار نہ ہونے کی وجہ سے کراچی میں اسٹریٹ کرائم پر تو قابو نہیں پا سکے تھے۔ البتہ انھوں نے کراچی کے لیے بعض اچھے اقدامات کیے تھے جن میں لوگوں کی سہولت کے لیے واٹس ایپ سروس، تھانوں پر چھاپے، پولیس میں سزا و جزا پر عمل شروع کیا، اس سے قبل انھوں نے ہیلمٹ پر سختی سے عمل شروع کرایا تھا اور ڈرائیونگ لائسنس کے لیے بھی ایپ بنائی تھی جس سے لوگوں کو سہولت ملی تھی۔ موجودہ آئی جی سے بھی سندھ حکومت خوش نہیں ہے اس لیے انھیں ہٹانے میں ناکامی کے بعد سندھ حکومت نے نئے پولیس ایکٹ کے ذریعے آئی جی پولیس کے اختیارات محدود اور اپنے اختیارات میں اضافہ کر لیا ہے۔
کراچی میں 2013سے شروع کیے گئے آپریشن کے بعد اسٹریٹ کرائم میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اور رینجرز کی موجودگی بھی موثر ثابت نہیں ہو رہی اور اب تو خواتین کو بھی مارا جا رہا ہے جس کی حالیہ مثال ایک خاتون کا قتل ہے جنھوں نے دن دہاڑے ڈکیتی میں مزاحمت کی تھی اور ملزم فرار ہوگئے تھے۔